ابا جی سے آج والد کے عالمی دن کی مناسبت سے بات ہورہی تھی، ان کی عظمت کو خراج پیش کرنے کے لئے کچھ الفاظ بولے، انہوں نے کہا، زمانہ بدلتا جارہا ہے، انسان نے بہت ترقی کی، چاند پر چلاگیا۔ ہر مرض کی دوا تیار کرلی، زندگی کو آسان بنانے کے سامان بنالیے۔ اپنی مصروفیات کے باوجود آدمی جہاں بہت کچھ بھول چکا ہے، وہاں اس نے چند دن یاد رکھے ہیں۔ انہیں میڈیا یا سوشل میڈیا کی حدتک منالیتا ہے، کم از کم اللہ تعالیٰ کے بنانئے ان رشتوں کا احترام اور تقدس کسی حد تک بحال رکھنے کا عزم کرلیا جاتا ہے۔
ابا نے موضوع کو تھوڑا سا آگے بڑھایا، بولے کہ ماں باپ نے پرورش کی ہوتی ہے، بچے کی تربیت اور پڑھا لکھا کر عملی زندگی میں قدم رکھنے ، اس کے بعد بھی اولاد کا خیال رکھتے ہیں۔ انہیں کسی میڈیا نے یاد نہیں دلانا ہوتا کہ آج بچوں کی خواہشات پوری کرنے، ان سے ملنے کی تڑپ، ان کے لیے نیک تمناوں کی دعا کرنے کا دن ہے، وہ ہر پل، ہر لمحے اولاد کا اچھا سوچ رہے ہوتے ہیں۔
بیٹا۔ ایک ذات ان سے بھی اوپر ہے، وہ والدین سے ستر گنا زیادہ اپنی مخلوق سے محبت کرتی ہے، وہ بندے کے ہر کام ، ہرپریشانی، دکھ تکلیف سے باخبر ہوتی ہے، جسے والدین بھی نہیں جانتے۔ تخلیق کائنات سے لے کر آج تک بنی نوع انسان کے معاملات اس سے چھپے نہیں ہیں٫ آدمی کے ذہن نے بہت دور تک سوچا، خالق اور مخلوق سے متعلق کئی سوالات کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کی، اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔
پوری دنیان ایک مہلک، جان لیوا وبا کے خوف میں گھری ہے، بڑے بڑے دماغ اس کا مقابلہ کرنے اور علاج کے طریقے ڈھونڈ رہے ہیں، امید ہے وہ جلد اس مقصد میں بھی کامیاب ہوجائیں گے۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد اس حقیقت کو بھی تسلیم کرتی ہے کہ بیماری بھی خالق کی طرف سے آتی ہے۔
ابا نے کہا کہ کل تم بچوں میں سے کسی نے بتایا کہ امریکا کے ماہرین اور سائنس بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئی کہ بندے کی پریشانی ، بے چینی اور خوف میں اس کی عبادت اور دعا ان احساسات کو کم کرتی ہے۔ دعا کا نفسیاتی طور پر جسم اور روح سے تعلق ہے۔
بیٹا یہ کیا ہے اس بات کا اعتراف ہے کہ ہم کسی سے اپنی تکلیف میں رجوع کرتےہیں اور اس کا ہمیں فائدہ ہوتا ہے۔
تمہیں ایک تازہ مثال بتاوں، آج سال کا گرم ترین دن بھی ہے، درجہ حرارت 44 ڈگری سے اوپر ہی رہتا ہے۔ سورج کی روشنی اور تپش ماند پڑگئی، کہیں اندھیرا، کہیں کم روشنی ہوگئی، اور ہوائیں چلنے لگیں، موسم ٹھنڈا ہوگیا، یہ کسی انسان کا کام نہیں ہے۔ سائنس اس کی وجہ بتاتی ہے مگر اس نظام کا کنٹرول کس کے ہاتھ میں ہے، اس پر دلائل میں اختلاف ہے اور واضح نہیں ہیں۔
بیٹا۔ جیسے باپ کو اولاد کی ضرورتوں کا احساس ہوتا ہے تو کیا خالق اپنے بندے سے بے پروا ہوگا۔ آج تم لوگ فادرز ڈے کی بات کررہے ہو، کیا کل باپ کو بھول جاو گے نہیں، ایسا کرنا بھی نہیں چاہیئے۔
آپ کا احساس اور خیال کرنے والی ذات کو محض ایسے دنوں کی ضرورت نہیں ہوتی، اس کی محبت اور شفقت لازوال ہوتی ہے، اس نے ہمیشہ اولاد کی بہتری اور بھلے کے لئے سوچنا ہے۔ بس اس کا ایک ہی تقاضا ہے کہ اسے ہردم یاد رکھو، اس کا رحم ، اس کا درگزر کرنا، پیار کرنا، تقاضے پورے کرنا پریشانی دور کرنا، ان سب کو بھولنا نہیں۔