فرقان ۔ ناظرین آج ہم آپ کی ملاقات ایک ایسی شخصیت سے کروا رہے ہیں جوخود تو پاکستان میں موجود نہیں ہیں لیکن ان کا دل ہر وقت پاکستان کے لیے دھڑکتا ہے اور ان کا نام پاکستان میں ہر شخص کی زبان پر ہے۔ جی ہاں میری مراد ” ار طغرل غازی” ڈرامہ کے پروڈیوسر ،ڈائریکٹر، ڈرامہ نگار اور اس پراجیکٹ کے کرتا دھرتا، جناب مہمت بوزداع سے ہے۔
مہمت بوزداع بے(صاحب) سب سے پہلے تو میں اپنی گونا گوں مصروفیات کے باوجود ہمارے لیے وقت نکالنے پر آپ کا شکرگزار ہوں۔
بوزداع۔ بہت بہت شکریہ۔ اللہ آپ کو خوش رکھے ۔آپ یہاں تشریف لائے اور ہمیں یہ اعزاز بخشا ہے۔ خوش رہیے۔
فرقان ۔ آپ کو سب سے پہلے خوش آمدید کہتا ہوں ۔کیسے ہیں آپ؟ ویسے تو اب پوری دنیا آپ کے نام سے واقف ہے اور آپ کے ڈرامہ سیریل ار طغرل غازی نے دنیا بھر میں جھنڈے گاڑ رکھے ہیں۔لیکن پھر بھی اگر آپ اپنا تعارف ہمارے ناظرین کو کروا دیں تو ہم آپ کے بڑے شکر گزار ہوں گے۔ آپ کی جائے پیدائش، کہاں تعلیم حاصل کی اور اس ڈرامے سے قبل کیا کچھ کیا۔
بوزداع۔ میرا تعلق ترکی کے علاقے قیصری سے ہے۔ وہاں ہی میں پلا بڑھا ہوں ۔ میں نے چھوٹی ہی عمر میں لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔ لکھنا لکھانا دراصل میرا مشغلہ بن چکا تھا۔
ایک رات میں نے اپنے خواب میں ابن العربی کو دیکھا۔ اس کے بعد سے میں نے سینما کا رخ اختیار کیا اور باقاعدگی سے سینریو Scenarioوغیرہ لکھنا شروع کردیا۔
اس کے بعد ہم نے اپنی ایک کمپنی بنائی۔ یہ ایک مشترکہ کمپنی تھی۔ جسے میں نے اپنے دوست کے ساتھ قائم کیا تھا۔میں نے سکار یہ یونیورسٹی سے شعبہ تاریخ سے گریجویشن کیا۔ کمپنی قائم کرنے کے بعد ہم نے ڈاکومنٹری یا دستاویزی فلمیں تیار کرنا شروع کر دیں اور اس طرح ہماری کاروباری زندگی کا آغاز ہوا۔یہ ہماری کہانی ہے۔
فرقان ۔ میرا سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ آپ نے کیا یہ ڈرامہ سیریل پاکستان کو دیکھتے ہوئے تیار کیا، کیونکہ دنیا میں سب سے زیادہ یہ ڈرامہ سیریل پاکستان میں دیکھی جا رہی ہے۔ کیا کہیں گے اس بارے میں؟
بوزداع۔ جب ہم نے اس ڈرامہ سیریل کو تیار کرنے کا فیصلہ کیا تو ہمارا خیال تھا اس کو ضرور پسند کیا جائے گا اس پر ہمیں مکمل یقین تھا۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس سے قبل ترکی میں یا پھر عالمِ اسلام میں اس قسم کا ڈرامہ پہلے کبھی بھی کامیاب نہیں ہوا تھا۔جب ہم نے اس کا آغاز کیا تو کوئی زیادہ ری ایکشن سامنے نہیں آیا کیونکہ لوگوں کا خیال تھا کہ کہ یہ ڈرامہ خود بخود ہی اپنی موت آپ مر جائے گا۔ اس لیے اس طرف زیادہ توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔لیکن لوگوں کے اس ری ایکشن نے مجھ میں زیادہ جوش و جذبہ پیدا کردیا اور میں نے فیصلہ کرلیا کہ لوگوں کو دکھا کر رہوں گاکہ میں کیا کچھ کر سکتا ہوں۔
کیونکہ مجھے اس بات پر پختہ یقین تھا کہ اگر ہم عوام کو اپنی کہانی صحیح طریقے سے سمجھانے اور اچھے طریقے سے پیش کرنے میں کامیاب رہے تو لازمی طور پر اس ڈرامے کو پوری دنیا پسند کرے گی۔
لیکن بین الاقوامی میدان میں اتنی مختصر سی مدت میں یہ پراجیکٹ اتنا مقبول ہوگا اور سب کو متاثر کرے گا یہ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کیونکہ ایک فلم چلتی ہے اس کو عوام دیکھتے ہیں اور پھر اپنا ردِ عمل پیش کرتے ہیں لیکن اسے عوام نے فوری طور پر قبول کرلیا۔
مجھے یقین تھا کہ اسے پاکستان میں بھی اتنا پسند کیا جائے گا جتنا عرب ممالک میں اسے پسند کیا گیا ہے۔ ویسے بھی ہمارے اندر پاکستان کی روح جگہ پائے ہوئے ہے۔ پاکستانی ہمیں اور ہم پاکستانیوں کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں پاکستان ہمارے اندر بستا ہے۔ یہ ہماری کہانی ہے یہ پاکستان کی کہانی ہے اور یہ ایک عام مسلمان کی کہانی ہے۔ یہ ازبیک ، قزاق غرض سب مسلمانوں کی کہانی ہے۔
لیکن پاکستان میں اس کو اتنے مختصر سے عرصے میں اتنی شہرت و مقبولیت حاصل ہو گی اس سے ہم سب لوگ بڑے حیران ہوئے ہیں۔
فرقان ۔ آپ سے بالکل صاف پوچھتا ہوں کہ اگر ترکی میں صدر رجب طیب ایردوان برسر اقتدار نہ ہوتے تو کیا ایسا کوئی ڈرامہ تیار کرنا ممکن تھا؟ کیا آپ اس وقت ایسا کرنے کی جرات کرتے؟
بوزداع۔ صدر رجب طیب ایردوان دراصل جب سے ملک میں برسر اقتدار آئے تھے انہوں نے ملک میں ایک نئی روح پھونک دی تھی۔ ملک میں نئے سرے سے اسلامی مشعل روشن کردی تھی، ایک نئی زندگی کا آغاز کردیا تھا۔ انہوں نے جو مشعل روشن کی تھی اس مشعل کی روشنی نے پورے عالم اسلام کو منور کردیا تھا۔
صدر رجب طیب ایردوان نے ہمیں روحانی اور ایمانی طور پر بڑا متاثر کیا تھا۔صدر رجب طیب ایردوان اگر برسر اقتدار نہ ہوتے تو اس قسم کےڈرامہ کا تصور کرنا محال تھا۔ میرے خیال میں ناممکن نہ بھی ہوتا تو مشکل ضرور ہوتا۔
یہ صحیح ہے کہ صدر رجب طیب ایردوان نے اس پراجیکٹ کی پشت پناہی اور ہماری حوصلہ افزائی کی اور ہمیں ہر اس جگہ پہنچایا جہاں ہم پہنچنا چاہتے تھے۔ انہوں نے ہمارا خیال رکھا اور خود بھی اس ڈرامہ سیریل میں دلچسپی لی۔ انہوں نے نے اس پراجیکٹ کو دنیا سے متعارف کروانے کے لیے وہ کچھ کیا جو وہ کرسکتے تھے۔
صدررجب طیب ایردوان ایک بار پھر عالمِ اسلام کی عظمتِ رفتہ کو زندہ کرنے کے خواہاں تھے۔ وہ عالمِ اسلام کو اس کے عظیم ماضی سے آگاہ کرنا چاہتے تھے۔ وہ عالمِ اسلام کواس بات سے آگاہ کرنا چاہتے تھے کہ سلطنت عثمانیہ کے قیام کے لیے اور اسے عظمت عطا کرنے کے لیے کیا کچھ کرنا پڑا ۔ ۔۔۔ کس طرح اس دور کے مسلمانوں نے جدو جہد کی اور عالم اسلام اس وقت کس حالت میں تھا ۔ کیسی عظمت حاصل تھی۔ یہ سب کچھ وہ پوری دنیا کو بتانا چاہتے تھےاور اسے رول ماڈل کے طور پر پیش کرنا چاہتے تھے۔ لیکن ابھی بھی اس بارے میں میں چہ مگوئیاں کی جاتی ہیں کہ صدر ایردوان اکثر و بیشتر اس ڈرامہ سیریل کے سینیریو میں دخل اندازی کرتے تھے اور اس میں ردوبدل یا ترمیم بھی کرواتے تھے۔ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے۔ انہوں نے کبھی بھی اس ڈرامہ سیریل میں دخل اندازی نہیں کی ہے۔انہوں نے ہمیشہ ہماری حوصلہ افزائی کی اور ہمیں بالکل آزاد چھوڑ دیا ۔ اس طرح ہم نے اپنے سینیریو کے مطابق شوٹنگ کی اور اس میں ذرہ بھر بھی کوئی ترمیم یا تبدیلی نہیں کی اور نہ اس ڈرامے کا رخ بدلنے کی کوشش کی۔ البتہ انہوں نے نے ہماری راہ میں کھڑی ہونے والی تمام رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش میں ہمارا بھرپور ساتھ دیا۔ہم صدر رجب طیب ایردوان کے بہت شکرگزار ہیں اور فخر محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے مشکل وقت میں انہوں نے ہمارا بھرپور ساتھ دیا اور ہماری پشت پناہی کی ہے۔
اللہ ان سے راضی ہو۔
فرقان ۔ آپ نے ار طغرل غازی ڈرامہ کیسے تیار کیا؟ اس ڈرامہ سیریل میں قرانی آیات اور احادیث کا انتخاب کیسے کیا؟ اس بارے میں کیا آپ نے کوئی ریسرچ کررکھی تھی؟ یا پھر ڈرامہ جیسے جیسے آگے بڑھتا گیا آپ نے بھی اسی حساب سے ان کا انتخاب کیا؟
بوزداع۔ مجھے بچپن ہی سے اسلامی علوم میں بڑی گہری دلچسپی تھی۔ میرے دادا حضور حافظ قرآن تھے اور ایک مسجد میں امامت کیا کرتے تھے ۔ اس لحاظ سے میں بڑا خوش قسمت ہوں۔ میرے چچا بھی مذہبی علوم کے شعبہ سے فارغ التحصیل تھے۔ میری والدہ بڑی مذہبی خاتون ہیں اور جب سے میں نے ہوش سنبھالا یعنی چار پانچ سال کی عمر ہی میں اپنے دادا کے ہمراہ مسجد جایا کرتا تھا اور اس طرح میں نے مذہب کو بچپن سے اپنی روح کے اندر اترتا ہوا دیکھا۔ میں مسجد میں ان کو قرآن پڑھتا دیکھتا اور ان کی قرآت کو سنا کرتا تھا اور اس طرح قرانی آیات میری روح کی آبیاری کرتی رہیں اور میرے دل میں اترتی چلی گئیں اور میں نے کبھی بھی قرانِ پاک کو پڑھنا نہیں چھوڑا ہمیشہ ہی قرآنی آیات پڑھتا رہتا ہوں اور یوں میری زندگی قرآن کے زیر سایہ چلتی رہتی ہے۔
یہ ڈرامہ ایسے ہی نہیں بن گیا ۔میرےذہن میں جو خیالات موجود تھے جس سوچ نے جگہ پا رکھی تھی اسے میں نے اس ڈرامہ سیریل کی شکل میں پیش کرنے کے لیے قرطاس ابیض پر منتقل کیا۔ ارطغرل ڈرامے میں جو کچھ آپ کو نظر آتا ہے وہ دراصل میری اندرونی دنیا ہے جسے میں نے آپ کے لیے سکرین پر منتقل کیاہے۔ امید ہے آپ مجھے سمجھ رہے ہوں گے۔اس کام کے آغاز سے قبل میں اچھی طرح اپنے کام سے واقف تھا اور مجھے پتہ تھا میں نے سکرین پر کیا منتقل کرنا ہے۔اگر واقف نہ ہوتا تو شاید یہ ڈرامہ یا شاہکار کبھی بھی اس طرح کامیابی سے ہمکنار نہ ہوتا۔
میں تاریخ کا طالبِ علم ہوں اور تاریخ سے اچھی طرح واقف ہوں۔ خیمہ بستیاں کس طرح قائم کی جاتی ہیں اس سے متعلق آگاہی حاصل تھی ۔انسان ان خیموں میں کس طرح زندگی بسر کرتے ہیں کیا کچھ کرتے ہیں ، ان کی زندگی میں کیا اونچ نیچ آتی ہے ۔ کیسے زندگی گزرتی ہے۔ اس سے اچھی طرح واقف تھا۔ تیرویں صدی کے ان لوگوں کی روحانی کیفیت، روزمرہ زندگی غرض ان کی زندگی کے بارے میں اچھی طرح آگاہی رکھتا تھا۔ اس موضوع پر مجھے مکمل گرفت حاصل ہونے ہی کی وجہ سے، اسے میں نے سکرین پر پیش کیا۔
فرقان ۔ اس ڈرامہ سیریل کی تیاری میں کوئی تجارتی مقاصد نہیں بلکہ ثقافت اور مذہب اسلام کو فروغ دینے کی سوچ ابھر کر سامنے آرہی ہے۔ کیا ایسا ہی ہے؟
بوزداع۔ تجارت بڑی اہم ہے۔ ہم جو ثقافتی خدمات سرانجام دے رہے ہیں اس کے لیے بھی ہمیں پیسے کمانے کی ضرورت ہے۔ آپ نے دیکھا ہے کہ ہالی وڈ کس طریقے سے کامیابی حاصل کر رہا ہے۔وہ ایک طرف اپنی تہذیب کو دنیا بھر میں فروغ دے رہا ہے تو دوسری طرف اسی کام سے کمائی بھی حاصل کررہا ہے۔
دراصل ہم نے بڑا رسک لیا تھا۔ ٹی آر ٹی کے ساتھ ہم نے ایگریمنٹ کیا تھا لیکن انہوں نے کچھ عرصے بعد اس کی ادائیگی کرنی تھی لیکن اس دوران ہمیں پیسوں کی اشد ضرورت تھی جس کے لیے ہمیں قرضہ حاصل کرنا پڑااور یوں ہم نے اپنے ڈرامے کا آغاز کیا۔ ہم نے مشکل حالات میں ڈرامے کا آغاز تو کردیا لیکن اللہ تعالیٰ کی مدد بھی ہمیں حاصل رہی اور جس مقصد کے لیے ہم اپنے اس سفر پر نکلے تھے ، آگے بڑھتے چلے گئے اور کامیابی نے ہمارے قدم چومے۔ لیکن میں یہاں آپ کو یہ بھی بتادوں کہ ہم نے ڈرامے کے آغاز کے وقت کبھی بھی اس کی تجارت کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔
فرقان ۔ ایک سیزن کی ریکارڈنگ میں کتنا عرصہ درکار ہوتا تھا؟ کیمرے کے پیچھے کیا کچھ ہوتا رہا ہے ، اس بارے میں آپ نے کبھی کوئی ہوا نہیں لگنے دی۔ اس کی وجہ؟
بوزداع۔ ہم نے کبھی بھی کیمرے کے پیچھے کیا کچھ ہو رہا ہے، اس بارے میں کسی کو بھی کچھ پیش کرنے کی اجازت نہیں دی اور سب نے اس پر سختی سے عمل درآمد کیا کیونکہ ہمارا مقصد اس ڈرامے کی اصل روح کا خیال رکھنا اور کسی طرح بھی اس پر آنچ نہ آنے دینا تھا اور دیکھا جائے تو ہمارے اس ڈرامے کی کامیابی کی وجہ بھی ہمارا اس اصول پر سختی سے عمل درآمد کرنا ہے۔ دوسرا یہ کہ اس پراجیکٹ کی تیاری پر تقریبا ایک سال کا عرصہ لگا۔ کہانی کے آغاز پر کسی کو بھی اتنے بڑے پیمانے پر کامیابی حاصل ہونے کا یقین نہ تھا بلکہ کئی ایک اداکاروں کا خیال تھا اس سے قبل کبھی بھی اس طرح کے ڈرامے پیش نہیں کیے گئے ہیں ۔ ڈراموں میں کبھی بھی جنگ کے مناظر، شمشیرزنی، گھڑ سواری اور نیزابازی جیسے سین پیش نہیں کیے گئے ہیں اور نہ ہی اس طرح کی کبھی شوٹنگ ہوئی ہے۔
میں نے سب سے پہلے اس ڈرامے کی کہانی تحریر کی اس کے بعد منگولیا سے ایک مصور کو مدعو کیا۔ جسے میں نے اپنی کہانی پیش کی اور اس نے اسے تصویری شکل عطاکی۔ پھر میں نے سب کو کس طرح ڈرامے کی یہ دنیا قائم ہوگی بتانا اور واضح کرنا شروع کردیا اور پھر میں نے اپنی ٹیم کو تشکیل دینا شروع کردیا۔ اس ڈرامے میں ڈائریکٹر کے طور پر میرا ساتھ دینے والے متین صاحب سے اس سلسلے میں طویل بات چیت کی۔ اس طرح پوری ٹیم کے ساتھ رات دن کام کرنا شروع کر دیا اور ٹیم کے ساتھ مل کر اس پراجیکٹ کو حتمی شکل دی۔
اس کے بعد ہم نے گھوڑوں کی ٹریننگ کے لیے ایک فارم قائم کیا۔ گھوڑوں کی خریداری مکمل کی ۔ یہ تمام گھوڑے ہم نے قزاقستان سے خریدے تھے اور انہیں ترکی منتقل کیا تھا۔ اور ان گھوڑوں کی ٹریننگ بھی یہاں پر ہی کی۔
اس کے بعد ہم نے تمام اداکاروں کو کیمپ میں جمع کیا اور اس دور کے جنگجو کس طرح زندگی بسر کرتے ہیں ان کے رہن سہن ، طرزِ بودوباش سے آگاہ کیا۔ انہیں تیرہویں صدی کے زندگی کے آداب سے آگاہ کیا، ان تمام اداکاروں کو ایک کیمپ میں ٹریننگ دی جاتی رہی۔ اسی دوران خیمہ بستی قائم کرلی گئی تھی اور سب کچھ تیار ہوگیا تھا۔
یہاں پر آپ کو ایک چیز بتاتا چلوں۔ جب سب کچھ تیار ہو گیا اور شوٹنگ شروع ہونے والی تھی اس سے قبل ہی طوفان بگولے نے پوری خیمہ بستی کو نیست و نابود کر دیا۔ہم نے نو ماہ جو تیاری کی تھی وہ سب غارت ہوگئی۔ سب کچھ زمین بوس ہوگیا۔ جس کا مجھے بڑا افسوس ہوا میری ساری محنت رائیگاں گئی لیکن ہر کام میں اللہ تعالی کی حکمت ہوتی ہے . اچھا ہوا کہ کے وقت سے قبل اس طوفانی بگولے نے سب کچھ کچھ برباد کردیا ۔ہم نے مختصر سے عرصےمیں نئے سرے سے خیمہ بستی قائم کرلی ۔ اس بار ہمیں کافی تجربہ ہوچکا تھا اور اپنے اس تجربے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے بڑا مضبوط قائم کیا اور آج تک یہ بالکل اسی طرح قائم ہے۔
فرقان ۔ ترکی کے موجودہ حالات اور ڈرامے میں پیش کیے جانے والے دور میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ کیا آپ نے نئی نسل کو تاریخ اور مذہبِ اسلام سے محبت کا جذبہ ابھارنے کے لیے اس ڈرامے کو تیار کیا۔ کیا آپ اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں؟
بوزداع۔ دیکھا جائے تو تاریخ بھی ایک سائنس ہی ہے۔ تاریخ صرف کتابوں میں پڑھنے یا سننے کا نام نہیں ہے۔آج یعنی حال، مستقبل میں ماضی بن جائے گا اور مستقبل بھی کبھی نہ کبھی تاریخ کا حصہ بن جائے گا۔ ہم نے ماضی کے انسانوں کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے اسے ڈرامائی شکل دی ہے۔ ہم نے اس دور کے انسانوں کی کہانیوں کو تاریخ کی کتابوں سے پڑھتے ہوئے ہی موجودہ دور کو اپنے سامنے رکھا ہے ۔مستقبل کو تیار کرنے کے لئے ماضی کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا قرآن کریم میں صحابہ اور مسلمانوں کو مستقبل سے خبردار کرنے کے لیے ماضی کے پیغمبروں کے قصاص کو قرآن کریم میں جگہ دی گئی ہے۔ تاکہ ماضی سے سبق حاصل کرتے ہوئے مستقبل کی راہ سنواری جائے۔اسی طرح ہمیں بھی ماضی میں زندگی بسر کرنے والے انسانوں کے تجربات سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔
ہم نے یہ پراجیکٹ تیار کرتے وقت اس بات کا خیال رکھا کہ تیرہویں صدی میں عالم اسلام کو جن مشکلات اور کٹھن حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا موجودہ دور میں بھی کم و بیش انہیں اسی طرح کی مشکلات اور حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ہمارے آباؤ اجداد نے کس طرح ان مشکلات ، کٹھن حالات اور بحرانوں پر قابو پایا اور ان بحرانوں کا رخ موڑ دیا اور پھر کس طرح دنیا کی عظیم ترین سلطنت قائم کی۔ ایسا کرتے وقت اس دور کے لوگ کس ذہن کے مالک تھے، کیا سوچ رکھتے تھے، اللہ سے کس طرح گڑگڑا کر دعا مانگا کرتے تھے اور کیسے اللہ و تعالیٰ کی مدد ان کو حاصل ہوتی ، اپنے پاوں پر کھڑا رہنے کے لیے قران کریم کی آیات کا کس طرح سہارا لینا پڑتا تھا۔ اللہ کی بزرگ ہستیوں یا ولی اللہ جیسی شخصیات نے کس طرح مسلمانوں کی رہنمائی کی۔ کیا کچھ کرنا پڑا۔ یہ سب کچھ ایک بار پھر ہم نے اس ڈرامے کےذریعے عوام تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان میں بھی اس ڈرامے کو اتنی بڑی تعداد میں دیکھنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ لوگوں کو اس کے ذریعے اپنی خواہشات پوری ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ کیونکہ ہم اپنی عظمتِ رفتہ کی یادوں میں کھوئے ہوئے ہیں اور اس عظیم ماضی کو موجودہ دور میں حقیقت کا روپ دینے کے خواہاں ہیں۔
فرقان ۔ چوتھے سیزن میں نمازِ جمعہ پڑھتے ہوئے اس ڈرامے میں دکھایا گیا ہے، لیکن کبھی بھی ماہ رمضان، عیدین اور اسلامی تہواروں کو جگہ نہیں دی ہے؟ کیا آپ نے یہ سب کچھ جان بوجھ کر کیا ۔ یا پھر اسے نظر انداز کرنے ہی میں بہتری سمجھی؟
بوزداع۔ جہاں تک اس ڈرامے کا تعلق ہے یہ ڈرامہ پانچ سیزن جاری رہا اور ان پانچ سیزنوں کے دوران ہم ہمیشہ ایک خاص مدت میں شوٹنگ کیا کرتے تھے اور موسمِ گرما میں چھٹیاں ہونے کی بدولت ماہ رمضان یا عیدین وغیرہ کے تہوار نہیں آئے۔ ہم نے حالات کے مطابق ہی نماز کے مناظر پیش کیے ہیں۔ سلمان شاہ نے مختلف اوقات میں نماز کی امامت بھی کی ہے۔جیسا کہ عرض کیا ہے سردیوں میں شوٹنگ ہونے کی وجہ سے ماہ رمضان نہیں آیا تھا۔ اس لیے اسے پیش نہیں کیا لیکن اب آپ نے دیکھا ہوگاقرلش عثمان ڈرامہ سیریل میں ماہ رمضان کے مناظر بھی پیش کیے جا رہے ہیں اور اس میں افطار کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ سب اکھٹے ہی ہیں دسترخوان پر بیٹھتے ہیں۔
فرقان ۔ اس پراجیکٹ کے ذریعے آپ اپنے ناظرین کو کیا پیغام دینا چاہتے تھے ؟ کیا وہ پیغام ناظرین تک پہنچ گیا؟
بوزداع۔ میں اپنے ناظرین کو عدل و انصاف کا پیغام دینا چاہتا تھا اور ان کو بتانا چاہتا تھا کسی سے زیادتی نہ کریں۔انسانوں کے درمیان تفرقہ بازی سے گریز کریں اور سب کا خیال رکھیں تو اللہ تعالی بھی آپ کی مدد کرتا ہے۔ اس ڈرامے کی کامیابی میرے پیغام کا ان تک پہنچنے کا ثبوت ہے۔
فرقان ۔ اس پراجیکٹ کو کامیاب بنانے میں آپ کے خیال میں کس نے بڑا اہم کردار ادا کیا؟
بوزداع۔ ڈرامہ سیریل میں تمام کریکٹروں کا اپنا اپنا ایک دوسرے سے الگ تھلگ رول ہے۔ ہر ایک کی کہانی ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ اسی وجہ سے اس ڈرامے کو پسند کیا گیا ہے۔ یعنی اس ڈرامے کے تمام کردار ایک دوسرے سے بالکل آزاد اور انڈیپنڈنٹ ہیں، ترگت، دوان، بامسی یہ سب ایک دوسرے سے مختلف کریکٹر کے مالک ہیں ۔ ارتغرل، حلیمہ، ابن العربی، سیلمان شاہ، حائمہ انا، سیلجان، اور سب کے کریکٹر ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔لیکن ان سب کریکٹروں نے ایک دوسرے کو اپنے اندر پرو رکھا ہے۔
اگر ان میں سے ایک کریکٹر مشہور ہو تا اور باقی کریکٹر مشہور نہ ہوتے یا ابھر کر سامنے نہ آتے تو پھر یہ ڈرامہ سیریل اتنی شہرت یا مقبولیت حاصل نہ کر پاتی۔ یہی وجہ ہے کہ عوام دو گھنٹے تک مسلسل اس سکرین کے سامنے اپنی سانس روکے ان تمام کرداروں کو دیکھتے ہیں۔
ہم نے تمام کرداروں کی کہانی ایک دوسرے سے مختلف رکھی اور ہر کہانی ایک معنیٰ لیے ہوئے ہے۔ ہر کردار کی اپنی دنیا ہے، جو ڈرامے کے ارد گرد گھومتی ہے۔جس طرح دنیا میں ہر کردار مختلف ہے بالکل اسی طرح اس ڈرامے کے کردار بھی مختلف ہیں لیکن وہ سب اسی ڈرامے کا حصہ ہیں اور پورا ڈرامہ ان ہی کے نزدیک گھومتا ہے۔ اس ڈرامے کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ ارطغرل کی جانب سے اپنے ساتھیوں کو یکجہتی اور اتحاد کا درس دینا ہےجس میں وہ کامیاب رہے ہیں۔
فرقان ۔ اس ڈرامے میں استعمال کی جانے والے بیک گراونڈ میوزک کے سب ہی دلدادہ ہیں اور سب بہت ہی متاثر ہوئے ہیں ۔ ایسی موسیقی کا انتخاب کیسے کیا آپ نے؟ پاکستانیوں کے لیے یہ نئی طرز کی موسیقی تھی لیکن پورا پاکستان اس مسحورکن موسیقی کے سحر میں کھو سا گیا ہے۔ کیا کہیں گے؟
بوزداع۔ یہاں پر میں آپ کو ایک دلچسپ بات بتاوں ۔ ہم نے چار پانچ موسیقاروں کے ساتھ کام کیا۔ لیکن میں جس قسم کی موسیقی چاہتا تھا وہ ابھی تک میری خواہشات کے مطابق نہ تھی۔ جس کی وجہ سے مجھے بڑا افسوس تھا، میں جو چاہتا تھا وہ نہیں ہو پا رہا تھا۔ڈرامہ سیریز اپنے آخری مرحلے میں پہنچنے والی تھی اور صرف تین چار ہفتے باقی رہ گئے تھے۔ اس دوران کسی نے مجھے آلپائے کے بار ے میں بتایا ، میں نے فوری طور پر آلپائے موسیقار اور کمپوزر سے رابطہ قائم کیا۔ میں نےان کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں میں اپنی پسند کی موسیقی سے متعلق آگاہ کیا اور اسے اپنے ذہن کے مطابق سمجھانے کی کوشش کی۔ آلپائے ایک بہت اچھا کمپوزر ہے۔ انہوں نے میری روحانی کیفیت کا اندازہ کرلیا تھا اور پھر انہوں نے باقی تمام موسیقاروں سے ہٹ کر نئی طرز کی موسیقی ترتیب دی۔ اور اس موسیقی نے سب پر سحر طاری کردیا ۔ انہوں نے اس کے علاوہ بھی ہمارے کئی ایک پراجیکٹ کی موسیقی تیار کی لیکن آپ کو یہ بتادوں یہ سب سے ہٹ کر ہے۔ اس کا اپنا ہی ایک جادو ہے۔جو سر چڑھ کر بولتا ہے۔
مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس عظیم موسیقار کا پچھلے دونوں انتقال ہوگیا۔ برین ہمیریج ہوا تھا، مجھے ان کے انتقال کا بہت افسوس ہوا ہے۔
ان کی اہلیہ ابھی بھی ہمارے ساتھ کام کرتی ہیں تاہم آلپائے کا نام ابھی بھی زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا ۔ انہوں نے موسیقی کے ذریعے اس ڈرامے میں نئی روح پھونکی ہے۔
ان کی موسیقی کو ہر دردمند دل نے اپنے اندر محسوس کیا ہے ۔ ان کا دل اسی موسیقی کی لے پر دھڑکتا ہے۔
فرقان ۔ اس پراجیکٹ کو تیار کرتے وقت اس ڈرامے کے دنیا بھر میں اتنی زیادہ مقبولیت حاصل کرنے کا سوچا بھی تھا؟
بوزداع۔ جی میں آپ کو بتا دو ں ، ہمیں اتنی توقع نہ تھی لیکن جب ہم یہ ڈرامہ سیریل تیار کر رہے تھے تو ہمارے ذہن میں یہی تھا کہ یہ ایک عالمی سطح کا ڈرامہ ہونا چاہیے۔ ہم نے اسے مارکیٹ میں فروخت کرنے کے لیے تیار نہیں کیا تھا بلکہ ہم نے اسے اپنی روحانی تسکین اور خیالات کو حقیقت کا روپ دینے اور میرے دل کے اندر موجزن طوفان کو اس ڈرامے کے ذریعے برپا کرنے کی کوشش کی تھی۔ یعنی کہا جا سکتا ہے کہ میری روحانی دنیا نے پوری دنیا یا کائنات کو بھی متاثر کیا ہے۔
یہاں میں آپ کو ایک چیز بتا دو ں مجھے اللہ پر مکمل بھروسہ اور ایمان ہے اور اسی ایمان اور بھروسے نے ہمیں کامیابی دلوائی اور اللہ نے اس کام میں برکت ڈالی ۔
فرقان ۔ ایک بہت ہی اہم سوال ہے: اس ڈرامے کے کریکٹروں کا انتخاب آپ نے کیسے کیا؟ انتخاب کرتے وقت کن امور کا خیال رکھا؟ اور کیا ان تمام فنکاروں نے اپنی بھر پور صلاحیتوں سے یہ کردار ادا کیا؟ آپ کے خیال میں یہ سب کامیاب ہیں؟ ان ادا کاروں میں سے سب سے زیادہ کس اداکار یا اداکارہ نے آپ کو متاثر کیا؟
بوزداع۔ کریکٹرز کا انتخاب کرتے وقت ہم نے وضع کردہ تمام خصوصیت کا خصوصی خیال رکھا ۔ دس ہزار افراد کا انٹرویو کیا ۔انتخاب کا یہ سلسلہ پانچ چھ ماہ جاری رہا۔ ہم نے تمام کریکٹرز کا ایک ایک کرکے جائزہ لیا، ان کی خصوصیات کا جائزہ لیا اور ان خصوصیات کو نوٹ کیا۔ ارطغرل کا کردار کیسا ہوگا، ترگت کا کردار ، دوان کا کردار اور باقی دیگر ساتھیوں کا کردار کیسا ہوگا ؟ یہ کریکٹر ، کیسے یہ کردار ادا کریں گے۔ ہم نے ہر چیز کا اچھی طرح جائزہ لیا۔ ہم نےیہاں تک دیکھا کہ ارطغرل گھڑ سواری کیسے کرتا ہے،گھوڑے پر کیسے بیٹھتا ہے، کیسے اُترتا ہے اور گھوڑا کیسے دوڑاتا ہے۔ دیلی دیمرکس طرح کردار ادا کرتا ہے۔ ترگت کیسے بھاگتا ہے۔ ہم نے سیلمان شاہ کے جاہ و جلال کا بھی اچھی طرح جائزہ لیا۔ ہر ایک کردار کو ہم نے اچھی طرح نوٹ کیا۔ جن جن دوستوں کا ہم نے انتخاب کیا انہوں نے بھر پور صلاحیتوں سے اپنا کردار ادا کیا۔ اور اپنا حق نبھا دیا۔ مجھے ابن العربی کے کردار نے بڑا متاثر کیا ۔ حسن العربی کا کردار باقی کرداروں سے بڑا مختلف تھا۔ میں ویسے ہی ابن العربی سے بڑا متاثر تھا اور میں اس کا کردار ادا کرنے والی شخصیت سے بھی بڑا متاثر ہوا۔
فرقان ۔ اس ڈرامہ سیریل میں اقتدار حاصل کرنے کی خاطر بھائی کو بھی قتل کرنے کے عمل کو جائز دکھا یا گیا ہے۔کیا ایسا ہی ہے؟ میں کہیں غلط تو نہیں سوچ رہا؟
بوزداع۔ یہ اس وقت کے حالات تھے اور ہم نے صرف ان حالات کو پیش کیا تھا۔ ہم تاریخ میں ردوبدل نہیں کرسکتے ، اس دور کے انسان ایسے ہی تھے۔اس دور میں ڈیموکریسی تھی نہ کوئی انتخابات اور نہ کوئی انتخابی نظام۔ اقتدارمیں آنے کا واحد راستہ جنگ اور طاقت کا استعمال تھا۔ اس دور میں ہر چیز جائز تھی جو جنگ جیت لیتا وہ اقتدار حاصل کرلیتا ۔ اس دور میں ایسا ہی ہو رہا تھا۔ ہم نے اپنی کوئی سوچ یا نظریہ پیش نہیں کیا تھا بلکہ اس دور کے حقائق کو قرطاس ابیض پر پیش کیا تھا۔
فرقان ۔ آپ کا اس پراجیکٹ سے قبل کوئی پراجیکٹ وغیرہ تھا؟
بوزداع۔ جی ہاں میں نے اس پراجیکٹ سے قبل سلطنت عثمانیہ کے قیام سے متعلق دستاویزی فلمیں تیار کی تھیں۔جب میں نے یہ پراجیکٹ تیار کیا تو میں اس وقت 29 سال کا تھا۔ میں نے چھبیس سال کی عمر میں اپنی فرم قائم کی تھی اور تین سال تک مختلف موضوعات کے بارے میں بڑی تعداد میں ڈاکومنٹری فلمیں تیار کی تھیں۔اس کے بعد میں نے ایک فلم یونس ایمرے کے نام سے بنائی۔
فرقان ۔ یہ ڈرامہ سیریل طویل عرصے جاری رہی ہے اور مناسب وقت پر ختم ہوئی ہے۔ میرے خیال میں ترکی میں پیش کیا جانے والا یہ طویل ترین ڈراموں میں سے ایک ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ناظرین نے سانس روکے اس ڈرامے کو دیکھنے کا سلسلہ جاری رکھا؟ ایسا کرنے میں آپ کیسے کامیاب رہے؟
بوزداع۔ سب سے پہلے تو یہ اللہ تعالی کا احسانِ عظیم ہے ، ہم پر پروردگار کی خصوصی عنایت ہے۔ اور یہی عنایت ہماری کامیابی کی وجہ بھی بنی۔
کئی دفعہ تو ایسے لگتا تھا کہ شاید ہم اس سین کی شوٹنگ نہ کرسکیں ، ہمارے لیے کئی بار کئی مناظر کی شوٹنگ کرنا بڑا مشکل کام ہوتا تھا لیکن اللہ تعالی کا احسان تھا اور اس کی مہربانی تھی کہ ہم تمام مشکلات پر قابو پاتے چلے گئے اور معجزے رونما ہوتے چلے گئے۔یہاں معجزے سے ہماری مراد معنوی ہے خدانخواستہ ہم کوئی حقیقی معجزے رونما نہیں کررہے تھے، اللہ و تعالی ہمارے کام میں آسانیاں پیدا کررہا تھا۔ ہم نے جو اسٹریٹجی بھی استعمال کی بڑی مہارت سے کی اور اسی کے نتیجے میں کامیابی حاصل کی۔
فرقان ۔ اس ڈرامے کی شوٹنگ کے دوران کیا آپ کو کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑا ہے ؟
بوزداع۔ ہمیں ایک پرابلم نہیں کئی ایک پرابلم پیش آئیں، جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں سب سے پہلے طوفانی بگولے نے ہماری خیمہ بستی کا ستیاناس کر کے رکھ دیا ، سب کچھ برباد کر دیا۔ پھر اس کے بعد پوری خیمہ بستی میں آگ لگ گئی۔ خیموں میں موجود تما م کاسٹیوم جل کر خاکستر ہو گئے۔ کئی ایک حادثات پیش آئے ، بڑے کٹھن حالات کا سامنا کرنا پڑالیکن ہم حالات پر بحرانوں پر قابو پانا سیکھ گئے تھے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ قرولش عثمان ڈرامہ سیریز کی تیاری اور شوٹنگ کے موقع پر کورونا وائرس نے تباہی مچائی ہوئی ہے لیکن ہم اس کے باوجود اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں کیونکہ ہم بحرانوں پر قابو پانا سیکھ چکے ہیں اوراللہ کی مدد ہمارےساتھ ہے۔
فرقان ۔ اس ڈرامے میں آپ کو سب سے زیادہ کس سین نے متاثر کیا؟
بوزداع۔ اس ڈرامے میں مجھے سب ہی سینز (Scenes)نے بہت متاثر کیا ہے۔ اب میرے لیے کونسا سین مجھے بہت پسند آیا اس بارے میں کچھ بتانا مشکل ہے، ویسے دیکھا جاتا تو ہر ایک سین اپنے اندر الگ ہی خصوصیت رکھے ہوئے ہے، ویسے بھی سب کچھ میں نے خود ہی تحریر کررکھا ہے۔ اور جب میں ان سب کو اپنے سامنے دیکھتا ہوں تو متاثر ہونا لازمی امر ہے۔
فرقان ۔ کیا آپ یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ اس ڈرامے کی شوٹنگ کے دوران کوئی دلچسپ واقعہ پیش آیا؟
بوزداع۔ مشکلات کے ساتھ ساتھ دلچسپ صورتِ حال کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔ جب ہم لوگ تیاری کر رہے تھے تمام کریکٹرز اپنے اپنے دیگر ڈراموں میں مصروف تھے۔اسی دوران ہم نے ان کو کتابیں پڑھنے کو دیں تاکہ وہ یہ کتابیں پڑھ کر اس دور کے حالات سے با خبر ہو جائیں۔ ہم نے سب اداکاروں کو ایک مشترکہ کیمپ میں بندکیا۔ اور ان کی رہائش کا بندو بست بھی اسی کیمپ میں کیا۔ اس کیمپ میں ہم نے ان کو عملی طور پراس دور کے آدابِ معاشرت سے آگاہی فراہم کی۔ ان کو اس دور میں کھانا کس طرح کھا یا جاتا ہے سے متعلق آگاہی فراہم کی۔ یہ سب کچھ ہم نے اسی ٹریننگ کیمپ میں ان کو سکھایا۔ یہ بڑی دلچسپ صورتِ حال تھی لیکن ہم نے اسے بھی لوگوں کے سامنے نہیں آنے دیا۔
فرقان ۔ اس ڈرامے میں کردار اداکرنے والے تمام فنکاروں کے ساتھ طویل وقت گزارا ہے ۔ آپ کے سب کے ساتھ تعلقات کیسے تھے؟
بوزداع۔ ہم نے اس ارطغرل ڈرامے میں پانچ سال کا عرصہ اکھٹے گزارا بلکہ ایک سال کی ٹریننگ کا عرصہ بھی شامل کرلیا جائے تو یہ چھ سال کا عرصہ بن جاتا ہے۔ یعنی چھ سال اس پورے عرصے کے دوران ہم نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دن رات کام کیا یعنی جیسے کوئی بچہ اسکول میں داخلہ لیتا ہے اور پرائمری سکول تک تعلیم و تربیت حاصل کرتا ہے۔ ہم نے بھی اکھٹے اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ کام کیا۔ ہماری آپس میں بڑی اچھی انڈرسٹینڈنگ تھی، بڑی اچھی دوستی قائم ہو گئی-یہ دوستی صرف سیٹ پر ہی نہیں بلکہ سیٹ سے باہر بھی طویل عرصے قائم رہی اور اس دوستی کی جھلک ہماری ڈرامے پر منعکس ہوئی اور یوں ہم نے اکھٹے ہی کامیابی حاصل کی۔
فرقان ۔ یہ بتائیے آپ اپنی فیملی سے طویل عرصہ دور رہے ۔ آپ کی فیملی کا کیا ری ایکشن تھا؟ آپ کیسا محسوس کرتے تھے؟
بوزداع۔ میں نے وہاں پر اپنی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے ایک بڑا اچھا کام کیا۔میری اہلیہ نے اس ڈرامہ سیریز میں سینریو اسسٹنٹ کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا وہ ریاضی یا حساب کتاب میں بڑی ماہر ہے۔ اس طرح وہ بھی ہمارے ساتھ ہی کام کرتی رہی اور ہماراہاتھ بٹاتی رہی ۔ دیکھا جائے تو ہماری پوری فیملی اس کام میں مصروف ہو گئی تھی۔ ورنہ پوری فیملی کا یکجا ہونا ممکن نہ تھا۔ ظاہر ہے اگر آپ فیملی کے ساتھ نہیں تو آپ پھر خوش بھی نہیں رہ سکتے۔ میں نے اپنی اہلیہ کے ہمراہ دن رات اس پراجیکٹ پر کام کیا اور اسی دوران اللہ نے ہمیں ایک بیٹا عطا کیا۔اور مزے کی بات ہے ہمارے بیٹے کی پرورش بھی اسی سیٹ پر ہوئی۔اس طرح دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے اس نے اپنی آنکھیں اسی سیٹ پر کھولیں جس کی وجہ سے اسے اس سیٹ اور ڈرامے سے دلی لگاؤ پیدا ہوگیا اور وہ بھی اس ڈرامے کا حصہ بن کر رہ گیا ۔وہ اس سیٹ پرکھیل کھیلتا۔ یہ سیٹ اس کی دنیا بن چکی تھی۔
فرقان ۔ اب آتے ہیں پاکستان کی جانب۔ مجھے معلوم ہے آپ کے دل میں پاکستان کے لیے الگ ہی مقام ہے، پاکستان سے آپ کو بڑی گہری محبت ہے۔اس کی وجہ کیا ہے؟ اتنی محبت کیونکر؟
بوزداع۔ یہ بھلا کیسی بات کردی آپ نے، ترک ہوں اور پاکستان سے محبت نہ ہو یہ ناممکن ہے۔پاکستان تو ہماری روح میں بسا ہوا ہے، وہ ہمارا دل ہے۔ پاکستان کے لوگ بڑے ملنسار، مہمان نواز، نیک دل، مہذب اور محنتی ہیں۔ جس طرح ہم سب کے دل پاکستان کے لیے دھڑکتے ہیں بالکل اسی طرح پاکستاینوں کے دل ترکوں کے لیے دھڑکتے ہیں۔ جب ہم کبھی کسی مشکلات میں گھر جاتے ہیں تو ان کو گہرا صدمہ پہنچتا ہے اور اسی طرح جب وہ کسی مصیبت کا شکار ہو جاتے ہیں تو ہمیں بہت دکھ اور غم ہوتا ہے۔
آپ نے دیکھا ہوگا چند روز قبل پاکستان میں طیارے کا حادثہ پیش آیا جس کا ہمیں شدید ملال ہوا ہے ۔ جس طرح پاکستان میں لوگوں کو اس حادثے کا دکھ پہنچا ہے بالکل اسی طرح ہم بھی اس حادثے کا دکھ اپنے دلوں پر محسوس کررہے ہیں۔
اللہ تعالی نے ہم دونوں ممالک کے درمیان اتنا قریبی تعلق قائم کردیا ہے کہ اب ہم ایک دوسرے کے بھائی بن کر رہ گئے ہیں۔ یہ محبت کا رشتہ ہے ، یہ بھائیوں کا رشتہ ہے اور انشاء اللہ یہ رشتہ ابد تک قائم و دائم رہے گا ۔
ان تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے ہمیں فنون اور ثقافت کی جانب بھی توجہ دینی ہو گی ، ہمیں ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح جاننے اور پہچاننے کی ضرورت ہے۔
فرقان ۔ یہ ڈرامہ ترکی سے زیادہ پاکستان میں پسند کیا گیا اور اب تک ایک سو ملین شائقین اس ڈرامے کو دیکھ چکے ہیں اور نئے سے نیا ریکارڈ بن کر سامنے آرہا ہے۔کیا کہیں گے اس بارے میں ؟
بوزداع۔ یہ اللہ و تعالیٰ کا احسان ہے جس نے اتنی مختصر مدت میں پاکستان میں اس ڈرامے کو مقبولیت بخشی اور نئے سے نیا ریکارڈ قائم کردیا، مجھے خود یقین نہیں آرہا کہ پاکستان میں اتنے کم عرصے میں اس ڈرامے کو اتنی مقبولیت حاصل ہوگی۔ یہ ڈرامہ پاکستان میں طوفان کی طرح چھا گیا اور پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ پاکستان کے عوام کو اس طرح کے ڈراموں کی حسرت تھی اور اس ڈرامے سے ان کی یہ حسرت پوری ہوگئی ہے۔
فرقان ۔ کیا وجہ ہے کہ یہ ڈرامہ سیریل ترکی میں پاکستان کی طرح اتنا مقبول نہیں ہوا جتنا پاکستان میں؟
بوزداع۔ نہیں نہیں نہیں، ایسی کوئی بات نہیں۔ یہاں ترکی میں بھی اس ڈرامے کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ترکی میں اس ڈرامے نے ریٹنگ کے نئے ریکارڈ قائم کردیے تھے۔ترکی میں اس ڈرامے نے جو ریکارڈ قائم کیا تھا وہ ریکارڈ ابھی تک کوئی نہیں توڑ سکا ہے۔ پاکستان کی آبادی تر کی سے کہیں زیادہ ہے اور آبادی کے تناسب کے لحاظ سے ان دونوں ممالک میں ایک جیسی ہی مقبولیت حاصل ہے۔
فرقان ۔ یہ ڈرامہ سیریل عالمِ اسلام میں بھی بے حد پسند کیا گیا۔کیا کہیں گے؟
بوزداع۔ اگر یہ ڈرامہ ترکی میں ریکارڈ قائم نہ کرتا تو عالم اسلام میں اس کی بازگشت بھلا کیسے سنائی دیتی؟ ترکی میں بھی اس ڈرامے نے باقی تمام ڈراموں کو اپنے پیچھے چھوڑ دیا تھا اور نئے ریکارڈ قائم کیےاور مزے کی بات یہ ہے کہ اس ڈرامے نے مسلسل پانچ سیزن تک اپنی برتری قائم رکھی ۔ اس ڈارمے نے عالمِ اسلام کی حقیقت کو پیش کیا۔ اس کی صورتِ حال کو اجاگر کیا اور اس کے دکھ و درد کو پیش کیا جس کی بنا پر اسے عالمِ اسلام میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔
فرقان ۔ پاکستان کے عوام بڑا بے صبری سے آپ کا فقیدالمثال استقبال کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ کورونا وائرس کی وجہ سے ان دنوں پاکستان جانا ممکن نہیں ہے لیکن کب تک آپ کا پاکستان جانے کا پروگرام ہے؟
بوزداع۔ جیسے ہی کورونا ختم ہوتا ہے اور حالات بہتر ہوتے ہیں ہم پاکستان جانے کا پروگرام بنائیں گے۔ ہمیں پہلے ہی سے حکومتِ پاکستان کی جانب سے پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت موصول ہو چکی ہے۔ہم لوگ پاکستان کے مختلف شہروں میں جانا چاہتے ہیں، اسلام آباد ، لاہور ،کراچی اور کشمیر جانا چاہتے ہیں۔ ہم اپنے اس دورے کے دوران پاکستان کے وزیراعظم عمران خان سے بھی ملاقات کرنے کے خواہاں ہیں۔ انشاءاللہ ماہ اگست یا ماہ ستمبر میں پاکستان جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ہم اکھٹے ہی پاکستان چلیں گے۔
فرقان ۔ پاکستان کے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں مداحوں کو کیا پیغام دینا پسند فرمائیں گے؟
بوزداع۔ میں پاکستانی عوام کو سب سے پہلے یہ کہنا چاہوں گا، مجھے پاکستان سے محبت ہے۔ ہم اپنے اس سیٹ کو پاکستانی عوام کے لیے کھولنا چاہتے ہیں اور ان کایہاں پر استقبال کرنا چاہتے ہیں۔ ہم بھی پاکستان کا دورہ کریں گے اور ترکی سے محبت کرنے والے پاکستانی عوام سے ملاقات کریں گے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اکٹھے ہی کام کریں اور مشترکہ شاہکار تخلیق کریں۔ ہمیں پوری دنیا کو انصاف محبت اور نیکی کا پیغام دینے کی ضرورت ہے ۔ پاکستان اور ترکی دونوں ہی ایک دوسرے کو دل کی گہرائیوں سے چاہتے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے ہماری یہ دوستی رواں دواں ہے اور آئندہ بھی نئے جوش و جذبے سے جاری رہے گی۔
دل دل پاکستان، جان جان پاکستان، میں تم پر قربان پاکستان۔۔۔۔۔
ڈاکٹر فرقان حمید کے ممتاز یو ٹیوب چینل “یار من ترکی” کے شکریے کے ساتھ