ہمارے سماج میں گندگی کتنی بڑھ گئی ہے، اتنا تعفن کہ سانس لینا بھی دوبھر، جسے دیکھو مار کاٹ میں لگا ہوا ہے۔ کورونا کی مہلک آفت کو بھی مکروہ لوگوں نے مال بنانے کا ذریعہ بنا لیا۔ ماسک، سینیٹائزر، پی پی ای کٹس، انجکشن سب بلیک میں فروخت کر کے راتوں رات کروڑ پتی بنا جا رہا ہے۔ نجی ہسپتال مال بننے کے کارخانوں میں بدل گئے ہیں۔ خلق خدا کا کسی کو احساس تک نہیں، ضمیر مردہ ہو چکے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ یہ وہ سب باتیں ہیں جو زبان زدِ عام ہیں۔ مطلب ایک کاروباری، ایک بلیکئے، ایک ذخیرہ اندوز سے لے کر ملاوٹ کرنے والے اور ناقص مال بیچنے والے تک۔۔۔ سب کی زبان پر یہی باتیں ہیں۔۔۔۔ آپ متفق ہیں ناں اس سے۔۔۔ کیونکہ آپ بھی ان سب کے مکروہ دھندوں اور متعفن سوچ کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔ لیکن رکیں۔۔۔۔ ذرا دوسرا رخ بھی تو دیکھیں۔۔۔۔ مانا ہر طرف تعفن ہے، لیکن کیا کبھی آپ نے اپنے ارد گرد معطر کردار افراد کی طرف سے آتے خوشبو کے جھونکے محسوس کئے ہیں؟ ہر طرف گلی سڑی روح والی بدبودار چلتی پھرتی زندہ لاشوں کے درمیان بے شمار پاک طینت روحیں موجود ہیں، جن کی طرف ہماری توجہ نہیں جاتی۔ اور اس کی ایک ٹھوس وجہ بھی ہے۔ آپ ذرا تخیل میں لائیں، ایک کتا کہیں مرا پڑا ہے، اس کے ارد گرد کے ماحول انتہائی خوبصورت اور دیدہ زیب ہے، پھول مہک رہے ہیں، کلیاں چٹک رہی ہیں، چڑیاں چہچہا رہی ہیں، درختوں کے سبز پتے ہوا کی لہروں کے دوش پر رقص کر رہے ہیں، پاس ہی کہیں معصوم بچے کلکاریاں بھر رہے ہیں۔ مرے ہوئے کتے کے ارد گرد اتنی زیادہ خوبصورتی اور حسن موجود ہے، لیکن آپ کی پورا دھیان کتے کے گلتے سڑتے جسم سے اٹھنے والے تعفن اور اس سے پیدا ہونے والی کراہت پر مرکوز رہے گا۔ جتنے بھی حسین مناظر اس کے ارد گرد موجود ہیں، وہ آپ دیکھ کر بھی نظر انداز کر دیں گے، آپ کی آنکھ کا کیمرہ ان کو فوکس ہی نہیں کرے گا، خوبصورتی آپ کے حافظے تک میں نہیں رہے گی، بس تعفن ہی حاوی رہے گا۔ اگر ایک کتے کا تعفن آپ کو ارد گرد کے خوشبو بکھیرتے اور راحت پیدا کرنے والے مناظر سے غافل کر سکتا ہے تو سوچیں، مکروہ کردار لوگوں کے تعفن میں پاک طینت افراد کی خوشبو بھلا محسوس کی جا سکتی ہے؟ بڑا مشکل کام ہے۔۔۔۔ لیکن اپنا فوکس درست کریں۔۔۔۔ دھیان کتے کے تعفن پر نہیں، ارد گرد موجود بیش بہا خوبصورتی پر لگا لیں،پھر امید کی کرن بھی ملے گی، روشنی اور نور بھی نظر آئے گا۔
ایسا ہی روشن کردار ایک نوجوان نظر سے گزرا، فیس بک پر ایک پوسٹ دیکھی کہ ہمارے سینئر صحافی دوست رضوان آصف کورونا کا بہادری سے مقابلہ کرنے کے بعد صحت یاب ہو گئے ہیں اور انہوں نے اپنا پلازمہ ایک اور مریض کے لئے عطیہ کیا ہے تاکہ ان کی وجہ سے خیر اور بھلائی کا سلسلہ آگے بڑھے۔ رضوان آصف کہتے ہیں کہ وہ جس حد تک ممکن ہوا، اپنا پلازمہ عطیہ کرتے رہیں گے۔
اور یہ محض رضوان آصف ہی نہیں، حیدرآباد میں ہمارے ایک اور سینئر ترین صحافی دوست شاہد شیخ نے فیس بک پر اپنے تاثرات قلمبند کرتے ہوئے بتایا کہ ان کو بھی کسی نے پلازمہ عطیہ کیا جس کی بدولت وہ صحت یاب ہو گئے۔ یہ پلازمہ عطیہ کرنے والے افراد بے شمار ہیں، لیکن ہمیں نظر نہیں آتے کیونکہ پلازمہ بیچنے والے بدبودار مرداروں نے ارد گرد تعفن پھیلا رکھا ہے۔ الف نیوز کی کوشش ہوتی ہے کہ گھُور تاریکی میں موجود روشنی کی کرن کا ذکر کرے، مایوسی پھیلانے والوں کی بھِیڑ میں امید دکھائے، یہی امید اور روشنی کی کرن الف نیوز کو رضوان آصف میں بھی نظر آئی۔
یہ درست ہے کہ سوشل میڈیا پر ایسے مکروہ افراد کا ذکر عام ہے جو لاکھوں روپے میں اپنا پلازمہ فروخت کر رہے ہیں، جنہوں نے جان بچانے والے انجکشن اتنے مہنگے کر دیئے ہیں کہ غریب بندہ موت کا انجکشن لگوانے کی سوچنے لگے۔ لیکن دوسری طرف رضوان آصف جیسے بھی لاتعداد ہیں جنہوں نے اپنی ذات کو خیر اور بھلائی کا محور و مرکز بنا لیا ہے۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو پیسے کو نہیں نیکی کو زندگی سمجھتے ہیں اور اپنی آخرت سنوارنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ایکسپریس اخبار کے سینئر صحافی رضوان آصف بھی چاہتے تو اپنے بلڈ گروپ اے بی نیگیٹوکا پلازمہ فروخت کرکے اپنی زندگی میں وقتی خوشحالی لاسکتے تھے،مگر شائد اللہ جانتا تھا کہ رضوان آصف کی زندگی کسی دوسرے کو بھی زندگی دے سکتی ہے،اس لئے وہ آج صحتیاب ہیں اور اپنا پلازمہ مفت دے رہے ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ ہر پندرہ دن بعد اپنا پلازمہ کسی نا کسی مریض کو دیکر جنت میں اپنا گھر خریدیں گے اور اس گھر کی بنیادیں انہوں نے رکھ دی ہیں، اب آہستہ آہستہ پورا گھر بھی تعمیر ہوجائے گا۔
آپ اپنے ارد گرد ایسے ہی خوبصورت کردار تلاش کریں، بہت ملیں گے، مرے ہوئے کتے کے تعفن کے مکروہ حصار سے نکلیں، خوشبو تلاش کریں۔ فضا کو معطر کر دینے والے کئی رضوان آصف ہمارے آس پاس موجود ہوتے ہیں۔