Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
ایک انسان زندگی سے اس حد تک ناامید ہو جاتا ہے کہ وہ خود کی ہی زندگی ختم کر دیتا ہے آخر کیوں؟؟؟
کیا وجوہات ہیں کہ نئی نسل ذہنی امراض سے دوچار ہے۔۔۔؟؟اٹھارہ سے پینتیس برس کے درمیان نوجوانوں کی شرح ذہنی امراض روز مرہ کہ حساب سے مسلسل بڑھتی جا رہی ہے دوہزار سے اب تک ۔۔۔۔۔۔
اک ہیلتھ سروے کے مطابق عالمی سطح پر سب سے زیادہ ادویات ” ڈیپریشن “کے لیے استعمال ہو رہی ہیں۔سوشل میڈیا پہ ہنستے مسکراتے چہرے حقیقت میں بھی اتنے ہی خوش ہیں؟؟؟اور حال ہی میں اک نوجوان اداکار سوشانت سنگھ راجپوت کی خودکشی۔۔۔ چار سال سے ذہنی مرض میں مبتلا تھے۔۔۔آخر ایسا کیا ہو جاتا ہے اک انسان اپنی جان ختم کر دیتا ہے۔ہر دوسرا بندا آئرن کی کمی نہیں بلکہ ڈپریشن کا شکار ہے۔ ڈپریشن اک طرح کا کینسر ہے جو جان لیوہ بھی ہے اور اس کا علاج بھی موجود ہے۔یہ انسان کو اندر ہی اندر دیمک کی طرح چاٹ جاتا ہے۔لیکن ڈپریشن کو عموما لوگ سیریس نہیں لیتے ۔یہاں نکتہ یہ ہے جب یہ اک جان لیوا مرض ہے تو اس کو کیوں اہمیت نہیں دی جا رہی۔۔۔؟؟؟ یہاں مختلف وجوہات پائی جاتی ہیں۔۔
سب سے بڑا مسئلہ لوگ کیا کہیں گے؟؟؟
کوئی برا نہ مان جائے ؟؟؟
لوگ پاگل کہیں گے؟؟
اتنی بڑی بات نہیں سر پہ سوار مت کرو؟؟
اور عموما ہمارے معاشرے کا بڑا اہم مسلہ ہماری ناک کٹ جائے گی۔۔۔ یہاں یہ چیز واضح ہو جائے کہ ڈپریشن کسی بھی انسان کی ذاتی کمزوری نہیں۔۔۔
نہ ہی کا لاعلاج مرض ہے۔۔۔
یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اک عام انسان کو اس حال تک پہنچانے میں ہمارا ماحول،سوشل میڈیا، ہمارا معاشرہ بڑی ایمانداری سے اپنا کردار ادا کر رہا ہے جس میں والدین اور فیملی کا کردار نمایاہے۔ڈپریشن اک دم سے ظاہر ہونے والی بیماری نہیں ہے۔ ماہرین کہ مطابق ڈپریشن کسی بھی شخص کو ہو سکتا ہے۔اگر آپ روز مرہ کہ معمولات میں جھنجھلا جاتے ہیں تھکن محسوس کرتے ہیں ،سر درد کی شکایت رہتی ہے، نیند نہیں پوری ہو رہی، بات بات پہ غصہ آتا ہے یاداشت کی کمی محسوس ہو رہی ،بستر سے نکلنے کو دل نہیں کرتا تو گویا آپ کو بھی علاج کی ضرورت ہے۔ڈپریشن انسان کی اندر جمح ہونے والی تمام ان باتوں کا مجموعہ ہے جو وقتا فوقتا انسان کے مزاج پہ گراہ گزرتی ہیں۔۔۔جن چیزوں کو انسان اپنی قوت برداشت کے خلاف اپنی ذات پہ برداشت کر جاتا ہے ۔اور آہستہ آہستہ انسان اس دلدل میں دھنستاجاتا ہےاور لوگوں سے بھاگتا جاتا ہے تنہائی کا شکار ہونے لگتا ہے ۔اپنے آپکو سنبھالنے کی کوشش میں میں جھوٹی مسکراہٹوں کا سہارا لیتا ہے۔۔لوگوں کے عام سی باتیں بھی ذہر ثابت ہوتی ہیں اور اس طرح انسانوں سے خوف محسوس ہونے لگتا ہے اور اک سہمے ہوئے مٹی کے بت سے رہا سہا اعتماد بھی جاتا رہتا ہے۔۔اور تنہائی انسان پہ حاوی ہو جاتی ہے۔۔جب اپنے اردگرد اپنے لوگ(فیملی) آپ کی بدلے رویے کو محسوس نہیں کرتے تو یہ آخری وار ثابت ہوتا ہے۔اب بیماری اک تناور درخت کی طرح جڑیں پھیلا چکی ہے آپ کے اندر اور یہاں مشکل ہو جاتی ہے درخت کو کاٹنے میں تو کمزور انسان جڑ ہی کاٹ دیتا ہے۔۔۔۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اس بیماری سے نجات کیسے پائیں؟؟؟ کیسے مدد کریں ایسے مریض کی دلجوئی ؟؟یہاں ڈپریشن کے دو درجے ہیں ۔اک ہلکے درجے کا ڈپریشن جو ڈاریکٹ فیزیکلی نمودار ہوتا ہے سر درد،نیند کی کمی،بے چینی،تھکاوٹ، چڑچڑا ہونا ۔جس کا علاج جسمانی صحت کا خیال رکھ کر ممکن ہے ۔اچھی غذا کا استعمال کرنا ورزش کرنا ریسٹ کرنا وغیرہ ۔دوسری طرف آخری مرحلہ جس کا جسمانی صحت سے تعلق نہیں ذہن پہ اس قدر خمار ہے کہ اک مخلص انسان کی ضرورت ہے بس تو ہمیں وہ مخلص انسان بننا ہے جو اگلے بندے کی بات مکمل سنے اسکو مزید بولنے کا موقع دے اس کی ہر بات کا جواب دے اسکا حوصلہ بڑھائے اسکے غم میں شریک ہو۔اگر نفسیاتی ڈاکٹر کی ضروت ہے تو دیر نہ کریں۔۔۔ماہر نفسیات کو دکھائیں۔۔۔اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔آمین۔
ایک انسان زندگی سے اس حد تک ناامید ہو جاتا ہے کہ وہ خود کی ہی زندگی ختم کر دیتا ہے آخر کیوں؟؟؟
کیا وجوہات ہیں کہ نئی نسل ذہنی امراض سے دوچار ہے۔۔۔؟؟اٹھارہ سے پینتیس برس کے درمیان نوجوانوں کی شرح ذہنی امراض روز مرہ کہ حساب سے مسلسل بڑھتی جا رہی ہے دوہزار سے اب تک ۔۔۔۔۔۔
اک ہیلتھ سروے کے مطابق عالمی سطح پر سب سے زیادہ ادویات ” ڈیپریشن “کے لیے استعمال ہو رہی ہیں۔سوشل میڈیا پہ ہنستے مسکراتے چہرے حقیقت میں بھی اتنے ہی خوش ہیں؟؟؟اور حال ہی میں اک نوجوان اداکار سوشانت سنگھ راجپوت کی خودکشی۔۔۔ چار سال سے ذہنی مرض میں مبتلا تھے۔۔۔آخر ایسا کیا ہو جاتا ہے اک انسان اپنی جان ختم کر دیتا ہے۔ہر دوسرا بندا آئرن کی کمی نہیں بلکہ ڈپریشن کا شکار ہے۔ ڈپریشن اک طرح کا کینسر ہے جو جان لیوہ بھی ہے اور اس کا علاج بھی موجود ہے۔یہ انسان کو اندر ہی اندر دیمک کی طرح چاٹ جاتا ہے۔لیکن ڈپریشن کو عموما لوگ سیریس نہیں لیتے ۔یہاں نکتہ یہ ہے جب یہ اک جان لیوا مرض ہے تو اس کو کیوں اہمیت نہیں دی جا رہی۔۔۔؟؟؟ یہاں مختلف وجوہات پائی جاتی ہیں۔۔
سب سے بڑا مسئلہ لوگ کیا کہیں گے؟؟؟
کوئی برا نہ مان جائے ؟؟؟
لوگ پاگل کہیں گے؟؟
اتنی بڑی بات نہیں سر پہ سوار مت کرو؟؟
اور عموما ہمارے معاشرے کا بڑا اہم مسلہ ہماری ناک کٹ جائے گی۔۔۔ یہاں یہ چیز واضح ہو جائے کہ ڈپریشن کسی بھی انسان کی ذاتی کمزوری نہیں۔۔۔
نہ ہی کا لاعلاج مرض ہے۔۔۔
یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اک عام انسان کو اس حال تک پہنچانے میں ہمارا ماحول،سوشل میڈیا، ہمارا معاشرہ بڑی ایمانداری سے اپنا کردار ادا کر رہا ہے جس میں والدین اور فیملی کا کردار نمایاہے۔ڈپریشن اک دم سے ظاہر ہونے والی بیماری نہیں ہے۔ ماہرین کہ مطابق ڈپریشن کسی بھی شخص کو ہو سکتا ہے۔اگر آپ روز مرہ کہ معمولات میں جھنجھلا جاتے ہیں تھکن محسوس کرتے ہیں ،سر درد کی شکایت رہتی ہے، نیند نہیں پوری ہو رہی، بات بات پہ غصہ آتا ہے یاداشت کی کمی محسوس ہو رہی ،بستر سے نکلنے کو دل نہیں کرتا تو گویا آپ کو بھی علاج کی ضرورت ہے۔ڈپریشن انسان کی اندر جمح ہونے والی تمام ان باتوں کا مجموعہ ہے جو وقتا فوقتا انسان کے مزاج پہ گراہ گزرتی ہیں۔۔۔جن چیزوں کو انسان اپنی قوت برداشت کے خلاف اپنی ذات پہ برداشت کر جاتا ہے ۔اور آہستہ آہستہ انسان اس دلدل میں دھنستاجاتا ہےاور لوگوں سے بھاگتا جاتا ہے تنہائی کا شکار ہونے لگتا ہے ۔اپنے آپکو سنبھالنے کی کوشش میں میں جھوٹی مسکراہٹوں کا سہارا لیتا ہے۔۔لوگوں کے عام سی باتیں بھی ذہر ثابت ہوتی ہیں اور اس طرح انسانوں سے خوف محسوس ہونے لگتا ہے اور اک سہمے ہوئے مٹی کے بت سے رہا سہا اعتماد بھی جاتا رہتا ہے۔۔اور تنہائی انسان پہ حاوی ہو جاتی ہے۔۔جب اپنے اردگرد اپنے لوگ(فیملی) آپ کی بدلے رویے کو محسوس نہیں کرتے تو یہ آخری وار ثابت ہوتا ہے۔اب بیماری اک تناور درخت کی طرح جڑیں پھیلا چکی ہے آپ کے اندر اور یہاں مشکل ہو جاتی ہے درخت کو کاٹنے میں تو کمزور انسان جڑ ہی کاٹ دیتا ہے۔۔۔۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اس بیماری سے نجات کیسے پائیں؟؟؟ کیسے مدد کریں ایسے مریض کی دلجوئی ؟؟یہاں ڈپریشن کے دو درجے ہیں ۔اک ہلکے درجے کا ڈپریشن جو ڈاریکٹ فیزیکلی نمودار ہوتا ہے سر درد،نیند کی کمی،بے چینی،تھکاوٹ، چڑچڑا ہونا ۔جس کا علاج جسمانی صحت کا خیال رکھ کر ممکن ہے ۔اچھی غذا کا استعمال کرنا ورزش کرنا ریسٹ کرنا وغیرہ ۔دوسری طرف آخری مرحلہ جس کا جسمانی صحت سے تعلق نہیں ذہن پہ اس قدر خمار ہے کہ اک مخلص انسان کی ضرورت ہے بس تو ہمیں وہ مخلص انسان بننا ہے جو اگلے بندے کی بات مکمل سنے اسکو مزید بولنے کا موقع دے اس کی ہر بات کا جواب دے اسکا حوصلہ بڑھائے اسکے غم میں شریک ہو۔اگر نفسیاتی ڈاکٹر کی ضروت ہے تو دیر نہ کریں۔۔۔ماہر نفسیات کو دکھائیں۔۔۔اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔آمین۔
ایک انسان زندگی سے اس حد تک ناامید ہو جاتا ہے کہ وہ خود کی ہی زندگی ختم کر دیتا ہے آخر کیوں؟؟؟
کیا وجوہات ہیں کہ نئی نسل ذہنی امراض سے دوچار ہے۔۔۔؟؟اٹھارہ سے پینتیس برس کے درمیان نوجوانوں کی شرح ذہنی امراض روز مرہ کہ حساب سے مسلسل بڑھتی جا رہی ہے دوہزار سے اب تک ۔۔۔۔۔۔
اک ہیلتھ سروے کے مطابق عالمی سطح پر سب سے زیادہ ادویات ” ڈیپریشن “کے لیے استعمال ہو رہی ہیں۔سوشل میڈیا پہ ہنستے مسکراتے چہرے حقیقت میں بھی اتنے ہی خوش ہیں؟؟؟اور حال ہی میں اک نوجوان اداکار سوشانت سنگھ راجپوت کی خودکشی۔۔۔ چار سال سے ذہنی مرض میں مبتلا تھے۔۔۔آخر ایسا کیا ہو جاتا ہے اک انسان اپنی جان ختم کر دیتا ہے۔ہر دوسرا بندا آئرن کی کمی نہیں بلکہ ڈپریشن کا شکار ہے۔ ڈپریشن اک طرح کا کینسر ہے جو جان لیوہ بھی ہے اور اس کا علاج بھی موجود ہے۔یہ انسان کو اندر ہی اندر دیمک کی طرح چاٹ جاتا ہے۔لیکن ڈپریشن کو عموما لوگ سیریس نہیں لیتے ۔یہاں نکتہ یہ ہے جب یہ اک جان لیوا مرض ہے تو اس کو کیوں اہمیت نہیں دی جا رہی۔۔۔؟؟؟ یہاں مختلف وجوہات پائی جاتی ہیں۔۔
سب سے بڑا مسئلہ لوگ کیا کہیں گے؟؟؟
کوئی برا نہ مان جائے ؟؟؟
لوگ پاگل کہیں گے؟؟
اتنی بڑی بات نہیں سر پہ سوار مت کرو؟؟
اور عموما ہمارے معاشرے کا بڑا اہم مسلہ ہماری ناک کٹ جائے گی۔۔۔ یہاں یہ چیز واضح ہو جائے کہ ڈپریشن کسی بھی انسان کی ذاتی کمزوری نہیں۔۔۔
نہ ہی کا لاعلاج مرض ہے۔۔۔
یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اک عام انسان کو اس حال تک پہنچانے میں ہمارا ماحول،سوشل میڈیا، ہمارا معاشرہ بڑی ایمانداری سے اپنا کردار ادا کر رہا ہے جس میں والدین اور فیملی کا کردار نمایاہے۔ڈپریشن اک دم سے ظاہر ہونے والی بیماری نہیں ہے۔ ماہرین کہ مطابق ڈپریشن کسی بھی شخص کو ہو سکتا ہے۔اگر آپ روز مرہ کہ معمولات میں جھنجھلا جاتے ہیں تھکن محسوس کرتے ہیں ،سر درد کی شکایت رہتی ہے، نیند نہیں پوری ہو رہی، بات بات پہ غصہ آتا ہے یاداشت کی کمی محسوس ہو رہی ،بستر سے نکلنے کو دل نہیں کرتا تو گویا آپ کو بھی علاج کی ضرورت ہے۔ڈپریشن انسان کی اندر جمح ہونے والی تمام ان باتوں کا مجموعہ ہے جو وقتا فوقتا انسان کے مزاج پہ گراہ گزرتی ہیں۔۔۔جن چیزوں کو انسان اپنی قوت برداشت کے خلاف اپنی ذات پہ برداشت کر جاتا ہے ۔اور آہستہ آہستہ انسان اس دلدل میں دھنستاجاتا ہےاور لوگوں سے بھاگتا جاتا ہے تنہائی کا شکار ہونے لگتا ہے ۔اپنے آپکو سنبھالنے کی کوشش میں میں جھوٹی مسکراہٹوں کا سہارا لیتا ہے۔۔لوگوں کے عام سی باتیں بھی ذہر ثابت ہوتی ہیں اور اس طرح انسانوں سے خوف محسوس ہونے لگتا ہے اور اک سہمے ہوئے مٹی کے بت سے رہا سہا اعتماد بھی جاتا رہتا ہے۔۔اور تنہائی انسان پہ حاوی ہو جاتی ہے۔۔جب اپنے اردگرد اپنے لوگ(فیملی) آپ کی بدلے رویے کو محسوس نہیں کرتے تو یہ آخری وار ثابت ہوتا ہے۔اب بیماری اک تناور درخت کی طرح جڑیں پھیلا چکی ہے آپ کے اندر اور یہاں مشکل ہو جاتی ہے درخت کو کاٹنے میں تو کمزور انسان جڑ ہی کاٹ دیتا ہے۔۔۔۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اس بیماری سے نجات کیسے پائیں؟؟؟ کیسے مدد کریں ایسے مریض کی دلجوئی ؟؟یہاں ڈپریشن کے دو درجے ہیں ۔اک ہلکے درجے کا ڈپریشن جو ڈاریکٹ فیزیکلی نمودار ہوتا ہے سر درد،نیند کی کمی،بے چینی،تھکاوٹ، چڑچڑا ہونا ۔جس کا علاج جسمانی صحت کا خیال رکھ کر ممکن ہے ۔اچھی غذا کا استعمال کرنا ورزش کرنا ریسٹ کرنا وغیرہ ۔دوسری طرف آخری مرحلہ جس کا جسمانی صحت سے تعلق نہیں ذہن پہ اس قدر خمار ہے کہ اک مخلص انسان کی ضرورت ہے بس تو ہمیں وہ مخلص انسان بننا ہے جو اگلے بندے کی بات مکمل سنے اسکو مزید بولنے کا موقع دے اس کی ہر بات کا جواب دے اسکا حوصلہ بڑھائے اسکے غم میں شریک ہو۔اگر نفسیاتی ڈاکٹر کی ضروت ہے تو دیر نہ کریں۔۔۔ماہر نفسیات کو دکھائیں۔۔۔اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔آمین۔
ایک انسان زندگی سے اس حد تک ناامید ہو جاتا ہے کہ وہ خود کی ہی زندگی ختم کر دیتا ہے آخر کیوں؟؟؟
کیا وجوہات ہیں کہ نئی نسل ذہنی امراض سے دوچار ہے۔۔۔؟؟اٹھارہ سے پینتیس برس کے درمیان نوجوانوں کی شرح ذہنی امراض روز مرہ کہ حساب سے مسلسل بڑھتی جا رہی ہے دوہزار سے اب تک ۔۔۔۔۔۔
اک ہیلتھ سروے کے مطابق عالمی سطح پر سب سے زیادہ ادویات ” ڈیپریشن “کے لیے استعمال ہو رہی ہیں۔سوشل میڈیا پہ ہنستے مسکراتے چہرے حقیقت میں بھی اتنے ہی خوش ہیں؟؟؟اور حال ہی میں اک نوجوان اداکار سوشانت سنگھ راجپوت کی خودکشی۔۔۔ چار سال سے ذہنی مرض میں مبتلا تھے۔۔۔آخر ایسا کیا ہو جاتا ہے اک انسان اپنی جان ختم کر دیتا ہے۔ہر دوسرا بندا آئرن کی کمی نہیں بلکہ ڈپریشن کا شکار ہے۔ ڈپریشن اک طرح کا کینسر ہے جو جان لیوہ بھی ہے اور اس کا علاج بھی موجود ہے۔یہ انسان کو اندر ہی اندر دیمک کی طرح چاٹ جاتا ہے۔لیکن ڈپریشن کو عموما لوگ سیریس نہیں لیتے ۔یہاں نکتہ یہ ہے جب یہ اک جان لیوا مرض ہے تو اس کو کیوں اہمیت نہیں دی جا رہی۔۔۔؟؟؟ یہاں مختلف وجوہات پائی جاتی ہیں۔۔
سب سے بڑا مسئلہ لوگ کیا کہیں گے؟؟؟
کوئی برا نہ مان جائے ؟؟؟
لوگ پاگل کہیں گے؟؟
اتنی بڑی بات نہیں سر پہ سوار مت کرو؟؟
اور عموما ہمارے معاشرے کا بڑا اہم مسلہ ہماری ناک کٹ جائے گی۔۔۔ یہاں یہ چیز واضح ہو جائے کہ ڈپریشن کسی بھی انسان کی ذاتی کمزوری نہیں۔۔۔
نہ ہی کا لاعلاج مرض ہے۔۔۔
یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اک عام انسان کو اس حال تک پہنچانے میں ہمارا ماحول،سوشل میڈیا، ہمارا معاشرہ بڑی ایمانداری سے اپنا کردار ادا کر رہا ہے جس میں والدین اور فیملی کا کردار نمایاہے۔ڈپریشن اک دم سے ظاہر ہونے والی بیماری نہیں ہے۔ ماہرین کہ مطابق ڈپریشن کسی بھی شخص کو ہو سکتا ہے۔اگر آپ روز مرہ کہ معمولات میں جھنجھلا جاتے ہیں تھکن محسوس کرتے ہیں ،سر درد کی شکایت رہتی ہے، نیند نہیں پوری ہو رہی، بات بات پہ غصہ آتا ہے یاداشت کی کمی محسوس ہو رہی ،بستر سے نکلنے کو دل نہیں کرتا تو گویا آپ کو بھی علاج کی ضرورت ہے۔ڈپریشن انسان کی اندر جمح ہونے والی تمام ان باتوں کا مجموعہ ہے جو وقتا فوقتا انسان کے مزاج پہ گراہ گزرتی ہیں۔۔۔جن چیزوں کو انسان اپنی قوت برداشت کے خلاف اپنی ذات پہ برداشت کر جاتا ہے ۔اور آہستہ آہستہ انسان اس دلدل میں دھنستاجاتا ہےاور لوگوں سے بھاگتا جاتا ہے تنہائی کا شکار ہونے لگتا ہے ۔اپنے آپکو سنبھالنے کی کوشش میں میں جھوٹی مسکراہٹوں کا سہارا لیتا ہے۔۔لوگوں کے عام سی باتیں بھی ذہر ثابت ہوتی ہیں اور اس طرح انسانوں سے خوف محسوس ہونے لگتا ہے اور اک سہمے ہوئے مٹی کے بت سے رہا سہا اعتماد بھی جاتا رہتا ہے۔۔اور تنہائی انسان پہ حاوی ہو جاتی ہے۔۔جب اپنے اردگرد اپنے لوگ(فیملی) آپ کی بدلے رویے کو محسوس نہیں کرتے تو یہ آخری وار ثابت ہوتا ہے۔اب بیماری اک تناور درخت کی طرح جڑیں پھیلا چکی ہے آپ کے اندر اور یہاں مشکل ہو جاتی ہے درخت کو کاٹنے میں تو کمزور انسان جڑ ہی کاٹ دیتا ہے۔۔۔۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اس بیماری سے نجات کیسے پائیں؟؟؟ کیسے مدد کریں ایسے مریض کی دلجوئی ؟؟یہاں ڈپریشن کے دو درجے ہیں ۔اک ہلکے درجے کا ڈپریشن جو ڈاریکٹ فیزیکلی نمودار ہوتا ہے سر درد،نیند کی کمی،بے چینی،تھکاوٹ، چڑچڑا ہونا ۔جس کا علاج جسمانی صحت کا خیال رکھ کر ممکن ہے ۔اچھی غذا کا استعمال کرنا ورزش کرنا ریسٹ کرنا وغیرہ ۔دوسری طرف آخری مرحلہ جس کا جسمانی صحت سے تعلق نہیں ذہن پہ اس قدر خمار ہے کہ اک مخلص انسان کی ضرورت ہے بس تو ہمیں وہ مخلص انسان بننا ہے جو اگلے بندے کی بات مکمل سنے اسکو مزید بولنے کا موقع دے اس کی ہر بات کا جواب دے اسکا حوصلہ بڑھائے اسکے غم میں شریک ہو۔اگر نفسیاتی ڈاکٹر کی ضروت ہے تو دیر نہ کریں۔۔۔ماہر نفسیات کو دکھائیں۔۔۔اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔آمین۔