تجھے سگریٹ سے جو پیار نہیں، اس کے کش کا تجھ پہ کوئی وار نہیں
تمباکو کے زہر میں جو مٹھاس ہے، تیرے لیے وہ بے کار ہے
سگریٹ پر لکھنا چاہتا تھا پر کوئی جہاندیدہ بندہ ہاتھ نہیں آرہا تھا۔ جو اس کے متعلق معلومات دے، پھر اچانک رات کے تین بجے اس مہربان سے ملاقات ہوئی۔ ہم نے پوچھا: کدھر ؟ کہتے؛ سگریٹ نوشی اور اس کے جسم پر اثرات پر لیکچر سننے جا رہا ہوں۔ میں نے کہا؛ اچھی بات۔ پر اس وقت کون دے سکتا لیکچر؟ کہتے میری بیوی, مجھے تبھی سمجھ آگیا، کام کا بندہ مل گیا۔ کہتے ہماری بیوی پوچھتی ہیں، کیوں جی آپ سگریٹ پیتے ہو ، شادی سے پہلے کیوں نہیں بتایا؟ دھوکا ہوگیا نا ہمارے ساتھ۔ میں نے بھی جواب دیا؛ آپ خون پیتے، دماغ کھاتے، اپ بتائے تھے کیا؟ اور پھر اسے مطمئن کرنے کے لئے بولا؛ جب سے تم سے شادی ہوئی ہے بیگم۔ نہ میں نے شاپنگ کی ہے، نہ ہی میں نے سگریٹ کو ہاتھ لگایا۔ میری بیوی محبت میں سرشار ہو کر بولی؛ اب مجھ سے اتنا پیار کرتے ہیں، میرے منہ سے نکل گیا؛ نہیں کمبخت تیری وجہ سے میری جیب خالی ہو کر رہ گئی ہے۔ میں نے بھی موقع پر چوکا مارا اور بولا ایک سگریٹ سلگائیں اور سگریٹ کے فضائل پر روشنی ڈالیں۔
کہتے سگریٹ سلگائی نہیں جاتی بلکہ الجھے ہوئے لوگوں اور مسئلوں کو حل کرنے کے لئے لگائی جاتی ہے۔ اور سگریٹ پینا نہ ایک عادت ہے اور نہ ایک نشہ بلکہ یہ ایک طرح کی عبادت ہے، تو مل جل کے کرنی چاہیے۔ میں چونکا اور پوچھا وہ کیسے؟ گویا ہوئے؛ دیکھنے میں آیا ہے، سخی دل سے سخی دل انسان بھی کبھی کبھار سخاوت سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے، پر سگریٹ پینے والا کبھی بھی سگریٹ کے متلاشی کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے دیکھا گیا۔ سگریٹ صبر سکھاتا ہے۔ مثلاً اگر چار دوست ایک ہی سگریٹ پی رہے ہیں، تو سب صبر سے اپنی باری کا انتظار کریں گے۔ سگریٹ اخلاقیات سکھاتا ہے۔ مثلاً مجال ہے، سگریٹ سلگا کے کسی کو دینی ہو تو لبوں میں رکھنے کے باوجود اسے گیلا ہونے دیں۔ یہ نت نئے خیالات، ایجادات، سیاسی پیشین گوئیوں کا منبع ثابت ہوا ہے۔ اگر یقین نہ آئے تو کبھی بھی سگریٹ پینے والوں کے پاس روک کے ان کی گفتگو ملاحظہ فرمائیے۔ یہ بھائی چارہ اور یکجہتی کو فروغ دیتی ہے، کیونکہ مشاہدے میں آیا ہے، سگریٹ پینے والا ہمیشہ تنہا نہیں پایا گیا۔ بلکہ کسی نہ کسی کے ساتھ ہی کش لگاتے پایا گیا ہے۔ یہ خوراک کی کمی کے مسئلے کا واحد حل ہے کیونکہ اسے پینے سے بھوک ختم ہوتی ہے۔
سگریٹ ذات پات، رنگ و نسل، حسب نسب، آقا اور غلام کے فرق کو مٹاتی ہے۔ اور سگریٹ پینے والوں کی برادری دنیا کے ہر کونے، ہر شعبے میں برجمان ہے۔ کوئی کسی ملک کا صدر ہے تو کوئی جرنیل بھی ہے۔ اسے چائے کا سوتن بھی کہا جاتا ہے۔ مگر چائے کے ساتھ پی جائے تو حسن کو چار چاند لگانے کے مترادف بات ہے۔ اس کے ابتدائی کش اس کے تمباکو کے معیار کا پتہ بتاتے ہیں اور آخری چند کش دیسی گھی سے بھی زیادہ خالص دیسی گھی کے لقمے سے بھی زیادہ لطف دیتے ہیں۔ یہ ہونٹوں سے لگ کر جہاں اپنے پن کا احساس دیتی ہے، وہیں اس کے سلگتے شرلے ہمارے اندر کے جذبات کی ترجمانی بھی کرتے ہیں۔اس کے دھوئیں کو محض دھواں مت سمجھئے۔ یہ ہماری سرد آہوں اور گم شدہ مقاصد کی ترجمانی ہے۔
اس لیے زندگی کے مختلف شعبہ جات کے اہم لوگوں سے جب اس کے متعلق پوچھا، ان کے نزدیک سگریٹ کیا ہے؟ تو سیاستدان نے کہا؛ عوام کے مسائل کا حل، صحافی سے پوچھا؛ تو تھکاوٹ کا علاج، کسی محبوبہ سے پوچھا؛ تو ادائے دلبر، ڈاکٹر سے پوچھا؛ تو لکشمی کی آمد، سٹوڈنٹ سے پوچھا؛ تو پڑھائی میں مدد، باپ سے پوچھا؛ تو عقل کی کمی اور ماں سے پوچھا؛ تو جواب ملا لتراں دی کمی۔ لیکن جو بھی ہے، سیگریٹ پینے والا گورنمنٹ کے لیے کماو پوت ہے ۔ کیونکہ وہ کمائے نہ کمائے، گورنمنٹ ٹیکس کی مد میں اس سے کما رہی ہے۔
کہتے آج کل سگریٹ نے نئے ٹرینڈ بنانے کے کئی ریکارڈز اپنے نام کیے ہیں۔ مثلاً جو لوگ باتھ روم میں بیٹھ کر موبائل استعمال کرتے ہیں، انھوں نے یہ ٹرینڈ ہم سے ہی چرایا ہے۔ اور جو لڑکیاں چنی سا منہ بنا کر سیلفی لیتی ہیں، انہوں نے یہ ہمارے کش لینے کے انداز سے ہی خیال چرایا ہے۔
یہ صحت کے حصول کی ضامن ہے۔ سگریٹ پینے سے آج تک کسی کا بلڈپریشر ہائی ہوتے اور شوگر لیول لو ہوتے نہیں دیکھا گیا۔ اس سے طاقت میں اضافہ ہوتا ہے۔ پوچھا کیسے؟ کہتے ہیں پانچ گلاس دودھ پی کر بھی یہ سامنے والی دیوار نہیں ہلا پاتا، پر ایک بھرا ہوا سگریٹ پی لوں تو دیوار خود بخود ہلتی نظر آتی ہے۔ اور تو اور سگریٹ پینے والے کی نماز بھی ہو جاتی ہے۔ میں متاثر نظر آیا تو کہتے ہیں ایک تحقیق آئی ہے جس سے پتہ چلا ہے سگریٹ پینے سے زندگی8 منٹ کم ہو جاتی ہے اور مسکرانے سے دس منٹ بڑھ جاتی ہے۔ اس لیے سوٹے لاندے جاؤ تے پیلاں پاندے جاؤ۔