Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
اٹھارہ سال پہلے کے موسم سرما کا زکر ۔ کچھ دوستوں نے کنٹیکٹ کیا کہ عمران خان کا نیویارک میں فنڈ ریزنگ ہے ، کمیونٹی کو متحرک کرنا ہے ۔ عرض کیا میں کیا متحرک کروں گا ؟ خود کو بیڈ سے نکالنے کے کے لئے ادھا دن چاہئے ، جواب ملا کوئی بات نہیں ،بس شریک ہوجاؤ ،
اس وقت امیرکہ میں نیانیا تھا ، تھوڑا بہت نیویارک شہرہی کو جانتا تھا ۔ ٹرین سروس استعمال کرتا تھا ، ڈرائیونگ نہیں آتی تھی بلکہ ایک سال بعد سیکھی اور پھر اپنی کار خریدی۔
معلوم ہوا عمران خان لاس اینجلس سے نیویارک کینسر اسپتال کے لئے فنڈ ریزنگ کے لئے ارہا ہے اور اجتماع لانگ آئی لینڈ کے شہر Hantington میں ہوگا جو میری رہائش گاہ سے تقریبا پچاس میل کے فاصلے پر جو کلومیٹر میں شاید ستر کے ایم بنتا ہوگا۔ جن لوگوں نے کنٹکٹ کیا تھا وہ عمران خان کے قریبی دوست تھے اور مسقبل میں اس کے سیاسی پروگرام سے اگاہ اور کافی پرجوش تھے ، مجھے یہ اطلاعات تو جنگ کراچی کے زمانہ صحافت سے تھیں کہ عمران خان کے سیاسی عزئم ہیں لیکن اب امریکا میں اس کے قریبی دوستوں سے کنفرم ہورہا تھا۔
شام کو وہ گروپ لمبی کالی کاروں کے ساتھ پک اپ کرکے چل پڑا تو احساس ہونا شروع ہوچکا تھا کہ عمران خان کے حمایتی پاکستان کی کس ہائی کلاس سے تعلق رکھتے ہیں ۔
نیویارک سٹی سے لانگ ایئ لینڈ میں داخل ہوئے تو سرسبز چوڑی ہائی ویز اور بڑے بڑے مینشن دیکھ کر امریکا کی دولت اور خوشحالی کا احساس ہونے لگا ۔ جب ہنٹگتٹن سٹی ایک گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد پہنچے تو احساس ہوا کہ یہ خالص گورے امریکنز کا شہر ہے ، بہت صاف ستھرا ، اڑھی ترچھی سڑکیں ، لب سڑک فینسی ریسٹورنٹ اور گورے گوریاں ڈرنگ ، ڈنر کررہے ، تونیویارک شہر کے رش اور بے تحاشا لوگوں کے تناظر میں پرسکون اور خوب صورت چھوٹا سا شہر لگا ۔ لیکن اسی وقت کسی نے یہ کہہ کر میرے ارمانوں پر اوس ڈال دی کہ یہاں ایک گھر کا کرایہ ہی چار ہزار ڈالر مایانہ کم سے کم ہے ،
خیر ہمیں کیا ، ہم تو عمران خان کے فنڈ ریزنگ کو دیکھنے آئے تھے ۔ ہال میں پہمچے اور گاڑی پارک کی تو جو چمکتی بڑی بڑی سینکڑوں گاڑیوں کی لائیں دیکھیں تو وہیں سے ساری بات سمجھ اگئی ، ہال بھی بہت شاندار تھا ، قیمتی فانوس لٹک رہے تھے اور رات میں دن کا سماں ہورہا تھا ، سیکڑوں پاکستانی عورتیں اور مرد ، قیمی لباس میں ملبوس ، بنے تھنے ہال میں ،وجود اور کچھ ادھر ادھر گھوم بھی رہے تھے،
میں دل میں سوچ رہا تھا کہ اس ماحول اور خوشحالی دیکھ کر کون یقین کرے گا کہ پاکستان غریب ملک ہے ، یہ ایک نئی دنیا تھی ، وہ دنیا جن کا شاید پاکستان کے عام ادمی سے کبھی واسطہ بھی نہ پڑا ہو، ٹیرھے لجے میں انگلش یا انلگش نما پنجابی بولنے ، سگار پھونکنے اور خواتین میک اب اور قیمتی زیورات میں لدی پھندی ۔
دیکھا کہ سٹیج پر کچھ سازندے بیٹھے ہیں ، معین اختر مرحوم نے کمپئیرنگ شروع کردی تھی ۔ اور سلمان گلوکار بھی موجود تھے ۔
برحال میں نے عمران خان سے کچھ انٹرویو کرنا تھا ۔۔ لہزا وہ گروپ مجھے ادھر لیکر چلا ۔ عمران خان سے ہاتھ ملایا ، انھوں نے کہا کہ ایسا کرتے ہیں کہ ادھر ہی میز پر بیٹھ جاتے ہیں تاکہ میں اسٹیج پر نظر رکھ سکوں ، میں اور عمران خان امنے سامنے کی بجائے کرسیاں جوڑ کرساتھ بیٹھ گئے اور باتیں کرنے لگے ، لمببی ناتتین ہوئیں لیکن خاص خاص باتیں ہی زکر کرسکتا ہوں ،
ایک سوال جو مجھےاب یاد رہ گیا ہے کہ کنتا فنڈ ریز ہوسکتا ہے ،
میرا خیال تھا وہ کہے گا تیس چالس ہزار ڈالر ۔
لیکن عمران خان نے کہا کہ چار لاکھ ڈالر کم از کم تو میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا ، رات کے بارہ بج رہے تھے تو صرف تیں بجے تک تین گھنٹے میں ََ؟
عمران خان نے کہا کہ چار لاکھ تو کچھ بھی نہیں میں لاس اینجلس سے سات لاکھ ڈالر اکتھے کرکے ارہا ہوں لیکن یہاں ٹارگٹ چھوٹا کردیا ہے کیونکہ معین اختر دیر کررہا ہے ،
اتنی دیر میں عمران خان نے معین اختر کو اشارے سے بلایا وہ آیا ؤیا تو عمران خان نے اس کو ڈانٹا دیر کیوں کررہے ہیں ، رات زیادہ ہورہی ہے ، لوگ نکل جائیں گے ،
معین اخٹر نے کہا عمران بھائی میں جلدی شو کرتا ہوں تھوڑا سا کنٹرول کرتا ہوں میجمنٹ کو ، معیں اختر نے مجھے بھی سلام کیا اور ملاقات رکھنے کو کہا ۔
اتنی دیر میں گلوکار سلمان نے گانا شروع کردیا تو لوگ مصروف ہوگئے ۔
بات چیت کے دوران عمران خان نے مجھ سے ایسی با ت کہی کہ بہت متاثر ہوا، عمران خان نے کہا کہ پاکستان کے سارے ادارے تباہ ہوچکے ہیں ،کوئی بھی ملک اداروں سے چلتا ہے ، اگر ہم نے پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بنانا ہے تو ہمیں سب سے پہلے ادارے بنانا ہوں گے ، عمران خان کی بات نے مجھے متاثر کیا کیونکہ پہلی بار کسی سیاستدان نے ایسی بات کی تھی ، اس وقت مٰن تھوڑا بہت نوازشریف سے مایوس تھا ۔ کافی دیر بات چیت کے بعد میں اٹھ گیا ،
عمران خان کے کسی قریبی نے میری گروپ پکچر لے لی اور اگلے ہفتے مجھے دی ورنہ میرے پاس اس سے ملاقات کی کوئی پکچر بھی نہ ہوتی کیونکہ میں نے اس کے ساتھ کوئی فوٹو سیسشن نہیں کروایا۔
چکاچوند ماحول میں میوزک چل رہا تھا ، میں لوگوں کے ساتھ باہر آآیا تو تازہ ہوا کا لطف ہی دوبالا ہوگیا ، وہاں انھوں نے ٹھنڈی بئیر کا انتظام کیا ہوا تھا، ہم نے بئیر کے کین کھولے اور مارلبورو سگریٹ کے کش لگانے لگے ۔ دو گھنٹے تک بئیر پیتے رہے اور کش لگاتے رہے ،
ہال میں واپس گئے تو فنڈ ریزنگ ہورہی تھی ، کوئی تین سو دالر تو کوئی تین ہزار ڈالر کا اعلان سٹیج پر چڑھ کر کررہا تھا ، کوئی کریڈذٹ کارڈ دے رہا تھا تو کوئی کییش لین زیادہ تر لوگ چیک دے رہے تھے۔
عمران خان کی بات یادگئی کہ کافی لوگ شہرت کے لئے بھی سٹیج پر چڑھ کر ڈونیشن کا اعلان کرتے ہیں لیکن بعد میں فون بھی اٹینڈ نہیں کرتے ۔ بہت مشکل کام تھا عمران خان کا، میں بہت متاثر ہوا کہ چالاک دیسی ڈراموں سے پیسے نکلوانا واقعی زہانت کا کمال ہے ۔
عمران خان کی شخصیت سحرانگیز ہے اور کوئی شک نہیں ، میں نے دئکھا کہ الیٹ کلاس کے مرد اور عورتیں عمران خان کے ساتھ گروپ پکچر لینے کے لئے درخواست کررہے تھے ، عمران خان مشینی انداز سے ان کی درخواست قبول کرکے فوٹو کھنچوا رہا تھا ، اس کو تو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ اس کے ساتھ گروپ فوٹو کھنچوانے کے لیے کؤ کون کون لوگ کھڑے ہیں لیکن وہ تو اپنے گھر کے ڈرائینگ روم میں اپنی فوٹو فخر کے ساتھ لگائیں گے ۔
اس رات عمران خان نے چار لاکھ ڈالر تین گھنٹے میں اکٹھے کر لئے جو صرف اس کی شخصیت کا کمال ہے ورنہ دیسی بندے کی جیب سے پیسہ نکلوانا بہت مشکل کام ہوتا ہے ، یہ بات مجھے معین اختر نے بتائی ،
پہلے جب معین اختر سے میری ہال میں ملاقات ہوئی تو وہ اکڑ میں تھا لیکن جب بعد مٰں عمران خان سے میری بات چیت دیکھی اور پھر میرا اس سے پورا تعارف ہوا تو معین اختر کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی اور اصرار کرنے لگا کہ پلیز کراچی میں مجھ سے ایک ملاقات رکھنئی پے ۔
اٹھارہ سال پہلے کے موسم سرما کا زکر ۔ کچھ دوستوں نے کنٹیکٹ کیا کہ عمران خان کا نیویارک میں فنڈ ریزنگ ہے ، کمیونٹی کو متحرک کرنا ہے ۔ عرض کیا میں کیا متحرک کروں گا ؟ خود کو بیڈ سے نکالنے کے کے لئے ادھا دن چاہئے ، جواب ملا کوئی بات نہیں ،بس شریک ہوجاؤ ،
اس وقت امیرکہ میں نیانیا تھا ، تھوڑا بہت نیویارک شہرہی کو جانتا تھا ۔ ٹرین سروس استعمال کرتا تھا ، ڈرائیونگ نہیں آتی تھی بلکہ ایک سال بعد سیکھی اور پھر اپنی کار خریدی۔
معلوم ہوا عمران خان لاس اینجلس سے نیویارک کینسر اسپتال کے لئے فنڈ ریزنگ کے لئے ارہا ہے اور اجتماع لانگ آئی لینڈ کے شہر Hantington میں ہوگا جو میری رہائش گاہ سے تقریبا پچاس میل کے فاصلے پر جو کلومیٹر میں شاید ستر کے ایم بنتا ہوگا۔ جن لوگوں نے کنٹکٹ کیا تھا وہ عمران خان کے قریبی دوست تھے اور مسقبل میں اس کے سیاسی پروگرام سے اگاہ اور کافی پرجوش تھے ، مجھے یہ اطلاعات تو جنگ کراچی کے زمانہ صحافت سے تھیں کہ عمران خان کے سیاسی عزئم ہیں لیکن اب امریکا میں اس کے قریبی دوستوں سے کنفرم ہورہا تھا۔
شام کو وہ گروپ لمبی کالی کاروں کے ساتھ پک اپ کرکے چل پڑا تو احساس ہونا شروع ہوچکا تھا کہ عمران خان کے حمایتی پاکستان کی کس ہائی کلاس سے تعلق رکھتے ہیں ۔
نیویارک سٹی سے لانگ ایئ لینڈ میں داخل ہوئے تو سرسبز چوڑی ہائی ویز اور بڑے بڑے مینشن دیکھ کر امریکا کی دولت اور خوشحالی کا احساس ہونے لگا ۔ جب ہنٹگتٹن سٹی ایک گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد پہنچے تو احساس ہوا کہ یہ خالص گورے امریکنز کا شہر ہے ، بہت صاف ستھرا ، اڑھی ترچھی سڑکیں ، لب سڑک فینسی ریسٹورنٹ اور گورے گوریاں ڈرنگ ، ڈنر کررہے ، تونیویارک شہر کے رش اور بے تحاشا لوگوں کے تناظر میں پرسکون اور خوب صورت چھوٹا سا شہر لگا ۔ لیکن اسی وقت کسی نے یہ کہہ کر میرے ارمانوں پر اوس ڈال دی کہ یہاں ایک گھر کا کرایہ ہی چار ہزار ڈالر مایانہ کم سے کم ہے ،
خیر ہمیں کیا ، ہم تو عمران خان کے فنڈ ریزنگ کو دیکھنے آئے تھے ۔ ہال میں پہمچے اور گاڑی پارک کی تو جو چمکتی بڑی بڑی سینکڑوں گاڑیوں کی لائیں دیکھیں تو وہیں سے ساری بات سمجھ اگئی ، ہال بھی بہت شاندار تھا ، قیمتی فانوس لٹک رہے تھے اور رات میں دن کا سماں ہورہا تھا ، سیکڑوں پاکستانی عورتیں اور مرد ، قیمی لباس میں ملبوس ، بنے تھنے ہال میں ،وجود اور کچھ ادھر ادھر گھوم بھی رہے تھے،
میں دل میں سوچ رہا تھا کہ اس ماحول اور خوشحالی دیکھ کر کون یقین کرے گا کہ پاکستان غریب ملک ہے ، یہ ایک نئی دنیا تھی ، وہ دنیا جن کا شاید پاکستان کے عام ادمی سے کبھی واسطہ بھی نہ پڑا ہو، ٹیرھے لجے میں انگلش یا انلگش نما پنجابی بولنے ، سگار پھونکنے اور خواتین میک اب اور قیمتی زیورات میں لدی پھندی ۔
دیکھا کہ سٹیج پر کچھ سازندے بیٹھے ہیں ، معین اختر مرحوم نے کمپئیرنگ شروع کردی تھی ۔ اور سلمان گلوکار بھی موجود تھے ۔
برحال میں نے عمران خان سے کچھ انٹرویو کرنا تھا ۔۔ لہزا وہ گروپ مجھے ادھر لیکر چلا ۔ عمران خان سے ہاتھ ملایا ، انھوں نے کہا کہ ایسا کرتے ہیں کہ ادھر ہی میز پر بیٹھ جاتے ہیں تاکہ میں اسٹیج پر نظر رکھ سکوں ، میں اور عمران خان امنے سامنے کی بجائے کرسیاں جوڑ کرساتھ بیٹھ گئے اور باتیں کرنے لگے ، لمببی ناتتین ہوئیں لیکن خاص خاص باتیں ہی زکر کرسکتا ہوں ،
ایک سوال جو مجھےاب یاد رہ گیا ہے کہ کنتا فنڈ ریز ہوسکتا ہے ،
میرا خیال تھا وہ کہے گا تیس چالس ہزار ڈالر ۔
لیکن عمران خان نے کہا کہ چار لاکھ ڈالر کم از کم تو میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا ، رات کے بارہ بج رہے تھے تو صرف تیں بجے تک تین گھنٹے میں ََ؟
عمران خان نے کہا کہ چار لاکھ تو کچھ بھی نہیں میں لاس اینجلس سے سات لاکھ ڈالر اکتھے کرکے ارہا ہوں لیکن یہاں ٹارگٹ چھوٹا کردیا ہے کیونکہ معین اختر دیر کررہا ہے ،
اتنی دیر میں عمران خان نے معین اختر کو اشارے سے بلایا وہ آیا ؤیا تو عمران خان نے اس کو ڈانٹا دیر کیوں کررہے ہیں ، رات زیادہ ہورہی ہے ، لوگ نکل جائیں گے ،
معین اخٹر نے کہا عمران بھائی میں جلدی شو کرتا ہوں تھوڑا سا کنٹرول کرتا ہوں میجمنٹ کو ، معیں اختر نے مجھے بھی سلام کیا اور ملاقات رکھنے کو کہا ۔
اتنی دیر میں گلوکار سلمان نے گانا شروع کردیا تو لوگ مصروف ہوگئے ۔
بات چیت کے دوران عمران خان نے مجھ سے ایسی با ت کہی کہ بہت متاثر ہوا، عمران خان نے کہا کہ پاکستان کے سارے ادارے تباہ ہوچکے ہیں ،کوئی بھی ملک اداروں سے چلتا ہے ، اگر ہم نے پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بنانا ہے تو ہمیں سب سے پہلے ادارے بنانا ہوں گے ، عمران خان کی بات نے مجھے متاثر کیا کیونکہ پہلی بار کسی سیاستدان نے ایسی بات کی تھی ، اس وقت مٰن تھوڑا بہت نوازشریف سے مایوس تھا ۔ کافی دیر بات چیت کے بعد میں اٹھ گیا ،
عمران خان کے کسی قریبی نے میری گروپ پکچر لے لی اور اگلے ہفتے مجھے دی ورنہ میرے پاس اس سے ملاقات کی کوئی پکچر بھی نہ ہوتی کیونکہ میں نے اس کے ساتھ کوئی فوٹو سیسشن نہیں کروایا۔
چکاچوند ماحول میں میوزک چل رہا تھا ، میں لوگوں کے ساتھ باہر آآیا تو تازہ ہوا کا لطف ہی دوبالا ہوگیا ، وہاں انھوں نے ٹھنڈی بئیر کا انتظام کیا ہوا تھا، ہم نے بئیر کے کین کھولے اور مارلبورو سگریٹ کے کش لگانے لگے ۔ دو گھنٹے تک بئیر پیتے رہے اور کش لگاتے رہے ،
ہال میں واپس گئے تو فنڈ ریزنگ ہورہی تھی ، کوئی تین سو دالر تو کوئی تین ہزار ڈالر کا اعلان سٹیج پر چڑھ کر کررہا تھا ، کوئی کریڈذٹ کارڈ دے رہا تھا تو کوئی کییش لین زیادہ تر لوگ چیک دے رہے تھے۔
عمران خان کی بات یادگئی کہ کافی لوگ شہرت کے لئے بھی سٹیج پر چڑھ کر ڈونیشن کا اعلان کرتے ہیں لیکن بعد میں فون بھی اٹینڈ نہیں کرتے ۔ بہت مشکل کام تھا عمران خان کا، میں بہت متاثر ہوا کہ چالاک دیسی ڈراموں سے پیسے نکلوانا واقعی زہانت کا کمال ہے ۔
عمران خان کی شخصیت سحرانگیز ہے اور کوئی شک نہیں ، میں نے دئکھا کہ الیٹ کلاس کے مرد اور عورتیں عمران خان کے ساتھ گروپ پکچر لینے کے لئے درخواست کررہے تھے ، عمران خان مشینی انداز سے ان کی درخواست قبول کرکے فوٹو کھنچوا رہا تھا ، اس کو تو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ اس کے ساتھ گروپ فوٹو کھنچوانے کے لیے کؤ کون کون لوگ کھڑے ہیں لیکن وہ تو اپنے گھر کے ڈرائینگ روم میں اپنی فوٹو فخر کے ساتھ لگائیں گے ۔
اس رات عمران خان نے چار لاکھ ڈالر تین گھنٹے میں اکٹھے کر لئے جو صرف اس کی شخصیت کا کمال ہے ورنہ دیسی بندے کی جیب سے پیسہ نکلوانا بہت مشکل کام ہوتا ہے ، یہ بات مجھے معین اختر نے بتائی ،
پہلے جب معین اختر سے میری ہال میں ملاقات ہوئی تو وہ اکڑ میں تھا لیکن جب بعد مٰں عمران خان سے میری بات چیت دیکھی اور پھر میرا اس سے پورا تعارف ہوا تو معین اختر کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی اور اصرار کرنے لگا کہ پلیز کراچی میں مجھ سے ایک ملاقات رکھنئی پے ۔
اٹھارہ سال پہلے کے موسم سرما کا زکر ۔ کچھ دوستوں نے کنٹیکٹ کیا کہ عمران خان کا نیویارک میں فنڈ ریزنگ ہے ، کمیونٹی کو متحرک کرنا ہے ۔ عرض کیا میں کیا متحرک کروں گا ؟ خود کو بیڈ سے نکالنے کے کے لئے ادھا دن چاہئے ، جواب ملا کوئی بات نہیں ،بس شریک ہوجاؤ ،
اس وقت امیرکہ میں نیانیا تھا ، تھوڑا بہت نیویارک شہرہی کو جانتا تھا ۔ ٹرین سروس استعمال کرتا تھا ، ڈرائیونگ نہیں آتی تھی بلکہ ایک سال بعد سیکھی اور پھر اپنی کار خریدی۔
معلوم ہوا عمران خان لاس اینجلس سے نیویارک کینسر اسپتال کے لئے فنڈ ریزنگ کے لئے ارہا ہے اور اجتماع لانگ آئی لینڈ کے شہر Hantington میں ہوگا جو میری رہائش گاہ سے تقریبا پچاس میل کے فاصلے پر جو کلومیٹر میں شاید ستر کے ایم بنتا ہوگا۔ جن لوگوں نے کنٹکٹ کیا تھا وہ عمران خان کے قریبی دوست تھے اور مسقبل میں اس کے سیاسی پروگرام سے اگاہ اور کافی پرجوش تھے ، مجھے یہ اطلاعات تو جنگ کراچی کے زمانہ صحافت سے تھیں کہ عمران خان کے سیاسی عزئم ہیں لیکن اب امریکا میں اس کے قریبی دوستوں سے کنفرم ہورہا تھا۔
شام کو وہ گروپ لمبی کالی کاروں کے ساتھ پک اپ کرکے چل پڑا تو احساس ہونا شروع ہوچکا تھا کہ عمران خان کے حمایتی پاکستان کی کس ہائی کلاس سے تعلق رکھتے ہیں ۔
نیویارک سٹی سے لانگ ایئ لینڈ میں داخل ہوئے تو سرسبز چوڑی ہائی ویز اور بڑے بڑے مینشن دیکھ کر امریکا کی دولت اور خوشحالی کا احساس ہونے لگا ۔ جب ہنٹگتٹن سٹی ایک گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد پہنچے تو احساس ہوا کہ یہ خالص گورے امریکنز کا شہر ہے ، بہت صاف ستھرا ، اڑھی ترچھی سڑکیں ، لب سڑک فینسی ریسٹورنٹ اور گورے گوریاں ڈرنگ ، ڈنر کررہے ، تونیویارک شہر کے رش اور بے تحاشا لوگوں کے تناظر میں پرسکون اور خوب صورت چھوٹا سا شہر لگا ۔ لیکن اسی وقت کسی نے یہ کہہ کر میرے ارمانوں پر اوس ڈال دی کہ یہاں ایک گھر کا کرایہ ہی چار ہزار ڈالر مایانہ کم سے کم ہے ،
خیر ہمیں کیا ، ہم تو عمران خان کے فنڈ ریزنگ کو دیکھنے آئے تھے ۔ ہال میں پہمچے اور گاڑی پارک کی تو جو چمکتی بڑی بڑی سینکڑوں گاڑیوں کی لائیں دیکھیں تو وہیں سے ساری بات سمجھ اگئی ، ہال بھی بہت شاندار تھا ، قیمتی فانوس لٹک رہے تھے اور رات میں دن کا سماں ہورہا تھا ، سیکڑوں پاکستانی عورتیں اور مرد ، قیمی لباس میں ملبوس ، بنے تھنے ہال میں ،وجود اور کچھ ادھر ادھر گھوم بھی رہے تھے،
میں دل میں سوچ رہا تھا کہ اس ماحول اور خوشحالی دیکھ کر کون یقین کرے گا کہ پاکستان غریب ملک ہے ، یہ ایک نئی دنیا تھی ، وہ دنیا جن کا شاید پاکستان کے عام ادمی سے کبھی واسطہ بھی نہ پڑا ہو، ٹیرھے لجے میں انگلش یا انلگش نما پنجابی بولنے ، سگار پھونکنے اور خواتین میک اب اور قیمتی زیورات میں لدی پھندی ۔
دیکھا کہ سٹیج پر کچھ سازندے بیٹھے ہیں ، معین اختر مرحوم نے کمپئیرنگ شروع کردی تھی ۔ اور سلمان گلوکار بھی موجود تھے ۔
برحال میں نے عمران خان سے کچھ انٹرویو کرنا تھا ۔۔ لہزا وہ گروپ مجھے ادھر لیکر چلا ۔ عمران خان سے ہاتھ ملایا ، انھوں نے کہا کہ ایسا کرتے ہیں کہ ادھر ہی میز پر بیٹھ جاتے ہیں تاکہ میں اسٹیج پر نظر رکھ سکوں ، میں اور عمران خان امنے سامنے کی بجائے کرسیاں جوڑ کرساتھ بیٹھ گئے اور باتیں کرنے لگے ، لمببی ناتتین ہوئیں لیکن خاص خاص باتیں ہی زکر کرسکتا ہوں ،
ایک سوال جو مجھےاب یاد رہ گیا ہے کہ کنتا فنڈ ریز ہوسکتا ہے ،
میرا خیال تھا وہ کہے گا تیس چالس ہزار ڈالر ۔
لیکن عمران خان نے کہا کہ چار لاکھ ڈالر کم از کم تو میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا ، رات کے بارہ بج رہے تھے تو صرف تیں بجے تک تین گھنٹے میں ََ؟
عمران خان نے کہا کہ چار لاکھ تو کچھ بھی نہیں میں لاس اینجلس سے سات لاکھ ڈالر اکتھے کرکے ارہا ہوں لیکن یہاں ٹارگٹ چھوٹا کردیا ہے کیونکہ معین اختر دیر کررہا ہے ،
اتنی دیر میں عمران خان نے معین اختر کو اشارے سے بلایا وہ آیا ؤیا تو عمران خان نے اس کو ڈانٹا دیر کیوں کررہے ہیں ، رات زیادہ ہورہی ہے ، لوگ نکل جائیں گے ،
معین اخٹر نے کہا عمران بھائی میں جلدی شو کرتا ہوں تھوڑا سا کنٹرول کرتا ہوں میجمنٹ کو ، معیں اختر نے مجھے بھی سلام کیا اور ملاقات رکھنے کو کہا ۔
اتنی دیر میں گلوکار سلمان نے گانا شروع کردیا تو لوگ مصروف ہوگئے ۔
بات چیت کے دوران عمران خان نے مجھ سے ایسی با ت کہی کہ بہت متاثر ہوا، عمران خان نے کہا کہ پاکستان کے سارے ادارے تباہ ہوچکے ہیں ،کوئی بھی ملک اداروں سے چلتا ہے ، اگر ہم نے پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بنانا ہے تو ہمیں سب سے پہلے ادارے بنانا ہوں گے ، عمران خان کی بات نے مجھے متاثر کیا کیونکہ پہلی بار کسی سیاستدان نے ایسی بات کی تھی ، اس وقت مٰن تھوڑا بہت نوازشریف سے مایوس تھا ۔ کافی دیر بات چیت کے بعد میں اٹھ گیا ،
عمران خان کے کسی قریبی نے میری گروپ پکچر لے لی اور اگلے ہفتے مجھے دی ورنہ میرے پاس اس سے ملاقات کی کوئی پکچر بھی نہ ہوتی کیونکہ میں نے اس کے ساتھ کوئی فوٹو سیسشن نہیں کروایا۔
چکاچوند ماحول میں میوزک چل رہا تھا ، میں لوگوں کے ساتھ باہر آآیا تو تازہ ہوا کا لطف ہی دوبالا ہوگیا ، وہاں انھوں نے ٹھنڈی بئیر کا انتظام کیا ہوا تھا، ہم نے بئیر کے کین کھولے اور مارلبورو سگریٹ کے کش لگانے لگے ۔ دو گھنٹے تک بئیر پیتے رہے اور کش لگاتے رہے ،
ہال میں واپس گئے تو فنڈ ریزنگ ہورہی تھی ، کوئی تین سو دالر تو کوئی تین ہزار ڈالر کا اعلان سٹیج پر چڑھ کر کررہا تھا ، کوئی کریڈذٹ کارڈ دے رہا تھا تو کوئی کییش لین زیادہ تر لوگ چیک دے رہے تھے۔
عمران خان کی بات یادگئی کہ کافی لوگ شہرت کے لئے بھی سٹیج پر چڑھ کر ڈونیشن کا اعلان کرتے ہیں لیکن بعد میں فون بھی اٹینڈ نہیں کرتے ۔ بہت مشکل کام تھا عمران خان کا، میں بہت متاثر ہوا کہ چالاک دیسی ڈراموں سے پیسے نکلوانا واقعی زہانت کا کمال ہے ۔
عمران خان کی شخصیت سحرانگیز ہے اور کوئی شک نہیں ، میں نے دئکھا کہ الیٹ کلاس کے مرد اور عورتیں عمران خان کے ساتھ گروپ پکچر لینے کے لئے درخواست کررہے تھے ، عمران خان مشینی انداز سے ان کی درخواست قبول کرکے فوٹو کھنچوا رہا تھا ، اس کو تو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ اس کے ساتھ گروپ فوٹو کھنچوانے کے لیے کؤ کون کون لوگ کھڑے ہیں لیکن وہ تو اپنے گھر کے ڈرائینگ روم میں اپنی فوٹو فخر کے ساتھ لگائیں گے ۔
اس رات عمران خان نے چار لاکھ ڈالر تین گھنٹے میں اکٹھے کر لئے جو صرف اس کی شخصیت کا کمال ہے ورنہ دیسی بندے کی جیب سے پیسہ نکلوانا بہت مشکل کام ہوتا ہے ، یہ بات مجھے معین اختر نے بتائی ،
پہلے جب معین اختر سے میری ہال میں ملاقات ہوئی تو وہ اکڑ میں تھا لیکن جب بعد مٰں عمران خان سے میری بات چیت دیکھی اور پھر میرا اس سے پورا تعارف ہوا تو معین اختر کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی اور اصرار کرنے لگا کہ پلیز کراچی میں مجھ سے ایک ملاقات رکھنئی پے ۔
اٹھارہ سال پہلے کے موسم سرما کا زکر ۔ کچھ دوستوں نے کنٹیکٹ کیا کہ عمران خان کا نیویارک میں فنڈ ریزنگ ہے ، کمیونٹی کو متحرک کرنا ہے ۔ عرض کیا میں کیا متحرک کروں گا ؟ خود کو بیڈ سے نکالنے کے کے لئے ادھا دن چاہئے ، جواب ملا کوئی بات نہیں ،بس شریک ہوجاؤ ،
اس وقت امیرکہ میں نیانیا تھا ، تھوڑا بہت نیویارک شہرہی کو جانتا تھا ۔ ٹرین سروس استعمال کرتا تھا ، ڈرائیونگ نہیں آتی تھی بلکہ ایک سال بعد سیکھی اور پھر اپنی کار خریدی۔
معلوم ہوا عمران خان لاس اینجلس سے نیویارک کینسر اسپتال کے لئے فنڈ ریزنگ کے لئے ارہا ہے اور اجتماع لانگ آئی لینڈ کے شہر Hantington میں ہوگا جو میری رہائش گاہ سے تقریبا پچاس میل کے فاصلے پر جو کلومیٹر میں شاید ستر کے ایم بنتا ہوگا۔ جن لوگوں نے کنٹکٹ کیا تھا وہ عمران خان کے قریبی دوست تھے اور مسقبل میں اس کے سیاسی پروگرام سے اگاہ اور کافی پرجوش تھے ، مجھے یہ اطلاعات تو جنگ کراچی کے زمانہ صحافت سے تھیں کہ عمران خان کے سیاسی عزئم ہیں لیکن اب امریکا میں اس کے قریبی دوستوں سے کنفرم ہورہا تھا۔
شام کو وہ گروپ لمبی کالی کاروں کے ساتھ پک اپ کرکے چل پڑا تو احساس ہونا شروع ہوچکا تھا کہ عمران خان کے حمایتی پاکستان کی کس ہائی کلاس سے تعلق رکھتے ہیں ۔
نیویارک سٹی سے لانگ ایئ لینڈ میں داخل ہوئے تو سرسبز چوڑی ہائی ویز اور بڑے بڑے مینشن دیکھ کر امریکا کی دولت اور خوشحالی کا احساس ہونے لگا ۔ جب ہنٹگتٹن سٹی ایک گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد پہنچے تو احساس ہوا کہ یہ خالص گورے امریکنز کا شہر ہے ، بہت صاف ستھرا ، اڑھی ترچھی سڑکیں ، لب سڑک فینسی ریسٹورنٹ اور گورے گوریاں ڈرنگ ، ڈنر کررہے ، تونیویارک شہر کے رش اور بے تحاشا لوگوں کے تناظر میں پرسکون اور خوب صورت چھوٹا سا شہر لگا ۔ لیکن اسی وقت کسی نے یہ کہہ کر میرے ارمانوں پر اوس ڈال دی کہ یہاں ایک گھر کا کرایہ ہی چار ہزار ڈالر مایانہ کم سے کم ہے ،
خیر ہمیں کیا ، ہم تو عمران خان کے فنڈ ریزنگ کو دیکھنے آئے تھے ۔ ہال میں پہمچے اور گاڑی پارک کی تو جو چمکتی بڑی بڑی سینکڑوں گاڑیوں کی لائیں دیکھیں تو وہیں سے ساری بات سمجھ اگئی ، ہال بھی بہت شاندار تھا ، قیمتی فانوس لٹک رہے تھے اور رات میں دن کا سماں ہورہا تھا ، سیکڑوں پاکستانی عورتیں اور مرد ، قیمی لباس میں ملبوس ، بنے تھنے ہال میں ،وجود اور کچھ ادھر ادھر گھوم بھی رہے تھے،
میں دل میں سوچ رہا تھا کہ اس ماحول اور خوشحالی دیکھ کر کون یقین کرے گا کہ پاکستان غریب ملک ہے ، یہ ایک نئی دنیا تھی ، وہ دنیا جن کا شاید پاکستان کے عام ادمی سے کبھی واسطہ بھی نہ پڑا ہو، ٹیرھے لجے میں انگلش یا انلگش نما پنجابی بولنے ، سگار پھونکنے اور خواتین میک اب اور قیمتی زیورات میں لدی پھندی ۔
دیکھا کہ سٹیج پر کچھ سازندے بیٹھے ہیں ، معین اختر مرحوم نے کمپئیرنگ شروع کردی تھی ۔ اور سلمان گلوکار بھی موجود تھے ۔
برحال میں نے عمران خان سے کچھ انٹرویو کرنا تھا ۔۔ لہزا وہ گروپ مجھے ادھر لیکر چلا ۔ عمران خان سے ہاتھ ملایا ، انھوں نے کہا کہ ایسا کرتے ہیں کہ ادھر ہی میز پر بیٹھ جاتے ہیں تاکہ میں اسٹیج پر نظر رکھ سکوں ، میں اور عمران خان امنے سامنے کی بجائے کرسیاں جوڑ کرساتھ بیٹھ گئے اور باتیں کرنے لگے ، لمببی ناتتین ہوئیں لیکن خاص خاص باتیں ہی زکر کرسکتا ہوں ،
ایک سوال جو مجھےاب یاد رہ گیا ہے کہ کنتا فنڈ ریز ہوسکتا ہے ،
میرا خیال تھا وہ کہے گا تیس چالس ہزار ڈالر ۔
لیکن عمران خان نے کہا کہ چار لاکھ ڈالر کم از کم تو میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا ، رات کے بارہ بج رہے تھے تو صرف تیں بجے تک تین گھنٹے میں ََ؟
عمران خان نے کہا کہ چار لاکھ تو کچھ بھی نہیں میں لاس اینجلس سے سات لاکھ ڈالر اکتھے کرکے ارہا ہوں لیکن یہاں ٹارگٹ چھوٹا کردیا ہے کیونکہ معین اختر دیر کررہا ہے ،
اتنی دیر میں عمران خان نے معین اختر کو اشارے سے بلایا وہ آیا ؤیا تو عمران خان نے اس کو ڈانٹا دیر کیوں کررہے ہیں ، رات زیادہ ہورہی ہے ، لوگ نکل جائیں گے ،
معین اخٹر نے کہا عمران بھائی میں جلدی شو کرتا ہوں تھوڑا سا کنٹرول کرتا ہوں میجمنٹ کو ، معیں اختر نے مجھے بھی سلام کیا اور ملاقات رکھنے کو کہا ۔
اتنی دیر میں گلوکار سلمان نے گانا شروع کردیا تو لوگ مصروف ہوگئے ۔
بات چیت کے دوران عمران خان نے مجھ سے ایسی با ت کہی کہ بہت متاثر ہوا، عمران خان نے کہا کہ پاکستان کے سارے ادارے تباہ ہوچکے ہیں ،کوئی بھی ملک اداروں سے چلتا ہے ، اگر ہم نے پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بنانا ہے تو ہمیں سب سے پہلے ادارے بنانا ہوں گے ، عمران خان کی بات نے مجھے متاثر کیا کیونکہ پہلی بار کسی سیاستدان نے ایسی بات کی تھی ، اس وقت مٰن تھوڑا بہت نوازشریف سے مایوس تھا ۔ کافی دیر بات چیت کے بعد میں اٹھ گیا ،
عمران خان کے کسی قریبی نے میری گروپ پکچر لے لی اور اگلے ہفتے مجھے دی ورنہ میرے پاس اس سے ملاقات کی کوئی پکچر بھی نہ ہوتی کیونکہ میں نے اس کے ساتھ کوئی فوٹو سیسشن نہیں کروایا۔
چکاچوند ماحول میں میوزک چل رہا تھا ، میں لوگوں کے ساتھ باہر آآیا تو تازہ ہوا کا لطف ہی دوبالا ہوگیا ، وہاں انھوں نے ٹھنڈی بئیر کا انتظام کیا ہوا تھا، ہم نے بئیر کے کین کھولے اور مارلبورو سگریٹ کے کش لگانے لگے ۔ دو گھنٹے تک بئیر پیتے رہے اور کش لگاتے رہے ،
ہال میں واپس گئے تو فنڈ ریزنگ ہورہی تھی ، کوئی تین سو دالر تو کوئی تین ہزار ڈالر کا اعلان سٹیج پر چڑھ کر کررہا تھا ، کوئی کریڈذٹ کارڈ دے رہا تھا تو کوئی کییش لین زیادہ تر لوگ چیک دے رہے تھے۔
عمران خان کی بات یادگئی کہ کافی لوگ شہرت کے لئے بھی سٹیج پر چڑھ کر ڈونیشن کا اعلان کرتے ہیں لیکن بعد میں فون بھی اٹینڈ نہیں کرتے ۔ بہت مشکل کام تھا عمران خان کا، میں بہت متاثر ہوا کہ چالاک دیسی ڈراموں سے پیسے نکلوانا واقعی زہانت کا کمال ہے ۔
عمران خان کی شخصیت سحرانگیز ہے اور کوئی شک نہیں ، میں نے دئکھا کہ الیٹ کلاس کے مرد اور عورتیں عمران خان کے ساتھ گروپ پکچر لینے کے لئے درخواست کررہے تھے ، عمران خان مشینی انداز سے ان کی درخواست قبول کرکے فوٹو کھنچوا رہا تھا ، اس کو تو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ اس کے ساتھ گروپ فوٹو کھنچوانے کے لیے کؤ کون کون لوگ کھڑے ہیں لیکن وہ تو اپنے گھر کے ڈرائینگ روم میں اپنی فوٹو فخر کے ساتھ لگائیں گے ۔
اس رات عمران خان نے چار لاکھ ڈالر تین گھنٹے میں اکٹھے کر لئے جو صرف اس کی شخصیت کا کمال ہے ورنہ دیسی بندے کی جیب سے پیسہ نکلوانا بہت مشکل کام ہوتا ہے ، یہ بات مجھے معین اختر نے بتائی ،
پہلے جب معین اختر سے میری ہال میں ملاقات ہوئی تو وہ اکڑ میں تھا لیکن جب بعد مٰں عمران خان سے میری بات چیت دیکھی اور پھر میرا اس سے پورا تعارف ہوا تو معین اختر کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی اور اصرار کرنے لگا کہ پلیز کراچی میں مجھ سے ایک ملاقات رکھنئی پے ۔