Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
آج اردو کے صف اول کے مزاح نگار جناب مشتاق احمد یوسفی کو بچھڑے دو سال بیت گئے۔ جناب مشتاق احمد یوسفی 4 ستمبر 1921ء کو ٹونک (بھارت) میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے ایم اے کیا اور پھر بنکاری کے شعبے کو ذریعہ معاش بنایا۔ وہ کئی بنکوں کے سربراہ رہے اور پاکستان بینکنگ کونسل کے چیئرمین کے عہدے پر بھی فائز رہے۔
مشتاق احمد یوسفی کا شمار اردو کے صف اوّل کے مزاح نگاروں میں ہوتا تھا۔ ان کی تصانیف میں چراغ تلے، خاکم بدہن، زرگزشت،آب گم اور شام شعر یاراں کے نام شامل ہیں۔ ظہیر فتح پوری نے ان کی تحریروں کے بارے میں کہا تھا کہ ہم اردو مزاح کے عہد یوسفی میں جی رہے ہیں۔
جناب مشتاق احمد یوسفی کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز کے اعزازات سے سرفراز کیا گیا تھا جبکہ اکادمی ادبیات پاکستان نے انھیں پاکستان کا سب سے بڑا ادبی اعزاز کمال فن ایوارڈ عطا کیا تھا۔
( تصویر بشکریہ وقار شیرانی )
آج اردو کے صف اول کے مزاح نگار جناب مشتاق احمد یوسفی کو بچھڑے دو سال بیت گئے۔ جناب مشتاق احمد یوسفی 4 ستمبر 1921ء کو ٹونک (بھارت) میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے ایم اے کیا اور پھر بنکاری کے شعبے کو ذریعہ معاش بنایا۔ وہ کئی بنکوں کے سربراہ رہے اور پاکستان بینکنگ کونسل کے چیئرمین کے عہدے پر بھی فائز رہے۔
مشتاق احمد یوسفی کا شمار اردو کے صف اوّل کے مزاح نگاروں میں ہوتا تھا۔ ان کی تصانیف میں چراغ تلے، خاکم بدہن، زرگزشت،آب گم اور شام شعر یاراں کے نام شامل ہیں۔ ظہیر فتح پوری نے ان کی تحریروں کے بارے میں کہا تھا کہ ہم اردو مزاح کے عہد یوسفی میں جی رہے ہیں۔
جناب مشتاق احمد یوسفی کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز کے اعزازات سے سرفراز کیا گیا تھا جبکہ اکادمی ادبیات پاکستان نے انھیں پاکستان کا سب سے بڑا ادبی اعزاز کمال فن ایوارڈ عطا کیا تھا۔
( تصویر بشکریہ وقار شیرانی )
آج اردو کے صف اول کے مزاح نگار جناب مشتاق احمد یوسفی کو بچھڑے دو سال بیت گئے۔ جناب مشتاق احمد یوسفی 4 ستمبر 1921ء کو ٹونک (بھارت) میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے ایم اے کیا اور پھر بنکاری کے شعبے کو ذریعہ معاش بنایا۔ وہ کئی بنکوں کے سربراہ رہے اور پاکستان بینکنگ کونسل کے چیئرمین کے عہدے پر بھی فائز رہے۔
مشتاق احمد یوسفی کا شمار اردو کے صف اوّل کے مزاح نگاروں میں ہوتا تھا۔ ان کی تصانیف میں چراغ تلے، خاکم بدہن، زرگزشت،آب گم اور شام شعر یاراں کے نام شامل ہیں۔ ظہیر فتح پوری نے ان کی تحریروں کے بارے میں کہا تھا کہ ہم اردو مزاح کے عہد یوسفی میں جی رہے ہیں۔
جناب مشتاق احمد یوسفی کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز کے اعزازات سے سرفراز کیا گیا تھا جبکہ اکادمی ادبیات پاکستان نے انھیں پاکستان کا سب سے بڑا ادبی اعزاز کمال فن ایوارڈ عطا کیا تھا۔
( تصویر بشکریہ وقار شیرانی )
آج اردو کے صف اول کے مزاح نگار جناب مشتاق احمد یوسفی کو بچھڑے دو سال بیت گئے۔ جناب مشتاق احمد یوسفی 4 ستمبر 1921ء کو ٹونک (بھارت) میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے ایم اے کیا اور پھر بنکاری کے شعبے کو ذریعہ معاش بنایا۔ وہ کئی بنکوں کے سربراہ رہے اور پاکستان بینکنگ کونسل کے چیئرمین کے عہدے پر بھی فائز رہے۔
مشتاق احمد یوسفی کا شمار اردو کے صف اوّل کے مزاح نگاروں میں ہوتا تھا۔ ان کی تصانیف میں چراغ تلے، خاکم بدہن، زرگزشت،آب گم اور شام شعر یاراں کے نام شامل ہیں۔ ظہیر فتح پوری نے ان کی تحریروں کے بارے میں کہا تھا کہ ہم اردو مزاح کے عہد یوسفی میں جی رہے ہیں۔
جناب مشتاق احمد یوسفی کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز کے اعزازات سے سرفراز کیا گیا تھا جبکہ اکادمی ادبیات پاکستان نے انھیں پاکستان کا سب سے بڑا ادبی اعزاز کمال فن ایوارڈ عطا کیا تھا۔
( تصویر بشکریہ وقار شیرانی )