Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
آج امی کی باتیں بہت یاد آرہی ہیں۔ بچپن میں اماں نے ایک سبق دیا تھا کہ بڑوں کی بات ماننا یعنی اطاعت کرنا ہی بندگی ہے۔
جب میں نے پوچھا وہ کیسے اماں نے بتایا کہ کس طرح ابلیس نے خالق جہاں کی بات نہ مانی اور اطاعت نہ کی۔ اس کا نام شیطان بھی اس لئے پڑا کیونکہ وہ بڑا جلدباز، تندخو، مشتعل مزاج اور شریر وسرکش تھا۔
اس کا کام بندے کو اپنے راستے پر ڈالنا اور اس کے دل میں لالچ پیدا کرنا ہے تاکہ انسان بھٹک جائے۔
بچپن میں سنی یہ بات اور دین سے دوری اسے زیادہ سمجھنے کا موقع نہ دے سکی یا کہہ لیں ابلیس کامیاب رہا اور ہم جیسوں کو اپنی پارٹی میں شامل کرگیا۔ کیونکہ ہمارے نزدیک اس کے مخالفین میں داڑھیوں والے ملا حضرات ہیں وہ بھی بڑھ چڑھ کر تلقین کرتے رہتے۔ ان سے بھی اکثر ہمیں کنی کترانا پڑتی۔
اماں کہتی کہ انسان نے درست کا فیصلہ اپنے دل اور دماغ سے کرنا ہوتا یے۔ آگاہی اور گمراہی کا فرق بعض اوقات مشکل ہوجاتا ہے۔ اس کا تعین انسانی عقل کرتی ہے۔
اماں نے سمجھایا کہ دین کی پارٹی اختیار کرلینا ہی ضروری نہیں۔ پہلے اس بات کو جانچ لینا ہوگا کہ صحیح راستہ کیا ہے۔ ہم اپنی زندگی کے بارے میں کیا کچھ اور کتنی جانکاری رکھتے ہیں۔ انسان کی دنیا میں آمد کا کوئی مقصد ہے یا محض کھانے پینے اوڑھنے اور اولاد پیدا کرکے اس کی پرورش ہی بنیادی ذمہ داری ہے۔
اماں کا کہنا تھا ہم اس دنیا اور یہاں اپنے قیام کو ایک حد تک سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ چند روزہ زندگی کو اصل زندگی جان کر دوڑ دھوپ کرتے ہیں۔ ہمارا رب کہتا ہے کہ دنیا میں کسی کو ہمیشہ کی زندگی نہیں بخشی گئی۔ یہاں سب نے واپس جانا ہے اور ہر جان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا اور نہ کبھی کیا ہے۔
اماں بتاتی تھیں کہ دنیا میں غربت وامارت، دکھ اور سکھ، رنج اور راحت صرف امتحان کے لئے ہیں۔ انسان عجلت کےخمیر سے پیدا ہوا ہے۔
رب بندے سے کہتا ہے تم لوگ جلدی نہ مچاو، مذاق اڑانے والے بہت جلدباز واقع ہوئے ہیں۔
اماں کا کہنا تھا آدمی سمجھتا ہے کہ دنیا میں عزت واقتدار جو اسے حاصل ہوا ہے وہ اس کا موروثی حق دار ہے۔ حکمران فیصلہ سازی میں اکثر بھول جاتے ہیں کہ وہ بندوں کے ساتھ اصل حاکم اعلی کے سامنے بھی جوابدہ ہیں۔ وہ کوئی من مرضی یا اپنے فائدے کا حکم جاری نہیں کرسکتے۔ جو بنی نوع انسان کی فلاح یا رب کے قانون سے متصادم ہو۔
اماں بتاتی کہ رب اپنے بندے سے کہتا یے کہ دعا کرو۔ اے اللہ! بادشاہی تیری یے تو جسے چایے بادشاہی دے جس سے چاہے چھین لے۔ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے۔
اماں بتاتی تھیں کہ انسان کی دنیا میں آمد کا مکمل اختیار صرف رب کی ذات کو ہے۔ یہاں تک اپنے پیاروں ابراھیم،زکریا اور مریم کی مثالیں ہیں جن کے ہاں بڑھاپے میں یا پھر کسی انسانی تعلق کے بغیر اولاد ہوئی۔
اماں نے کہا کہ یہ ساری باتیں محض اس لئے بتائی ہیں۔ کیونکہ بندہ اپنے خالق کی تعریف اور دنیا میں بھیجے جانے کی غرض و غایت فراموش کئے رہتا ہے۔ وہ کسی بھی حیثیت میں ہو، یہ اس کی آزمائش ہے،اس حالت میں اپنے خالق کو یاد نہ رکھنے والا شاید بہت خسارے میں رہتا ہے۔
میں اماں سے پوچھتا یہ سب آپ کو کس نے بتایا ان کا جواب ہوتا کہ رب کی کتاب اور نبی کی احادیث میں ایک ایک بات درج ہے۔
اماں کہتی تھیں کہ زندگی میں بعض اوقات اتنے کڑے امتحان آجاتے ہیں کہ بڑے بڑے عالم اور رب کے نام لیوا بھی کمزور پڑجاتے ہیں وہ دنیاوی سہارے اور اسباب میں خود کو گم کردیتے ہیں۔
مجھے یہ بات تھوڑی عجیب لگتی کہ معاملات دنیا میں ہی حل کرنے پھر اس بات کا مطلب کیا؟
اماں وضاحت کرتیں کہ انسان نے زندگی ضرور دوسرے کے ساتھ مل کر گزارنا ہوتی ہے اکیلے کوئی جنگلوں میں بھی اپنا گزر بسر نہیں کرسکتا۔ وہاں بھی اس کے لئے جاندار پھل اور آگ پانی کا وسیلہ ہوتا یے۔ اگر ان وسائل کو ذاتی یا انسانی کاوش اور تخلیق جان لیں تو ہماری حماقت ہے۔
اماں ایک تعلیم یافتہ خاتون تھیں وہ کہتیں، میں جانتی ہوں سائنس علم یے وہ انسانی ذھن کی بنائی ہوئی ہے لیکن یہ بھول جاوں میرا دل اور دماغ رب کی دین ہے یا میری ذاتی صلاحیتوں کے نتیجے میں کام کرتا یے تو پھر میں نے بہت بڑا شرک کیا ہے۔
اماں ایسی باتیں کرتی بڑی عالمہ لگتی تھیں لیکن ہم نے بھی ان کی نہ ماننے کی ٹھان لی تھی۔ اب اماں کی باتیں یاد آتی ہیں تو کچھ کچھ بندگی کی سمجھ اتی ہے۔
معلوم نہیں وہ یہ کیوں کہتی کہ اپنی پارٹی بدل لو تم نے جس کا دامن تھام رکھا ہے وہ تمہارا کھلا دشمن ہے، وہ تمہیں گمراہ کرکے چھوڑے گا۔
نہ جانے آج اماں کی یہ باتیں کیوں یاد آرہی ہیں۔
آج امی کی باتیں بہت یاد آرہی ہیں۔ بچپن میں اماں نے ایک سبق دیا تھا کہ بڑوں کی بات ماننا یعنی اطاعت کرنا ہی بندگی ہے۔
جب میں نے پوچھا وہ کیسے اماں نے بتایا کہ کس طرح ابلیس نے خالق جہاں کی بات نہ مانی اور اطاعت نہ کی۔ اس کا نام شیطان بھی اس لئے پڑا کیونکہ وہ بڑا جلدباز، تندخو، مشتعل مزاج اور شریر وسرکش تھا۔
اس کا کام بندے کو اپنے راستے پر ڈالنا اور اس کے دل میں لالچ پیدا کرنا ہے تاکہ انسان بھٹک جائے۔
بچپن میں سنی یہ بات اور دین سے دوری اسے زیادہ سمجھنے کا موقع نہ دے سکی یا کہہ لیں ابلیس کامیاب رہا اور ہم جیسوں کو اپنی پارٹی میں شامل کرگیا۔ کیونکہ ہمارے نزدیک اس کے مخالفین میں داڑھیوں والے ملا حضرات ہیں وہ بھی بڑھ چڑھ کر تلقین کرتے رہتے۔ ان سے بھی اکثر ہمیں کنی کترانا پڑتی۔
اماں کہتی کہ انسان نے درست کا فیصلہ اپنے دل اور دماغ سے کرنا ہوتا یے۔ آگاہی اور گمراہی کا فرق بعض اوقات مشکل ہوجاتا ہے۔ اس کا تعین انسانی عقل کرتی ہے۔
اماں نے سمجھایا کہ دین کی پارٹی اختیار کرلینا ہی ضروری نہیں۔ پہلے اس بات کو جانچ لینا ہوگا کہ صحیح راستہ کیا ہے۔ ہم اپنی زندگی کے بارے میں کیا کچھ اور کتنی جانکاری رکھتے ہیں۔ انسان کی دنیا میں آمد کا کوئی مقصد ہے یا محض کھانے پینے اوڑھنے اور اولاد پیدا کرکے اس کی پرورش ہی بنیادی ذمہ داری ہے۔
اماں کا کہنا تھا ہم اس دنیا اور یہاں اپنے قیام کو ایک حد تک سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ چند روزہ زندگی کو اصل زندگی جان کر دوڑ دھوپ کرتے ہیں۔ ہمارا رب کہتا ہے کہ دنیا میں کسی کو ہمیشہ کی زندگی نہیں بخشی گئی۔ یہاں سب نے واپس جانا ہے اور ہر جان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا اور نہ کبھی کیا ہے۔
اماں بتاتی تھیں کہ دنیا میں غربت وامارت، دکھ اور سکھ، رنج اور راحت صرف امتحان کے لئے ہیں۔ انسان عجلت کےخمیر سے پیدا ہوا ہے۔
رب بندے سے کہتا ہے تم لوگ جلدی نہ مچاو، مذاق اڑانے والے بہت جلدباز واقع ہوئے ہیں۔
اماں کا کہنا تھا آدمی سمجھتا ہے کہ دنیا میں عزت واقتدار جو اسے حاصل ہوا ہے وہ اس کا موروثی حق دار ہے۔ حکمران فیصلہ سازی میں اکثر بھول جاتے ہیں کہ وہ بندوں کے ساتھ اصل حاکم اعلی کے سامنے بھی جوابدہ ہیں۔ وہ کوئی من مرضی یا اپنے فائدے کا حکم جاری نہیں کرسکتے۔ جو بنی نوع انسان کی فلاح یا رب کے قانون سے متصادم ہو۔
اماں بتاتی کہ رب اپنے بندے سے کہتا یے کہ دعا کرو۔ اے اللہ! بادشاہی تیری یے تو جسے چایے بادشاہی دے جس سے چاہے چھین لے۔ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے۔
اماں بتاتی تھیں کہ انسان کی دنیا میں آمد کا مکمل اختیار صرف رب کی ذات کو ہے۔ یہاں تک اپنے پیاروں ابراھیم،زکریا اور مریم کی مثالیں ہیں جن کے ہاں بڑھاپے میں یا پھر کسی انسانی تعلق کے بغیر اولاد ہوئی۔
اماں نے کہا کہ یہ ساری باتیں محض اس لئے بتائی ہیں۔ کیونکہ بندہ اپنے خالق کی تعریف اور دنیا میں بھیجے جانے کی غرض و غایت فراموش کئے رہتا ہے۔ وہ کسی بھی حیثیت میں ہو، یہ اس کی آزمائش ہے،اس حالت میں اپنے خالق کو یاد نہ رکھنے والا شاید بہت خسارے میں رہتا ہے۔
میں اماں سے پوچھتا یہ سب آپ کو کس نے بتایا ان کا جواب ہوتا کہ رب کی کتاب اور نبی کی احادیث میں ایک ایک بات درج ہے۔
اماں کہتی تھیں کہ زندگی میں بعض اوقات اتنے کڑے امتحان آجاتے ہیں کہ بڑے بڑے عالم اور رب کے نام لیوا بھی کمزور پڑجاتے ہیں وہ دنیاوی سہارے اور اسباب میں خود کو گم کردیتے ہیں۔
مجھے یہ بات تھوڑی عجیب لگتی کہ معاملات دنیا میں ہی حل کرنے پھر اس بات کا مطلب کیا؟
اماں وضاحت کرتیں کہ انسان نے زندگی ضرور دوسرے کے ساتھ مل کر گزارنا ہوتی ہے اکیلے کوئی جنگلوں میں بھی اپنا گزر بسر نہیں کرسکتا۔ وہاں بھی اس کے لئے جاندار پھل اور آگ پانی کا وسیلہ ہوتا یے۔ اگر ان وسائل کو ذاتی یا انسانی کاوش اور تخلیق جان لیں تو ہماری حماقت ہے۔
اماں ایک تعلیم یافتہ خاتون تھیں وہ کہتیں، میں جانتی ہوں سائنس علم یے وہ انسانی ذھن کی بنائی ہوئی ہے لیکن یہ بھول جاوں میرا دل اور دماغ رب کی دین ہے یا میری ذاتی صلاحیتوں کے نتیجے میں کام کرتا یے تو پھر میں نے بہت بڑا شرک کیا ہے۔
اماں ایسی باتیں کرتی بڑی عالمہ لگتی تھیں لیکن ہم نے بھی ان کی نہ ماننے کی ٹھان لی تھی۔ اب اماں کی باتیں یاد آتی ہیں تو کچھ کچھ بندگی کی سمجھ اتی ہے۔
معلوم نہیں وہ یہ کیوں کہتی کہ اپنی پارٹی بدل لو تم نے جس کا دامن تھام رکھا ہے وہ تمہارا کھلا دشمن ہے، وہ تمہیں گمراہ کرکے چھوڑے گا۔
نہ جانے آج اماں کی یہ باتیں کیوں یاد آرہی ہیں۔
آج امی کی باتیں بہت یاد آرہی ہیں۔ بچپن میں اماں نے ایک سبق دیا تھا کہ بڑوں کی بات ماننا یعنی اطاعت کرنا ہی بندگی ہے۔
جب میں نے پوچھا وہ کیسے اماں نے بتایا کہ کس طرح ابلیس نے خالق جہاں کی بات نہ مانی اور اطاعت نہ کی۔ اس کا نام شیطان بھی اس لئے پڑا کیونکہ وہ بڑا جلدباز، تندخو، مشتعل مزاج اور شریر وسرکش تھا۔
اس کا کام بندے کو اپنے راستے پر ڈالنا اور اس کے دل میں لالچ پیدا کرنا ہے تاکہ انسان بھٹک جائے۔
بچپن میں سنی یہ بات اور دین سے دوری اسے زیادہ سمجھنے کا موقع نہ دے سکی یا کہہ لیں ابلیس کامیاب رہا اور ہم جیسوں کو اپنی پارٹی میں شامل کرگیا۔ کیونکہ ہمارے نزدیک اس کے مخالفین میں داڑھیوں والے ملا حضرات ہیں وہ بھی بڑھ چڑھ کر تلقین کرتے رہتے۔ ان سے بھی اکثر ہمیں کنی کترانا پڑتی۔
اماں کہتی کہ انسان نے درست کا فیصلہ اپنے دل اور دماغ سے کرنا ہوتا یے۔ آگاہی اور گمراہی کا فرق بعض اوقات مشکل ہوجاتا ہے۔ اس کا تعین انسانی عقل کرتی ہے۔
اماں نے سمجھایا کہ دین کی پارٹی اختیار کرلینا ہی ضروری نہیں۔ پہلے اس بات کو جانچ لینا ہوگا کہ صحیح راستہ کیا ہے۔ ہم اپنی زندگی کے بارے میں کیا کچھ اور کتنی جانکاری رکھتے ہیں۔ انسان کی دنیا میں آمد کا کوئی مقصد ہے یا محض کھانے پینے اوڑھنے اور اولاد پیدا کرکے اس کی پرورش ہی بنیادی ذمہ داری ہے۔
اماں کا کہنا تھا ہم اس دنیا اور یہاں اپنے قیام کو ایک حد تک سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ چند روزہ زندگی کو اصل زندگی جان کر دوڑ دھوپ کرتے ہیں۔ ہمارا رب کہتا ہے کہ دنیا میں کسی کو ہمیشہ کی زندگی نہیں بخشی گئی۔ یہاں سب نے واپس جانا ہے اور ہر جان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا اور نہ کبھی کیا ہے۔
اماں بتاتی تھیں کہ دنیا میں غربت وامارت، دکھ اور سکھ، رنج اور راحت صرف امتحان کے لئے ہیں۔ انسان عجلت کےخمیر سے پیدا ہوا ہے۔
رب بندے سے کہتا ہے تم لوگ جلدی نہ مچاو، مذاق اڑانے والے بہت جلدباز واقع ہوئے ہیں۔
اماں کا کہنا تھا آدمی سمجھتا ہے کہ دنیا میں عزت واقتدار جو اسے حاصل ہوا ہے وہ اس کا موروثی حق دار ہے۔ حکمران فیصلہ سازی میں اکثر بھول جاتے ہیں کہ وہ بندوں کے ساتھ اصل حاکم اعلی کے سامنے بھی جوابدہ ہیں۔ وہ کوئی من مرضی یا اپنے فائدے کا حکم جاری نہیں کرسکتے۔ جو بنی نوع انسان کی فلاح یا رب کے قانون سے متصادم ہو۔
اماں بتاتی کہ رب اپنے بندے سے کہتا یے کہ دعا کرو۔ اے اللہ! بادشاہی تیری یے تو جسے چایے بادشاہی دے جس سے چاہے چھین لے۔ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے۔
اماں بتاتی تھیں کہ انسان کی دنیا میں آمد کا مکمل اختیار صرف رب کی ذات کو ہے۔ یہاں تک اپنے پیاروں ابراھیم،زکریا اور مریم کی مثالیں ہیں جن کے ہاں بڑھاپے میں یا پھر کسی انسانی تعلق کے بغیر اولاد ہوئی۔
اماں نے کہا کہ یہ ساری باتیں محض اس لئے بتائی ہیں۔ کیونکہ بندہ اپنے خالق کی تعریف اور دنیا میں بھیجے جانے کی غرض و غایت فراموش کئے رہتا ہے۔ وہ کسی بھی حیثیت میں ہو، یہ اس کی آزمائش ہے،اس حالت میں اپنے خالق کو یاد نہ رکھنے والا شاید بہت خسارے میں رہتا ہے۔
میں اماں سے پوچھتا یہ سب آپ کو کس نے بتایا ان کا جواب ہوتا کہ رب کی کتاب اور نبی کی احادیث میں ایک ایک بات درج ہے۔
اماں کہتی تھیں کہ زندگی میں بعض اوقات اتنے کڑے امتحان آجاتے ہیں کہ بڑے بڑے عالم اور رب کے نام لیوا بھی کمزور پڑجاتے ہیں وہ دنیاوی سہارے اور اسباب میں خود کو گم کردیتے ہیں۔
مجھے یہ بات تھوڑی عجیب لگتی کہ معاملات دنیا میں ہی حل کرنے پھر اس بات کا مطلب کیا؟
اماں وضاحت کرتیں کہ انسان نے زندگی ضرور دوسرے کے ساتھ مل کر گزارنا ہوتی ہے اکیلے کوئی جنگلوں میں بھی اپنا گزر بسر نہیں کرسکتا۔ وہاں بھی اس کے لئے جاندار پھل اور آگ پانی کا وسیلہ ہوتا یے۔ اگر ان وسائل کو ذاتی یا انسانی کاوش اور تخلیق جان لیں تو ہماری حماقت ہے۔
اماں ایک تعلیم یافتہ خاتون تھیں وہ کہتیں، میں جانتی ہوں سائنس علم یے وہ انسانی ذھن کی بنائی ہوئی ہے لیکن یہ بھول جاوں میرا دل اور دماغ رب کی دین ہے یا میری ذاتی صلاحیتوں کے نتیجے میں کام کرتا یے تو پھر میں نے بہت بڑا شرک کیا ہے۔
اماں ایسی باتیں کرتی بڑی عالمہ لگتی تھیں لیکن ہم نے بھی ان کی نہ ماننے کی ٹھان لی تھی۔ اب اماں کی باتیں یاد آتی ہیں تو کچھ کچھ بندگی کی سمجھ اتی ہے۔
معلوم نہیں وہ یہ کیوں کہتی کہ اپنی پارٹی بدل لو تم نے جس کا دامن تھام رکھا ہے وہ تمہارا کھلا دشمن ہے، وہ تمہیں گمراہ کرکے چھوڑے گا۔
نہ جانے آج اماں کی یہ باتیں کیوں یاد آرہی ہیں۔
آج امی کی باتیں بہت یاد آرہی ہیں۔ بچپن میں اماں نے ایک سبق دیا تھا کہ بڑوں کی بات ماننا یعنی اطاعت کرنا ہی بندگی ہے۔
جب میں نے پوچھا وہ کیسے اماں نے بتایا کہ کس طرح ابلیس نے خالق جہاں کی بات نہ مانی اور اطاعت نہ کی۔ اس کا نام شیطان بھی اس لئے پڑا کیونکہ وہ بڑا جلدباز، تندخو، مشتعل مزاج اور شریر وسرکش تھا۔
اس کا کام بندے کو اپنے راستے پر ڈالنا اور اس کے دل میں لالچ پیدا کرنا ہے تاکہ انسان بھٹک جائے۔
بچپن میں سنی یہ بات اور دین سے دوری اسے زیادہ سمجھنے کا موقع نہ دے سکی یا کہہ لیں ابلیس کامیاب رہا اور ہم جیسوں کو اپنی پارٹی میں شامل کرگیا۔ کیونکہ ہمارے نزدیک اس کے مخالفین میں داڑھیوں والے ملا حضرات ہیں وہ بھی بڑھ چڑھ کر تلقین کرتے رہتے۔ ان سے بھی اکثر ہمیں کنی کترانا پڑتی۔
اماں کہتی کہ انسان نے درست کا فیصلہ اپنے دل اور دماغ سے کرنا ہوتا یے۔ آگاہی اور گمراہی کا فرق بعض اوقات مشکل ہوجاتا ہے۔ اس کا تعین انسانی عقل کرتی ہے۔
اماں نے سمجھایا کہ دین کی پارٹی اختیار کرلینا ہی ضروری نہیں۔ پہلے اس بات کو جانچ لینا ہوگا کہ صحیح راستہ کیا ہے۔ ہم اپنی زندگی کے بارے میں کیا کچھ اور کتنی جانکاری رکھتے ہیں۔ انسان کی دنیا میں آمد کا کوئی مقصد ہے یا محض کھانے پینے اوڑھنے اور اولاد پیدا کرکے اس کی پرورش ہی بنیادی ذمہ داری ہے۔
اماں کا کہنا تھا ہم اس دنیا اور یہاں اپنے قیام کو ایک حد تک سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ چند روزہ زندگی کو اصل زندگی جان کر دوڑ دھوپ کرتے ہیں۔ ہمارا رب کہتا ہے کہ دنیا میں کسی کو ہمیشہ کی زندگی نہیں بخشی گئی۔ یہاں سب نے واپس جانا ہے اور ہر جان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا اور نہ کبھی کیا ہے۔
اماں بتاتی تھیں کہ دنیا میں غربت وامارت، دکھ اور سکھ، رنج اور راحت صرف امتحان کے لئے ہیں۔ انسان عجلت کےخمیر سے پیدا ہوا ہے۔
رب بندے سے کہتا ہے تم لوگ جلدی نہ مچاو، مذاق اڑانے والے بہت جلدباز واقع ہوئے ہیں۔
اماں کا کہنا تھا آدمی سمجھتا ہے کہ دنیا میں عزت واقتدار جو اسے حاصل ہوا ہے وہ اس کا موروثی حق دار ہے۔ حکمران فیصلہ سازی میں اکثر بھول جاتے ہیں کہ وہ بندوں کے ساتھ اصل حاکم اعلی کے سامنے بھی جوابدہ ہیں۔ وہ کوئی من مرضی یا اپنے فائدے کا حکم جاری نہیں کرسکتے۔ جو بنی نوع انسان کی فلاح یا رب کے قانون سے متصادم ہو۔
اماں بتاتی کہ رب اپنے بندے سے کہتا یے کہ دعا کرو۔ اے اللہ! بادشاہی تیری یے تو جسے چایے بادشاہی دے جس سے چاہے چھین لے۔ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے۔
اماں بتاتی تھیں کہ انسان کی دنیا میں آمد کا مکمل اختیار صرف رب کی ذات کو ہے۔ یہاں تک اپنے پیاروں ابراھیم،زکریا اور مریم کی مثالیں ہیں جن کے ہاں بڑھاپے میں یا پھر کسی انسانی تعلق کے بغیر اولاد ہوئی۔
اماں نے کہا کہ یہ ساری باتیں محض اس لئے بتائی ہیں۔ کیونکہ بندہ اپنے خالق کی تعریف اور دنیا میں بھیجے جانے کی غرض و غایت فراموش کئے رہتا ہے۔ وہ کسی بھی حیثیت میں ہو، یہ اس کی آزمائش ہے،اس حالت میں اپنے خالق کو یاد نہ رکھنے والا شاید بہت خسارے میں رہتا ہے۔
میں اماں سے پوچھتا یہ سب آپ کو کس نے بتایا ان کا جواب ہوتا کہ رب کی کتاب اور نبی کی احادیث میں ایک ایک بات درج ہے۔
اماں کہتی تھیں کہ زندگی میں بعض اوقات اتنے کڑے امتحان آجاتے ہیں کہ بڑے بڑے عالم اور رب کے نام لیوا بھی کمزور پڑجاتے ہیں وہ دنیاوی سہارے اور اسباب میں خود کو گم کردیتے ہیں۔
مجھے یہ بات تھوڑی عجیب لگتی کہ معاملات دنیا میں ہی حل کرنے پھر اس بات کا مطلب کیا؟
اماں وضاحت کرتیں کہ انسان نے زندگی ضرور دوسرے کے ساتھ مل کر گزارنا ہوتی ہے اکیلے کوئی جنگلوں میں بھی اپنا گزر بسر نہیں کرسکتا۔ وہاں بھی اس کے لئے جاندار پھل اور آگ پانی کا وسیلہ ہوتا یے۔ اگر ان وسائل کو ذاتی یا انسانی کاوش اور تخلیق جان لیں تو ہماری حماقت ہے۔
اماں ایک تعلیم یافتہ خاتون تھیں وہ کہتیں، میں جانتی ہوں سائنس علم یے وہ انسانی ذھن کی بنائی ہوئی ہے لیکن یہ بھول جاوں میرا دل اور دماغ رب کی دین ہے یا میری ذاتی صلاحیتوں کے نتیجے میں کام کرتا یے تو پھر میں نے بہت بڑا شرک کیا ہے۔
اماں ایسی باتیں کرتی بڑی عالمہ لگتی تھیں لیکن ہم نے بھی ان کی نہ ماننے کی ٹھان لی تھی۔ اب اماں کی باتیں یاد آتی ہیں تو کچھ کچھ بندگی کی سمجھ اتی ہے۔
معلوم نہیں وہ یہ کیوں کہتی کہ اپنی پارٹی بدل لو تم نے جس کا دامن تھام رکھا ہے وہ تمہارا کھلا دشمن ہے، وہ تمہیں گمراہ کرکے چھوڑے گا۔
نہ جانے آج اماں کی یہ باتیں کیوں یاد آرہی ہیں۔