آج پاکستان کے نامور صحافی، مصنف اور آزادی صحافت کے علم بردار جناب ضمیر نیازی کا یوم وفات ہے۔ ضمیر نیازی کا اصل نام ابراہیم جان محمد درویش تھا اور وہ 8 مارچ 1927ءکو بمبئی میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ تحریک آزادی کے ایک پرجوش کارکن تھے اور انہوں نے 1942ءمیں ہندوستان چھوڑ دو کی تحریک سے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا اور صحافت کو اپنا ذریعہ اظہار بنایا۔ قیام پاکستان کے بعد وہ کراچی آگئے جہاں انہوں نے روزنامہ ڈان سے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز کیا۔ 1965ءمیں وہ روزنامہ بزنس ریکارڈر سے منسلک ہوئے اور پھر اپنی ریٹائرمنٹ تک اسی اخبار سے وابستہ رہے۔
ضمیر نیازی نے 1986ءمیں پریس ان چینز کے نام سے پاکستانی صحافت پر گزرنے والی پابندیوں کی داستان تحریر کی۔ یہ کتاب بے حد مقبول ہوئی اور اس کے متعدد ایڈیشن اور تراجم شائع ہوئے۔ اس کے بعد جناب ضمیر نیازی نے 1992ءمیں پریس انڈر سیج اور 1994ءمیں ویب آف سینسر شپ کے نام سے مزید دو کتابیں تحریر کیں جن میں صحافت پر حکومتی اور مختلف تنظیموں کے دباﺅ اور پاکستان میں سنسر شپ کی تاریخ رقم کی گئی تھی۔ ان کی دیگر تصانیف میں باغبان صحرا ، انگلیاں فگار اپنی، حکایات خونچکاں اور پاکستان کے ایٹمی دھماکے کے ردعمل میں لکھی گئی
تحریروں کا انتخاب زمین کا نوحہ شامل یں۔1994ء میں حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا جسے اگلے برس کراچی کے چھ اخبارات پر پابندی عائد ہونے کے بعد انہوں نے احتجاجاً واپس کردیا تھا۔ انہیں جامعہ کراچی نے بھی ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کرنے کا اعلان کیا تھا مگر انہوں نے اسے قبول کرنے کے لئے گورنر ہاﺅس جانے سے انکار کردیا تھا۔
جناب ضمیر نیازی 11 جون 2004ء کو کراچی میں وفات پاگئے اور ابو الحسن اصفہانی روڈ پر واقع قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔