Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
کرتے ورتے ہم کچھ نہیں، باتیں ہم سے جتنی مرضی کرا لو۔اگر کوئی کچھ کرتا ہے تو اس کے عیب نکالنے کا فن خوب سیکھ لیا ہے۔راستے کھولنے کے چکر میں ذھن نہیں کھل پائے، سڑکیں اور پل بناتے ہیں، دل جوڑ نے اور تعلق نبھانے نہیں آئے۔ کسی کی ڈھارس بندھانی ہو، غم ہلکا کرنا ہو، کسی سے پرسہ کرنا ہو، مشکل میں ہاتھ بڑھانا ہو، کسی کو راہ دکھانی ہو، یہ سب ہمارے اندر کبھی پناہ گزیں نہ ہوسکی۔اگر ایسا کرنے والا کوئی پیدا ہوجائے تو وہ کھٹکنے لگتا ہے ہم اس میں کچھ نہ کچھ بُرا تلاشتے ہیں۔
ہم نہ جانے کس مٹی کے بنے ہیں؟
انسان کی شناخت اس کی ذات، رنگ،نسل، مذہب، فرقے اور سماجی حیثیت میں ڈھونڈتے ہیں۔کسی کی سوچ، نظریئے اور کام کا اچھا پن بھی شناخت کے ان پیمانوں پر پرکھنے کے بعد درست اور غلط کا فیصلہ دیتے ہیں۔انسان سے محبت کرنے والے، دوسروں کا ہاتھ تھامنے والے، کسی کو راہ دکھانے والے، نہ جانے کیوں عجیب لگتے ہیں۔
غالب، اقبال ہو، فیض ہو، یہ کون تھے؟ دنیا نے مانا تو پھر ہمیں یقین آیا۔
وگرنہ ہم نے کچھ اچھا تو نہیں کیا ان کے ساتھ بھی۔ یہ بھی نظریئے اور مذہب کے ترازو پر رہے۔انسانی حقوق کی بات سب کرتے ہیں اسے باقاعدہ ادارے کی شکل دیکر مظلوم کی آواز بنانے والی خاتون کو بھی شناخت کے پیمانوں پر پرکھا۔
عاصمہ جہانگیر کے کام کو پوری دنیا نے تسلیم کیا۔ ہمارے لیے نہ جانے یہ مشکل کیوں رہا۔
وہ عورت اپنے حصے سے کہیں زیادہ کام کرگئی۔
ایک معمولی آدمی نے اپنے ہاتھ مدد کیلئے بڑھائے، لوگوں نے اس کی جھولی بھر دی۔
وہ اپنا اعتماد بنانے میں کچھ کامیاب ہوا، مشکل میں امداد کی پہچان ایدھی کہلائیمگر اس کو بھی متنازعہ بنانے میں دیر نہ لگائی۔وہ بے گوروکفن لاشوں کا وارث بن جاتا، مفلسی میں اپنوں کی تدفین نہ کرنے پانے والوں کا سہارا بنتا۔سماج میں دوسرے کیلئے مدد لینا اور مدد کرنا، ایدھی نے کرکے دکھایا۔
کسی کی ڈھارس بندھانی، مدد کیلئے ہاتھ بڑھانا، راستہ دکھانا سکھایا۔
خود غرضی سے بے نیاز ایک سادہ زندگی گزارنا بتایا۔
ایسا کچھ کیا کہ ناممکن کو ممکن کرگیا۔
ایدھی کو بھی سیاست اور کبھی مذہب کی تکڑی پر تولا گیا۔
اس کے کام کو آگے کیسے بڑھائیں، یہ کسی کو یاد نہیں۔
ہم عجیب لوگ ہیں پھر شناخت کے پیمانے ہاتھوں میں اٹھائے پھرتے ہیں۔
شاید ہم کرتے ورتے کچھ نہیں، باتیں جتنی مرضی ہم سے کرالو۔
دوسروں کے عیب نکالنے کا فن ہم نے خوب سیکھ لیا ہے۔
کرتے ورتے ہم کچھ نہیں، باتیں ہم سے جتنی مرضی کرا لو۔اگر کوئی کچھ کرتا ہے تو اس کے عیب نکالنے کا فن خوب سیکھ لیا ہے۔راستے کھولنے کے چکر میں ذھن نہیں کھل پائے، سڑکیں اور پل بناتے ہیں، دل جوڑ نے اور تعلق نبھانے نہیں آئے۔ کسی کی ڈھارس بندھانی ہو، غم ہلکا کرنا ہو، کسی سے پرسہ کرنا ہو، مشکل میں ہاتھ بڑھانا ہو، کسی کو راہ دکھانی ہو، یہ سب ہمارے اندر کبھی پناہ گزیں نہ ہوسکی۔اگر ایسا کرنے والا کوئی پیدا ہوجائے تو وہ کھٹکنے لگتا ہے ہم اس میں کچھ نہ کچھ بُرا تلاشتے ہیں۔
ہم نہ جانے کس مٹی کے بنے ہیں؟
انسان کی شناخت اس کی ذات، رنگ،نسل، مذہب، فرقے اور سماجی حیثیت میں ڈھونڈتے ہیں۔کسی کی سوچ، نظریئے اور کام کا اچھا پن بھی شناخت کے ان پیمانوں پر پرکھنے کے بعد درست اور غلط کا فیصلہ دیتے ہیں۔انسان سے محبت کرنے والے، دوسروں کا ہاتھ تھامنے والے، کسی کو راہ دکھانے والے، نہ جانے کیوں عجیب لگتے ہیں۔
غالب، اقبال ہو، فیض ہو، یہ کون تھے؟ دنیا نے مانا تو پھر ہمیں یقین آیا۔
وگرنہ ہم نے کچھ اچھا تو نہیں کیا ان کے ساتھ بھی۔ یہ بھی نظریئے اور مذہب کے ترازو پر رہے۔انسانی حقوق کی بات سب کرتے ہیں اسے باقاعدہ ادارے کی شکل دیکر مظلوم کی آواز بنانے والی خاتون کو بھی شناخت کے پیمانوں پر پرکھا۔
عاصمہ جہانگیر کے کام کو پوری دنیا نے تسلیم کیا۔ ہمارے لیے نہ جانے یہ مشکل کیوں رہا۔
وہ عورت اپنے حصے سے کہیں زیادہ کام کرگئی۔
ایک معمولی آدمی نے اپنے ہاتھ مدد کیلئے بڑھائے، لوگوں نے اس کی جھولی بھر دی۔
وہ اپنا اعتماد بنانے میں کچھ کامیاب ہوا، مشکل میں امداد کی پہچان ایدھی کہلائیمگر اس کو بھی متنازعہ بنانے میں دیر نہ لگائی۔وہ بے گوروکفن لاشوں کا وارث بن جاتا، مفلسی میں اپنوں کی تدفین نہ کرنے پانے والوں کا سہارا بنتا۔سماج میں دوسرے کیلئے مدد لینا اور مدد کرنا، ایدھی نے کرکے دکھایا۔
کسی کی ڈھارس بندھانی، مدد کیلئے ہاتھ بڑھانا، راستہ دکھانا سکھایا۔
خود غرضی سے بے نیاز ایک سادہ زندگی گزارنا بتایا۔
ایسا کچھ کیا کہ ناممکن کو ممکن کرگیا۔
ایدھی کو بھی سیاست اور کبھی مذہب کی تکڑی پر تولا گیا۔
اس کے کام کو آگے کیسے بڑھائیں، یہ کسی کو یاد نہیں۔
ہم عجیب لوگ ہیں پھر شناخت کے پیمانے ہاتھوں میں اٹھائے پھرتے ہیں۔
شاید ہم کرتے ورتے کچھ نہیں، باتیں جتنی مرضی ہم سے کرالو۔
دوسروں کے عیب نکالنے کا فن ہم نے خوب سیکھ لیا ہے۔
کرتے ورتے ہم کچھ نہیں، باتیں ہم سے جتنی مرضی کرا لو۔اگر کوئی کچھ کرتا ہے تو اس کے عیب نکالنے کا فن خوب سیکھ لیا ہے۔راستے کھولنے کے چکر میں ذھن نہیں کھل پائے، سڑکیں اور پل بناتے ہیں، دل جوڑ نے اور تعلق نبھانے نہیں آئے۔ کسی کی ڈھارس بندھانی ہو، غم ہلکا کرنا ہو، کسی سے پرسہ کرنا ہو، مشکل میں ہاتھ بڑھانا ہو، کسی کو راہ دکھانی ہو، یہ سب ہمارے اندر کبھی پناہ گزیں نہ ہوسکی۔اگر ایسا کرنے والا کوئی پیدا ہوجائے تو وہ کھٹکنے لگتا ہے ہم اس میں کچھ نہ کچھ بُرا تلاشتے ہیں۔
ہم نہ جانے کس مٹی کے بنے ہیں؟
انسان کی شناخت اس کی ذات، رنگ،نسل، مذہب، فرقے اور سماجی حیثیت میں ڈھونڈتے ہیں۔کسی کی سوچ، نظریئے اور کام کا اچھا پن بھی شناخت کے ان پیمانوں پر پرکھنے کے بعد درست اور غلط کا فیصلہ دیتے ہیں۔انسان سے محبت کرنے والے، دوسروں کا ہاتھ تھامنے والے، کسی کو راہ دکھانے والے، نہ جانے کیوں عجیب لگتے ہیں۔
غالب، اقبال ہو، فیض ہو، یہ کون تھے؟ دنیا نے مانا تو پھر ہمیں یقین آیا۔
وگرنہ ہم نے کچھ اچھا تو نہیں کیا ان کے ساتھ بھی۔ یہ بھی نظریئے اور مذہب کے ترازو پر رہے۔انسانی حقوق کی بات سب کرتے ہیں اسے باقاعدہ ادارے کی شکل دیکر مظلوم کی آواز بنانے والی خاتون کو بھی شناخت کے پیمانوں پر پرکھا۔
عاصمہ جہانگیر کے کام کو پوری دنیا نے تسلیم کیا۔ ہمارے لیے نہ جانے یہ مشکل کیوں رہا۔
وہ عورت اپنے حصے سے کہیں زیادہ کام کرگئی۔
ایک معمولی آدمی نے اپنے ہاتھ مدد کیلئے بڑھائے، لوگوں نے اس کی جھولی بھر دی۔
وہ اپنا اعتماد بنانے میں کچھ کامیاب ہوا، مشکل میں امداد کی پہچان ایدھی کہلائیمگر اس کو بھی متنازعہ بنانے میں دیر نہ لگائی۔وہ بے گوروکفن لاشوں کا وارث بن جاتا، مفلسی میں اپنوں کی تدفین نہ کرنے پانے والوں کا سہارا بنتا۔سماج میں دوسرے کیلئے مدد لینا اور مدد کرنا، ایدھی نے کرکے دکھایا۔
کسی کی ڈھارس بندھانی، مدد کیلئے ہاتھ بڑھانا، راستہ دکھانا سکھایا۔
خود غرضی سے بے نیاز ایک سادہ زندگی گزارنا بتایا۔
ایسا کچھ کیا کہ ناممکن کو ممکن کرگیا۔
ایدھی کو بھی سیاست اور کبھی مذہب کی تکڑی پر تولا گیا۔
اس کے کام کو آگے کیسے بڑھائیں، یہ کسی کو یاد نہیں۔
ہم عجیب لوگ ہیں پھر شناخت کے پیمانے ہاتھوں میں اٹھائے پھرتے ہیں۔
شاید ہم کرتے ورتے کچھ نہیں، باتیں جتنی مرضی ہم سے کرالو۔
دوسروں کے عیب نکالنے کا فن ہم نے خوب سیکھ لیا ہے۔
کرتے ورتے ہم کچھ نہیں، باتیں ہم سے جتنی مرضی کرا لو۔اگر کوئی کچھ کرتا ہے تو اس کے عیب نکالنے کا فن خوب سیکھ لیا ہے۔راستے کھولنے کے چکر میں ذھن نہیں کھل پائے، سڑکیں اور پل بناتے ہیں، دل جوڑ نے اور تعلق نبھانے نہیں آئے۔ کسی کی ڈھارس بندھانی ہو، غم ہلکا کرنا ہو، کسی سے پرسہ کرنا ہو، مشکل میں ہاتھ بڑھانا ہو، کسی کو راہ دکھانی ہو، یہ سب ہمارے اندر کبھی پناہ گزیں نہ ہوسکی۔اگر ایسا کرنے والا کوئی پیدا ہوجائے تو وہ کھٹکنے لگتا ہے ہم اس میں کچھ نہ کچھ بُرا تلاشتے ہیں۔
ہم نہ جانے کس مٹی کے بنے ہیں؟
انسان کی شناخت اس کی ذات، رنگ،نسل، مذہب، فرقے اور سماجی حیثیت میں ڈھونڈتے ہیں۔کسی کی سوچ، نظریئے اور کام کا اچھا پن بھی شناخت کے ان پیمانوں پر پرکھنے کے بعد درست اور غلط کا فیصلہ دیتے ہیں۔انسان سے محبت کرنے والے، دوسروں کا ہاتھ تھامنے والے، کسی کو راہ دکھانے والے، نہ جانے کیوں عجیب لگتے ہیں۔
غالب، اقبال ہو، فیض ہو، یہ کون تھے؟ دنیا نے مانا تو پھر ہمیں یقین آیا۔
وگرنہ ہم نے کچھ اچھا تو نہیں کیا ان کے ساتھ بھی۔ یہ بھی نظریئے اور مذہب کے ترازو پر رہے۔انسانی حقوق کی بات سب کرتے ہیں اسے باقاعدہ ادارے کی شکل دیکر مظلوم کی آواز بنانے والی خاتون کو بھی شناخت کے پیمانوں پر پرکھا۔
عاصمہ جہانگیر کے کام کو پوری دنیا نے تسلیم کیا۔ ہمارے لیے نہ جانے یہ مشکل کیوں رہا۔
وہ عورت اپنے حصے سے کہیں زیادہ کام کرگئی۔
ایک معمولی آدمی نے اپنے ہاتھ مدد کیلئے بڑھائے، لوگوں نے اس کی جھولی بھر دی۔
وہ اپنا اعتماد بنانے میں کچھ کامیاب ہوا، مشکل میں امداد کی پہچان ایدھی کہلائیمگر اس کو بھی متنازعہ بنانے میں دیر نہ لگائی۔وہ بے گوروکفن لاشوں کا وارث بن جاتا، مفلسی میں اپنوں کی تدفین نہ کرنے پانے والوں کا سہارا بنتا۔سماج میں دوسرے کیلئے مدد لینا اور مدد کرنا، ایدھی نے کرکے دکھایا۔
کسی کی ڈھارس بندھانی، مدد کیلئے ہاتھ بڑھانا، راستہ دکھانا سکھایا۔
خود غرضی سے بے نیاز ایک سادہ زندگی گزارنا بتایا۔
ایسا کچھ کیا کہ ناممکن کو ممکن کرگیا۔
ایدھی کو بھی سیاست اور کبھی مذہب کی تکڑی پر تولا گیا۔
اس کے کام کو آگے کیسے بڑھائیں، یہ کسی کو یاد نہیں۔
ہم عجیب لوگ ہیں پھر شناخت کے پیمانے ہاتھوں میں اٹھائے پھرتے ہیں۔
شاید ہم کرتے ورتے کچھ نہیں، باتیں جتنی مرضی ہم سے کرالو۔
دوسروں کے عیب نکالنے کا فن ہم نے خوب سیکھ لیا ہے۔