Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
مبینہ طور پر فوج کے ایک افسر کی بیوی ہونے کی دعویدار ایک خاتون کی ویڈیو سوشل میڈیا پر کافی وائرل ہوئی ہے ۔۔۔۔۔ خاتون نے پہلے تو ناکے پر موجود پولیس اہلکاروں پر اپنے خاوند کے رینک کا رعب جمانے کی کوشش کی ۔۔۔۔ پھر طاقتور ریاستی ادارے سے ڈرانا چاہا۔ جب اس سے بھی کام نہ چلا تو خاتون نے غیرمناسب زبان استعمال کی اور ناکہ توڑتے ہوئے اپنی گاڑی زبردستی ناکے سے گزار کر لے گئیں، جس کے بعد سے سوشل میڈیا پر وہ تماشا لگا ہوا کہ الامان الحفیظ! آئیے تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ محترمہ نے ناکے پر ایسا رویہ کیوں اختیار کیا ۔۔۔۔ ہمیں اس واقعہ کے مختلف اسباب پر لازمی غور کرنا چاہیے کہ آخر خاتون یکدم اتنا کیوں بھڑک اٹھیں؟ یہ درست نہیں ہوگا کہ ہم اس واقعہ کے محض ایک یا دو رخوں پر ہی بات کرتے رہیں، حالانکہ اس واقعہ کے کم از کم دس رخ ہوسکتے ہیں۔
دکھوں بھری ذاتی زندگی
کیا یہ ممکن ہے کہ محترمہ عام زندگی میں نہایت ملنسار اور مہذب خاتون ہوں، لیکن محترمہ کی ذاتی زندگی دکھوں سے بھری ہوئی ہو، ماہرین کے مطابق زندگی کے بعض ذاتی دکھ پیٹرول کی طرح ہوتے ہیں، جن کا نتیجہ بعض اوقات گدھے سے گر کر غصہ کمہار پر اتارنے کی صورت میں نکلتا ہے۔ یہ بھی طے ہے کہ خاتون مرد کے مقابلے میں جنس نازک سمجھ جاتی ہے۔ مرد اور عورت کیلئے دکھ اور غم کا پیمانہ بھی اسی لیے الگ الگ ہے، اندر ہی اندر کڑھنے والی عورتوں کا غصہ بسا اوقات اسی طرح نکلتا ہے۔ کیا اس واقعہ میں یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ کس طرح کے اندرونی روگ نے نازک آنگینے کو ٹھیس پہنچائی؟
کوئی نفسیاتی یا دماغی مرض
کیا یہ ممکن ہے کہ محترمہ کسی دماغی بیماری کا شکار ہو؟ ماہرین کے مطابق اسی طرح کی ایک عام بیماری “انٹرمٹنٹ ایکپلوسیو ڈس آرڈر” یعنی “اختلال انفجاری متناوب” کہلاتی ہے۔ اس بیماری میں مبتلا شخص یوں تو نارمل دکھائی دیتا ہے، لیکن کسی معمولی سی بات پر اچانک غصے سے آگ بگولہ ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے دماغی امرض میں مبتلا افراد دیکھنے میں بالکل نارمل لگتے ہیں، لیکن کوئی معمولی سی بات بھی ان کیلئے جلتی پر تیل کا کام کرسکتی ہے، ہم میں سے اکثر ان عوارض میں مبتلا ہوتے ہیں، لیکن ہم ان امراض کو رویہ سمجھتے رہتے ہیں اور کسی اچھے سائیکاٹرسٹ سے ان کا علاج کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔
فشار خون بالا
کیا یہ ممکن ہے کہ محترمہ فشار خون بالا یعنی ہایپر ٹینشن کی مریضہ ہو؟ فشار خون بالا جسے ایک خاموش قاتل بھی کہا جاتا ہے، چالیس سال کے بعد تو اکثر لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ ہارورڈ میڈیکل اسکول کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق یہ غصے کی انتہائی، جنونی اور بدترین شکل ہوتی ہے، جس میں کوئی شخص چیزیں اٹھا اٹھا کر پھینکا شروع کردیتا ہے، اسے خود پر ہی اپنا قابو نیں رہتا اور وہ ایسی حالت میں خود یا اپنے قریب موجود کسی بھی شخص کو انتہائی نقصان پہنچاسکتا ہے۔
پولیس والوں کا قصور
کیا یہ ممکن ہے کہ سارے واقعہ کی بنیاد پولیس نے نادانستہ طور پر خود رکھی ہو؟ کیا یہ ممکن ہے کہ پولیس والے نے ویڈیو بنانے سے پہلے محترمہ کو اس انداز میں اکسایا ہو، جس نے محترمہ کے غصے سے بھرے آئل ٹینکر کو ماچس کی تیلی دکھا دی ہو؟ وائرل ویڈیو کے مطابق ناکے پر رکی گاڑیوں کو دس منٹ سے زیادہ کا وقت گزر چکا تھا، اگرچہ یہ بہت زیادہ وقت نہیں ہوتا لیکن پولیس والا ویڈیو کیوں بنارہا تھا؟ کیا دستیاب ویڈیو سے پہلے بھی کوئی بات ہوچکی تھی؟ کیا اس سے پہلے بھی کوئی واقعہ یا تلخ کلامی ہوچکی ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ جیسے ہم سے ہر کوئی پولیس ناکوں پر لازمی اپنا، اپنے عہدے یا اپنے ادارے کا تعارف کراکے رعایت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو محترمہ نے بھی پہلے بڑے نارمل انداز میں تعارف کراکے بے وقت کے ناکے کی وجہ جاننی چاہی ہو؟ لیکن اس کے جواب میں پولیس کی جانب سے غیر مناسب یا روایتی درشت انداز اپنایا گیا ہو؟
کیا فرسٹریشن ایک عنصر تھا؟
کیا ممکن ہے کہ محترمہ نے یہ سب کچھ انتہائی فرسٹریشن کا شکار ہوکر کیا ہو؟ کیا یہ ممکن ہے کہ محترمہ نے جب ویڈیو بننے سے پہلے نارمل انداز میں تعارف کرایا ہو، لیکن پولیس اہلکار کی جانب سے مناسب جواب نہ ملنے پر محترمہ نے ہتک محسوس کرلی ہو؟ کیا اسی طرح فرسٹریشن کا شکار ہوکر ایک ڈاکٹر، ایک وکیل، ایک پولیس اہلکار اور ایک صحافی تک اکثر ایسا رویہ اختیار نہیں کرلیتے؟ کیا ہم میں سے ہر کوئی اس انداز میں نہیں دھمکاتا کہ “تم جانتے نہیں میں کون ہوں؟ میں کس ادارے میں کام کرتا ہوں؟ میری پہنچ کہاں تک ہے؟” وغیرہ وغیرہ
محترمہ کو جلدی کیوں تھی؟
کیا یہ ممکن ہے کہ محترمہ کو کہیں پہنچنے کی اتنی جلدی ہو کہ ان کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہو؟ لیکن پولیس اس کی بات نہ سمجھ پارہی ہو؟ مثال کے طور پر اگر آپ ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہوں تو آپ کیا کریں گے؟ کیا محترمہ کو اتنی جلدی دکھانے کی کوئی جینوئن وجہ تھی؟
جینیاتی ایشو
کیا یہ ممکن ہے کہ محترمہ کو یہ غصیلا رویہ اپنے جینز سے منتقل ہوا ہو؟ کیا یہ ممکن ہے کہ محترمہ کسی ایسے خاندان سے تعلق رکھتی ہو، جہاں یہ رویہ نارمل بات سمجھی جاتی ہو؟ مثال کے طور پر میں ذاتی طور پر ایسے بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں، جو آپس میں گالم گلوچ، لڑائی مار کٹائی اور سر پھٹول کے دس منٹ بعد بالکل نارمل دکھائی دے رہے ہوتے ہیں۔ اور جب انہیں دس منٹ پہلے والے واقعہ کے بارے میں یاد دلایا جائے تو وہ حیران ہوکر الٹا آپ کو تک رہے ہوتے ہیں کہ اس میں کیا غیرمعمولی بات ہوگئی؟ اسی طرح کیا یہ رویہ محترمہ کیلئے کوئی موروثی “روگ” تو نہیں؟
محترمہ کا پیداشی غرور
کیا یہ ممکن ہے کہ محترمہ واقعی مغرور ہو اور وہ دوسرے انسانوں کو انسان نہ سمجھتی ہو؟ محترمہ طبقاتی نظام کی داعی ہو، وہ اونچ نیچ پر یقین رکھتی ہو، اپنی ذات کے سوا محترمہ کو باقی سارے لوگ انسان کی بجائے محض کیڑے مکوڑے نظر آتے ہوں؟
بلڈی سویلین کا خناس
کیا یہ ممکن ہے کہ محترمہ کے ذہن میں واقعی وردی کا خناس بھرا ہوا ہو؟ محترمہ سمجھتی ہو کہ کسی کرنل جرنل کی بیوی ہونا واقعی کوئی ایسا تمغہ ہے، جس کے سامنے باقی ساری دنیا ہیچ محسوس ہوتی ہو؟ کیا ممکن ہے کہ اسی خناس کی وجہ سے محترمہ بتانا چاہتی ہو کہ بلڈی سویلین یا نیم بلڈی سویلین یعنی پولیس والے کی کیا اوقات ہوسکتی ہے؟
تربیت کی کمی یا غلط تربیت
سب سے اہم اور سب سے آخری نکتہ یہ ہے کیا یہ ممکن ہے کہ محترمہ کی شروع سے تربیت ہی اچھی نہ ہوئی ہو، سب کچھ محترمہ کو اپنے خاندان، اساتذہ اور ماحول کی تربیت سے ملا ہو؟ ممکن ہے کہ محترمہ نے اپنے موجودہ ماحول کا اثر لیا ہو یا پھر یہ کہ محترمہ کی تربیت اسی طرح کے ماحول میں ہوئی ہو؟
جب تربیت کی بات آتی ہے تو کیا یہ سوچنے والی بات نہیں کہ ناکے پر موجود پولیس اہلکاروں کی تربیت بھی ہوئی تھی یا نہیں؟ کیا پولیس اہلکاروں کو ایسی صورتحال سے نمٹنے کی تربیت دی جاتی ہے؟ کیا پولیس کے پاس ہر مسئلے کا یہی حل رہ جاتا ہے کہ احسن طریقے سے معاملے کو ہینڈل کرنے کی بجائے وہ بھی “ایسی کی تیسی” والی پالیسی اپنائیں رکھیں۔ اور پھر ایک اہم ترین سوال تو یہ بھی ہے کہ سوشل میڈیا پر اس واقعے سے اپنا اپنا غصہ اور اپنا اپنا بغض نکالنے والے “دانشوروں” کی تربیت کون کرے گا؟
وجہ ان میں سے کوئی بھی ہوسکتی ہے، لیکن یہ طے ہے کہ محترمہ نے ایک جرم کیا، اس جرم کی بھی ایک سزا ہے، اور ہر جرم کی طرح اس جرم کی سزا بھی ضرور ملنی چاہیے۔ جہاں تک بات ہے کہ فوج کی تو فوج سمیت مختلف اداروں نے جو غلطیاں کی ہیں، یقینا ان پر بات ہوسکتی ہے اور ہونی بھی چاہیے، لیکن تربیت نہ ہونے کے سبب اگر ہم کسی ایک خاندان یا کسی ایک ادارے کو نشانہ بنائیں گے تو کیا یہ مناسب ہوگا؟ یاد رکھیں کہ اس طرح کے رویے سے ہم صرف باہمی نفرتوں کو فروغ دیں گے، اور خلیج کو پاٹنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جائے گا۔
مبینہ طور پر فوج کے ایک افسر کی بیوی ہونے کی دعویدار ایک خاتون کی ویڈیو سوشل میڈیا پر کافی وائرل ہوئی ہے ۔۔۔۔۔ خاتون نے پہلے تو ناکے پر موجود پولیس اہلکاروں پر اپنے خاوند کے رینک کا رعب جمانے کی کوشش کی ۔۔۔۔ پھر طاقتور ریاستی ادارے سے ڈرانا چاہا۔ جب اس سے بھی کام نہ چلا تو خاتون نے غیرمناسب زبان استعمال کی اور ناکہ توڑتے ہوئے اپنی گاڑی زبردستی ناکے سے گزار کر لے گئیں، جس کے بعد سے سوشل میڈیا پر وہ تماشا لگا ہوا کہ الامان الحفیظ! آئیے تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ محترمہ نے ناکے پر ایسا رویہ کیوں اختیار کیا ۔۔۔۔ ہمیں اس واقعہ کے مختلف اسباب پر لازمی غور کرنا چاہیے کہ آخر خاتون یکدم اتنا کیوں بھڑک اٹھیں؟ یہ درست نہیں ہوگا کہ ہم اس واقعہ کے محض ایک یا دو رخوں پر ہی بات کرتے رہیں، حالانکہ اس واقعہ کے کم از کم دس رخ ہوسکتے ہیں۔
دکھوں بھری ذاتی زندگی
کیا یہ ممکن ہے کہ محترمہ عام زندگی میں نہایت ملنسار اور مہذب خاتون ہوں، لیکن محترمہ کی ذاتی زندگی دکھوں سے بھری ہوئی ہو، ماہرین کے مطابق زندگی کے بعض ذاتی دکھ پیٹرول کی طرح ہوتے ہیں، جن کا نتیجہ بعض اوقات گدھے سے گر کر غصہ کمہار پر اتارنے کی صورت میں نکلتا ہے۔ یہ بھی طے ہے کہ خاتون مرد کے مقابلے میں جنس نازک سمجھ جاتی ہے۔ مرد اور عورت کیلئے دکھ اور غم کا پیمانہ بھی اسی لیے الگ الگ ہے، اندر ہی اندر کڑھنے والی عورتوں کا غصہ بسا اوقات اسی طرح نکلتا ہے۔ کیا اس واقعہ میں یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ کس طرح کے اندرونی روگ نے نازک آنگینے کو ٹھیس پہنچائی؟
کوئی نفسیاتی یا دماغی مرض
کیا یہ ممکن ہے کہ محترمہ کسی دماغی بیماری کا شکار ہو؟ ماہرین کے مطابق اسی طرح کی ایک عام بیماری “انٹرمٹنٹ ایکپلوسیو ڈس آرڈر” یعنی “اختلال انفجاری متناوب” کہلاتی ہے۔ اس بیماری میں مبتلا شخص یوں تو نارمل دکھائی دیتا ہے، لیکن کسی معمولی سی بات پر اچانک غصے سے آگ بگولہ ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے دماغی امرض میں مبتلا افراد دیکھنے میں بالکل نارمل لگتے ہیں، لیکن کوئی معمولی سی بات بھی ان کیلئے جلتی پر تیل کا کام کرسکتی ہے، ہم میں سے اکثر ان عوارض میں مبتلا ہوتے ہیں، لیکن ہم ان امراض کو رویہ سمجھتے رہتے ہیں اور کسی اچھے سائیکاٹرسٹ سے ان کا علاج کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔
فشار خون بالا
کیا یہ ممکن ہے کہ محترمہ فشار خون بالا یعنی ہایپر ٹینشن کی مریضہ ہو؟ فشار خون بالا جسے ایک خاموش قاتل بھی کہا جاتا ہے، چالیس سال کے بعد تو اکثر لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ ہارورڈ میڈیکل اسکول کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق یہ غصے کی انتہائی، جنونی اور بدترین شکل ہوتی ہے، جس میں کوئی شخص چیزیں اٹھا اٹھا کر پھینکا شروع کردیتا ہے، اسے خود پر ہی اپنا قابو نیں رہتا اور وہ ایسی حالت میں خود یا اپنے قریب موجود کسی بھی شخص کو انتہائی نقصان پہنچاسکتا ہے۔
پولیس والوں کا قصور
کیا یہ ممکن ہے کہ سارے واقعہ کی بنیاد پولیس نے نادانستہ طور پر خود رکھی ہو؟ کیا یہ ممکن ہے کہ پولیس والے نے ویڈیو بنانے سے پہلے محترمہ کو اس انداز میں اکسایا ہو، جس نے محترمہ کے غصے سے بھرے آئل ٹینکر کو ماچس کی تیلی دکھا دی ہو؟ وائرل ویڈیو کے مطابق ناکے پر رکی گاڑیوں کو دس منٹ سے زیادہ کا وقت گزر چکا تھا، اگرچہ یہ بہت زیادہ وقت نہیں ہوتا لیکن پولیس والا ویڈیو کیوں بنارہا تھا؟ کیا دستیاب ویڈیو سے پہلے بھی کوئی بات ہوچکی تھی؟ کیا اس سے پہلے بھی کوئی واقعہ یا تلخ کلامی ہوچکی ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ جیسے ہم سے ہر کوئی پولیس ناکوں پر لازمی اپنا، اپنے عہدے یا اپنے ادارے کا تعارف کراکے رعایت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو محترمہ نے بھی پہلے بڑے نارمل انداز میں تعارف کراکے بے وقت کے ناکے کی وجہ جاننی چاہی ہو؟ لیکن اس کے جواب میں پولیس کی جانب سے غیر مناسب یا روایتی درشت انداز اپنایا گیا ہو؟
کیا فرسٹریشن ایک عنصر تھا؟
کیا ممکن ہے کہ محترمہ نے یہ سب کچھ انتہائی فرسٹریشن کا شکار ہوکر کیا ہو؟ کیا یہ ممکن ہے کہ محترمہ نے جب ویڈیو بننے سے پہلے نارمل انداز میں تعارف کرایا ہو، لیکن پولیس اہلکار کی جانب سے مناسب جواب نہ ملنے پر محترمہ نے ہتک محسوس کرلی ہو؟ کیا اسی طرح فرسٹریشن کا شکار ہوکر ایک ڈاکٹر، ایک وکیل، ایک پولیس اہلکار اور ایک صحافی تک اکثر ایسا رویہ اختیار نہیں کرلیتے؟ کیا ہم میں سے ہر کوئی اس انداز میں نہیں دھمکاتا کہ “تم جانتے نہیں میں کون ہوں؟ میں کس ادارے میں کام کرتا ہوں؟ میری پہنچ کہاں تک ہے؟” وغیرہ وغیرہ
محترمہ کو جلدی کیوں تھی؟
کیا یہ ممکن ہے کہ محترمہ کو کہیں پہنچنے کی اتنی جلدی ہو کہ ان کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہو؟ لیکن پولیس اس کی بات نہ سمجھ پارہی ہو؟ مثال کے طور پر اگر آپ ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہوں تو آپ کیا کریں گے؟ کیا محترمہ کو اتنی جلدی دکھانے کی کوئی جینوئن وجہ تھی؟
جینیاتی ایشو
کیا یہ ممکن ہے کہ محترمہ کو یہ غصیلا رویہ اپنے جینز سے منتقل ہوا ہو؟ کیا یہ ممکن ہے کہ محترمہ کسی ایسے خاندان سے تعلق رکھتی ہو، جہاں یہ رویہ نارمل بات سمجھی جاتی ہو؟ مثال کے طور پر میں ذاتی طور پر ایسے بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں، جو آپس میں گالم گلوچ، لڑائی مار کٹائی اور سر پھٹول کے دس منٹ بعد بالکل نارمل دکھائی دے رہے ہوتے ہیں۔ اور جب انہیں دس منٹ پہلے والے واقعہ کے بارے میں یاد دلایا جائے تو وہ حیران ہوکر الٹا آپ کو تک رہے ہوتے ہیں کہ اس میں کیا غیرمعمولی بات ہوگئی؟ اسی طرح کیا یہ رویہ محترمہ کیلئے کوئی موروثی “روگ” تو نہیں؟
محترمہ کا پیداشی غرور
کیا یہ ممکن ہے کہ محترمہ واقعی مغرور ہو اور وہ دوسرے انسانوں کو انسان نہ سمجھتی ہو؟ محترمہ طبقاتی نظام کی داعی ہو، وہ اونچ نیچ پر یقین رکھتی ہو، اپنی ذات کے سوا محترمہ کو باقی سارے لوگ انسان کی بجائے محض کیڑے مکوڑے نظر آتے ہوں؟
بلڈی سویلین کا خناس
کیا یہ ممکن ہے کہ محترمہ کے ذہن میں واقعی وردی کا خناس بھرا ہوا ہو؟ محترمہ سمجھتی ہو کہ کسی کرنل جرنل کی بیوی ہونا واقعی کوئی ایسا تمغہ ہے، جس کے سامنے باقی ساری دنیا ہیچ محسوس ہوتی ہو؟ کیا ممکن ہے کہ اسی خناس کی وجہ سے محترمہ بتانا چاہتی ہو کہ بلڈی سویلین یا نیم بلڈی سویلین یعنی پولیس والے کی کیا اوقات ہوسکتی ہے؟
تربیت کی کمی یا غلط تربیت
سب سے اہم اور سب سے آخری نکتہ یہ ہے کیا یہ ممکن ہے کہ محترمہ کی شروع سے تربیت ہی اچھی نہ ہوئی ہو، سب کچھ محترمہ کو اپنے خاندان، اساتذہ اور ماحول کی تربیت سے ملا ہو؟ ممکن ہے کہ محترمہ نے اپنے موجودہ ماحول کا اثر لیا ہو یا پھر یہ کہ محترمہ کی تربیت اسی طرح کے ماحول میں ہوئی ہو؟
جب تربیت کی بات آتی ہے تو کیا یہ سوچنے والی بات نہیں کہ ناکے پر موجود پولیس اہلکاروں کی تربیت بھی ہوئی تھی یا نہیں؟ کیا پولیس اہلکاروں کو ایسی صورتحال سے نمٹنے کی تربیت دی جاتی ہے؟ کیا پولیس کے پاس ہر مسئلے کا یہی حل رہ جاتا ہے کہ احسن طریقے سے معاملے کو ہینڈل کرنے کی بجائے وہ بھی “ایسی کی تیسی” والی پالیسی اپنائیں رکھیں۔ اور پھر ایک اہم ترین سوال تو یہ بھی ہے کہ سوشل میڈیا پر اس واقعے سے اپنا اپنا غصہ اور اپنا اپنا بغض نکالنے والے “دانشوروں” کی تربیت کون کرے گا؟
وجہ ان میں سے کوئی بھی ہوسکتی ہے، لیکن یہ طے ہے کہ محترمہ نے ایک جرم کیا، اس جرم کی بھی ایک سزا ہے، اور ہر جرم کی طرح اس جرم کی سزا بھی ضرور ملنی چاہیے۔ جہاں تک بات ہے کہ فوج کی تو فوج سمیت مختلف اداروں نے جو غلطیاں کی ہیں، یقینا ان پر بات ہوسکتی ہے اور ہونی بھی چاہیے، لیکن تربیت نہ ہونے کے سبب اگر ہم کسی ایک خاندان یا کسی ایک ادارے کو نشانہ بنائیں گے تو کیا یہ مناسب ہوگا؟ یاد رکھیں کہ اس طرح کے رویے سے ہم صرف باہمی نفرتوں کو فروغ دیں گے، اور خلیج کو پاٹنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جائے گا۔