Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
زندگی میں زیادہ کی خواہش شاید کبھی دل میں آئی ہو، لیکن جتنا ملا وہ ہمیشہ اس پر شاکر ہی رہا، تنگ دستی نہ دیکھی زیادہ خوشحالی میں وقت گزرا۔ جمال بڑی محنت سے اپنا چھوٹا سا کاروبار چلا رہا تھا۔ اپنے خاندان کو کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دیتا۔ بیوی اور بچوں کی ہر ضرورت پوری کرکے اسے خوشی ہوتی۔ ایسے بھی مواقع آئے کہ کاروبار میں اتارچڑھاو آگیا، سرمائے کی کمی نے جمال کو پریشان کردیا، وہ ایسی صورتحال میں دعا اور نماز کے ذریعے رب سے رجوع کرلیتا۔ کبھی کبھار مولوی صاحب کی باتوں پر عمل کرنے کی بھی کوشش کرتا۔
جمال ایک واجبی مسلمان سے ایک باعمل مسلمان بننے کی خواہش بھی کرتا، صدقہ، خیرات کی عادت بنالی، دوسروں کی اپنی بساط میں رہ کر مدد کرکے اسے خوشی ہوتی۔ اس نے نماز، روزہ کا معمول بنالیا۔ گھر کا ماحول بھی مذہبی ہوگیا۔ اس کی اہلیہ اور بچے بھی دین کی جانب راغب ہوگئے۔ اس کا ایک مسئلہ تھا کہ کسی بحرانی کیفیت میں گھبرا جاتا، یہ سوچ ضرور آتی کہ اللہ سے مدد مانگتا ہوں۔ لیکن ذہن منتشر رہتا۔ ایسے میں وہ اندر سے خود کو کوسنے لگتا کہ اس کا ایمان کمزور ہے۔
اوروں کی طرح اس کا دھیان بھی ایسی باتوں کی طرف چلا جاتا کہ میرے پاس کچھ نہیں ہوگا کاروبار میں نقصان ہوا تو کیا کروں گا، میرے بیوی بچوں کا کیا ہوگا۔ مجھے ان کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔ اگر میں مرگیا تو میرے بعد خوار ہوں گے۔ اصل میں یہ باتیں جمال کی بیوی نے بھی اس کے دماغ میں ڈال دی تھیں۔ عدم تحفظ کی سوچ انسان کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہے۔
کورونا ایک آفت بن کر آیا، اچانک کاروبار بند ہوگیا، جمال کو گھر بیٹھنا پڑا، تھوڑی بہت جمع پونجی تھی، آہستہ آہستہ خرچ کرکے ختم ہونےلگی، پہلے اس کا ایمان بڑا پختہ تھا، لیکن دن گزرنے کے ساتھ ساتھ مایوسی اور پریشانی نے آگھیرا۔ اس سب کے دوران رمضان کا مہینہ آگیا۔ سب گھروالوں نے روزے رکھے مگر پہلے جیسا اہتمام نہ کرپائے، کام بند ہونے کے باعث جمال خرچہ کرنے میں بہت محتاط ہوگیا تھا۔ اسے آنے والے دنوں کا بھی اندازہ نہ تھا۔ اس کے کاروبار کی نوعیت بھی ایسی تھی کہ جو مال تیار کرتا تھا جس کا استعمال ابھی شروع نہ ہوا، اس لیے لاک ڈاون کھلنے کے باوجود وہ کام جاری نہ رکھ پارہا تھا۔
عبادات کا سلسلہ اگرچہ جاری رکھے تھا لیکن معاش کا فکر اس کا دھیان کہیں اور لے جاتا۔ وہ پرامید تھا کہ جلد حالات اس کے حق میں ہوں گے۔ لیکن ابھی عید سر پر آچکی تھی اور کوئی بندوبست نہ تھا۔ بیوی نے ایک بار صرف اتنا پوچھا اس بار عید پر کیا کرنا ہے، جمال بولا، تمہارے سامنے حالات ہیں، بچوں کے کپڑے تک نہیں بنا پائیں گے۔ بچوں کو احساس تھا وہ بھی یاد کرتے کہ اچھے ملبوسات پہن کر اچھا پکوان کھاتے تھے، نہ جانے کیا ہوگیا، اب کی بار کورونا سب کچھ ساتھ لے گیا۔
چاند نظر آگیا، صبح عید تھی، سب ذہنی طور پر سادگی سے عید منانے کے لیے تیار تھے۔ جمال نے بمشکل اگلے روز پکانے کے لیے اہلیہ کو کچھ لادیا۔ رات سونے سے پہلے اس کو خیال آیا کہ نماز عید سے پہلے فطرانہ ادا کرتے ہیں۔ وہ بیگم سے بول پڑا، صبح فطرانہ دینا ہے وہ بولی دے دیں۔ پانچ افراد کو چھ سات سو بنتا ہے۔
جمال کو معلوم تھا جیب میں اتنی رقم بھی نہیں۔ وہ بڑا دکھی ہوگیا۔ اسے یاد آگیا کہ جب مولوی صاحب مسئلہ بتارہے تھے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ دار کے روزہ کو لغو اور بے ہودگی سے پاک صاف کرنے اورمساکین کی خوراک کے لیے فطرانہ فرض کیا، جس نے نماز عید سے قبل ادا کردیا تو فطرانہ قبول ہوگا۔
جبکہ تنگ دست پر بلاخلاف فطرانہ فرض نہيں، جس کے پاس اہل وعیال کی عید کی رات کی خوراک سے زیادہ ہو اس پر فطرانہ فرض ہوگا وہ خوشحال ہوگا۔
یہ سب سوچ کر اسے آنکھیں بھرآئیں، اگرچہ بیوی نہ دیکھ پائی لیکن جمال کا دل رو رہا تھا، رب نے کیسی آزمائش دکھائی کہ ایک ایسی عید آئی جس میں بظاہر زندگی بسر کرتے اچانک بچوں کو کچھ نہ دینے اور عید کا فطرانہ بھی ادا نہ کرسکا۔ اس کے دل سے دعا نکلی کہ اے باری تعالیٰ ہم سب کو اس آزمائش سے نکال اور کسی کو ایسا دن نہ دکھا۔
زندگی میں زیادہ کی خواہش شاید کبھی دل میں آئی ہو، لیکن جتنا ملا وہ ہمیشہ اس پر شاکر ہی رہا، تنگ دستی نہ دیکھی زیادہ خوشحالی میں وقت گزرا۔ جمال بڑی محنت سے اپنا چھوٹا سا کاروبار چلا رہا تھا۔ اپنے خاندان کو کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دیتا۔ بیوی اور بچوں کی ہر ضرورت پوری کرکے اسے خوشی ہوتی۔ ایسے بھی مواقع آئے کہ کاروبار میں اتارچڑھاو آگیا، سرمائے کی کمی نے جمال کو پریشان کردیا، وہ ایسی صورتحال میں دعا اور نماز کے ذریعے رب سے رجوع کرلیتا۔ کبھی کبھار مولوی صاحب کی باتوں پر عمل کرنے کی بھی کوشش کرتا۔
جمال ایک واجبی مسلمان سے ایک باعمل مسلمان بننے کی خواہش بھی کرتا، صدقہ، خیرات کی عادت بنالی، دوسروں کی اپنی بساط میں رہ کر مدد کرکے اسے خوشی ہوتی۔ اس نے نماز، روزہ کا معمول بنالیا۔ گھر کا ماحول بھی مذہبی ہوگیا۔ اس کی اہلیہ اور بچے بھی دین کی جانب راغب ہوگئے۔ اس کا ایک مسئلہ تھا کہ کسی بحرانی کیفیت میں گھبرا جاتا، یہ سوچ ضرور آتی کہ اللہ سے مدد مانگتا ہوں۔ لیکن ذہن منتشر رہتا۔ ایسے میں وہ اندر سے خود کو کوسنے لگتا کہ اس کا ایمان کمزور ہے۔
اوروں کی طرح اس کا دھیان بھی ایسی باتوں کی طرف چلا جاتا کہ میرے پاس کچھ نہیں ہوگا کاروبار میں نقصان ہوا تو کیا کروں گا، میرے بیوی بچوں کا کیا ہوگا۔ مجھے ان کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔ اگر میں مرگیا تو میرے بعد خوار ہوں گے۔ اصل میں یہ باتیں جمال کی بیوی نے بھی اس کے دماغ میں ڈال دی تھیں۔ عدم تحفظ کی سوچ انسان کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہے۔
کورونا ایک آفت بن کر آیا، اچانک کاروبار بند ہوگیا، جمال کو گھر بیٹھنا پڑا، تھوڑی بہت جمع پونجی تھی، آہستہ آہستہ خرچ کرکے ختم ہونےلگی، پہلے اس کا ایمان بڑا پختہ تھا، لیکن دن گزرنے کے ساتھ ساتھ مایوسی اور پریشانی نے آگھیرا۔ اس سب کے دوران رمضان کا مہینہ آگیا۔ سب گھروالوں نے روزے رکھے مگر پہلے جیسا اہتمام نہ کرپائے، کام بند ہونے کے باعث جمال خرچہ کرنے میں بہت محتاط ہوگیا تھا۔ اسے آنے والے دنوں کا بھی اندازہ نہ تھا۔ اس کے کاروبار کی نوعیت بھی ایسی تھی کہ جو مال تیار کرتا تھا جس کا استعمال ابھی شروع نہ ہوا، اس لیے لاک ڈاون کھلنے کے باوجود وہ کام جاری نہ رکھ پارہا تھا۔
عبادات کا سلسلہ اگرچہ جاری رکھے تھا لیکن معاش کا فکر اس کا دھیان کہیں اور لے جاتا۔ وہ پرامید تھا کہ جلد حالات اس کے حق میں ہوں گے۔ لیکن ابھی عید سر پر آچکی تھی اور کوئی بندوبست نہ تھا۔ بیوی نے ایک بار صرف اتنا پوچھا اس بار عید پر کیا کرنا ہے، جمال بولا، تمہارے سامنے حالات ہیں، بچوں کے کپڑے تک نہیں بنا پائیں گے۔ بچوں کو احساس تھا وہ بھی یاد کرتے کہ اچھے ملبوسات پہن کر اچھا پکوان کھاتے تھے، نہ جانے کیا ہوگیا، اب کی بار کورونا سب کچھ ساتھ لے گیا۔
چاند نظر آگیا، صبح عید تھی، سب ذہنی طور پر سادگی سے عید منانے کے لیے تیار تھے۔ جمال نے بمشکل اگلے روز پکانے کے لیے اہلیہ کو کچھ لادیا۔ رات سونے سے پہلے اس کو خیال آیا کہ نماز عید سے پہلے فطرانہ ادا کرتے ہیں۔ وہ بیگم سے بول پڑا، صبح فطرانہ دینا ہے وہ بولی دے دیں۔ پانچ افراد کو چھ سات سو بنتا ہے۔
جمال کو معلوم تھا جیب میں اتنی رقم بھی نہیں۔ وہ بڑا دکھی ہوگیا۔ اسے یاد آگیا کہ جب مولوی صاحب مسئلہ بتارہے تھے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ دار کے روزہ کو لغو اور بے ہودگی سے پاک صاف کرنے اورمساکین کی خوراک کے لیے فطرانہ فرض کیا، جس نے نماز عید سے قبل ادا کردیا تو فطرانہ قبول ہوگا۔
جبکہ تنگ دست پر بلاخلاف فطرانہ فرض نہيں، جس کے پاس اہل وعیال کی عید کی رات کی خوراک سے زیادہ ہو اس پر فطرانہ فرض ہوگا وہ خوشحال ہوگا۔
یہ سب سوچ کر اسے آنکھیں بھرآئیں، اگرچہ بیوی نہ دیکھ پائی لیکن جمال کا دل رو رہا تھا، رب نے کیسی آزمائش دکھائی کہ ایک ایسی عید آئی جس میں بظاہر زندگی بسر کرتے اچانک بچوں کو کچھ نہ دینے اور عید کا فطرانہ بھی ادا نہ کرسکا۔ اس کے دل سے دعا نکلی کہ اے باری تعالیٰ ہم سب کو اس آزمائش سے نکال اور کسی کو ایسا دن نہ دکھا۔
زندگی میں زیادہ کی خواہش شاید کبھی دل میں آئی ہو، لیکن جتنا ملا وہ ہمیشہ اس پر شاکر ہی رہا، تنگ دستی نہ دیکھی زیادہ خوشحالی میں وقت گزرا۔ جمال بڑی محنت سے اپنا چھوٹا سا کاروبار چلا رہا تھا۔ اپنے خاندان کو کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دیتا۔ بیوی اور بچوں کی ہر ضرورت پوری کرکے اسے خوشی ہوتی۔ ایسے بھی مواقع آئے کہ کاروبار میں اتارچڑھاو آگیا، سرمائے کی کمی نے جمال کو پریشان کردیا، وہ ایسی صورتحال میں دعا اور نماز کے ذریعے رب سے رجوع کرلیتا۔ کبھی کبھار مولوی صاحب کی باتوں پر عمل کرنے کی بھی کوشش کرتا۔
جمال ایک واجبی مسلمان سے ایک باعمل مسلمان بننے کی خواہش بھی کرتا، صدقہ، خیرات کی عادت بنالی، دوسروں کی اپنی بساط میں رہ کر مدد کرکے اسے خوشی ہوتی۔ اس نے نماز، روزہ کا معمول بنالیا۔ گھر کا ماحول بھی مذہبی ہوگیا۔ اس کی اہلیہ اور بچے بھی دین کی جانب راغب ہوگئے۔ اس کا ایک مسئلہ تھا کہ کسی بحرانی کیفیت میں گھبرا جاتا، یہ سوچ ضرور آتی کہ اللہ سے مدد مانگتا ہوں۔ لیکن ذہن منتشر رہتا۔ ایسے میں وہ اندر سے خود کو کوسنے لگتا کہ اس کا ایمان کمزور ہے۔
اوروں کی طرح اس کا دھیان بھی ایسی باتوں کی طرف چلا جاتا کہ میرے پاس کچھ نہیں ہوگا کاروبار میں نقصان ہوا تو کیا کروں گا، میرے بیوی بچوں کا کیا ہوگا۔ مجھے ان کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔ اگر میں مرگیا تو میرے بعد خوار ہوں گے۔ اصل میں یہ باتیں جمال کی بیوی نے بھی اس کے دماغ میں ڈال دی تھیں۔ عدم تحفظ کی سوچ انسان کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہے۔
کورونا ایک آفت بن کر آیا، اچانک کاروبار بند ہوگیا، جمال کو گھر بیٹھنا پڑا، تھوڑی بہت جمع پونجی تھی، آہستہ آہستہ خرچ کرکے ختم ہونےلگی، پہلے اس کا ایمان بڑا پختہ تھا، لیکن دن گزرنے کے ساتھ ساتھ مایوسی اور پریشانی نے آگھیرا۔ اس سب کے دوران رمضان کا مہینہ آگیا۔ سب گھروالوں نے روزے رکھے مگر پہلے جیسا اہتمام نہ کرپائے، کام بند ہونے کے باعث جمال خرچہ کرنے میں بہت محتاط ہوگیا تھا۔ اسے آنے والے دنوں کا بھی اندازہ نہ تھا۔ اس کے کاروبار کی نوعیت بھی ایسی تھی کہ جو مال تیار کرتا تھا جس کا استعمال ابھی شروع نہ ہوا، اس لیے لاک ڈاون کھلنے کے باوجود وہ کام جاری نہ رکھ پارہا تھا۔
عبادات کا سلسلہ اگرچہ جاری رکھے تھا لیکن معاش کا فکر اس کا دھیان کہیں اور لے جاتا۔ وہ پرامید تھا کہ جلد حالات اس کے حق میں ہوں گے۔ لیکن ابھی عید سر پر آچکی تھی اور کوئی بندوبست نہ تھا۔ بیوی نے ایک بار صرف اتنا پوچھا اس بار عید پر کیا کرنا ہے، جمال بولا، تمہارے سامنے حالات ہیں، بچوں کے کپڑے تک نہیں بنا پائیں گے۔ بچوں کو احساس تھا وہ بھی یاد کرتے کہ اچھے ملبوسات پہن کر اچھا پکوان کھاتے تھے، نہ جانے کیا ہوگیا، اب کی بار کورونا سب کچھ ساتھ لے گیا۔
چاند نظر آگیا، صبح عید تھی، سب ذہنی طور پر سادگی سے عید منانے کے لیے تیار تھے۔ جمال نے بمشکل اگلے روز پکانے کے لیے اہلیہ کو کچھ لادیا۔ رات سونے سے پہلے اس کو خیال آیا کہ نماز عید سے پہلے فطرانہ ادا کرتے ہیں۔ وہ بیگم سے بول پڑا، صبح فطرانہ دینا ہے وہ بولی دے دیں۔ پانچ افراد کو چھ سات سو بنتا ہے۔
جمال کو معلوم تھا جیب میں اتنی رقم بھی نہیں۔ وہ بڑا دکھی ہوگیا۔ اسے یاد آگیا کہ جب مولوی صاحب مسئلہ بتارہے تھے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ دار کے روزہ کو لغو اور بے ہودگی سے پاک صاف کرنے اورمساکین کی خوراک کے لیے فطرانہ فرض کیا، جس نے نماز عید سے قبل ادا کردیا تو فطرانہ قبول ہوگا۔
جبکہ تنگ دست پر بلاخلاف فطرانہ فرض نہيں، جس کے پاس اہل وعیال کی عید کی رات کی خوراک سے زیادہ ہو اس پر فطرانہ فرض ہوگا وہ خوشحال ہوگا۔
یہ سب سوچ کر اسے آنکھیں بھرآئیں، اگرچہ بیوی نہ دیکھ پائی لیکن جمال کا دل رو رہا تھا، رب نے کیسی آزمائش دکھائی کہ ایک ایسی عید آئی جس میں بظاہر زندگی بسر کرتے اچانک بچوں کو کچھ نہ دینے اور عید کا فطرانہ بھی ادا نہ کرسکا۔ اس کے دل سے دعا نکلی کہ اے باری تعالیٰ ہم سب کو اس آزمائش سے نکال اور کسی کو ایسا دن نہ دکھا۔
زندگی میں زیادہ کی خواہش شاید کبھی دل میں آئی ہو، لیکن جتنا ملا وہ ہمیشہ اس پر شاکر ہی رہا، تنگ دستی نہ دیکھی زیادہ خوشحالی میں وقت گزرا۔ جمال بڑی محنت سے اپنا چھوٹا سا کاروبار چلا رہا تھا۔ اپنے خاندان کو کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دیتا۔ بیوی اور بچوں کی ہر ضرورت پوری کرکے اسے خوشی ہوتی۔ ایسے بھی مواقع آئے کہ کاروبار میں اتارچڑھاو آگیا، سرمائے کی کمی نے جمال کو پریشان کردیا، وہ ایسی صورتحال میں دعا اور نماز کے ذریعے رب سے رجوع کرلیتا۔ کبھی کبھار مولوی صاحب کی باتوں پر عمل کرنے کی بھی کوشش کرتا۔
جمال ایک واجبی مسلمان سے ایک باعمل مسلمان بننے کی خواہش بھی کرتا، صدقہ، خیرات کی عادت بنالی، دوسروں کی اپنی بساط میں رہ کر مدد کرکے اسے خوشی ہوتی۔ اس نے نماز، روزہ کا معمول بنالیا۔ گھر کا ماحول بھی مذہبی ہوگیا۔ اس کی اہلیہ اور بچے بھی دین کی جانب راغب ہوگئے۔ اس کا ایک مسئلہ تھا کہ کسی بحرانی کیفیت میں گھبرا جاتا، یہ سوچ ضرور آتی کہ اللہ سے مدد مانگتا ہوں۔ لیکن ذہن منتشر رہتا۔ ایسے میں وہ اندر سے خود کو کوسنے لگتا کہ اس کا ایمان کمزور ہے۔
اوروں کی طرح اس کا دھیان بھی ایسی باتوں کی طرف چلا جاتا کہ میرے پاس کچھ نہیں ہوگا کاروبار میں نقصان ہوا تو کیا کروں گا، میرے بیوی بچوں کا کیا ہوگا۔ مجھے ان کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔ اگر میں مرگیا تو میرے بعد خوار ہوں گے۔ اصل میں یہ باتیں جمال کی بیوی نے بھی اس کے دماغ میں ڈال دی تھیں۔ عدم تحفظ کی سوچ انسان کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہے۔
کورونا ایک آفت بن کر آیا، اچانک کاروبار بند ہوگیا، جمال کو گھر بیٹھنا پڑا، تھوڑی بہت جمع پونجی تھی، آہستہ آہستہ خرچ کرکے ختم ہونےلگی، پہلے اس کا ایمان بڑا پختہ تھا، لیکن دن گزرنے کے ساتھ ساتھ مایوسی اور پریشانی نے آگھیرا۔ اس سب کے دوران رمضان کا مہینہ آگیا۔ سب گھروالوں نے روزے رکھے مگر پہلے جیسا اہتمام نہ کرپائے، کام بند ہونے کے باعث جمال خرچہ کرنے میں بہت محتاط ہوگیا تھا۔ اسے آنے والے دنوں کا بھی اندازہ نہ تھا۔ اس کے کاروبار کی نوعیت بھی ایسی تھی کہ جو مال تیار کرتا تھا جس کا استعمال ابھی شروع نہ ہوا، اس لیے لاک ڈاون کھلنے کے باوجود وہ کام جاری نہ رکھ پارہا تھا۔
عبادات کا سلسلہ اگرچہ جاری رکھے تھا لیکن معاش کا فکر اس کا دھیان کہیں اور لے جاتا۔ وہ پرامید تھا کہ جلد حالات اس کے حق میں ہوں گے۔ لیکن ابھی عید سر پر آچکی تھی اور کوئی بندوبست نہ تھا۔ بیوی نے ایک بار صرف اتنا پوچھا اس بار عید پر کیا کرنا ہے، جمال بولا، تمہارے سامنے حالات ہیں، بچوں کے کپڑے تک نہیں بنا پائیں گے۔ بچوں کو احساس تھا وہ بھی یاد کرتے کہ اچھے ملبوسات پہن کر اچھا پکوان کھاتے تھے، نہ جانے کیا ہوگیا، اب کی بار کورونا سب کچھ ساتھ لے گیا۔
چاند نظر آگیا، صبح عید تھی، سب ذہنی طور پر سادگی سے عید منانے کے لیے تیار تھے۔ جمال نے بمشکل اگلے روز پکانے کے لیے اہلیہ کو کچھ لادیا۔ رات سونے سے پہلے اس کو خیال آیا کہ نماز عید سے پہلے فطرانہ ادا کرتے ہیں۔ وہ بیگم سے بول پڑا، صبح فطرانہ دینا ہے وہ بولی دے دیں۔ پانچ افراد کو چھ سات سو بنتا ہے۔
جمال کو معلوم تھا جیب میں اتنی رقم بھی نہیں۔ وہ بڑا دکھی ہوگیا۔ اسے یاد آگیا کہ جب مولوی صاحب مسئلہ بتارہے تھے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ دار کے روزہ کو لغو اور بے ہودگی سے پاک صاف کرنے اورمساکین کی خوراک کے لیے فطرانہ فرض کیا، جس نے نماز عید سے قبل ادا کردیا تو فطرانہ قبول ہوگا۔
جبکہ تنگ دست پر بلاخلاف فطرانہ فرض نہيں، جس کے پاس اہل وعیال کی عید کی رات کی خوراک سے زیادہ ہو اس پر فطرانہ فرض ہوگا وہ خوشحال ہوگا۔
یہ سب سوچ کر اسے آنکھیں بھرآئیں، اگرچہ بیوی نہ دیکھ پائی لیکن جمال کا دل رو رہا تھا، رب نے کیسی آزمائش دکھائی کہ ایک ایسی عید آئی جس میں بظاہر زندگی بسر کرتے اچانک بچوں کو کچھ نہ دینے اور عید کا فطرانہ بھی ادا نہ کرسکا۔ اس کے دل سے دعا نکلی کہ اے باری تعالیٰ ہم سب کو اس آزمائش سے نکال اور کسی کو ایسا دن نہ دکھا۔