Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
کورونا وائرس ایک مہلک وبا ہے، کیسے اور کہاں سے چلی، کون اسے پھیلانے کا ذمہ دار ہے، ابھی تاریخ لکھنا باقی ہے۔ تھوڑی سی بھاگ دوڑ کے بعد بھی معلوم نہیں ہوسکا، یورپ، امریکا اور دیگر ترقیاتی ممالک میں کسے مورد الزام ٹھہرایا گیا، ماسوائے ڈونلڈٹرمپ نے اسے چائنا وائرس کہہ کر چین کی جانب انگلی اٹھادی۔ جرمن چانسلر اینگلا مرکل اور جاپانی وزیراعظم نے دبے الفاظ میں انکا ساتھ دیا۔اسی دوڑ میں بھارتی قیادت نے زیادہ نہیں لیکن میڈیا نے بھرپور طریقے سے چین کو صلواتیں سنائیں۔ اور اسے نہ جانے کون کون سی جنگ کانام دیا۔
پاکستان میں اشارے بڑے ٹارگٹڈ رہے، تفتان بارڈرکے راستے ایران سے آنے والے زائرین، عمرہ کی ادائیگی سے واپس آنے والے اور پھر تبلیغی اجتماع کے شرکا،حکومتی اور سیاسی قیادت کا ہدف بنے۔ اس سب نے سرحد پاربھارتی میڈیا کو ایک اچھی دلیل فراہم کردی، جہاں انہوں نے نہ صرف پاکستان کی طرف اشارے کرناشروع کئے، وہیں اپنے ملک میں تبلیغی جماعت کے ذمہ داروں کو نشانہ بنایا۔ایک بھارتی چینل نے مہم چلاکر وہاں دہلی میں تبلیغی جماعت کے سربراہ محمد سعد کاندھلوی کےخلاف اجتماع کے ذریعے ملک میں وائرس پھیلانے کے الزامات پر قتل خطا کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیاگیا۔ اس اجتماع کو ملک کی 17 ریاستوں میں ایک ہزار سے زائد افرادمیں کورونا پھیلانے کا ذمہ دار ٹھہرادیاگیا۔
مولانا سعد اسلام کے عالم نہیں مانے جاتے ہیں لیکن اپنی تنظیم پر ان کی گرفت مضبوط ہے۔ وہ دوسروں کی کم سنتے ہیں لیکن ایک عام شخص جو کسی کو اپنا دشمن نہیں مانتے۔ مولانا سعد 1926 میں تبلیغ جماعت کی تشکیل کرنے والے مولانا محمد الیاس کاندھلوی کے پڑپوتے ہیں۔ کہہ سکتے ہیں، انھیں جماعت کی سربراہی وراثت میں ملی ہے۔
بھارتی میڈیا کی مسلمانوں کو ہدف بنانے کی حرکت کوئی پہلی نہ تھی، ایسی کارروائیوں پر شدت پسند سوچ رکھنے والوں کی حمایت مل جاتی ہے، نریندر مودی سرکار کی آشیرباد بھی ساتھ ہوتی ہے، میڈیا کھل کر اپنے عزائم کی تکمیل کرتا ہے۔ کورونا کے معاملے میں بھی ایسا دیکھنے میں آیا، چینلز کے ذمہ داروں نے وہی روش اپنائی۔
میڈیا کے شاید علم میں نہیں تھا، وائرس کہیں بھی ،کسی کو بتائے بغیر پہنچ رہا ہے اور ایسا ہی مذکورہ چینل کے ساتھ ہوا، وہاں ایک کے بعدایک کئی اہلکار کورونا کے شکار بنے، لیکن دوسروں کی پگڑی اچھالنے والا ادارہ اور خاص طور پراس کا چہیتا اینکر اور ایڈیٹرانچیف سدھیر چودھری جس نے ساری مہم بڑی مہارت سے چلائی تھی۔ اب خود اپنے ساتھیوں کے مثبت ٹیسٹ آنے پر پہلے خاموش رہے، پھر تنقید بڑھنے پر انہیں اہلکاروں کو ہیرو قراردیا۔اسی دوران ممبئی میں ایک نیوز نیٹ ورک کے سٹوڈیو میں کام کرنے والے کیمرہ آپریٹر نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ کورونا وائرس کا ٹیسٹ کرایا ان میں سے 35 کا مثبت رزلٹ آیا۔اس خبر سے میڈیا دفاعی پوزیشن میں آگیا۔ اب ان لوگوں کی باری تھی، جنہوں نے اس سب کو غیرجانبداری سے دیکھا اور برداشت کیا۔ انہوں نے ٹویٹر پر اسے زیہادی قراردیا، کسی نے کہا بیج ببول کا بویا تو آم کہاں سے پاؤ گے؟
ایک نے لکھا،’کیا یہ کافی نہیں تھا کہ چینل جعلی خبریں پھیلا رہا تھا اور نفرت کا پروپیگنڈا کر رہا تھا کہ اب وہ کورونا بھی پھیلا رہا ہے۔
ایک کی رائے میں نفرت کی اس فیکٹری کو سیل کردینا چاہیے۔بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے والا فسادی طبقہ ایک بارپھر اپنے جال میں پھنس گیا۔انتہا پسند ہندو ساری صورتحال پر محاذ بنائے بیٹھے ہیں اور اب بھی مذکورہ چینل اور اینکر کی حمایت میں ٹویٹ کررہے ہیں۔
بھارت میں کیسز کی تعداد ایک لاکھ سے بڑھ گئی، ایران کے بعدایشیا میں دوسرے نمبر پر آگیا۔
وہاں حکومت اور میڈیا عوام کی آگاہی کے بجائے اپنی سیاست اور نفرت انگیزی ترک کرنے پر آمادہ نہیں جس کا نتیجہ ان کے سامنے آرہاہے۔
انہیں ابھی تک معلوم نہیں ہوپارہا کہ کورونا کے خلاف حکمت عملی میں سیاست، مذہب، فرقے، رنگ نسل حسب نسب کو پس پشت ڈال کر چلنا ہوگا۔ کورونا تنگ نظر سوچ کی نفی کرتا ہے، اس وائرس کو قبول کرنا ہوگا۔
ٹرمپ نے خط کے ذریعہ عالمی ادارے صحت کو چین کی کٹھ پتلی قرار دیا،ساتھ میں اپنی تجاویز پر عمل نہ کئے جانے کی صورت میں ڈبلیو ایچ او کی فنڈنگ بند کرنے کی دھمکی دیدی،جس پر عالمی برادری امریکا کے خلاف بول پڑی، یورپی کمیشن نے بھی واضح کیا کہ ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھانے کا نہیں یکجہتی دکھانے کا وقت ہےجہاں پوری دنیا میں سوچ کہیں اور ہے بھارت میں گنگا اب بھی الٹی بہہ رہی ہے۔
کورونا وائرس ایک مہلک وبا ہے، کیسے اور کہاں سے چلی، کون اسے پھیلانے کا ذمہ دار ہے، ابھی تاریخ لکھنا باقی ہے۔ تھوڑی سی بھاگ دوڑ کے بعد بھی معلوم نہیں ہوسکا، یورپ، امریکا اور دیگر ترقیاتی ممالک میں کسے مورد الزام ٹھہرایا گیا، ماسوائے ڈونلڈٹرمپ نے اسے چائنا وائرس کہہ کر چین کی جانب انگلی اٹھادی۔ جرمن چانسلر اینگلا مرکل اور جاپانی وزیراعظم نے دبے الفاظ میں انکا ساتھ دیا۔اسی دوڑ میں بھارتی قیادت نے زیادہ نہیں لیکن میڈیا نے بھرپور طریقے سے چین کو صلواتیں سنائیں۔ اور اسے نہ جانے کون کون سی جنگ کانام دیا۔
پاکستان میں اشارے بڑے ٹارگٹڈ رہے، تفتان بارڈرکے راستے ایران سے آنے والے زائرین، عمرہ کی ادائیگی سے واپس آنے والے اور پھر تبلیغی اجتماع کے شرکا،حکومتی اور سیاسی قیادت کا ہدف بنے۔ اس سب نے سرحد پاربھارتی میڈیا کو ایک اچھی دلیل فراہم کردی، جہاں انہوں نے نہ صرف پاکستان کی طرف اشارے کرناشروع کئے، وہیں اپنے ملک میں تبلیغی جماعت کے ذمہ داروں کو نشانہ بنایا۔ایک بھارتی چینل نے مہم چلاکر وہاں دہلی میں تبلیغی جماعت کے سربراہ محمد سعد کاندھلوی کےخلاف اجتماع کے ذریعے ملک میں وائرس پھیلانے کے الزامات پر قتل خطا کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیاگیا۔ اس اجتماع کو ملک کی 17 ریاستوں میں ایک ہزار سے زائد افرادمیں کورونا پھیلانے کا ذمہ دار ٹھہرادیاگیا۔
مولانا سعد اسلام کے عالم نہیں مانے جاتے ہیں لیکن اپنی تنظیم پر ان کی گرفت مضبوط ہے۔ وہ دوسروں کی کم سنتے ہیں لیکن ایک عام شخص جو کسی کو اپنا دشمن نہیں مانتے۔ مولانا سعد 1926 میں تبلیغ جماعت کی تشکیل کرنے والے مولانا محمد الیاس کاندھلوی کے پڑپوتے ہیں۔ کہہ سکتے ہیں، انھیں جماعت کی سربراہی وراثت میں ملی ہے۔
بھارتی میڈیا کی مسلمانوں کو ہدف بنانے کی حرکت کوئی پہلی نہ تھی، ایسی کارروائیوں پر شدت پسند سوچ رکھنے والوں کی حمایت مل جاتی ہے، نریندر مودی سرکار کی آشیرباد بھی ساتھ ہوتی ہے، میڈیا کھل کر اپنے عزائم کی تکمیل کرتا ہے۔ کورونا کے معاملے میں بھی ایسا دیکھنے میں آیا، چینلز کے ذمہ داروں نے وہی روش اپنائی۔
میڈیا کے شاید علم میں نہیں تھا، وائرس کہیں بھی ،کسی کو بتائے بغیر پہنچ رہا ہے اور ایسا ہی مذکورہ چینل کے ساتھ ہوا، وہاں ایک کے بعدایک کئی اہلکار کورونا کے شکار بنے، لیکن دوسروں کی پگڑی اچھالنے والا ادارہ اور خاص طور پراس کا چہیتا اینکر اور ایڈیٹرانچیف سدھیر چودھری جس نے ساری مہم بڑی مہارت سے چلائی تھی۔ اب خود اپنے ساتھیوں کے مثبت ٹیسٹ آنے پر پہلے خاموش رہے، پھر تنقید بڑھنے پر انہیں اہلکاروں کو ہیرو قراردیا۔اسی دوران ممبئی میں ایک نیوز نیٹ ورک کے سٹوڈیو میں کام کرنے والے کیمرہ آپریٹر نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ کورونا وائرس کا ٹیسٹ کرایا ان میں سے 35 کا مثبت رزلٹ آیا۔اس خبر سے میڈیا دفاعی پوزیشن میں آگیا۔ اب ان لوگوں کی باری تھی، جنہوں نے اس سب کو غیرجانبداری سے دیکھا اور برداشت کیا۔ انہوں نے ٹویٹر پر اسے زیہادی قراردیا، کسی نے کہا بیج ببول کا بویا تو آم کہاں سے پاؤ گے؟
ایک نے لکھا،’کیا یہ کافی نہیں تھا کہ چینل جعلی خبریں پھیلا رہا تھا اور نفرت کا پروپیگنڈا کر رہا تھا کہ اب وہ کورونا بھی پھیلا رہا ہے۔
ایک کی رائے میں نفرت کی اس فیکٹری کو سیل کردینا چاہیے۔بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے والا فسادی طبقہ ایک بارپھر اپنے جال میں پھنس گیا۔انتہا پسند ہندو ساری صورتحال پر محاذ بنائے بیٹھے ہیں اور اب بھی مذکورہ چینل اور اینکر کی حمایت میں ٹویٹ کررہے ہیں۔
بھارت میں کیسز کی تعداد ایک لاکھ سے بڑھ گئی، ایران کے بعدایشیا میں دوسرے نمبر پر آگیا۔
وہاں حکومت اور میڈیا عوام کی آگاہی کے بجائے اپنی سیاست اور نفرت انگیزی ترک کرنے پر آمادہ نہیں جس کا نتیجہ ان کے سامنے آرہاہے۔
انہیں ابھی تک معلوم نہیں ہوپارہا کہ کورونا کے خلاف حکمت عملی میں سیاست، مذہب، فرقے، رنگ نسل حسب نسب کو پس پشت ڈال کر چلنا ہوگا۔ کورونا تنگ نظر سوچ کی نفی کرتا ہے، اس وائرس کو قبول کرنا ہوگا۔
ٹرمپ نے خط کے ذریعہ عالمی ادارے صحت کو چین کی کٹھ پتلی قرار دیا،ساتھ میں اپنی تجاویز پر عمل نہ کئے جانے کی صورت میں ڈبلیو ایچ او کی فنڈنگ بند کرنے کی دھمکی دیدی،جس پر عالمی برادری امریکا کے خلاف بول پڑی، یورپی کمیشن نے بھی واضح کیا کہ ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھانے کا نہیں یکجہتی دکھانے کا وقت ہےجہاں پوری دنیا میں سوچ کہیں اور ہے بھارت میں گنگا اب بھی الٹی بہہ رہی ہے۔
کورونا وائرس ایک مہلک وبا ہے، کیسے اور کہاں سے چلی، کون اسے پھیلانے کا ذمہ دار ہے، ابھی تاریخ لکھنا باقی ہے۔ تھوڑی سی بھاگ دوڑ کے بعد بھی معلوم نہیں ہوسکا، یورپ، امریکا اور دیگر ترقیاتی ممالک میں کسے مورد الزام ٹھہرایا گیا، ماسوائے ڈونلڈٹرمپ نے اسے چائنا وائرس کہہ کر چین کی جانب انگلی اٹھادی۔ جرمن چانسلر اینگلا مرکل اور جاپانی وزیراعظم نے دبے الفاظ میں انکا ساتھ دیا۔اسی دوڑ میں بھارتی قیادت نے زیادہ نہیں لیکن میڈیا نے بھرپور طریقے سے چین کو صلواتیں سنائیں۔ اور اسے نہ جانے کون کون سی جنگ کانام دیا۔
پاکستان میں اشارے بڑے ٹارگٹڈ رہے، تفتان بارڈرکے راستے ایران سے آنے والے زائرین، عمرہ کی ادائیگی سے واپس آنے والے اور پھر تبلیغی اجتماع کے شرکا،حکومتی اور سیاسی قیادت کا ہدف بنے۔ اس سب نے سرحد پاربھارتی میڈیا کو ایک اچھی دلیل فراہم کردی، جہاں انہوں نے نہ صرف پاکستان کی طرف اشارے کرناشروع کئے، وہیں اپنے ملک میں تبلیغی جماعت کے ذمہ داروں کو نشانہ بنایا۔ایک بھارتی چینل نے مہم چلاکر وہاں دہلی میں تبلیغی جماعت کے سربراہ محمد سعد کاندھلوی کےخلاف اجتماع کے ذریعے ملک میں وائرس پھیلانے کے الزامات پر قتل خطا کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیاگیا۔ اس اجتماع کو ملک کی 17 ریاستوں میں ایک ہزار سے زائد افرادمیں کورونا پھیلانے کا ذمہ دار ٹھہرادیاگیا۔
مولانا سعد اسلام کے عالم نہیں مانے جاتے ہیں لیکن اپنی تنظیم پر ان کی گرفت مضبوط ہے۔ وہ دوسروں کی کم سنتے ہیں لیکن ایک عام شخص جو کسی کو اپنا دشمن نہیں مانتے۔ مولانا سعد 1926 میں تبلیغ جماعت کی تشکیل کرنے والے مولانا محمد الیاس کاندھلوی کے پڑپوتے ہیں۔ کہہ سکتے ہیں، انھیں جماعت کی سربراہی وراثت میں ملی ہے۔
بھارتی میڈیا کی مسلمانوں کو ہدف بنانے کی حرکت کوئی پہلی نہ تھی، ایسی کارروائیوں پر شدت پسند سوچ رکھنے والوں کی حمایت مل جاتی ہے، نریندر مودی سرکار کی آشیرباد بھی ساتھ ہوتی ہے، میڈیا کھل کر اپنے عزائم کی تکمیل کرتا ہے۔ کورونا کے معاملے میں بھی ایسا دیکھنے میں آیا، چینلز کے ذمہ داروں نے وہی روش اپنائی۔
میڈیا کے شاید علم میں نہیں تھا، وائرس کہیں بھی ،کسی کو بتائے بغیر پہنچ رہا ہے اور ایسا ہی مذکورہ چینل کے ساتھ ہوا، وہاں ایک کے بعدایک کئی اہلکار کورونا کے شکار بنے، لیکن دوسروں کی پگڑی اچھالنے والا ادارہ اور خاص طور پراس کا چہیتا اینکر اور ایڈیٹرانچیف سدھیر چودھری جس نے ساری مہم بڑی مہارت سے چلائی تھی۔ اب خود اپنے ساتھیوں کے مثبت ٹیسٹ آنے پر پہلے خاموش رہے، پھر تنقید بڑھنے پر انہیں اہلکاروں کو ہیرو قراردیا۔اسی دوران ممبئی میں ایک نیوز نیٹ ورک کے سٹوڈیو میں کام کرنے والے کیمرہ آپریٹر نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ کورونا وائرس کا ٹیسٹ کرایا ان میں سے 35 کا مثبت رزلٹ آیا۔اس خبر سے میڈیا دفاعی پوزیشن میں آگیا۔ اب ان لوگوں کی باری تھی، جنہوں نے اس سب کو غیرجانبداری سے دیکھا اور برداشت کیا۔ انہوں نے ٹویٹر پر اسے زیہادی قراردیا، کسی نے کہا بیج ببول کا بویا تو آم کہاں سے پاؤ گے؟
ایک نے لکھا،’کیا یہ کافی نہیں تھا کہ چینل جعلی خبریں پھیلا رہا تھا اور نفرت کا پروپیگنڈا کر رہا تھا کہ اب وہ کورونا بھی پھیلا رہا ہے۔
ایک کی رائے میں نفرت کی اس فیکٹری کو سیل کردینا چاہیے۔بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے والا فسادی طبقہ ایک بارپھر اپنے جال میں پھنس گیا۔انتہا پسند ہندو ساری صورتحال پر محاذ بنائے بیٹھے ہیں اور اب بھی مذکورہ چینل اور اینکر کی حمایت میں ٹویٹ کررہے ہیں۔
بھارت میں کیسز کی تعداد ایک لاکھ سے بڑھ گئی، ایران کے بعدایشیا میں دوسرے نمبر پر آگیا۔
وہاں حکومت اور میڈیا عوام کی آگاہی کے بجائے اپنی سیاست اور نفرت انگیزی ترک کرنے پر آمادہ نہیں جس کا نتیجہ ان کے سامنے آرہاہے۔
انہیں ابھی تک معلوم نہیں ہوپارہا کہ کورونا کے خلاف حکمت عملی میں سیاست، مذہب، فرقے، رنگ نسل حسب نسب کو پس پشت ڈال کر چلنا ہوگا۔ کورونا تنگ نظر سوچ کی نفی کرتا ہے، اس وائرس کو قبول کرنا ہوگا۔
ٹرمپ نے خط کے ذریعہ عالمی ادارے صحت کو چین کی کٹھ پتلی قرار دیا،ساتھ میں اپنی تجاویز پر عمل نہ کئے جانے کی صورت میں ڈبلیو ایچ او کی فنڈنگ بند کرنے کی دھمکی دیدی،جس پر عالمی برادری امریکا کے خلاف بول پڑی، یورپی کمیشن نے بھی واضح کیا کہ ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھانے کا نہیں یکجہتی دکھانے کا وقت ہےجہاں پوری دنیا میں سوچ کہیں اور ہے بھارت میں گنگا اب بھی الٹی بہہ رہی ہے۔
کورونا وائرس ایک مہلک وبا ہے، کیسے اور کہاں سے چلی، کون اسے پھیلانے کا ذمہ دار ہے، ابھی تاریخ لکھنا باقی ہے۔ تھوڑی سی بھاگ دوڑ کے بعد بھی معلوم نہیں ہوسکا، یورپ، امریکا اور دیگر ترقیاتی ممالک میں کسے مورد الزام ٹھہرایا گیا، ماسوائے ڈونلڈٹرمپ نے اسے چائنا وائرس کہہ کر چین کی جانب انگلی اٹھادی۔ جرمن چانسلر اینگلا مرکل اور جاپانی وزیراعظم نے دبے الفاظ میں انکا ساتھ دیا۔اسی دوڑ میں بھارتی قیادت نے زیادہ نہیں لیکن میڈیا نے بھرپور طریقے سے چین کو صلواتیں سنائیں۔ اور اسے نہ جانے کون کون سی جنگ کانام دیا۔
پاکستان میں اشارے بڑے ٹارگٹڈ رہے، تفتان بارڈرکے راستے ایران سے آنے والے زائرین، عمرہ کی ادائیگی سے واپس آنے والے اور پھر تبلیغی اجتماع کے شرکا،حکومتی اور سیاسی قیادت کا ہدف بنے۔ اس سب نے سرحد پاربھارتی میڈیا کو ایک اچھی دلیل فراہم کردی، جہاں انہوں نے نہ صرف پاکستان کی طرف اشارے کرناشروع کئے، وہیں اپنے ملک میں تبلیغی جماعت کے ذمہ داروں کو نشانہ بنایا۔ایک بھارتی چینل نے مہم چلاکر وہاں دہلی میں تبلیغی جماعت کے سربراہ محمد سعد کاندھلوی کےخلاف اجتماع کے ذریعے ملک میں وائرس پھیلانے کے الزامات پر قتل خطا کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیاگیا۔ اس اجتماع کو ملک کی 17 ریاستوں میں ایک ہزار سے زائد افرادمیں کورونا پھیلانے کا ذمہ دار ٹھہرادیاگیا۔
مولانا سعد اسلام کے عالم نہیں مانے جاتے ہیں لیکن اپنی تنظیم پر ان کی گرفت مضبوط ہے۔ وہ دوسروں کی کم سنتے ہیں لیکن ایک عام شخص جو کسی کو اپنا دشمن نہیں مانتے۔ مولانا سعد 1926 میں تبلیغ جماعت کی تشکیل کرنے والے مولانا محمد الیاس کاندھلوی کے پڑپوتے ہیں۔ کہہ سکتے ہیں، انھیں جماعت کی سربراہی وراثت میں ملی ہے۔
بھارتی میڈیا کی مسلمانوں کو ہدف بنانے کی حرکت کوئی پہلی نہ تھی، ایسی کارروائیوں پر شدت پسند سوچ رکھنے والوں کی حمایت مل جاتی ہے، نریندر مودی سرکار کی آشیرباد بھی ساتھ ہوتی ہے، میڈیا کھل کر اپنے عزائم کی تکمیل کرتا ہے۔ کورونا کے معاملے میں بھی ایسا دیکھنے میں آیا، چینلز کے ذمہ داروں نے وہی روش اپنائی۔
میڈیا کے شاید علم میں نہیں تھا، وائرس کہیں بھی ،کسی کو بتائے بغیر پہنچ رہا ہے اور ایسا ہی مذکورہ چینل کے ساتھ ہوا، وہاں ایک کے بعدایک کئی اہلکار کورونا کے شکار بنے، لیکن دوسروں کی پگڑی اچھالنے والا ادارہ اور خاص طور پراس کا چہیتا اینکر اور ایڈیٹرانچیف سدھیر چودھری جس نے ساری مہم بڑی مہارت سے چلائی تھی۔ اب خود اپنے ساتھیوں کے مثبت ٹیسٹ آنے پر پہلے خاموش رہے، پھر تنقید بڑھنے پر انہیں اہلکاروں کو ہیرو قراردیا۔اسی دوران ممبئی میں ایک نیوز نیٹ ورک کے سٹوڈیو میں کام کرنے والے کیمرہ آپریٹر نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ کورونا وائرس کا ٹیسٹ کرایا ان میں سے 35 کا مثبت رزلٹ آیا۔اس خبر سے میڈیا دفاعی پوزیشن میں آگیا۔ اب ان لوگوں کی باری تھی، جنہوں نے اس سب کو غیرجانبداری سے دیکھا اور برداشت کیا۔ انہوں نے ٹویٹر پر اسے زیہادی قراردیا، کسی نے کہا بیج ببول کا بویا تو آم کہاں سے پاؤ گے؟
ایک نے لکھا،’کیا یہ کافی نہیں تھا کہ چینل جعلی خبریں پھیلا رہا تھا اور نفرت کا پروپیگنڈا کر رہا تھا کہ اب وہ کورونا بھی پھیلا رہا ہے۔
ایک کی رائے میں نفرت کی اس فیکٹری کو سیل کردینا چاہیے۔بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے والا فسادی طبقہ ایک بارپھر اپنے جال میں پھنس گیا۔انتہا پسند ہندو ساری صورتحال پر محاذ بنائے بیٹھے ہیں اور اب بھی مذکورہ چینل اور اینکر کی حمایت میں ٹویٹ کررہے ہیں۔
بھارت میں کیسز کی تعداد ایک لاکھ سے بڑھ گئی، ایران کے بعدایشیا میں دوسرے نمبر پر آگیا۔
وہاں حکومت اور میڈیا عوام کی آگاہی کے بجائے اپنی سیاست اور نفرت انگیزی ترک کرنے پر آمادہ نہیں جس کا نتیجہ ان کے سامنے آرہاہے۔
انہیں ابھی تک معلوم نہیں ہوپارہا کہ کورونا کے خلاف حکمت عملی میں سیاست، مذہب، فرقے، رنگ نسل حسب نسب کو پس پشت ڈال کر چلنا ہوگا۔ کورونا تنگ نظر سوچ کی نفی کرتا ہے، اس وائرس کو قبول کرنا ہوگا۔
ٹرمپ نے خط کے ذریعہ عالمی ادارے صحت کو چین کی کٹھ پتلی قرار دیا،ساتھ میں اپنی تجاویز پر عمل نہ کئے جانے کی صورت میں ڈبلیو ایچ او کی فنڈنگ بند کرنے کی دھمکی دیدی،جس پر عالمی برادری امریکا کے خلاف بول پڑی، یورپی کمیشن نے بھی واضح کیا کہ ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھانے کا نہیں یکجہتی دکھانے کا وقت ہےجہاں پوری دنیا میں سوچ کہیں اور ہے بھارت میں گنگا اب بھی الٹی بہہ رہی ہے۔