بات ہو گی پچھلی صدی کے آخری عشرے کے پہلے برسوں کی. پہلی پہلی نوکری ایک سرکاری سکول میں سائنس ٹیچر کی ملی. سرگودھا شہر سے تیس کلومیٹر دور اس گاؤں کی طرف وہ ویگنیں چلتی تھیں کہ جنھیں کباڑیے خریدنے سے انکار کردیتے . نہ ان کے آنے کا وقت مقرر تھا اور نہ جانے کا. وہ تمام خوبیاں بدرجہ اتم موجود تھیں جو سید ضمیر جعفری کی “موٹر کار” میں بیان کی گئی ہیں. دلاور فگار کی لوکل بس بھی ان ویگنوں کے سامنے پانی بھرتی . اللہ جھوٹ نہ بلوائے اندر سے کم از کم تین گنا سواریاں باہر لٹکی ہوتیں. آپ ہر اس جگہ سوار ہو ( اگر اسے سوار ہونا کہنا جائز ہوتو) سکتے تھے جہاں پنجہ دھرنے اور ناخن اڑانے کی جگہ میسر ہو. ہم دن میں دو دفعہ اس قسم کی ویگنوں میں سفر کرتے. ایسے ہی ایک سفر کے دوران میں برادرم قاسم شاہ سے ملاقات ہوئی. پنجابی اور اردو کے بہت معروف شاعر قاسم شاہ کا گاؤں ہمارے دیہاتی سکول اور شہر کے تقریباً درمیان واقع تھا. اب یہ تو یاد نہیں کہ ویگن کے پیچھے لٹکے لٹکے ہمارا تعارف کیسے ہوا تاہم ہمیں علم ہوگیا کہ آپ ایک خوبصورت شاعر ہیں اور وہ ہمارے اندر موجود ایک اچھے سامع کو تاڑ گئے.. سو ہمارے درمیان محبت اور مروت کا ایک ایسا رشتہ استوار ہوا کہ لگ بھگ تیس برس گزرنے کے باوجود بھی ویسا ہی تروتازہ اور گرم جوشی سے بھرپور ہے. ہم اور شاہ جی دوست نہیں بنے بلکہ انھوں نے ہمیں اور ہم نے انھیں اپنے حلقہ احباب میں شامل کرلیا. اس طرح اب ہمارے اور ان کے تقریباً سب دوست مشترک ہیں.
شاہ جی کے حلقہءاحباب میں مولوی اسلم بہت نمایاں تھے. نہ جانے انھیں مولوی کیوں کہا جاتا کیونکہ وہ خالص دنیا دار جاٹ تھے. شاہ جی نے جب ہم سے تعارف کروایا تو وہ بڑھاپے کی دہلیز پہ قدم رکھ چکے تھے. ان سے ملاقات سے پہلے ہی ان کے بہت سے شعر ہمیں یاد تھے. یہ شعر تو خاص طور پر بہت پسند تھا کہ
اپاہج اور بھی کردیں گی یہ بیساکھیاں تجھ کو
سہارے آدمی سے استقامت چھین لیتے ہیں
سچ بات ہے کہ ان سے ملاقات ہمارے لیے باعث افتخار تھی اور اب بھی ہے. پہلی ہی ملاقات میں ان کی جو بے پایاں شفقت نصیب ہوئی اس میں ان کی وفات تک کوئی کمی نہ آئی . ان کا اصل نام تو محمد اسلم وڑائچ تھا اور یہ خود وہ بھی نہیں جانتے تھے کہ انھیں مولوی کیوں کہا جاتا ہے. . پچھلی صدی کے اوائل میں بزرگ گجرات سے نقل مکانی کرکے سرگودھا کے چک پچانوے جنوبی آگئے. یہیں پیدائش. واجبی سی رسمی تعلیم. کم آمیز اور کم گو. نہایت وضع دار. ہمیشہ دیسی کرتے اور سفید تہہ بند میں ملبوس. کاندھے پر سفید رنگ کا صافہ جو سردیوں میں گرم چادر یا کھیس سے تبدیل ہوجاتا. کہیں بھی جانا ہوتا وضع قطع میں تبدیلی نہ آتی. خوش حالی کے باوجود درویشی کو چھوتی سادگی .
تیس برس پہلے ان سے تعارف ہوا تو جب بھی سفید بالوں میں دیکھا. پہلے روایتی جاٹوں کی طرح ذاتی حجام سے ہفتہ میں ایک بار شیو بنواتے. پچھلے دس برسوں سے ڈاڑھی چھوڑ دی تھی. لمبا قد، مضبوط ہڈ پیر، چوڑی کاٹھی، گندمی رنگ. جوانی میں یقیناً وجیہ رہے ہوں گے.بڑھاپے میں ہاتھوں میں رعشہ آگیا اور کمر بھی قدرے جھک گئی . واقفان حال بتاتے ہیں کہ جوانی میں گھڑ سواری کے شائق تھے . بھلے وقتوں میں اپنے ذاتی تانگے کے مالک تھےجسے خاص بانکپن سے چلاتے. جوانی میں قتل کے الزام میں جیل بھی کاٹی.
جوانی میں ہی شاعری کی طرف توجہ مبذول ہوگئی. روایتی تعلیم کچھ زیادہ نہیں تھی مگر شعر سے علمیت ٹپکتی . شاعری میں اپنا ہی چونکا دینے والا رنگ تھا. ان کی شاعری میں سماجی ماحول میں پائے جانے والے ناپسندیدہ عناصر کے خلاف ایک احتجاج کی سی کیفیت ہے . پنجابی اور اردو دونوں زبانوں میں شعر کہتے . ٹھیٹھ گجراتی جاٹوں کے لہجے میں پنجابی میں گفتگو کرتے. اردو بولتے کبھی نہیں سنا مگر شعر نہایت شستہ اردو میں کہتے. ان کی موجودگی مشاعرے کی کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی . شعر ان کے لیے آکسیجن کی مانند تھا. مشاعروں میں ضرور شریک ہوتے اور بے پناہ داد سمیٹتے. بہت بے نیاز انسان تھے. کبھی یہ نہ کہا کہ مجھے فلاں سے پہلے کیوں پڑھایا یا فلاں کے بعد کیوں. ویسے منتظمین خود بھی کوشش کرتے کہ انھیں بعد میں پڑھوایا جائے کہ ان کے بعد عام طور پر مشاعرہ بے رنگ ہوجاتا . بڑے بڑے مشاعروں میں تہ بند باندھ کر ہی شریک ہوتے. جب انھیں پکارا جاتا تو ایک مرتبہ کھڑے ہوکر تہ بند کی گرہ کو کستے. یار لوگ اسے ” تہ بند کو ریفریش” کرنا کہتے. ہم نے ان کے ساتھ بلامبالغہ بیسیوں مشاعروں میں شرکت کی اور پوری ذمہ داری سے کہ رہے ہیں کہ شاید ہی کوئی مشاعرہ ایسا ہو کہ جہاں ان کا رنگ نہ جما ہو. ایک وقت تو صورت حال یہ ہو گئی کہ سرگودھا شہر کے مشاعروں میں انھیں بلانے سے گریز برتا جانے لگا مگر کیا کہیے کہ سرگودھا شہر کے سامعین کا کہ انھوں نے اس مشاعرے کو مشاعرہ ہی نہیں مانا جس میں مولوی صاحب شریک نہ ہوں. بلا کے حافظے کےمالک مولوی صاحب کو اپنی ساری شاعری زبانی یاد تھی . شاعری کی ایک ہی کتاب منظر عام پر آئی. اردو شاعری کی اس کتاب کا نام “آئیے شام ہونے والی ہے” ہے. حبیب اکرم اور ہمیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کتاب کی ترتیب و انتخاب میں مولوی صاحب نے ہم سے بھی رائے لی . انھوں نے صرف رائے ہی نہیں لی بلکہ رائے کو اہمیت بھی دی. اگر ہم نے کسی شعر میں کچھ تبدیلی کا مشورہ دیا تو فوراً قبول کرلیا. اگر کسی شعر کے بارے میں کہا کہ اسے شامل نہ کرنا چاہیے تو یقین مانیں ذرا سی بھی ناگواری کا اظہار کیے بغیر خود اپنے قلم سے اسے کاٹ دیا. جب تک حواس نے ساتھ دیا شعر گوئی کا سلسلہ جاری رہا. پرویز مشرف دور میں جب وکلا تحریک چلی تو ان کا یہ شعر بہت مشہور ہوا. ڈاکٹر بابر اعوان تو ہر تقریر کا آغاز اسی شعر سے کرتے.
یقیناً یہ رعایا بادشاہ کو قتل کردے گی
مسلسل جبر سے اسلم دلوں میں ڈر نہیں رہتے.
اس شعر کے بارے میں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ بہت سے لوگ اسے محسن نقوی کا سمجھتے تھے اور دوسرے مصرعے میں اسلم کی جگہ ” محسن” لگا کر پڑھتے تھے. اس پر کبھی ایک مضمون بھی لکھا مگر کسی تک وہ پہنچا اور کسی تک نہ پہنچا. بھلا ہو وکلا تحریک کا کہ جس کے بعد یہ شعر مستقل طور پر اپنے خالق سے منسوب ہوگیا.
مستقل گھر بار تو گاؤں میں تھا تاہم چند برسوں سے شہر میں بھی مکان لے لیا تھا. یہاں وہ اپنے اکلوتے بیٹے قیصر کے بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں مقیم تھے. قیصر پنجاب پولیس سے وابستہ اور عمر میں ہم سے بڑے ہیں لیکن یہ مولوی صاحب کی تربیت کا نتیجہ ہے کہ وہ ہمارا اور ہمارے ہم عمر دیگر دوستوں کا بہت احترام کرتے ہیں کہ ہم ان کے والد کے دوستوں میں شمار ہوتے ہیں. جب تک مولوی صاحب گاؤں میں رہے ہفتے دس دن میں ان کی طرف جانا ہوتا. ان کا اور شاہ جی کا گاؤں بالکل قریب تھے. کبھی محفل شاہ جی کے گاؤں چورانوے جنوبی میں جمتی تو کبھی مولوی صاحب کے پچانوے جنوبی میں. ان محفلوں میں شاہ جی اور مولوی صاحب کے علاوہ حبیب اکرم، راؤ علی احمد، مشتاق بزمی، اسلم گجر اور کچھ دیہات کے دوست شریک ہوتے. ادب سمیت دنیا بھر کے موضوعات پر گفتگو ہوتی. مولوی صاحب ساری گفتگو نہایت توجہ سے سنتے مگر مکالمے میں بہت کم شریک ہوتے . کبھی کبھار کسی بات پر چونک سے جاتے اور تھوڑی دیر کہنے والے کو دیکھتے رہتے. بات سنتے سنتے ہاتھ کو استفہامی انداز میں حرکت دیتے جیسے خود کلامی کررہے ہوں. گفتگو کے دوران میں ہی موج میں آکر اپنے شعر سنانا شروع کردیتے. بہت کم ایسا ہوا کہ ان سے شعر کی فرمائش کی گئی ہو. وہ جانتے تھے کہ یہ لوگ شعر سننے ہی آئے ہیں اور ان کی مروت کو یہ پسند نہ تھا کہ کوئی ان کے گھر آکر ان سے تقاضا کرے. یہ عجیب بات ہے کہ عمر کے آخری حصے میں ان کی گم گوئی میں کمی آگئی . وہ کھل کر بحثوں میں حصہ لیتے. مسائل پر جچی تلی رائے دیتے جسے سن کر محسوس ہوتا کہ اس رائے کے پس منظر میں تجربہ، مشاہدہ اور مطالعہ تینوں موجود ہیں.
شہر آنے کے بعد ملاقاتوں میں اضافہ ہوگیا. ہم دوستوں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ مولوی صاحب نے کہیں آنا جانا ہوتا تو ہمیں زحمت دیتے. زیادہ تر یہ ڈیوٹی راؤ علی احمد نبھاتے . راؤ سے مولوی صاحب کو محبت بھی بہت تھی. شاید ہم دوستوں میں سب سے زیادہ مولوی صاحب کے وہی قریب تھے . راؤ صاحب کی ٹھنڈی کار میں ہزاروں کوس سفر کیا ہوگا تو میری کھٹارا سی موٹر سائیکل پر بھی انھوں نے سینکڑوں میل ناپے . ان کا موٹر سائیکل پر بیٹھنے کا انداز بھی بہت دلچسپ تھا. عام طور پر پیچھے بیٹھ کر دونوں ہاتھ موٹر سائیکل چلانے والے کے کاندھوں پہ رکھ لیتے. جہاں رکنا مقصود ہوتا، زبان سے کچھ کہنے کی بجائے دونوں ہاتھوں سے کندھوں کو پیچھے کھینچتے . گویا سوار کی لگامیں کھینچ رہے ہوں. یقیناً یہ عادت گھڑ سواری سے پڑی ہوگی
پچھلے تین سال سے گلے کے کینسر میں مبتلا تھے . بیماری سے دھیما لہجہ مزید دھیما ہوگیا. بیماری کے باوجود شاعری اور کاشتکاری میں بھرپور دلچسپی لیتے رہے . بیماری کا بھر پور مقابلہ کیا اور کبھی اسے خود پر طاری نہ ہونے دیا. کسی نے شاید ہی ان کے منہ سے بیماری کے حوالے سے گلہ شکوہ سنا ہو. پچھلے کچھ عرصے سے میری ان سے ملاقات قدرے کم ہوگئی کہ قدرت نے میری روزی روٹی لاہور لکھ دی . آخری ملاقات وفات سے تقریباً دو ماہ قبل ہوئی جب پروفیسر ابرار حسین اور مشتاق بزمی کے ساتھ ان کے گھر عیادت کے لیے حاضری دی. گلے کی شدید خرابی کے باوجود ہم سے خوب باتیں کیں اور شعر سنائے. ہمیں ان میں کوئی ایسی غیر معمولی بات نظر نہ آئی کہ جو ذہن میں منفی خیال کی وجہ بنے . مگر قسمت کہ اکیس مئی دو ہزار انیس کو انھوں نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دنیا چھوڑ دی. سوگواروں میں ایک بیٹا، چار بیٹیاں اور لاکھوں مجھ ایسے مداح. اللہ تعالیٰ ان قبر کو نور سے بھر دے کہ ان کے جانے سے سرگودھا کی ادبی دنیا بے نور ہوگئی.