Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25

ہماری عمر کے افراد کے لیے بچپن میں ’خبرنامہ‘ دیکھنے کی چیز ہوتی۔ خبریں تو سر کے اوپر سے گزر جاتیں لیکن نیوز اینکرز کا کیا انداز ہے، کس طرح وہ خبریں پڑھ رہے ہیں،اس میں توجہ رہتی۔ ہماری دلچسپی کا محور کھیلوں کی خبریں ہوتیں۔ کیونکہ اُس دور میں یہ تو بتایا نہیں جاتا تھا کہ عید الفطر پرسنیما گھروں میں کس فلم نے کیا کاروبار کیا۔ یا پھر فلاں اداکار کی کون سی نئی فلم آنے والی ہے یا پھر فلاں اداکارہ نے اپنا فارغ وقت کیسا گزارا۔۔ انتہائی سادہ دور تھا۔ جب رات نوبجتے ہی سب گھر والے سلسلہ وار ڈراما سیریل سے فارغ ہونے کے بعد ٹی وی بند کرنے کے بجائے ’خبرنامہ‘ کا نظارہ کرتے۔دن بھر کی اہم لیکن قومی اور بین الاقوامی معلومات کا سمجھیں خزانہ کھل جاتا۔ ہمارے والدین خاص طور پر تاکید کرتے کہ ان خبروں کو ضرور دیکھیں تاکہ درست تلفظ اور ادائیگی سے آشنا ہوں۔یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ پی ٹی وی نے ’ٹی وی لاؤنج‘ کا تصور پیش کیا۔ جہاں پورا خاندان اکٹھا ہوتا اور ٹی وی پر نظر آنے والا ہر شخص اس خاندان کا حصہ سمجھا جاتا۔ جبھی ہر کوئی تہذیب، شائستگی، معیار اور ثقافت کا اعلیٰ نظارہ پیش کرتا۔ فنکار اور گلوکار ہی نہیں اُسی دور کے نیوز اینکرز تک کے نام بچے بچے کی زبان پر ہوتے۔ وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ماضی میں تفریح کا ایک ہی ذریعہ ’پی ٹی وی‘ جو ہوتا تھا۔عشرت فاطمہ اور خالد حمید کی جوڑی جب اسکرین پر آتی تو سب کی نگاہیں ٹی وی سے نہیں ہٹیں۔ انہی درخشاں روشن ستاروں کو ’میڈیا بیٹھک‘ نے ایک بار پھر یکجاں کیا اور ’آن لائن سیشن‘ کے دوران ماضی کے ورق پلٹے تو لگا جیسے پھر سے اُس دور میں پہنچ گئے۔ براڈکاسٹر، نیوز اینکر اور تجزیہ کار ناجیہ اشعر نے خالد حمید اور عشرت فاطمہ سے کئی ایسے دلچسپ اور بامعنی سوالات کیے جو وقت کا تقاضہ ہیں۔


شہرہ آفاق نیوز اینکر خالد حمید کہتے تھے کہ اُس دور میں بہت ساری احتیاط کی جاتیں۔ ایک ایک لفظ اور جملے پر غور کیا جاتا۔ تجربہ کار اور سنئیرز کو خبریں پڑھ کر سنائی جاتیں۔ جو انداز بیان میں اور شائستگی لانے کے بنیاد ی گُر بتاتے۔ پی ٹی وی کا ’خبر نامہ‘ بغیر ریہرسل کے براہ راست پڑھا جاتا اور غلطی کی قطعی طور پر کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ خالد حمید کے مطابق چونکہ ریڈیو سے تربیت حاصل کی تھی اسی لیے کبھی کوئی مشکل نہیں ہوئی۔ درحقیقت ریڈیو، انسٹی ٹیوٹ کا درجہ رکھتا۔ جہاں تلفظ، ادائیگی، جملوں کی نشست اور برخاست کا ہنر سکھایا جاتا۔ اُس دور میں معاشرے کی تربیت میں ریڈیو کا اہم کردار ہوتا۔ جہاں پر ممتاز ادیب، صحافی، شاعر اور فنکار کام کرتے، ان میں اسلم اظہر، زبیر علی، فضل کمال جیسی باکمال شخصیات تھیں۔ جنہوں نے جب ٹی وی کا رخ کیا تو ثقافت، تہذیب، رکھ رکھاؤ اور مہذبانہ طرز عمل کی روایت کو برقرار رکھا۔
عشرت فاطمہ نے ماضی کی راکھ کریدتے ہوئے بتایا کہ ہر’خبرنامہ‘ کے بعد میٹنگ ہوتی۔ جس میں اس بات کا جائزہ لیا جاتا کہ آج کون سی غلطی یا خامی کی۔ ’خبرنامہ‘ دراصل پورے ادارے کا پروجیکٹ ہوتا۔وزیر اطلاعات سے لے کر اینکر تک بہتر سے بہتر کی تلاش میں رہتے۔ باریک سے باریک پہلو پر توجہ دی جاتی۔ یہاں تک نوٹ کیا جاتا کہ اینکرز کا انداز ایسا تو نہیں تھا کہ ناظرین کی توجہ خبروں کے بجائے ان کے انداز پر الجھ گئی ہو۔
خالد حمید کا کہنا تھا کہ نیوز کاسٹر کا مہذبانہ امیج ہوتا۔ تاکید کی جاتی کہ عملی زندگی میں بھی اسی سادگی اور پروقار انداز کو اختیار کریں۔نجی محفلوں میں بھی کہیں بھی کوئی معیار سے گر کر گفتگو نہ کریں۔ وجہ یہ بیان کی جاتی کہ کیونکہ ناظرین، نیوز کاسٹرز کو دیکھ کر خبر پر اعتبار کرتے ہیں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ خبر اپنی افادیت کھو دے۔ نیوز اینکرز کی آواز بلند نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ دھیمے اور پرسکون انداز میں بڑے سے بڑے سانحہ کو شائستگی کے ساتھ پیش کرتے۔ صدر سے لے کر ایک عام انسان تک ہمیں دیکھتا۔
عشرت فاطمہ نے دلچسپ انکشاف کیا کہ انہوں نے کبھی بھی کسی نیوز اینکر کو منہ کھول کر قہقہہ لگا تے ہوئے نہیں دیکھا۔ پروقار انداز میں مسکراتے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ نیو زاینکرز، بنانے کی کوشش نہیں کی جاتی بلکہ یہ بنے بنائے ہوتے۔ان کے مطابق کبھی کوئی دلخراش خبر دی بھی تو اپنے جذبات اور احساسات کو ایک جانب رکھ کر۔
خالد حمید اس بات پر خاصے مسرور ہیں کہ انہیں ابتدا میں ہی سلطان غازی، اظہرلودھی، وراثت مرزا، ثریا شہاب، ستارہ زیدی، ارجمند شاہین اور ماہ پارہ صفدر کی رہنمائی رہی جن سے بہت کچھ سیکھا۔زیادہ تر خبریں ایک طے شدہ ضابطہ اخلاق سے ہو کر گزرتیں۔ جس کے باعث خبر میں حساسات کے پہلو کا خاص خیال رکھا جاتا، اس پہلو پر بھی غور کیا جاتا کہ کوئی خبر کسی فرقے، گروہ یا مذہب کے ساتھ کسی جماعت کے خلاف نہ ہو ۔ ’خبرنامہ‘ میں صرف اور صرف اہم قومی اور بین الاقوامی خبریں شامل کی جاتیں۔ دور حاضر کی طرح معمولی سے واقعے کو نو بجے کے خبرنامے میں جگہ نہیں دی جاتی۔ بلکہ ایسی خبروں کو مقامی خبروں میں اہمیت دی جاتی۔
عشرت فاطمہ کے مطابق موجودہ دور کے ٹی وی چینلز کی خبروں میں انگریزی الفاظ کثرت سے شامل کیے جارہے ہیں۔لغت سے دوستی پر کسی کی توجہ نہیں۔ اردو کو پروان چڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ انگریزی الفاظ کے متبادل تلاش کیے جائیں۔
خالد حمید کا کہنا ہے کہ دور حاضر کے اینکرز تعلیم یافتہ اور جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہیں۔ کوشش کریں کہ اس ٹیکنالوجی کا مثبت انداز میں استعمال کیا جائے۔نیو ز اینکرذہن کو ترو تازہ رکھیں۔ غیر ضرور ی طو ر پردباؤ کا شکا ر نہ ہوں۔ اپنے پیشے کے ساتھ اسی وقت انصاف ہوسکتا ہے جب آپ اپنے سب سے بڑے نقاد بن جائیں۔ درحقیقت سیکھنے اور سکھانے کاعمل کسی بھی مرحلے پر تھمتا نہیں۔خالد حمید کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ انہوں نے بھٹو صاحب کی تمام تر انگریزی زبان کی تقریروں کی اردو میں ڈبنگ کی ، اسی لیے انہیں “ اردو کا وزیراعظم “ بھی کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے۔

ہماری عمر کے افراد کے لیے بچپن میں ’خبرنامہ‘ دیکھنے کی چیز ہوتی۔ خبریں تو سر کے اوپر سے گزر جاتیں لیکن نیوز اینکرز کا کیا انداز ہے، کس طرح وہ خبریں پڑھ رہے ہیں،اس میں توجہ رہتی۔ ہماری دلچسپی کا محور کھیلوں کی خبریں ہوتیں۔ کیونکہ اُس دور میں یہ تو بتایا نہیں جاتا تھا کہ عید الفطر پرسنیما گھروں میں کس فلم نے کیا کاروبار کیا۔ یا پھر فلاں اداکار کی کون سی نئی فلم آنے والی ہے یا پھر فلاں اداکارہ نے اپنا فارغ وقت کیسا گزارا۔۔ انتہائی سادہ دور تھا۔ جب رات نوبجتے ہی سب گھر والے سلسلہ وار ڈراما سیریل سے فارغ ہونے کے بعد ٹی وی بند کرنے کے بجائے ’خبرنامہ‘ کا نظارہ کرتے۔دن بھر کی اہم لیکن قومی اور بین الاقوامی معلومات کا سمجھیں خزانہ کھل جاتا۔ ہمارے والدین خاص طور پر تاکید کرتے کہ ان خبروں کو ضرور دیکھیں تاکہ درست تلفظ اور ادائیگی سے آشنا ہوں۔یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ پی ٹی وی نے ’ٹی وی لاؤنج‘ کا تصور پیش کیا۔ جہاں پورا خاندان اکٹھا ہوتا اور ٹی وی پر نظر آنے والا ہر شخص اس خاندان کا حصہ سمجھا جاتا۔ جبھی ہر کوئی تہذیب، شائستگی، معیار اور ثقافت کا اعلیٰ نظارہ پیش کرتا۔ فنکار اور گلوکار ہی نہیں اُسی دور کے نیوز اینکرز تک کے نام بچے بچے کی زبان پر ہوتے۔ وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ماضی میں تفریح کا ایک ہی ذریعہ ’پی ٹی وی‘ جو ہوتا تھا۔عشرت فاطمہ اور خالد حمید کی جوڑی جب اسکرین پر آتی تو سب کی نگاہیں ٹی وی سے نہیں ہٹیں۔ انہی درخشاں روشن ستاروں کو ’میڈیا بیٹھک‘ نے ایک بار پھر یکجاں کیا اور ’آن لائن سیشن‘ کے دوران ماضی کے ورق پلٹے تو لگا جیسے پھر سے اُس دور میں پہنچ گئے۔ براڈکاسٹر، نیوز اینکر اور تجزیہ کار ناجیہ اشعر نے خالد حمید اور عشرت فاطمہ سے کئی ایسے دلچسپ اور بامعنی سوالات کیے جو وقت کا تقاضہ ہیں۔


شہرہ آفاق نیوز اینکر خالد حمید کہتے تھے کہ اُس دور میں بہت ساری احتیاط کی جاتیں۔ ایک ایک لفظ اور جملے پر غور کیا جاتا۔ تجربہ کار اور سنئیرز کو خبریں پڑھ کر سنائی جاتیں۔ جو انداز بیان میں اور شائستگی لانے کے بنیاد ی گُر بتاتے۔ پی ٹی وی کا ’خبر نامہ‘ بغیر ریہرسل کے براہ راست پڑھا جاتا اور غلطی کی قطعی طور پر کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ خالد حمید کے مطابق چونکہ ریڈیو سے تربیت حاصل کی تھی اسی لیے کبھی کوئی مشکل نہیں ہوئی۔ درحقیقت ریڈیو، انسٹی ٹیوٹ کا درجہ رکھتا۔ جہاں تلفظ، ادائیگی، جملوں کی نشست اور برخاست کا ہنر سکھایا جاتا۔ اُس دور میں معاشرے کی تربیت میں ریڈیو کا اہم کردار ہوتا۔ جہاں پر ممتاز ادیب، صحافی، شاعر اور فنکار کام کرتے، ان میں اسلم اظہر، زبیر علی، فضل کمال جیسی باکمال شخصیات تھیں۔ جنہوں نے جب ٹی وی کا رخ کیا تو ثقافت، تہذیب، رکھ رکھاؤ اور مہذبانہ طرز عمل کی روایت کو برقرار رکھا۔
عشرت فاطمہ نے ماضی کی راکھ کریدتے ہوئے بتایا کہ ہر’خبرنامہ‘ کے بعد میٹنگ ہوتی۔ جس میں اس بات کا جائزہ لیا جاتا کہ آج کون سی غلطی یا خامی کی۔ ’خبرنامہ‘ دراصل پورے ادارے کا پروجیکٹ ہوتا۔وزیر اطلاعات سے لے کر اینکر تک بہتر سے بہتر کی تلاش میں رہتے۔ باریک سے باریک پہلو پر توجہ دی جاتی۔ یہاں تک نوٹ کیا جاتا کہ اینکرز کا انداز ایسا تو نہیں تھا کہ ناظرین کی توجہ خبروں کے بجائے ان کے انداز پر الجھ گئی ہو۔
خالد حمید کا کہنا تھا کہ نیوز کاسٹر کا مہذبانہ امیج ہوتا۔ تاکید کی جاتی کہ عملی زندگی میں بھی اسی سادگی اور پروقار انداز کو اختیار کریں۔نجی محفلوں میں بھی کہیں بھی کوئی معیار سے گر کر گفتگو نہ کریں۔ وجہ یہ بیان کی جاتی کہ کیونکہ ناظرین، نیوز کاسٹرز کو دیکھ کر خبر پر اعتبار کرتے ہیں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ خبر اپنی افادیت کھو دے۔ نیوز اینکرز کی آواز بلند نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ دھیمے اور پرسکون انداز میں بڑے سے بڑے سانحہ کو شائستگی کے ساتھ پیش کرتے۔ صدر سے لے کر ایک عام انسان تک ہمیں دیکھتا۔
عشرت فاطمہ نے دلچسپ انکشاف کیا کہ انہوں نے کبھی بھی کسی نیوز اینکر کو منہ کھول کر قہقہہ لگا تے ہوئے نہیں دیکھا۔ پروقار انداز میں مسکراتے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ نیو زاینکرز، بنانے کی کوشش نہیں کی جاتی بلکہ یہ بنے بنائے ہوتے۔ان کے مطابق کبھی کوئی دلخراش خبر دی بھی تو اپنے جذبات اور احساسات کو ایک جانب رکھ کر۔
خالد حمید اس بات پر خاصے مسرور ہیں کہ انہیں ابتدا میں ہی سلطان غازی، اظہرلودھی، وراثت مرزا، ثریا شہاب، ستارہ زیدی، ارجمند شاہین اور ماہ پارہ صفدر کی رہنمائی رہی جن سے بہت کچھ سیکھا۔زیادہ تر خبریں ایک طے شدہ ضابطہ اخلاق سے ہو کر گزرتیں۔ جس کے باعث خبر میں حساسات کے پہلو کا خاص خیال رکھا جاتا، اس پہلو پر بھی غور کیا جاتا کہ کوئی خبر کسی فرقے، گروہ یا مذہب کے ساتھ کسی جماعت کے خلاف نہ ہو ۔ ’خبرنامہ‘ میں صرف اور صرف اہم قومی اور بین الاقوامی خبریں شامل کی جاتیں۔ دور حاضر کی طرح معمولی سے واقعے کو نو بجے کے خبرنامے میں جگہ نہیں دی جاتی۔ بلکہ ایسی خبروں کو مقامی خبروں میں اہمیت دی جاتی۔
عشرت فاطمہ کے مطابق موجودہ دور کے ٹی وی چینلز کی خبروں میں انگریزی الفاظ کثرت سے شامل کیے جارہے ہیں۔لغت سے دوستی پر کسی کی توجہ نہیں۔ اردو کو پروان چڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ انگریزی الفاظ کے متبادل تلاش کیے جائیں۔
خالد حمید کا کہنا ہے کہ دور حاضر کے اینکرز تعلیم یافتہ اور جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہیں۔ کوشش کریں کہ اس ٹیکنالوجی کا مثبت انداز میں استعمال کیا جائے۔نیو ز اینکرذہن کو ترو تازہ رکھیں۔ غیر ضرور ی طو ر پردباؤ کا شکا ر نہ ہوں۔ اپنے پیشے کے ساتھ اسی وقت انصاف ہوسکتا ہے جب آپ اپنے سب سے بڑے نقاد بن جائیں۔ درحقیقت سیکھنے اور سکھانے کاعمل کسی بھی مرحلے پر تھمتا نہیں۔خالد حمید کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ انہوں نے بھٹو صاحب کی تمام تر انگریزی زبان کی تقریروں کی اردو میں ڈبنگ کی ، اسی لیے انہیں “ اردو کا وزیراعظم “ بھی کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے۔

ہماری عمر کے افراد کے لیے بچپن میں ’خبرنامہ‘ دیکھنے کی چیز ہوتی۔ خبریں تو سر کے اوپر سے گزر جاتیں لیکن نیوز اینکرز کا کیا انداز ہے، کس طرح وہ خبریں پڑھ رہے ہیں،اس میں توجہ رہتی۔ ہماری دلچسپی کا محور کھیلوں کی خبریں ہوتیں۔ کیونکہ اُس دور میں یہ تو بتایا نہیں جاتا تھا کہ عید الفطر پرسنیما گھروں میں کس فلم نے کیا کاروبار کیا۔ یا پھر فلاں اداکار کی کون سی نئی فلم آنے والی ہے یا پھر فلاں اداکارہ نے اپنا فارغ وقت کیسا گزارا۔۔ انتہائی سادہ دور تھا۔ جب رات نوبجتے ہی سب گھر والے سلسلہ وار ڈراما سیریل سے فارغ ہونے کے بعد ٹی وی بند کرنے کے بجائے ’خبرنامہ‘ کا نظارہ کرتے۔دن بھر کی اہم لیکن قومی اور بین الاقوامی معلومات کا سمجھیں خزانہ کھل جاتا۔ ہمارے والدین خاص طور پر تاکید کرتے کہ ان خبروں کو ضرور دیکھیں تاکہ درست تلفظ اور ادائیگی سے آشنا ہوں۔یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ پی ٹی وی نے ’ٹی وی لاؤنج‘ کا تصور پیش کیا۔ جہاں پورا خاندان اکٹھا ہوتا اور ٹی وی پر نظر آنے والا ہر شخص اس خاندان کا حصہ سمجھا جاتا۔ جبھی ہر کوئی تہذیب، شائستگی، معیار اور ثقافت کا اعلیٰ نظارہ پیش کرتا۔ فنکار اور گلوکار ہی نہیں اُسی دور کے نیوز اینکرز تک کے نام بچے بچے کی زبان پر ہوتے۔ وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ماضی میں تفریح کا ایک ہی ذریعہ ’پی ٹی وی‘ جو ہوتا تھا۔عشرت فاطمہ اور خالد حمید کی جوڑی جب اسکرین پر آتی تو سب کی نگاہیں ٹی وی سے نہیں ہٹیں۔ انہی درخشاں روشن ستاروں کو ’میڈیا بیٹھک‘ نے ایک بار پھر یکجاں کیا اور ’آن لائن سیشن‘ کے دوران ماضی کے ورق پلٹے تو لگا جیسے پھر سے اُس دور میں پہنچ گئے۔ براڈکاسٹر، نیوز اینکر اور تجزیہ کار ناجیہ اشعر نے خالد حمید اور عشرت فاطمہ سے کئی ایسے دلچسپ اور بامعنی سوالات کیے جو وقت کا تقاضہ ہیں۔


شہرہ آفاق نیوز اینکر خالد حمید کہتے تھے کہ اُس دور میں بہت ساری احتیاط کی جاتیں۔ ایک ایک لفظ اور جملے پر غور کیا جاتا۔ تجربہ کار اور سنئیرز کو خبریں پڑھ کر سنائی جاتیں۔ جو انداز بیان میں اور شائستگی لانے کے بنیاد ی گُر بتاتے۔ پی ٹی وی کا ’خبر نامہ‘ بغیر ریہرسل کے براہ راست پڑھا جاتا اور غلطی کی قطعی طور پر کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ خالد حمید کے مطابق چونکہ ریڈیو سے تربیت حاصل کی تھی اسی لیے کبھی کوئی مشکل نہیں ہوئی۔ درحقیقت ریڈیو، انسٹی ٹیوٹ کا درجہ رکھتا۔ جہاں تلفظ، ادائیگی، جملوں کی نشست اور برخاست کا ہنر سکھایا جاتا۔ اُس دور میں معاشرے کی تربیت میں ریڈیو کا اہم کردار ہوتا۔ جہاں پر ممتاز ادیب، صحافی، شاعر اور فنکار کام کرتے، ان میں اسلم اظہر، زبیر علی، فضل کمال جیسی باکمال شخصیات تھیں۔ جنہوں نے جب ٹی وی کا رخ کیا تو ثقافت، تہذیب، رکھ رکھاؤ اور مہذبانہ طرز عمل کی روایت کو برقرار رکھا۔
عشرت فاطمہ نے ماضی کی راکھ کریدتے ہوئے بتایا کہ ہر’خبرنامہ‘ کے بعد میٹنگ ہوتی۔ جس میں اس بات کا جائزہ لیا جاتا کہ آج کون سی غلطی یا خامی کی۔ ’خبرنامہ‘ دراصل پورے ادارے کا پروجیکٹ ہوتا۔وزیر اطلاعات سے لے کر اینکر تک بہتر سے بہتر کی تلاش میں رہتے۔ باریک سے باریک پہلو پر توجہ دی جاتی۔ یہاں تک نوٹ کیا جاتا کہ اینکرز کا انداز ایسا تو نہیں تھا کہ ناظرین کی توجہ خبروں کے بجائے ان کے انداز پر الجھ گئی ہو۔
خالد حمید کا کہنا تھا کہ نیوز کاسٹر کا مہذبانہ امیج ہوتا۔ تاکید کی جاتی کہ عملی زندگی میں بھی اسی سادگی اور پروقار انداز کو اختیار کریں۔نجی محفلوں میں بھی کہیں بھی کوئی معیار سے گر کر گفتگو نہ کریں۔ وجہ یہ بیان کی جاتی کہ کیونکہ ناظرین، نیوز کاسٹرز کو دیکھ کر خبر پر اعتبار کرتے ہیں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ خبر اپنی افادیت کھو دے۔ نیوز اینکرز کی آواز بلند نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ دھیمے اور پرسکون انداز میں بڑے سے بڑے سانحہ کو شائستگی کے ساتھ پیش کرتے۔ صدر سے لے کر ایک عام انسان تک ہمیں دیکھتا۔
عشرت فاطمہ نے دلچسپ انکشاف کیا کہ انہوں نے کبھی بھی کسی نیوز اینکر کو منہ کھول کر قہقہہ لگا تے ہوئے نہیں دیکھا۔ پروقار انداز میں مسکراتے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ نیو زاینکرز، بنانے کی کوشش نہیں کی جاتی بلکہ یہ بنے بنائے ہوتے۔ان کے مطابق کبھی کوئی دلخراش خبر دی بھی تو اپنے جذبات اور احساسات کو ایک جانب رکھ کر۔
خالد حمید اس بات پر خاصے مسرور ہیں کہ انہیں ابتدا میں ہی سلطان غازی، اظہرلودھی، وراثت مرزا، ثریا شہاب، ستارہ زیدی، ارجمند شاہین اور ماہ پارہ صفدر کی رہنمائی رہی جن سے بہت کچھ سیکھا۔زیادہ تر خبریں ایک طے شدہ ضابطہ اخلاق سے ہو کر گزرتیں۔ جس کے باعث خبر میں حساسات کے پہلو کا خاص خیال رکھا جاتا، اس پہلو پر بھی غور کیا جاتا کہ کوئی خبر کسی فرقے، گروہ یا مذہب کے ساتھ کسی جماعت کے خلاف نہ ہو ۔ ’خبرنامہ‘ میں صرف اور صرف اہم قومی اور بین الاقوامی خبریں شامل کی جاتیں۔ دور حاضر کی طرح معمولی سے واقعے کو نو بجے کے خبرنامے میں جگہ نہیں دی جاتی۔ بلکہ ایسی خبروں کو مقامی خبروں میں اہمیت دی جاتی۔
عشرت فاطمہ کے مطابق موجودہ دور کے ٹی وی چینلز کی خبروں میں انگریزی الفاظ کثرت سے شامل کیے جارہے ہیں۔لغت سے دوستی پر کسی کی توجہ نہیں۔ اردو کو پروان چڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ انگریزی الفاظ کے متبادل تلاش کیے جائیں۔
خالد حمید کا کہنا ہے کہ دور حاضر کے اینکرز تعلیم یافتہ اور جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہیں۔ کوشش کریں کہ اس ٹیکنالوجی کا مثبت انداز میں استعمال کیا جائے۔نیو ز اینکرذہن کو ترو تازہ رکھیں۔ غیر ضرور ی طو ر پردباؤ کا شکا ر نہ ہوں۔ اپنے پیشے کے ساتھ اسی وقت انصاف ہوسکتا ہے جب آپ اپنے سب سے بڑے نقاد بن جائیں۔ درحقیقت سیکھنے اور سکھانے کاعمل کسی بھی مرحلے پر تھمتا نہیں۔خالد حمید کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ انہوں نے بھٹو صاحب کی تمام تر انگریزی زبان کی تقریروں کی اردو میں ڈبنگ کی ، اسی لیے انہیں “ اردو کا وزیراعظم “ بھی کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے۔

ہماری عمر کے افراد کے لیے بچپن میں ’خبرنامہ‘ دیکھنے کی چیز ہوتی۔ خبریں تو سر کے اوپر سے گزر جاتیں لیکن نیوز اینکرز کا کیا انداز ہے، کس طرح وہ خبریں پڑھ رہے ہیں،اس میں توجہ رہتی۔ ہماری دلچسپی کا محور کھیلوں کی خبریں ہوتیں۔ کیونکہ اُس دور میں یہ تو بتایا نہیں جاتا تھا کہ عید الفطر پرسنیما گھروں میں کس فلم نے کیا کاروبار کیا۔ یا پھر فلاں اداکار کی کون سی نئی فلم آنے والی ہے یا پھر فلاں اداکارہ نے اپنا فارغ وقت کیسا گزارا۔۔ انتہائی سادہ دور تھا۔ جب رات نوبجتے ہی سب گھر والے سلسلہ وار ڈراما سیریل سے فارغ ہونے کے بعد ٹی وی بند کرنے کے بجائے ’خبرنامہ‘ کا نظارہ کرتے۔دن بھر کی اہم لیکن قومی اور بین الاقوامی معلومات کا سمجھیں خزانہ کھل جاتا۔ ہمارے والدین خاص طور پر تاکید کرتے کہ ان خبروں کو ضرور دیکھیں تاکہ درست تلفظ اور ادائیگی سے آشنا ہوں۔یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ پی ٹی وی نے ’ٹی وی لاؤنج‘ کا تصور پیش کیا۔ جہاں پورا خاندان اکٹھا ہوتا اور ٹی وی پر نظر آنے والا ہر شخص اس خاندان کا حصہ سمجھا جاتا۔ جبھی ہر کوئی تہذیب، شائستگی، معیار اور ثقافت کا اعلیٰ نظارہ پیش کرتا۔ فنکار اور گلوکار ہی نہیں اُسی دور کے نیوز اینکرز تک کے نام بچے بچے کی زبان پر ہوتے۔ وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ماضی میں تفریح کا ایک ہی ذریعہ ’پی ٹی وی‘ جو ہوتا تھا۔عشرت فاطمہ اور خالد حمید کی جوڑی جب اسکرین پر آتی تو سب کی نگاہیں ٹی وی سے نہیں ہٹیں۔ انہی درخشاں روشن ستاروں کو ’میڈیا بیٹھک‘ نے ایک بار پھر یکجاں کیا اور ’آن لائن سیشن‘ کے دوران ماضی کے ورق پلٹے تو لگا جیسے پھر سے اُس دور میں پہنچ گئے۔ براڈکاسٹر، نیوز اینکر اور تجزیہ کار ناجیہ اشعر نے خالد حمید اور عشرت فاطمہ سے کئی ایسے دلچسپ اور بامعنی سوالات کیے جو وقت کا تقاضہ ہیں۔


شہرہ آفاق نیوز اینکر خالد حمید کہتے تھے کہ اُس دور میں بہت ساری احتیاط کی جاتیں۔ ایک ایک لفظ اور جملے پر غور کیا جاتا۔ تجربہ کار اور سنئیرز کو خبریں پڑھ کر سنائی جاتیں۔ جو انداز بیان میں اور شائستگی لانے کے بنیاد ی گُر بتاتے۔ پی ٹی وی کا ’خبر نامہ‘ بغیر ریہرسل کے براہ راست پڑھا جاتا اور غلطی کی قطعی طور پر کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ خالد حمید کے مطابق چونکہ ریڈیو سے تربیت حاصل کی تھی اسی لیے کبھی کوئی مشکل نہیں ہوئی۔ درحقیقت ریڈیو، انسٹی ٹیوٹ کا درجہ رکھتا۔ جہاں تلفظ، ادائیگی، جملوں کی نشست اور برخاست کا ہنر سکھایا جاتا۔ اُس دور میں معاشرے کی تربیت میں ریڈیو کا اہم کردار ہوتا۔ جہاں پر ممتاز ادیب، صحافی، شاعر اور فنکار کام کرتے، ان میں اسلم اظہر، زبیر علی، فضل کمال جیسی باکمال شخصیات تھیں۔ جنہوں نے جب ٹی وی کا رخ کیا تو ثقافت، تہذیب، رکھ رکھاؤ اور مہذبانہ طرز عمل کی روایت کو برقرار رکھا۔
عشرت فاطمہ نے ماضی کی راکھ کریدتے ہوئے بتایا کہ ہر’خبرنامہ‘ کے بعد میٹنگ ہوتی۔ جس میں اس بات کا جائزہ لیا جاتا کہ آج کون سی غلطی یا خامی کی۔ ’خبرنامہ‘ دراصل پورے ادارے کا پروجیکٹ ہوتا۔وزیر اطلاعات سے لے کر اینکر تک بہتر سے بہتر کی تلاش میں رہتے۔ باریک سے باریک پہلو پر توجہ دی جاتی۔ یہاں تک نوٹ کیا جاتا کہ اینکرز کا انداز ایسا تو نہیں تھا کہ ناظرین کی توجہ خبروں کے بجائے ان کے انداز پر الجھ گئی ہو۔
خالد حمید کا کہنا تھا کہ نیوز کاسٹر کا مہذبانہ امیج ہوتا۔ تاکید کی جاتی کہ عملی زندگی میں بھی اسی سادگی اور پروقار انداز کو اختیار کریں۔نجی محفلوں میں بھی کہیں بھی کوئی معیار سے گر کر گفتگو نہ کریں۔ وجہ یہ بیان کی جاتی کہ کیونکہ ناظرین، نیوز کاسٹرز کو دیکھ کر خبر پر اعتبار کرتے ہیں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ خبر اپنی افادیت کھو دے۔ نیوز اینکرز کی آواز بلند نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ دھیمے اور پرسکون انداز میں بڑے سے بڑے سانحہ کو شائستگی کے ساتھ پیش کرتے۔ صدر سے لے کر ایک عام انسان تک ہمیں دیکھتا۔
عشرت فاطمہ نے دلچسپ انکشاف کیا کہ انہوں نے کبھی بھی کسی نیوز اینکر کو منہ کھول کر قہقہہ لگا تے ہوئے نہیں دیکھا۔ پروقار انداز میں مسکراتے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ نیو زاینکرز، بنانے کی کوشش نہیں کی جاتی بلکہ یہ بنے بنائے ہوتے۔ان کے مطابق کبھی کوئی دلخراش خبر دی بھی تو اپنے جذبات اور احساسات کو ایک جانب رکھ کر۔
خالد حمید اس بات پر خاصے مسرور ہیں کہ انہیں ابتدا میں ہی سلطان غازی، اظہرلودھی، وراثت مرزا، ثریا شہاب، ستارہ زیدی، ارجمند شاہین اور ماہ پارہ صفدر کی رہنمائی رہی جن سے بہت کچھ سیکھا۔زیادہ تر خبریں ایک طے شدہ ضابطہ اخلاق سے ہو کر گزرتیں۔ جس کے باعث خبر میں حساسات کے پہلو کا خاص خیال رکھا جاتا، اس پہلو پر بھی غور کیا جاتا کہ کوئی خبر کسی فرقے، گروہ یا مذہب کے ساتھ کسی جماعت کے خلاف نہ ہو ۔ ’خبرنامہ‘ میں صرف اور صرف اہم قومی اور بین الاقوامی خبریں شامل کی جاتیں۔ دور حاضر کی طرح معمولی سے واقعے کو نو بجے کے خبرنامے میں جگہ نہیں دی جاتی۔ بلکہ ایسی خبروں کو مقامی خبروں میں اہمیت دی جاتی۔
عشرت فاطمہ کے مطابق موجودہ دور کے ٹی وی چینلز کی خبروں میں انگریزی الفاظ کثرت سے شامل کیے جارہے ہیں۔لغت سے دوستی پر کسی کی توجہ نہیں۔ اردو کو پروان چڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ انگریزی الفاظ کے متبادل تلاش کیے جائیں۔
خالد حمید کا کہنا ہے کہ دور حاضر کے اینکرز تعلیم یافتہ اور جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہیں۔ کوشش کریں کہ اس ٹیکنالوجی کا مثبت انداز میں استعمال کیا جائے۔نیو ز اینکرذہن کو ترو تازہ رکھیں۔ غیر ضرور ی طو ر پردباؤ کا شکا ر نہ ہوں۔ اپنے پیشے کے ساتھ اسی وقت انصاف ہوسکتا ہے جب آپ اپنے سب سے بڑے نقاد بن جائیں۔ درحقیقت سیکھنے اور سکھانے کاعمل کسی بھی مرحلے پر تھمتا نہیں۔خالد حمید کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ انہوں نے بھٹو صاحب کی تمام تر انگریزی زبان کی تقریروں کی اردو میں ڈبنگ کی ، اسی لیے انہیں “ اردو کا وزیراعظم “ بھی کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے۔