Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
دیار غیر میں پاکستان کی یاد اور پھر وطن کی تڑپ میں کسی بھی سانحہ پر دل دکھی ہونا، یہ سب فطری اور اکثر اوورسیز کا مسئلہ رہا ہے، ہمارے دوست ڈنمارک میں پچھلی تین دہائیوں سے مقیم ہیں، کبھی کبھار اپنوں کی یاد ستائے تو آجاتے ہیں۔ ہم دونوں میں برسوں سے تواتر کے ساتھ رابطہ ضرور رہا ہے جس کی وجہ سے محسوس نہیں ہوتا کہ ہم کم ملتے ہیں۔
پاکستان کی سیاست، معیشت اور معاشرت میں ہونے والی تبدیلیاں معمول کی گفتگو کا موضوع رہتا ہے، میرا دوست ملک کے لیے بہت سوچتا اور مسائل کے لیے نہ صرف درد رکھتا بلکہ اکثر ان کے حل بھی تجویز کرتا رہتا ہے۔ وہ بھی کئی اورسیز کی طرح جذباتی طور پر وزیراعظم عمران خان سے بہت سی امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے۔ ساری مخالفتوں اور تنقید کے باوجود اسے توقع ہے کہ کچھ اچھا ہوجائے گا۔ جیسے وہ کسی معجزے کے انتظارمیں ہو۔
وہ کہتا ہے کہ ہماری ریاست کے کچھ ادارے بہت مضبوط اور منظم ہیں مگر زیادہ تر ریاستی ڈھانچہ نہایت کمزور بنیادوں پر کھڑا ہے، جس کے نتیجے میں عوام کی آس اور امید شاید کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکیں گے۔
وہ ہمیشہ اس بات کا رونا روتا ہے کہ ہم اعتماد کے خسارے، ٹرسٹ ڈیفسٹ کا شکار رہے ہیں، ایک دوسرے پر بھروسہ کھوچکے ہیں۔ کوئی کسی پر اعتبار نہیں کرتا۔ من حیث القوم دوسروں سے اختلاف کا مزاج بن گیا ہے۔ کسی کی بات کا یقین ہی نہیں آتا۔ ادارے اور فرد جیسے اپنی ساکھ کھوچکے ہیں۔ ہر کسی کو اپنا آپ درست اور مخالف فریق غلط لگتا ہے۔
وہ کہتا ہے ہم دوسروں کے بارے میں اچھا گمان کرنا جیسے بھول گئے ہیں، بدگمانی نے ہمارے اندر جگہ بنالی ہے۔ اپنے فائدے کا سوچتے ہیں، سب کا مفاد کس میں ہے ہماری سوچ اس طرف جاتی ہی نہیں کوئی ایسی بات کردے تو عجیب لگتا ہے۔
اس نے کورونا سے متعلق کئی معاملات پر گزرے دنوں میں باتیں کیں، کئی تجربات کا تبادلہ ہوا، لیکن ایک واقعہ گزشتہ دنوں سناتے جیسے جذباتی سا ہوگیا، اور کہنے لگا عمران خان کو اوورسیز پاکستانی بڑے عزیز ہیں ہم لوگوں سے پیسے بھی مانگتے ہیں، ہم ہر مسئلے پر وطن کی خاطر جتنا ہمارے بس میں ہوتا ہے دیتے ہیں لیکن پاکستان میں ہوکیا رہا ہے، اس کو دیکھ کر خوف آتا ہے ہم کس حوصلے سے وہاں آئیں جہاں صرف پیسہ مانگنا ہی رہ گیا ہے۔ کچھ دینا بھی کسی کے فرض میں شامل ہے۔
میں نے پوچھا کیا ہوا ، اس نے جواب دیا کہ کئی واقعات سنے اور خاموش رہے کیونکہ ہم بھی وہیں سے آئے ہیں کون سا انجان ہیں۔ اب تازہ ترین قصہ کچھ ایسا ہے کہ دل دکھی ہوگیا۔
گجرات میں میرے عزیز نوجوان کی ریلوے روڈ پر چھوٹی سے دکان ہے، یہ کاروبار بھی موجودہ صورتحال میں بند تھا، جس کے باعث مالی حالات بھی کچھ اچھے نہ تھے، اب اجازت ملی تو اس نے بھی کام شروع کیا۔ دکانیں پانچ بجے بند ہوجاتی ہیں۔ جس کی سب پابندی کرتے ہیں۔ وہ منڈی گیاجہاں سے سامان لاکر دکان میں رکھ رہا تھا، چونکہ یہ پانچ بجے سے بعد کا وقت تھا اس لیے پولیس وہاں آگئی، انہوں نے پوچھا دکان کیوں کھولی ہے، اس نے کہا خریدوفروخت نہیں کررہا منڈی سے سامان لایا ہے اسے رکھ کر دکان بند کردوں گا۔
پولیس اہلکاروں نے کہا تمہارے لیے تین آپشن ہیں، تھانے چلو، کورونا کا ٹیسٹ کراو، یا پھر تیس ہزار روپے دو۔ اسے بڑی حیرت ہوئی یہ کیسی شرائط ہیں۔ اس نے کہا میں نے خلاف ورزی نہیں کی۔ ٹیسٹ میں کیوں کراوں کیونکہ میں صحت مند ہوں کوئی علامات بھی نہیں ہیں۔ میرے پاس اتنی رقم بھی نہیں پھر کسی وجہ سے دوں۔ انہوں نے ظاہر ہے کارروائی تو کرنا تھی، کورونا ایمرجنسی کی اتنی بڑی خلاف ورزی تھی۔ وہ اسے گرفتار کرکے تھانے لے گئے۔ اس نے بتایا کہ انکل میں پہلی بار تھانے آیا، رات انہوں نے حوالات میں رکھا گھروالوں کی ایک نہ مانی۔ الٹا کہا کہ تمہاری ضمانت بھی نہیں ہوگی۔ خاندان والوں میں بدنامی بھی ہوئی، یہ شاید اس شرمندگی سے بھی زیادہ تھی جو کورونا ٹیسٹ مثبت آنے پر لوگوں کو ہوتی ہے۔
اگلے روز گھروالوں نے معززین کو کہہ کر اور دے دلاکر نوجوان کو رہائی دلائی۔ وہ اس سارے عمل سے ذہنی کوفت کا شکار تو تھا ہی، ساتھ میں پریشان تھا کہ جب تک کورونا رہے گا، ہماری پولیس اپنی رٹ دکھاتی رہے گی۔
میرے دوست نے یہ سارا واقعہ سنایا اور پھر سے اس کا لیکچر شروع ہوگیا۔ یار مجھے سمجھ نہیں آتی پاکستان کا سسٹم کیسے ٹھیک ہوگا۔ ہم یہاں ڈنمارک میں اگر کام پر نہیں جاپارہے تو حکومت ہمیں مناسب معاوضہ یا سہولتیں فراہم کررہی ہے۔ آخر ہم کب تک دوسروں کے ساتھ موازنہ کرکے اپنی شرمندگیوں کی داستانیں لکھتے رہیں گے۔ کہیں تو اختتام ہوگا اس بےہنگم پن کا، کوئی ہماری قطار سیدھی نہیں کراسکتا۔ کب تک ہماری دم ٹیڑھی رہے گی۔
کسے قائد بنائیں، کون ہمارا رہنما ہو، کوئی ہے جس کی بات مان لیں۔ دل کی آواز کب سنائی دے گی۔ وہ نہ جانے کیا کچھ بولتا رہا ، اب تو جیسے سماعتیں بھی کام کرنا بند کرگئیں۔ یہ کوئی آج کی بات نہیں، برسوں سے یہی سوچ اور الفاظ اس قوم کا ہم سب کا پیچھا کرتے رہے ہیں۔ کبھی کسی دوست کی صورت اور کبھی استاد، بزرگ یا ناصح کی شکل میں ،
ہم شاید دھمکیوں کے عادی ہوچکے ہیں، وہ کوئی بھی اور کسی بھی حالت میں دی جائے۔ سب مانتے ہیں اور اسی کو حقیقت جانتے ہیں۔ ریاستی ادارہ ہو، بالادست قوت ہو، ہمیں جیسے لاٹھی سے ہانکنے والے ہی رہنما لگتے ہیں۔
میرا دوست پاکستان میں کورونا کی صورتحال اور اس کے نتیجے میں ملنے والی دھمکیوں سے خوفزدہ ہے۔ اس نے مستقبل قریب میں وطن واپسی کا فیصلہ بھی موخر کردیا۔
کہنے لگا کہ ہم تبدیلی کی خواہش میں بہت زیادہ بدل چکے ہیں۔ جہاں آگئے ہیں وہاں سے شاید واپسی بھی ممکن نہیں۔۔
دیار غیر میں پاکستان کی یاد اور پھر وطن کی تڑپ میں کسی بھی سانحہ پر دل دکھی ہونا، یہ سب فطری اور اکثر اوورسیز کا مسئلہ رہا ہے، ہمارے دوست ڈنمارک میں پچھلی تین دہائیوں سے مقیم ہیں، کبھی کبھار اپنوں کی یاد ستائے تو آجاتے ہیں۔ ہم دونوں میں برسوں سے تواتر کے ساتھ رابطہ ضرور رہا ہے جس کی وجہ سے محسوس نہیں ہوتا کہ ہم کم ملتے ہیں۔
پاکستان کی سیاست، معیشت اور معاشرت میں ہونے والی تبدیلیاں معمول کی گفتگو کا موضوع رہتا ہے، میرا دوست ملک کے لیے بہت سوچتا اور مسائل کے لیے نہ صرف درد رکھتا بلکہ اکثر ان کے حل بھی تجویز کرتا رہتا ہے۔ وہ بھی کئی اورسیز کی طرح جذباتی طور پر وزیراعظم عمران خان سے بہت سی امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے۔ ساری مخالفتوں اور تنقید کے باوجود اسے توقع ہے کہ کچھ اچھا ہوجائے گا۔ جیسے وہ کسی معجزے کے انتظارمیں ہو۔
وہ کہتا ہے کہ ہماری ریاست کے کچھ ادارے بہت مضبوط اور منظم ہیں مگر زیادہ تر ریاستی ڈھانچہ نہایت کمزور بنیادوں پر کھڑا ہے، جس کے نتیجے میں عوام کی آس اور امید شاید کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکیں گے۔
وہ ہمیشہ اس بات کا رونا روتا ہے کہ ہم اعتماد کے خسارے، ٹرسٹ ڈیفسٹ کا شکار رہے ہیں، ایک دوسرے پر بھروسہ کھوچکے ہیں۔ کوئی کسی پر اعتبار نہیں کرتا۔ من حیث القوم دوسروں سے اختلاف کا مزاج بن گیا ہے۔ کسی کی بات کا یقین ہی نہیں آتا۔ ادارے اور فرد جیسے اپنی ساکھ کھوچکے ہیں۔ ہر کسی کو اپنا آپ درست اور مخالف فریق غلط لگتا ہے۔
وہ کہتا ہے ہم دوسروں کے بارے میں اچھا گمان کرنا جیسے بھول گئے ہیں، بدگمانی نے ہمارے اندر جگہ بنالی ہے۔ اپنے فائدے کا سوچتے ہیں، سب کا مفاد کس میں ہے ہماری سوچ اس طرف جاتی ہی نہیں کوئی ایسی بات کردے تو عجیب لگتا ہے۔
اس نے کورونا سے متعلق کئی معاملات پر گزرے دنوں میں باتیں کیں، کئی تجربات کا تبادلہ ہوا، لیکن ایک واقعہ گزشتہ دنوں سناتے جیسے جذباتی سا ہوگیا، اور کہنے لگا عمران خان کو اوورسیز پاکستانی بڑے عزیز ہیں ہم لوگوں سے پیسے بھی مانگتے ہیں، ہم ہر مسئلے پر وطن کی خاطر جتنا ہمارے بس میں ہوتا ہے دیتے ہیں لیکن پاکستان میں ہوکیا رہا ہے، اس کو دیکھ کر خوف آتا ہے ہم کس حوصلے سے وہاں آئیں جہاں صرف پیسہ مانگنا ہی رہ گیا ہے۔ کچھ دینا بھی کسی کے فرض میں شامل ہے۔
میں نے پوچھا کیا ہوا ، اس نے جواب دیا کہ کئی واقعات سنے اور خاموش رہے کیونکہ ہم بھی وہیں سے آئے ہیں کون سا انجان ہیں۔ اب تازہ ترین قصہ کچھ ایسا ہے کہ دل دکھی ہوگیا۔
گجرات میں میرے عزیز نوجوان کی ریلوے روڈ پر چھوٹی سے دکان ہے، یہ کاروبار بھی موجودہ صورتحال میں بند تھا، جس کے باعث مالی حالات بھی کچھ اچھے نہ تھے، اب اجازت ملی تو اس نے بھی کام شروع کیا۔ دکانیں پانچ بجے بند ہوجاتی ہیں۔ جس کی سب پابندی کرتے ہیں۔ وہ منڈی گیاجہاں سے سامان لاکر دکان میں رکھ رہا تھا، چونکہ یہ پانچ بجے سے بعد کا وقت تھا اس لیے پولیس وہاں آگئی، انہوں نے پوچھا دکان کیوں کھولی ہے، اس نے کہا خریدوفروخت نہیں کررہا منڈی سے سامان لایا ہے اسے رکھ کر دکان بند کردوں گا۔
پولیس اہلکاروں نے کہا تمہارے لیے تین آپشن ہیں، تھانے چلو، کورونا کا ٹیسٹ کراو، یا پھر تیس ہزار روپے دو۔ اسے بڑی حیرت ہوئی یہ کیسی شرائط ہیں۔ اس نے کہا میں نے خلاف ورزی نہیں کی۔ ٹیسٹ میں کیوں کراوں کیونکہ میں صحت مند ہوں کوئی علامات بھی نہیں ہیں۔ میرے پاس اتنی رقم بھی نہیں پھر کسی وجہ سے دوں۔ انہوں نے ظاہر ہے کارروائی تو کرنا تھی، کورونا ایمرجنسی کی اتنی بڑی خلاف ورزی تھی۔ وہ اسے گرفتار کرکے تھانے لے گئے۔ اس نے بتایا کہ انکل میں پہلی بار تھانے آیا، رات انہوں نے حوالات میں رکھا گھروالوں کی ایک نہ مانی۔ الٹا کہا کہ تمہاری ضمانت بھی نہیں ہوگی۔ خاندان والوں میں بدنامی بھی ہوئی، یہ شاید اس شرمندگی سے بھی زیادہ تھی جو کورونا ٹیسٹ مثبت آنے پر لوگوں کو ہوتی ہے۔
اگلے روز گھروالوں نے معززین کو کہہ کر اور دے دلاکر نوجوان کو رہائی دلائی۔ وہ اس سارے عمل سے ذہنی کوفت کا شکار تو تھا ہی، ساتھ میں پریشان تھا کہ جب تک کورونا رہے گا، ہماری پولیس اپنی رٹ دکھاتی رہے گی۔
میرے دوست نے یہ سارا واقعہ سنایا اور پھر سے اس کا لیکچر شروع ہوگیا۔ یار مجھے سمجھ نہیں آتی پاکستان کا سسٹم کیسے ٹھیک ہوگا۔ ہم یہاں ڈنمارک میں اگر کام پر نہیں جاپارہے تو حکومت ہمیں مناسب معاوضہ یا سہولتیں فراہم کررہی ہے۔ آخر ہم کب تک دوسروں کے ساتھ موازنہ کرکے اپنی شرمندگیوں کی داستانیں لکھتے رہیں گے۔ کہیں تو اختتام ہوگا اس بےہنگم پن کا، کوئی ہماری قطار سیدھی نہیں کراسکتا۔ کب تک ہماری دم ٹیڑھی رہے گی۔
کسے قائد بنائیں، کون ہمارا رہنما ہو، کوئی ہے جس کی بات مان لیں۔ دل کی آواز کب سنائی دے گی۔ وہ نہ جانے کیا کچھ بولتا رہا ، اب تو جیسے سماعتیں بھی کام کرنا بند کرگئیں۔ یہ کوئی آج کی بات نہیں، برسوں سے یہی سوچ اور الفاظ اس قوم کا ہم سب کا پیچھا کرتے رہے ہیں۔ کبھی کسی دوست کی صورت اور کبھی استاد، بزرگ یا ناصح کی شکل میں ،
ہم شاید دھمکیوں کے عادی ہوچکے ہیں، وہ کوئی بھی اور کسی بھی حالت میں دی جائے۔ سب مانتے ہیں اور اسی کو حقیقت جانتے ہیں۔ ریاستی ادارہ ہو، بالادست قوت ہو، ہمیں جیسے لاٹھی سے ہانکنے والے ہی رہنما لگتے ہیں۔
میرا دوست پاکستان میں کورونا کی صورتحال اور اس کے نتیجے میں ملنے والی دھمکیوں سے خوفزدہ ہے۔ اس نے مستقبل قریب میں وطن واپسی کا فیصلہ بھی موخر کردیا۔
کہنے لگا کہ ہم تبدیلی کی خواہش میں بہت زیادہ بدل چکے ہیں۔ جہاں آگئے ہیں وہاں سے شاید واپسی بھی ممکن نہیں۔۔
دیار غیر میں پاکستان کی یاد اور پھر وطن کی تڑپ میں کسی بھی سانحہ پر دل دکھی ہونا، یہ سب فطری اور اکثر اوورسیز کا مسئلہ رہا ہے، ہمارے دوست ڈنمارک میں پچھلی تین دہائیوں سے مقیم ہیں، کبھی کبھار اپنوں کی یاد ستائے تو آجاتے ہیں۔ ہم دونوں میں برسوں سے تواتر کے ساتھ رابطہ ضرور رہا ہے جس کی وجہ سے محسوس نہیں ہوتا کہ ہم کم ملتے ہیں۔
پاکستان کی سیاست، معیشت اور معاشرت میں ہونے والی تبدیلیاں معمول کی گفتگو کا موضوع رہتا ہے، میرا دوست ملک کے لیے بہت سوچتا اور مسائل کے لیے نہ صرف درد رکھتا بلکہ اکثر ان کے حل بھی تجویز کرتا رہتا ہے۔ وہ بھی کئی اورسیز کی طرح جذباتی طور پر وزیراعظم عمران خان سے بہت سی امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے۔ ساری مخالفتوں اور تنقید کے باوجود اسے توقع ہے کہ کچھ اچھا ہوجائے گا۔ جیسے وہ کسی معجزے کے انتظارمیں ہو۔
وہ کہتا ہے کہ ہماری ریاست کے کچھ ادارے بہت مضبوط اور منظم ہیں مگر زیادہ تر ریاستی ڈھانچہ نہایت کمزور بنیادوں پر کھڑا ہے، جس کے نتیجے میں عوام کی آس اور امید شاید کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکیں گے۔
وہ ہمیشہ اس بات کا رونا روتا ہے کہ ہم اعتماد کے خسارے، ٹرسٹ ڈیفسٹ کا شکار رہے ہیں، ایک دوسرے پر بھروسہ کھوچکے ہیں۔ کوئی کسی پر اعتبار نہیں کرتا۔ من حیث القوم دوسروں سے اختلاف کا مزاج بن گیا ہے۔ کسی کی بات کا یقین ہی نہیں آتا۔ ادارے اور فرد جیسے اپنی ساکھ کھوچکے ہیں۔ ہر کسی کو اپنا آپ درست اور مخالف فریق غلط لگتا ہے۔
وہ کہتا ہے ہم دوسروں کے بارے میں اچھا گمان کرنا جیسے بھول گئے ہیں، بدگمانی نے ہمارے اندر جگہ بنالی ہے۔ اپنے فائدے کا سوچتے ہیں، سب کا مفاد کس میں ہے ہماری سوچ اس طرف جاتی ہی نہیں کوئی ایسی بات کردے تو عجیب لگتا ہے۔
اس نے کورونا سے متعلق کئی معاملات پر گزرے دنوں میں باتیں کیں، کئی تجربات کا تبادلہ ہوا، لیکن ایک واقعہ گزشتہ دنوں سناتے جیسے جذباتی سا ہوگیا، اور کہنے لگا عمران خان کو اوورسیز پاکستانی بڑے عزیز ہیں ہم لوگوں سے پیسے بھی مانگتے ہیں، ہم ہر مسئلے پر وطن کی خاطر جتنا ہمارے بس میں ہوتا ہے دیتے ہیں لیکن پاکستان میں ہوکیا رہا ہے، اس کو دیکھ کر خوف آتا ہے ہم کس حوصلے سے وہاں آئیں جہاں صرف پیسہ مانگنا ہی رہ گیا ہے۔ کچھ دینا بھی کسی کے فرض میں شامل ہے۔
میں نے پوچھا کیا ہوا ، اس نے جواب دیا کہ کئی واقعات سنے اور خاموش رہے کیونکہ ہم بھی وہیں سے آئے ہیں کون سا انجان ہیں۔ اب تازہ ترین قصہ کچھ ایسا ہے کہ دل دکھی ہوگیا۔
گجرات میں میرے عزیز نوجوان کی ریلوے روڈ پر چھوٹی سے دکان ہے، یہ کاروبار بھی موجودہ صورتحال میں بند تھا، جس کے باعث مالی حالات بھی کچھ اچھے نہ تھے، اب اجازت ملی تو اس نے بھی کام شروع کیا۔ دکانیں پانچ بجے بند ہوجاتی ہیں۔ جس کی سب پابندی کرتے ہیں۔ وہ منڈی گیاجہاں سے سامان لاکر دکان میں رکھ رہا تھا، چونکہ یہ پانچ بجے سے بعد کا وقت تھا اس لیے پولیس وہاں آگئی، انہوں نے پوچھا دکان کیوں کھولی ہے، اس نے کہا خریدوفروخت نہیں کررہا منڈی سے سامان لایا ہے اسے رکھ کر دکان بند کردوں گا۔
پولیس اہلکاروں نے کہا تمہارے لیے تین آپشن ہیں، تھانے چلو، کورونا کا ٹیسٹ کراو، یا پھر تیس ہزار روپے دو۔ اسے بڑی حیرت ہوئی یہ کیسی شرائط ہیں۔ اس نے کہا میں نے خلاف ورزی نہیں کی۔ ٹیسٹ میں کیوں کراوں کیونکہ میں صحت مند ہوں کوئی علامات بھی نہیں ہیں۔ میرے پاس اتنی رقم بھی نہیں پھر کسی وجہ سے دوں۔ انہوں نے ظاہر ہے کارروائی تو کرنا تھی، کورونا ایمرجنسی کی اتنی بڑی خلاف ورزی تھی۔ وہ اسے گرفتار کرکے تھانے لے گئے۔ اس نے بتایا کہ انکل میں پہلی بار تھانے آیا، رات انہوں نے حوالات میں رکھا گھروالوں کی ایک نہ مانی۔ الٹا کہا کہ تمہاری ضمانت بھی نہیں ہوگی۔ خاندان والوں میں بدنامی بھی ہوئی، یہ شاید اس شرمندگی سے بھی زیادہ تھی جو کورونا ٹیسٹ مثبت آنے پر لوگوں کو ہوتی ہے۔
اگلے روز گھروالوں نے معززین کو کہہ کر اور دے دلاکر نوجوان کو رہائی دلائی۔ وہ اس سارے عمل سے ذہنی کوفت کا شکار تو تھا ہی، ساتھ میں پریشان تھا کہ جب تک کورونا رہے گا، ہماری پولیس اپنی رٹ دکھاتی رہے گی۔
میرے دوست نے یہ سارا واقعہ سنایا اور پھر سے اس کا لیکچر شروع ہوگیا۔ یار مجھے سمجھ نہیں آتی پاکستان کا سسٹم کیسے ٹھیک ہوگا۔ ہم یہاں ڈنمارک میں اگر کام پر نہیں جاپارہے تو حکومت ہمیں مناسب معاوضہ یا سہولتیں فراہم کررہی ہے۔ آخر ہم کب تک دوسروں کے ساتھ موازنہ کرکے اپنی شرمندگیوں کی داستانیں لکھتے رہیں گے۔ کہیں تو اختتام ہوگا اس بےہنگم پن کا، کوئی ہماری قطار سیدھی نہیں کراسکتا۔ کب تک ہماری دم ٹیڑھی رہے گی۔
کسے قائد بنائیں، کون ہمارا رہنما ہو، کوئی ہے جس کی بات مان لیں۔ دل کی آواز کب سنائی دے گی۔ وہ نہ جانے کیا کچھ بولتا رہا ، اب تو جیسے سماعتیں بھی کام کرنا بند کرگئیں۔ یہ کوئی آج کی بات نہیں، برسوں سے یہی سوچ اور الفاظ اس قوم کا ہم سب کا پیچھا کرتے رہے ہیں۔ کبھی کسی دوست کی صورت اور کبھی استاد، بزرگ یا ناصح کی شکل میں ،
ہم شاید دھمکیوں کے عادی ہوچکے ہیں، وہ کوئی بھی اور کسی بھی حالت میں دی جائے۔ سب مانتے ہیں اور اسی کو حقیقت جانتے ہیں۔ ریاستی ادارہ ہو، بالادست قوت ہو، ہمیں جیسے لاٹھی سے ہانکنے والے ہی رہنما لگتے ہیں۔
میرا دوست پاکستان میں کورونا کی صورتحال اور اس کے نتیجے میں ملنے والی دھمکیوں سے خوفزدہ ہے۔ اس نے مستقبل قریب میں وطن واپسی کا فیصلہ بھی موخر کردیا۔
کہنے لگا کہ ہم تبدیلی کی خواہش میں بہت زیادہ بدل چکے ہیں۔ جہاں آگئے ہیں وہاں سے شاید واپسی بھی ممکن نہیں۔۔
دیار غیر میں پاکستان کی یاد اور پھر وطن کی تڑپ میں کسی بھی سانحہ پر دل دکھی ہونا، یہ سب فطری اور اکثر اوورسیز کا مسئلہ رہا ہے، ہمارے دوست ڈنمارک میں پچھلی تین دہائیوں سے مقیم ہیں، کبھی کبھار اپنوں کی یاد ستائے تو آجاتے ہیں۔ ہم دونوں میں برسوں سے تواتر کے ساتھ رابطہ ضرور رہا ہے جس کی وجہ سے محسوس نہیں ہوتا کہ ہم کم ملتے ہیں۔
پاکستان کی سیاست، معیشت اور معاشرت میں ہونے والی تبدیلیاں معمول کی گفتگو کا موضوع رہتا ہے، میرا دوست ملک کے لیے بہت سوچتا اور مسائل کے لیے نہ صرف درد رکھتا بلکہ اکثر ان کے حل بھی تجویز کرتا رہتا ہے۔ وہ بھی کئی اورسیز کی طرح جذباتی طور پر وزیراعظم عمران خان سے بہت سی امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے۔ ساری مخالفتوں اور تنقید کے باوجود اسے توقع ہے کہ کچھ اچھا ہوجائے گا۔ جیسے وہ کسی معجزے کے انتظارمیں ہو۔
وہ کہتا ہے کہ ہماری ریاست کے کچھ ادارے بہت مضبوط اور منظم ہیں مگر زیادہ تر ریاستی ڈھانچہ نہایت کمزور بنیادوں پر کھڑا ہے، جس کے نتیجے میں عوام کی آس اور امید شاید کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکیں گے۔
وہ ہمیشہ اس بات کا رونا روتا ہے کہ ہم اعتماد کے خسارے، ٹرسٹ ڈیفسٹ کا شکار رہے ہیں، ایک دوسرے پر بھروسہ کھوچکے ہیں۔ کوئی کسی پر اعتبار نہیں کرتا۔ من حیث القوم دوسروں سے اختلاف کا مزاج بن گیا ہے۔ کسی کی بات کا یقین ہی نہیں آتا۔ ادارے اور فرد جیسے اپنی ساکھ کھوچکے ہیں۔ ہر کسی کو اپنا آپ درست اور مخالف فریق غلط لگتا ہے۔
وہ کہتا ہے ہم دوسروں کے بارے میں اچھا گمان کرنا جیسے بھول گئے ہیں، بدگمانی نے ہمارے اندر جگہ بنالی ہے۔ اپنے فائدے کا سوچتے ہیں، سب کا مفاد کس میں ہے ہماری سوچ اس طرف جاتی ہی نہیں کوئی ایسی بات کردے تو عجیب لگتا ہے۔
اس نے کورونا سے متعلق کئی معاملات پر گزرے دنوں میں باتیں کیں، کئی تجربات کا تبادلہ ہوا، لیکن ایک واقعہ گزشتہ دنوں سناتے جیسے جذباتی سا ہوگیا، اور کہنے لگا عمران خان کو اوورسیز پاکستانی بڑے عزیز ہیں ہم لوگوں سے پیسے بھی مانگتے ہیں، ہم ہر مسئلے پر وطن کی خاطر جتنا ہمارے بس میں ہوتا ہے دیتے ہیں لیکن پاکستان میں ہوکیا رہا ہے، اس کو دیکھ کر خوف آتا ہے ہم کس حوصلے سے وہاں آئیں جہاں صرف پیسہ مانگنا ہی رہ گیا ہے۔ کچھ دینا بھی کسی کے فرض میں شامل ہے۔
میں نے پوچھا کیا ہوا ، اس نے جواب دیا کہ کئی واقعات سنے اور خاموش رہے کیونکہ ہم بھی وہیں سے آئے ہیں کون سا انجان ہیں۔ اب تازہ ترین قصہ کچھ ایسا ہے کہ دل دکھی ہوگیا۔
گجرات میں میرے عزیز نوجوان کی ریلوے روڈ پر چھوٹی سے دکان ہے، یہ کاروبار بھی موجودہ صورتحال میں بند تھا، جس کے باعث مالی حالات بھی کچھ اچھے نہ تھے، اب اجازت ملی تو اس نے بھی کام شروع کیا۔ دکانیں پانچ بجے بند ہوجاتی ہیں۔ جس کی سب پابندی کرتے ہیں۔ وہ منڈی گیاجہاں سے سامان لاکر دکان میں رکھ رہا تھا، چونکہ یہ پانچ بجے سے بعد کا وقت تھا اس لیے پولیس وہاں آگئی، انہوں نے پوچھا دکان کیوں کھولی ہے، اس نے کہا خریدوفروخت نہیں کررہا منڈی سے سامان لایا ہے اسے رکھ کر دکان بند کردوں گا۔
پولیس اہلکاروں نے کہا تمہارے لیے تین آپشن ہیں، تھانے چلو، کورونا کا ٹیسٹ کراو، یا پھر تیس ہزار روپے دو۔ اسے بڑی حیرت ہوئی یہ کیسی شرائط ہیں۔ اس نے کہا میں نے خلاف ورزی نہیں کی۔ ٹیسٹ میں کیوں کراوں کیونکہ میں صحت مند ہوں کوئی علامات بھی نہیں ہیں۔ میرے پاس اتنی رقم بھی نہیں پھر کسی وجہ سے دوں۔ انہوں نے ظاہر ہے کارروائی تو کرنا تھی، کورونا ایمرجنسی کی اتنی بڑی خلاف ورزی تھی۔ وہ اسے گرفتار کرکے تھانے لے گئے۔ اس نے بتایا کہ انکل میں پہلی بار تھانے آیا، رات انہوں نے حوالات میں رکھا گھروالوں کی ایک نہ مانی۔ الٹا کہا کہ تمہاری ضمانت بھی نہیں ہوگی۔ خاندان والوں میں بدنامی بھی ہوئی، یہ شاید اس شرمندگی سے بھی زیادہ تھی جو کورونا ٹیسٹ مثبت آنے پر لوگوں کو ہوتی ہے۔
اگلے روز گھروالوں نے معززین کو کہہ کر اور دے دلاکر نوجوان کو رہائی دلائی۔ وہ اس سارے عمل سے ذہنی کوفت کا شکار تو تھا ہی، ساتھ میں پریشان تھا کہ جب تک کورونا رہے گا، ہماری پولیس اپنی رٹ دکھاتی رہے گی۔
میرے دوست نے یہ سارا واقعہ سنایا اور پھر سے اس کا لیکچر شروع ہوگیا۔ یار مجھے سمجھ نہیں آتی پاکستان کا سسٹم کیسے ٹھیک ہوگا۔ ہم یہاں ڈنمارک میں اگر کام پر نہیں جاپارہے تو حکومت ہمیں مناسب معاوضہ یا سہولتیں فراہم کررہی ہے۔ آخر ہم کب تک دوسروں کے ساتھ موازنہ کرکے اپنی شرمندگیوں کی داستانیں لکھتے رہیں گے۔ کہیں تو اختتام ہوگا اس بےہنگم پن کا، کوئی ہماری قطار سیدھی نہیں کراسکتا۔ کب تک ہماری دم ٹیڑھی رہے گی۔
کسے قائد بنائیں، کون ہمارا رہنما ہو، کوئی ہے جس کی بات مان لیں۔ دل کی آواز کب سنائی دے گی۔ وہ نہ جانے کیا کچھ بولتا رہا ، اب تو جیسے سماعتیں بھی کام کرنا بند کرگئیں۔ یہ کوئی آج کی بات نہیں، برسوں سے یہی سوچ اور الفاظ اس قوم کا ہم سب کا پیچھا کرتے رہے ہیں۔ کبھی کسی دوست کی صورت اور کبھی استاد، بزرگ یا ناصح کی شکل میں ،
ہم شاید دھمکیوں کے عادی ہوچکے ہیں، وہ کوئی بھی اور کسی بھی حالت میں دی جائے۔ سب مانتے ہیں اور اسی کو حقیقت جانتے ہیں۔ ریاستی ادارہ ہو، بالادست قوت ہو، ہمیں جیسے لاٹھی سے ہانکنے والے ہی رہنما لگتے ہیں۔
میرا دوست پاکستان میں کورونا کی صورتحال اور اس کے نتیجے میں ملنے والی دھمکیوں سے خوفزدہ ہے۔ اس نے مستقبل قریب میں وطن واپسی کا فیصلہ بھی موخر کردیا۔
کہنے لگا کہ ہم تبدیلی کی خواہش میں بہت زیادہ بدل چکے ہیں۔ جہاں آگئے ہیں وہاں سے شاید واپسی بھی ممکن نہیں۔۔