Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
ہم پاکستانی بھی بڑے عجیب ہیں، حالات کیسے بھی ہو، ان کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لیتے ہیں، خطروں کے کھلاڑی کہہ لیں یا پھر کوئی ذہنی فتور، دیوار یا گیٹ پر پینٹ ہوا ہو تو اِس کا یقین اُس وقت تک نہیں آتا جب تک چھو کر تسلی نہ کرلیں۔ نمائندوں کا انتخاب یہ سوچ کرکرتے ہیں کہ چلوا س بار اِن کو بھی آزما کر دیکھ لیں۔ ناکامیوں کے بھنور میں مسلسل پھنسی ہوئی پاکستانی کرکٹ ٹیم کا ہر میچ اس خمار میں دیکھتے ہیں کہ اس بار شائد کوئی معجزہ ہوجائے یہ ’گمان‘ ہی ہمیں ہر بار کسی نہ کسی آزمائش، نقصان یا صدمے سے دوچار کردیتا ہے۔ لیکن ہم تو ٹھہرے پاکستانی، جو’جذبہ جنون تو ہمت نہ ہار‘ پر کچھ زیادہ ہی تکیے کیے بیٹھے ہوتے ہیں۔ اب جب سے پاکستان میں کورونا وائرس نے اپنی آبادی کا اضافہ کیا ہے تو اس کا کام آسان کرنے کے لیے پاکستانی ’ہر گھڑی تیار کامران ہیں ہم ‘ کو سچ ثابت کر دکھا رہے ہیں۔ ابتدا میں ہم کورونا کو ’محبوبہ کے بھائی‘ سے تعبیر کرتے ہوئے خوف سے گلی تک میں نہ نکلتے تھے۔لیکن اب خود کورونا کا امتحان لینے پر تلے ہوئے ہیں۔ ماضی قریب میں احتیاطیں ایسی کیں کہ کورونا بھی سر پٹخ کر رہ گیا۔سختیاں جھلیں، گھروں میں قید رہ کر بیگمات کے روز مرہ کے معاملا ت کو بھی حفظ کربیٹھے اور’ ورک ایٹ ہوم‘ کا فارمولا بھی خوب آزمایا۔
حکومت، کبھی سخت اور اسمارٹ لاک ڈاؤن کی بھول بھلیوں میں گھومتی رہی، جو درحقیقت اس الجھن کو سلجھا ہی نہیں پائی۔وہ بھی اب تھک ہار کر ہتھیارڈالنے پر مجبور ہوگئی ہے۔ وجہ وہی کورونا سے زیادہ بھوک خطرناک کا‘ راگ بن گیا ہے۔ ذرا سی ملنے والی ڈھیل پر ایسے پرپرزے نکالے کہ کورونا بھی ہماری اس ’جی داری‘ اور ’بہادری‘ پر مخالطے میں پڑ گیا ہوگا کہ کون ہیں لوگ کیونکہ بازاروں کا رخ کیا جائے تو سماجی قربتیں دیکھ کر خیال ہوتا ہے کہ جیسے کورونا وائرس سے عوام کا کوئی ’خفیہ معاہدہ‘ ہوگیا ہو۔ کچھ نہیں جناب میل ملاپ سے دوری اور گھروں تک محدود رہنے کی سختی سے پابندی کا سبق تو ہم عوامی نمائندوں سے ہی سیکھ سکتے تھے جو پارلیمنٹ کے حالیہ اجلاسوں کے دوران اڑن چھو رہے یہاں تک کہ قائد حزب اختلاف اور قائد ایوان تک کی موجودگی کا احساس ان کے سوشل میڈیا پیغامات کے ذریعے ملتا رہا۔ جس پر ایک نے دوسرے کو ڈرپوک ہونے کا طعنہ دیا تو دوسرے نے پہلے کو ’بزدل‘ کا۔ لیکن کوئی بھی ارطغرل بن کر میدان میں نہیں کودا ‘ کیونکہ حالات کی سنگینی کا ان کو کم از کم احساس ہے۔ مگر عوام تو عوام ٹھہرےجو ووٹ دیتے ہوئے صحیح اور غلط کی پہچان نہیں کرپاتے۔پتا نہیں وہ کیسے جان رہے ہیں کہ قریب کھڑا شخص ’کورونا زدہ‘ نہیں ہے۔
یقین دلایا جاتا ہے کہ حکومتی طے شدہ حفاظتی اقدامات کی پاسداری کی جائے گی لیکن دو تین دن میں ہی یہ دعویٰ بھی جھاگ بن کر بیٹھ گیا ہےکیونکہ اب دکانوں اور بازاروں میں عوام کندھے سے کندھے ملا کر آگے بڑھتے جارہے ہیں۔ عید میں گنتی کے دن رہ گئے ہیں، اور نئی بحث یہ شروع ہوگئی ہے کہ نماز کس طرح پڑھوانی ہے۔ ہم روزے رکھیں نہ رکھیں، عید تو دھوم دھڑکے کے ساتھ منانا اپنا اولین دینی فرض سمجھتے ہیں۔ نئے نئے کلف زدہ کپڑے چاہے الماریوں میں عید کے دن لٹکے رہے ہیں لیکن خریدنا ضروری ہیں۔ کیونکہ سال بھر میں یہی تہوار تو ہوتا ہے، جس میں ہم لباس اور انداز سے مخالف پر اپنی دھاک بٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ دکانیں کھلی ہوئی ہیں، رش ایسا کہ لگا ہے کہ بس یہی عید آئے گی اور اس کے بعد پردہ گر جائے گا۔ ۔نجانے ذہن کے کس خانے میں یہ بات بیٹھی ہے کہ کورونا ہے تو کیا تہوار تو منانا ہے حالانکہ دنیا بھر میں ایسٹر کے علاوہ دیگر تہوار بھی بس روکھے پھیکے گزرے، تو ہماری یہ عید بھی صحیح۔ بڑے بوڑھوں کا کہنا ہے کہ جان ہے تو جہان ہے۔ کاش ہم اس جہان کی رنگینیوں کے چکر میں جان کو نہ گنوانے کے درپے ہوجائیں۔ کبھی منی بس یا بس میں سفر کیا ہو تو کنڈیکٹر زور زور سے صدا لگاتا ہے ’ڈبل ہے استاد جانے دے‘۔۔تو اس عید پر ذرا کنڈیکٹر بن کر دیکھیں اور ڈبل ہے استاد کہہ کر عید کو فی الحال جانے دیں۔کیونکہ یہ ’مس‘ ہوگئی تو کوئی غم نہیں آگے اور عید آنے کو ہیں۔۔بقول شاعر
مرنا تو اس جہاں میں کوئی حادثہ نہیں
اس دور ناگوار میں جینا کمال ہے
ہم پاکستانی بھی بڑے عجیب ہیں، حالات کیسے بھی ہو، ان کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لیتے ہیں، خطروں کے کھلاڑی کہہ لیں یا پھر کوئی ذہنی فتور، دیوار یا گیٹ پر پینٹ ہوا ہو تو اِس کا یقین اُس وقت تک نہیں آتا جب تک چھو کر تسلی نہ کرلیں۔ نمائندوں کا انتخاب یہ سوچ کرکرتے ہیں کہ چلوا س بار اِن کو بھی آزما کر دیکھ لیں۔ ناکامیوں کے بھنور میں مسلسل پھنسی ہوئی پاکستانی کرکٹ ٹیم کا ہر میچ اس خمار میں دیکھتے ہیں کہ اس بار شائد کوئی معجزہ ہوجائے یہ ’گمان‘ ہی ہمیں ہر بار کسی نہ کسی آزمائش، نقصان یا صدمے سے دوچار کردیتا ہے۔ لیکن ہم تو ٹھہرے پاکستانی، جو’جذبہ جنون تو ہمت نہ ہار‘ پر کچھ زیادہ ہی تکیے کیے بیٹھے ہوتے ہیں۔ اب جب سے پاکستان میں کورونا وائرس نے اپنی آبادی کا اضافہ کیا ہے تو اس کا کام آسان کرنے کے لیے پاکستانی ’ہر گھڑی تیار کامران ہیں ہم ‘ کو سچ ثابت کر دکھا رہے ہیں۔ ابتدا میں ہم کورونا کو ’محبوبہ کے بھائی‘ سے تعبیر کرتے ہوئے خوف سے گلی تک میں نہ نکلتے تھے۔لیکن اب خود کورونا کا امتحان لینے پر تلے ہوئے ہیں۔ ماضی قریب میں احتیاطیں ایسی کیں کہ کورونا بھی سر پٹخ کر رہ گیا۔سختیاں جھلیں، گھروں میں قید رہ کر بیگمات کے روز مرہ کے معاملا ت کو بھی حفظ کربیٹھے اور’ ورک ایٹ ہوم‘ کا فارمولا بھی خوب آزمایا۔
حکومت، کبھی سخت اور اسمارٹ لاک ڈاؤن کی بھول بھلیوں میں گھومتی رہی، جو درحقیقت اس الجھن کو سلجھا ہی نہیں پائی۔وہ بھی اب تھک ہار کر ہتھیارڈالنے پر مجبور ہوگئی ہے۔ وجہ وہی کورونا سے زیادہ بھوک خطرناک کا‘ راگ بن گیا ہے۔ ذرا سی ملنے والی ڈھیل پر ایسے پرپرزے نکالے کہ کورونا بھی ہماری اس ’جی داری‘ اور ’بہادری‘ پر مخالطے میں پڑ گیا ہوگا کہ کون ہیں لوگ کیونکہ بازاروں کا رخ کیا جائے تو سماجی قربتیں دیکھ کر خیال ہوتا ہے کہ جیسے کورونا وائرس سے عوام کا کوئی ’خفیہ معاہدہ‘ ہوگیا ہو۔ کچھ نہیں جناب میل ملاپ سے دوری اور گھروں تک محدود رہنے کی سختی سے پابندی کا سبق تو ہم عوامی نمائندوں سے ہی سیکھ سکتے تھے جو پارلیمنٹ کے حالیہ اجلاسوں کے دوران اڑن چھو رہے یہاں تک کہ قائد حزب اختلاف اور قائد ایوان تک کی موجودگی کا احساس ان کے سوشل میڈیا پیغامات کے ذریعے ملتا رہا۔ جس پر ایک نے دوسرے کو ڈرپوک ہونے کا طعنہ دیا تو دوسرے نے پہلے کو ’بزدل‘ کا۔ لیکن کوئی بھی ارطغرل بن کر میدان میں نہیں کودا ‘ کیونکہ حالات کی سنگینی کا ان کو کم از کم احساس ہے۔ مگر عوام تو عوام ٹھہرےجو ووٹ دیتے ہوئے صحیح اور غلط کی پہچان نہیں کرپاتے۔پتا نہیں وہ کیسے جان رہے ہیں کہ قریب کھڑا شخص ’کورونا زدہ‘ نہیں ہے۔
یقین دلایا جاتا ہے کہ حکومتی طے شدہ حفاظتی اقدامات کی پاسداری کی جائے گی لیکن دو تین دن میں ہی یہ دعویٰ بھی جھاگ بن کر بیٹھ گیا ہےکیونکہ اب دکانوں اور بازاروں میں عوام کندھے سے کندھے ملا کر آگے بڑھتے جارہے ہیں۔ عید میں گنتی کے دن رہ گئے ہیں، اور نئی بحث یہ شروع ہوگئی ہے کہ نماز کس طرح پڑھوانی ہے۔ ہم روزے رکھیں نہ رکھیں، عید تو دھوم دھڑکے کے ساتھ منانا اپنا اولین دینی فرض سمجھتے ہیں۔ نئے نئے کلف زدہ کپڑے چاہے الماریوں میں عید کے دن لٹکے رہے ہیں لیکن خریدنا ضروری ہیں۔ کیونکہ سال بھر میں یہی تہوار تو ہوتا ہے، جس میں ہم لباس اور انداز سے مخالف پر اپنی دھاک بٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ دکانیں کھلی ہوئی ہیں، رش ایسا کہ لگا ہے کہ بس یہی عید آئے گی اور اس کے بعد پردہ گر جائے گا۔ ۔نجانے ذہن کے کس خانے میں یہ بات بیٹھی ہے کہ کورونا ہے تو کیا تہوار تو منانا ہے حالانکہ دنیا بھر میں ایسٹر کے علاوہ دیگر تہوار بھی بس روکھے پھیکے گزرے، تو ہماری یہ عید بھی صحیح۔ بڑے بوڑھوں کا کہنا ہے کہ جان ہے تو جہان ہے۔ کاش ہم اس جہان کی رنگینیوں کے چکر میں جان کو نہ گنوانے کے درپے ہوجائیں۔ کبھی منی بس یا بس میں سفر کیا ہو تو کنڈیکٹر زور زور سے صدا لگاتا ہے ’ڈبل ہے استاد جانے دے‘۔۔تو اس عید پر ذرا کنڈیکٹر بن کر دیکھیں اور ڈبل ہے استاد کہہ کر عید کو فی الحال جانے دیں۔کیونکہ یہ ’مس‘ ہوگئی تو کوئی غم نہیں آگے اور عید آنے کو ہیں۔۔بقول شاعر
مرنا تو اس جہاں میں کوئی حادثہ نہیں
اس دور ناگوار میں جینا کمال ہے
ہم پاکستانی بھی بڑے عجیب ہیں، حالات کیسے بھی ہو، ان کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لیتے ہیں، خطروں کے کھلاڑی کہہ لیں یا پھر کوئی ذہنی فتور، دیوار یا گیٹ پر پینٹ ہوا ہو تو اِس کا یقین اُس وقت تک نہیں آتا جب تک چھو کر تسلی نہ کرلیں۔ نمائندوں کا انتخاب یہ سوچ کرکرتے ہیں کہ چلوا س بار اِن کو بھی آزما کر دیکھ لیں۔ ناکامیوں کے بھنور میں مسلسل پھنسی ہوئی پاکستانی کرکٹ ٹیم کا ہر میچ اس خمار میں دیکھتے ہیں کہ اس بار شائد کوئی معجزہ ہوجائے یہ ’گمان‘ ہی ہمیں ہر بار کسی نہ کسی آزمائش، نقصان یا صدمے سے دوچار کردیتا ہے۔ لیکن ہم تو ٹھہرے پاکستانی، جو’جذبہ جنون تو ہمت نہ ہار‘ پر کچھ زیادہ ہی تکیے کیے بیٹھے ہوتے ہیں۔ اب جب سے پاکستان میں کورونا وائرس نے اپنی آبادی کا اضافہ کیا ہے تو اس کا کام آسان کرنے کے لیے پاکستانی ’ہر گھڑی تیار کامران ہیں ہم ‘ کو سچ ثابت کر دکھا رہے ہیں۔ ابتدا میں ہم کورونا کو ’محبوبہ کے بھائی‘ سے تعبیر کرتے ہوئے خوف سے گلی تک میں نہ نکلتے تھے۔لیکن اب خود کورونا کا امتحان لینے پر تلے ہوئے ہیں۔ ماضی قریب میں احتیاطیں ایسی کیں کہ کورونا بھی سر پٹخ کر رہ گیا۔سختیاں جھلیں، گھروں میں قید رہ کر بیگمات کے روز مرہ کے معاملا ت کو بھی حفظ کربیٹھے اور’ ورک ایٹ ہوم‘ کا فارمولا بھی خوب آزمایا۔
حکومت، کبھی سخت اور اسمارٹ لاک ڈاؤن کی بھول بھلیوں میں گھومتی رہی، جو درحقیقت اس الجھن کو سلجھا ہی نہیں پائی۔وہ بھی اب تھک ہار کر ہتھیارڈالنے پر مجبور ہوگئی ہے۔ وجہ وہی کورونا سے زیادہ بھوک خطرناک کا‘ راگ بن گیا ہے۔ ذرا سی ملنے والی ڈھیل پر ایسے پرپرزے نکالے کہ کورونا بھی ہماری اس ’جی داری‘ اور ’بہادری‘ پر مخالطے میں پڑ گیا ہوگا کہ کون ہیں لوگ کیونکہ بازاروں کا رخ کیا جائے تو سماجی قربتیں دیکھ کر خیال ہوتا ہے کہ جیسے کورونا وائرس سے عوام کا کوئی ’خفیہ معاہدہ‘ ہوگیا ہو۔ کچھ نہیں جناب میل ملاپ سے دوری اور گھروں تک محدود رہنے کی سختی سے پابندی کا سبق تو ہم عوامی نمائندوں سے ہی سیکھ سکتے تھے جو پارلیمنٹ کے حالیہ اجلاسوں کے دوران اڑن چھو رہے یہاں تک کہ قائد حزب اختلاف اور قائد ایوان تک کی موجودگی کا احساس ان کے سوشل میڈیا پیغامات کے ذریعے ملتا رہا۔ جس پر ایک نے دوسرے کو ڈرپوک ہونے کا طعنہ دیا تو دوسرے نے پہلے کو ’بزدل‘ کا۔ لیکن کوئی بھی ارطغرل بن کر میدان میں نہیں کودا ‘ کیونکہ حالات کی سنگینی کا ان کو کم از کم احساس ہے۔ مگر عوام تو عوام ٹھہرےجو ووٹ دیتے ہوئے صحیح اور غلط کی پہچان نہیں کرپاتے۔پتا نہیں وہ کیسے جان رہے ہیں کہ قریب کھڑا شخص ’کورونا زدہ‘ نہیں ہے۔
یقین دلایا جاتا ہے کہ حکومتی طے شدہ حفاظتی اقدامات کی پاسداری کی جائے گی لیکن دو تین دن میں ہی یہ دعویٰ بھی جھاگ بن کر بیٹھ گیا ہےکیونکہ اب دکانوں اور بازاروں میں عوام کندھے سے کندھے ملا کر آگے بڑھتے جارہے ہیں۔ عید میں گنتی کے دن رہ گئے ہیں، اور نئی بحث یہ شروع ہوگئی ہے کہ نماز کس طرح پڑھوانی ہے۔ ہم روزے رکھیں نہ رکھیں، عید تو دھوم دھڑکے کے ساتھ منانا اپنا اولین دینی فرض سمجھتے ہیں۔ نئے نئے کلف زدہ کپڑے چاہے الماریوں میں عید کے دن لٹکے رہے ہیں لیکن خریدنا ضروری ہیں۔ کیونکہ سال بھر میں یہی تہوار تو ہوتا ہے، جس میں ہم لباس اور انداز سے مخالف پر اپنی دھاک بٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ دکانیں کھلی ہوئی ہیں، رش ایسا کہ لگا ہے کہ بس یہی عید آئے گی اور اس کے بعد پردہ گر جائے گا۔ ۔نجانے ذہن کے کس خانے میں یہ بات بیٹھی ہے کہ کورونا ہے تو کیا تہوار تو منانا ہے حالانکہ دنیا بھر میں ایسٹر کے علاوہ دیگر تہوار بھی بس روکھے پھیکے گزرے، تو ہماری یہ عید بھی صحیح۔ بڑے بوڑھوں کا کہنا ہے کہ جان ہے تو جہان ہے۔ کاش ہم اس جہان کی رنگینیوں کے چکر میں جان کو نہ گنوانے کے درپے ہوجائیں۔ کبھی منی بس یا بس میں سفر کیا ہو تو کنڈیکٹر زور زور سے صدا لگاتا ہے ’ڈبل ہے استاد جانے دے‘۔۔تو اس عید پر ذرا کنڈیکٹر بن کر دیکھیں اور ڈبل ہے استاد کہہ کر عید کو فی الحال جانے دیں۔کیونکہ یہ ’مس‘ ہوگئی تو کوئی غم نہیں آگے اور عید آنے کو ہیں۔۔بقول شاعر
مرنا تو اس جہاں میں کوئی حادثہ نہیں
اس دور ناگوار میں جینا کمال ہے
ہم پاکستانی بھی بڑے عجیب ہیں، حالات کیسے بھی ہو، ان کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لیتے ہیں، خطروں کے کھلاڑی کہہ لیں یا پھر کوئی ذہنی فتور، دیوار یا گیٹ پر پینٹ ہوا ہو تو اِس کا یقین اُس وقت تک نہیں آتا جب تک چھو کر تسلی نہ کرلیں۔ نمائندوں کا انتخاب یہ سوچ کرکرتے ہیں کہ چلوا س بار اِن کو بھی آزما کر دیکھ لیں۔ ناکامیوں کے بھنور میں مسلسل پھنسی ہوئی پاکستانی کرکٹ ٹیم کا ہر میچ اس خمار میں دیکھتے ہیں کہ اس بار شائد کوئی معجزہ ہوجائے یہ ’گمان‘ ہی ہمیں ہر بار کسی نہ کسی آزمائش، نقصان یا صدمے سے دوچار کردیتا ہے۔ لیکن ہم تو ٹھہرے پاکستانی، جو’جذبہ جنون تو ہمت نہ ہار‘ پر کچھ زیادہ ہی تکیے کیے بیٹھے ہوتے ہیں۔ اب جب سے پاکستان میں کورونا وائرس نے اپنی آبادی کا اضافہ کیا ہے تو اس کا کام آسان کرنے کے لیے پاکستانی ’ہر گھڑی تیار کامران ہیں ہم ‘ کو سچ ثابت کر دکھا رہے ہیں۔ ابتدا میں ہم کورونا کو ’محبوبہ کے بھائی‘ سے تعبیر کرتے ہوئے خوف سے گلی تک میں نہ نکلتے تھے۔لیکن اب خود کورونا کا امتحان لینے پر تلے ہوئے ہیں۔ ماضی قریب میں احتیاطیں ایسی کیں کہ کورونا بھی سر پٹخ کر رہ گیا۔سختیاں جھلیں، گھروں میں قید رہ کر بیگمات کے روز مرہ کے معاملا ت کو بھی حفظ کربیٹھے اور’ ورک ایٹ ہوم‘ کا فارمولا بھی خوب آزمایا۔
حکومت، کبھی سخت اور اسمارٹ لاک ڈاؤن کی بھول بھلیوں میں گھومتی رہی، جو درحقیقت اس الجھن کو سلجھا ہی نہیں پائی۔وہ بھی اب تھک ہار کر ہتھیارڈالنے پر مجبور ہوگئی ہے۔ وجہ وہی کورونا سے زیادہ بھوک خطرناک کا‘ راگ بن گیا ہے۔ ذرا سی ملنے والی ڈھیل پر ایسے پرپرزے نکالے کہ کورونا بھی ہماری اس ’جی داری‘ اور ’بہادری‘ پر مخالطے میں پڑ گیا ہوگا کہ کون ہیں لوگ کیونکہ بازاروں کا رخ کیا جائے تو سماجی قربتیں دیکھ کر خیال ہوتا ہے کہ جیسے کورونا وائرس سے عوام کا کوئی ’خفیہ معاہدہ‘ ہوگیا ہو۔ کچھ نہیں جناب میل ملاپ سے دوری اور گھروں تک محدود رہنے کی سختی سے پابندی کا سبق تو ہم عوامی نمائندوں سے ہی سیکھ سکتے تھے جو پارلیمنٹ کے حالیہ اجلاسوں کے دوران اڑن چھو رہے یہاں تک کہ قائد حزب اختلاف اور قائد ایوان تک کی موجودگی کا احساس ان کے سوشل میڈیا پیغامات کے ذریعے ملتا رہا۔ جس پر ایک نے دوسرے کو ڈرپوک ہونے کا طعنہ دیا تو دوسرے نے پہلے کو ’بزدل‘ کا۔ لیکن کوئی بھی ارطغرل بن کر میدان میں نہیں کودا ‘ کیونکہ حالات کی سنگینی کا ان کو کم از کم احساس ہے۔ مگر عوام تو عوام ٹھہرےجو ووٹ دیتے ہوئے صحیح اور غلط کی پہچان نہیں کرپاتے۔پتا نہیں وہ کیسے جان رہے ہیں کہ قریب کھڑا شخص ’کورونا زدہ‘ نہیں ہے۔
یقین دلایا جاتا ہے کہ حکومتی طے شدہ حفاظتی اقدامات کی پاسداری کی جائے گی لیکن دو تین دن میں ہی یہ دعویٰ بھی جھاگ بن کر بیٹھ گیا ہےکیونکہ اب دکانوں اور بازاروں میں عوام کندھے سے کندھے ملا کر آگے بڑھتے جارہے ہیں۔ عید میں گنتی کے دن رہ گئے ہیں، اور نئی بحث یہ شروع ہوگئی ہے کہ نماز کس طرح پڑھوانی ہے۔ ہم روزے رکھیں نہ رکھیں، عید تو دھوم دھڑکے کے ساتھ منانا اپنا اولین دینی فرض سمجھتے ہیں۔ نئے نئے کلف زدہ کپڑے چاہے الماریوں میں عید کے دن لٹکے رہے ہیں لیکن خریدنا ضروری ہیں۔ کیونکہ سال بھر میں یہی تہوار تو ہوتا ہے، جس میں ہم لباس اور انداز سے مخالف پر اپنی دھاک بٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ دکانیں کھلی ہوئی ہیں، رش ایسا کہ لگا ہے کہ بس یہی عید آئے گی اور اس کے بعد پردہ گر جائے گا۔ ۔نجانے ذہن کے کس خانے میں یہ بات بیٹھی ہے کہ کورونا ہے تو کیا تہوار تو منانا ہے حالانکہ دنیا بھر میں ایسٹر کے علاوہ دیگر تہوار بھی بس روکھے پھیکے گزرے، تو ہماری یہ عید بھی صحیح۔ بڑے بوڑھوں کا کہنا ہے کہ جان ہے تو جہان ہے۔ کاش ہم اس جہان کی رنگینیوں کے چکر میں جان کو نہ گنوانے کے درپے ہوجائیں۔ کبھی منی بس یا بس میں سفر کیا ہو تو کنڈیکٹر زور زور سے صدا لگاتا ہے ’ڈبل ہے استاد جانے دے‘۔۔تو اس عید پر ذرا کنڈیکٹر بن کر دیکھیں اور ڈبل ہے استاد کہہ کر عید کو فی الحال جانے دیں۔کیونکہ یہ ’مس‘ ہوگئی تو کوئی غم نہیں آگے اور عید آنے کو ہیں۔۔بقول شاعر
مرنا تو اس جہاں میں کوئی حادثہ نہیں
اس دور ناگوار میں جینا کمال ہے