انسان کی زندگی میں پریشانی، دکھ، تکلیف اور دباؤ کو برداشت کرنے اور اپنے آپ پر طاری کرنے کا بھی
نشہ سا ہوجاتا ہے۔ بجلی، پانی، گیس کا بل دینا ہے، اس کے آنے اور پھر اداکرنے کی ٹینشن، کچہریوں ،عدالتوں میں کئی کئی برس تک قانونی جنگ لڑتے عمر گزر جاتی ہے ان مقدمے بازیوں میں دوسروں کی اور کبھی اپنی جانیں بھی گنوا بیٹھتے ہیں۔ ایک بزرگ نے بتایا کہ پاکستان بننے سے پہلے زمین کامقدمہ ہے، اب تک چلتا آرہاہے، گھر میں سب کچھ ہے، بچے خوشحال ہیں، مگر میں کیا کروں مجھے تو کچھ کرنا ہے۔
یہ بات خوفناک صورت اختیار کرجاتی ہے کہ آپ کسی کی مخالفت میں خود کو کسی بھی حد تک پہنچا دیتے ہیں اور پھر اس کے حق میں اپنے دلائل بھی پیش کردیتے ہیں۔
انسان نے خود کو بے شمار جھمیلوں میں ڈال رکھا ہے اور اسی میں جیسے مطمئن سا زندگی گزارتا ہے۔
گھروں میں بیبیوں کو، دفتر میں صاحبوں کو، دکانداروں کو کچھ نہ کچھ ایسی دھن سوار ہوتی ہے جو کہ بظاہر معمول کے کام ہوتے ہیں لیکن انہیں جیسے ان کا نشہ سا لگ جاتا یے۔
ہاں ایسا ضرور ہے کہ ہم انہیں براہ راست یہ کہہ دیں تو شاید انہیں احساس بھی نہ ہو اور وہ اظہارخفگی بھی کردیں۔
تیسری دنیا، مشرق کے لوگ دکھ کی طرف بڑی خوشی سے بڑھتے ہیں۔ سیاسی بحث اکثر تلخ جملوں، غصے اور گالم گلوچ پر ختم ہوتی ہے لیکن ہم نے دیکھا ہوگا فریقین بڑی خوشی سے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچ رہے ہوتے ہیں۔
اگر ذرا بھی غور سے تجزیہ کریں تو ساری کارروائی کسی نشے کی سی کیفیت لگے گی،کوئی اس منطق کو تسلیم نہیں کرے گا لکین ثابت نہیں کرپائے گا کہ بحث کا مثبت نتیجہ کیوں نہیں نکلا۔
ایک دانشور کو آدھے سر کا درد یعنی میگرین تھا وہ بڑے اہتمام سے مقررہ دن اور وقت پر دوا آگے رکھ کر اس درد کے منتظر رہتے۔ ایک بار کسی دوست نے اس حالت میں دیکھا تو اپنی ہومیوپیتھک دوا کھلادی۔ جس کے نتیجے میں مزکورہ درد نہ ہوا موصوف نے الٹا شور مچایا کہ میرا درد کہاں چلا گیا میں نے تو فلاں فلاں عمل کرکے اتنے عرصے میں اس کورس کو مکمل کرنا تھا تم نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا۔
ان کی بیماری جیسے محبوبہ بن چکی تھی، کسی اور علاج کو پسند نہیں کرتے تھے۔
مالی حالات اچھے نہیں کہ مشکلات کا سامنا کرسکیں۔ کیا زندگیوں میں خوشی کا کوئی دن نہیں آسکتا،
خوشی اندر سے آتی ہے۔
بچے کہتے ہیں، جتنا آپ کے پاس زیادہ ہوگااتنا آپ زیادہ خوش ہوں گے۔ عورت کو اچھا لباس، مل جائے وہ خوش ہوجاتی ہے، قبضے اور ملکیت کا خمار انسان میں خوشی کا احساس ڈالتا ہے۔ لیکن ہم نے خوشیاں جیسے اپنے دکھوں اور پریشانیوں کے آگے گروی رکھ چھوڑی ہیں۔ انہیں کو گلے سے لگائے پھرتے ہیں۔
انسان شاید بھول جاتا یے کہ سب مسائل زندگی کا حصہ ہیں ان کا سامنا کرنا اور انہیں حل کرنا ضروری یے لیکن یہ سب کچھ زندگی نہیں بہت سی چھوٹی چھوٹی خوشیاں یا اس کا سبب بننے والے کام ہیں جن پر ہم توجہ نہیں دیتے یا نظرانداز کر دیتے ہیں۔ درحقیقت وہی ہمارا اصل حاصل وصول ہیں۔
ہم غیر ضروری نشے ترک کرنا ہوں گے جو کرنے والے کام ہیں وہ محض کام ہیں اور انہیں دماغ پر سوار کرنا کوئی دانشمندی نہیں۔
ہمیں ایسے تمام نشے ترک کرنا ہوں گے۔