قصے کہانیوں میں سنتے آئے ہیں کہ کسی گاؤں یا شہر میں وبا آتی تو ہر طرف سناٹا طاری ہوجاتا۔ موت کا خوف مندلانے لگتا۔ لوگ گھروں میں دبک کر بیٹھ جاتے۔ مائیں بچوں کو رونے تک نہ دیتیں۔ ڈر کے مارے ایک دوسرے سے میل ملاپ ترک کردیتے۔ یہ سب کسی اعلان کے نتیجے میں نہیں محض ناقص فہم کا عملی اظہار ہوتا اور کوئی غلط بھی نہ ہوتا تھا۔
یہ کہانیاں ہمیشہ کسی ایک علاقے سے متعلق ہوتی تھیں ان میں کتنی سچائی اور حقیقت ہوتی آج تک معمہ ہی رہیں۔ انسانی سوچ نے اس قدر ترقی کرلی طاعون اور ایسی کئی وباؤں کا علاج سائنس نے ڈھونڈ لیا۔ انسان کا ذھن بہت تیزی سے مسائل کا حل اور مشکلات دور کرنے کی تدابیر نکال لیتا ہے۔
قدرت کی حکمت کو چیلنج کرنا بھی انسان کے مزاج میں شامل ہے۔ دنیا بنانے والے نے یہ صلاحیت دے کر زمین پر بھیجا تھا کہ اسے مسخر کرے وہ اس مشن میں بہت حد تک کامیاب بھی رہا ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ انسان کو زعم ہونے لگا ہے کہ وہ معاملات پر قادر ہورہاہے۔ یہاں وہ تھوڑی سی بھول کررہا ہے۔
اکیسویں صدی کے بیسویں سال کے آغاز سے پہلے ہی دنیا کا واسطہ ایک ایسی شے وبا سے پرگیا ہے جسے انسانی آنکھ نہیں دیکھ پاتی مگر اس کا خوف انسان کے لئے بڑا چیلنج بن گیا۔
دنیا کے وہ خطے جنہیں ہر اعتبار سے فوقیت حاصل ہے یعنی انسانی دماغ اس کے بہتر استعمال اور ہر نوعیت کی سہولتیں۔ جس میں انسان کو دوبارہ زندہ کرنے کے دعوے اور نہ جانے کیا کچھ نہیں۔
دیکھتے ہی دیکھتے سب اس اجنبی کے قدموں کی چاپ سن کر لرز اٹھے۔ کئی نے سنجیدہ ہی نہیں لیا اور اسے معمول کا روگ خیال کیا۔ حقیقت میں علامات بھی کوئی زیادہ خوفزدہ کرنے والی نہ تھیں۔ اس نے بڑے غیرمحسوس انداز سے کرہ ارض کو لپیٹ میں لیا۔ اس کے پھیلائو کی مختلف سائنسی توجیہات پیش کی جارہی ہیں۔ سب سے اہم ایک سے دوسرے انسان میں رابطے کے دوران منتقل ہونا اس کا علاج کوئی نییں۔
دنیا اس وقت بڑی تیزی سے ایک گلوبل ویلیج کا روپ دھار چکی ہے۔ کسی نہ کسی انداز میں سب کو سب کی خبر ہوجاتی ہے۔ ایک کا دوسرے سے رابطہ کوئی مشکل یا ناممکن نہیں رہا۔ فون نے سب کو بہت قریب کردیا ہے۔ سماجی رابطے جسمانی طور پر ممکن نہ ہوں تو لہریں انسان کا رابطہ بن جاتی ہیں۔
انسان کی زندگی ہمیشہ ایک دوسرے پر انحصار کرکے ہی چلی ہے اس میں اکیلے رہ کر سفر کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے۔
یہ صدی شاید انسان کی تیزرفتار ترقی کی گواہ ہے جس میں معاملات کو عملی شکل دینے میں سماجی رابطے بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔
ایک ایسے دور میں یکدم انسان کو ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑرہا ہے کہ وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ اپنے گھر تک محدود ہوجائے ورنہ اس کے لئے دوسری جانب موت بانہیں پھیلائے کھڑی ہے۔ ابتدا میں اس سوچ اور ہدائت کو بالائے طاق رکھ دیا کہ الگ تھلگ ہوجائیں روشن خیال بھی اور قدامت پسند مزہبی لوگوں نے اسے قبول نہیں کیا بلکہ مزاحمت کی فطری طور پر مزاج کے خلاف بات ذھن اور دل دونوں تسلیم نہیں کرتے۔
حالات و واقعات نے اس پابندی کو ماننے پر مجبور کیا۔ حکمران اقتدارواختیار والے صاھب علم دانشور مفلس و گداگر سبھی کو حقیقت کا ادراک ہوگیا۔محض اس بات کو جان گئے کہ آفت نما شے سے جان بچانا ناگزیر ہوگیا ہے۔
بات پھر وہیں کہ یہ کیا ہے۔ کیسے اور کہاں سے آئی ہے۔ کس کی غلطی ۔ سازش یا حملہ ہے۔ کیا انسان ایسا قدم اٹھا سکتا ہے جس سے پوری انسانیت کے لئے خطرہ پیدا ہو جائے۔ بے شمار خیال گمان وسوسے یہاں تک کہ سازشی نظرئیے سامنے آچکے ہیں۔مگر یہ حقیقت تک پہنچنے کی اہلیت نہیں رکھ پارہے۔
صرف بچاؤ کا ایک ہی حل ہے خود کو الگ تھلگ کرلیں۔ اس کے لئے مزاج تیار نہیں مگر حالات تقاصا کرتے ہیں کہ زندہ رہنے کے لئے کوئی اور آسان حل نہیں۔ زندگی کے معاملات چلانے کے لئے سماجی رابطے کیسے ختم کریں۔ دوسری جانب بنی نوع انسان کی بقا دائو پر لگی ہے۔
تریاق یا دوا بھی نہیں ہو سکتا ہے جلد کجھ انتظام ہوجائے مگر اس وقت تک یہ غیر مرئی حملہ آور پوری دنیا کےلئے خوف کی علامت بن چکا یے۔ انسان کے لئے بیٹھ کر سوچنے کا وقت آگیا ہے اسے خوف کی چادر لمحے بھر کے لئے اتار کر صرف اتنا جائزہ لینا ہوگا کہ زندگی میں اب تک اس کیا کچھ کیا ہے۔ اس کے ذمے کیا کام لگے اور کتنے اس نے احسن انداز سے انجام دئیے۔ یہ کوئی خاص کام نہ تھے یہ وہی تھے جنہیں ہر آدمی کرتا یے۔ کیا اس نے کبھی کسی کا بھلا سوچا کسی کی مدد کی۔ اگر اس سے کہیں غلطی کوتاہی غفلت ہوئی ہے تو اس پر نادم ہوا اس سب کو آئندہ نہ دہرانے کا خود سے عہد ہی کافی ہے۔
دنیا بنانے والے نے یاددہانی کرائی ہے کہ جہاں سماجی رابطے بناتے ہو وہیں دوسروں کا خیال بھی کرلو۔ اپنی زندگی اور اپنے خاندان تک محدود رہنے والے شاید بھول جاتے ہیں ۔
موجودہ صورتحال یہ بتاریی ہے کہ اپنی زندگی کے لئے دوسروں کی زندگی بھی بچانا ضروری ہے کیا میل ملاپ کے بغیر زندہ رہ سکتے ہیں۔نہیں۔ مگر حالات نے مجبور کردیاہے۔
زیادہ نہیں تھوڑا ذھن دوڑانا ہوگا۔ قدرت انسان سے کس بات کا تقاضا کررہی ہے دوسروں کا خیال کئے بغیر ہماری زندگی بھی نہیں ہے۔ آج جس سوچ کے تحت دوسروں کی جانب مدد کا ہاتھ برھا ریے ہیں اسے آئندہ جھٹک دینا انسانیت نہ ہوگی۔ یہ لمحے بہت سے نقوش ذھنوں پر چھوڑ جائیں گے۔ انہیں مٹنے نہیں دینا اپنی یادوں کا حصہ بناکر مدد کا ہاتھ ضرور بڑھانا۔