تاریخ کے جبر نے ہمیں یہاں لا پھینکاہے۔
ہم خلا میں بھٹکنے رہتے ہیں کسی بھی مقام پر قرار نہیں ہے 73 سال پہلے تشکیل پانے والا پاکستان آج اپنے لوگوں کو وہ سہولیات بھی نہیں دے سکتا جو ان کو برٹش انڈیا میں میسر تھیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم کہاں جارہے ہیں ” نے ھاتھ باگ پہ ہے نہ پا ہے رکاب پہ ” ایک لاحاصل سفر ہے ہر کچھ دن بعد ایک نئے سفر کی نوید مل جاتی ہے، راستے بھی بدل دئے جاتے ہیں اور رہنما بھی تبدیل ہوجائے ہیں۔ ہر پچھلا جمہوری حکمران کبھی غدار ٹھرتا ہے کبھی قاتل اور کبھی بےایمان ، منزل ہے کہ کہیں نظر نہی آتی، سرنگ کی دوسری جانب بھی تاریکی ہے۔
اس سال 4 اپریل بھی آگیا، کرونا نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے لیکن اس کے باوجود یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ہماری مملکت کی تاریخ میں یہ دن بھی آیا تھا، ایک ایسا منحوس دن ہے جب پاکستان میں ایسے شخص کو پھانسی چڑھادیا گیا جو باوجود کئی خرابیوں کے اس ملک میں حریت فکر، مزدور کی سربلندی اور محنت کی عظمت کا علمبردار ٹھا جس نے بکھرے ہوئے، ٹوٹے ہوئے پاکستان کو سمیٹا تھا مملکت عزیز میں ایک آمر کے دبائو کے نتیجے میں عدالتی فیصلے سے ایک منتخب وزیراعظم کو قتل کے الزام میں قتل کردیا جاتا ہے اور فیصلہ بھی ایسا کہ اگر عدالتی نظیر کے طور پر پیش کیا جائے تو کوئی بھی حق گو جج فائل اٹھا کر پھنک دے۔ دنیا بھر میں مملکت پاکستان وہ واحد مملکت ہے کہ جہاں جمہوری حکمرانوں کو متنازعہ عدالتی فیصلوں کے نتیجے میں قتل معزول، اور برطرف کیاجاتا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو شہید، ایک آمر کے دباؤ کے نتیجے میں دئے جانے والے عدالتی فیصلے کے نتیجے میں اس روز قتل کردئے جاتے ہیں، باوجود اس کے کہ میں کبھی پیپلز پارٹی کے سیاسی نصب العین کا حامی نہیں رہا آج بھی اس فیصلے کو پاکستان اور پاکستانیوں کے لئے ایک تباہ کن فیصلہ کے طور پر دیکھتا ہوں، اس فیصلہ نے پاکستان کی اکائیوں کے درمیان نفرت کا زہر گھول دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید کے عدالتی قتل نے وفاق پاکستان میں سیاست کی وہ خلیج پیدا کی جو آج تک نہ بھرسکی۔
،اس دن کے بعد سے پیپلز پارٹی 3 مرتبہ برسراقتدار آئی لیکن اس کیس کو دوبارہ کھولنے کی ہمت نہیں کرسکی، یہ اس کی اتنی بڑی غفلت سیاسی مصلحت یا اقتدار سے محبت ہے کہ جس کو کبھی معاف نہیں کیا جاسکتا گوکہ میری دانست میں اس بزدلی کی سزا پیپلز پارٹی کو بار بار دی گئی اور آخر کار راولپنڈی میں بےنظیر بھٹو کو ہزاروں جیالوں کی موجودگی میں گولی سے اڑا دیا گیا، یہ خون بھی رات سے پہلے ہی دھودیا گیا کہ : یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا” دو مرتبہ کی وزیراعظم راولپنڈی میں ماردی گئی۔ وفاق کی علامت ختم ہوگئی۔ اگر پیپلز پارٹی مشروط حکمرانی سے انکار کرتی اور ذوالفقار علی بھٹو شہید کے بھانسی کے عدالتی فیصلے کو چیلنج کرتی تو شاید نتائج مختلف ہوتے ۔
ذوالفقار علی بھٹو شہید کردئے گئے، بے نظیر بھٹو شہید کردی گئی ، یوسف رضا گیلانی کو عدالتی فیصلے نے نکال دیا، نواز شریف کو عدالت نے نااہل قرار دیا ۔ یہ عدالتیں جمہوری حکمرانوں، عوام کے ووٹوں سے آنے والوں کو تو سزا دیتی ہیں لیکن جب اسی عدالت نے ایک آمر کو غداری کے الزام میں سزا سنائی تو آج نہ تو وہ عدالت دکھائی دیتی ہے اور نہ وہ جج۔