Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
سلطان پاپڑ والا ایسے بےشمار لوگوں میں سے ایک تھا جس نے زندگی کی تلخیوں میں آسودگی کی خواہشوں کا انتظار کبھی ترک نہ کیا۔
نیکی اور بدی میں مقابلہ ثواب اور گناہ کے نتیجے پر ختم ہوتا ہے۔ اللہ نے انسان کو لالچ کی مٹی میں گوندھ کر بنایا ہے۔ وہ کسی اچھے یا برے مقصد کو نصب العین اور منزل بناکر زندگی میں جدوجہد کرتا ہے۔
سب سے بڑی آزمائش معاش کا حصول ہے جس کے گرد تمام مسائل گھومتے ہیں۔ مفلسی کی چادر پھیلانے اور سمیٹنے کی جنگ ساری عمر لگی رہتی ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
سلطان پاپڑ والا ایسے بےشمار لوگوں میں سے ایک تھا جس نے زندگی کی تلخیوں میں آسودگی کی خواہشوں کا انتظار کبھی ترک نہ کیا۔ وہ مختلف کام کرتا جس سے اپنے کنبے کی ضرورتوں کا حصول ممکن بناسکتا۔ اب وہ پاپڑ بیچ کر گھر کا راشن ڈالتا۔ یہ کام سلطان کو زیادہ آمدن نہیں دے پاتا تھا۔ وہ ایسے مقام تلاش کرتا جہاں بچے ہوں کیونکہ بڑوں سے زیادہ کمسن اس کے پاپڑوں میں دلچسپی لیتے۔ شادی بیاہ اور ایسی تقریبات کے باہر وہ چھابہ لیکر کھڑا ہوکر صدا لگادیتا۔ یہاں کبھی کبھار کسی بارات کی آمد پر خوشی میں پیسے لٹانے کی رسم ہوتی۔
اس کا پہلے ضمیر گوارہ نہ کرتا مگر اب مجبور ہوکر سلطان بھی گداگروں کی صف میں خود کو کھڑا کرلیتا۔ سب کچھ ایک طرف رکھ پیسے لوٹتا کیونکہ کسی کو پاپڑ کھانے میں خاص دلچسپی نہیں رہی۔ لوٹ کے مال میں بھی کوئی خاطر خواہ رقم نہ ہوتی چند روپوں کو ہاتھ میں بڑی خفگی کے تاثرات کے ساتھ تھامے یہ سلطان خود کو کسی بھکاری سے بھی زیادہ گرا محسوس کرتا لیکن وہ کیا کرتا بچوں اور گھر کی ضرورتیں نظروں کے سامنے رہتی تھیں۔ اس کا ذہن کچھ اور سوچ ہی نہیں پاتا تھا۔
اس روز بھی ایک آدھ پاپڑ بیچ پایا تھا کسی نے سلطان کی صدا پر لبیک نہ کہا وہ اپنی بے بسی کے اسی عالم میں نگاہیں چاروں طرف دڑا رہا تھا کہ کوئی آگے بڑھے اور اسے آواز دے پاپڑ والے۔ لیکن نہیں ایسا کچھ نہیں۔ آج کا دن بھی جیسے مایوسی کی کھائی میں دھکے دے رہا تھا اور وہ آس امید کے کسی افق پر نگاہیں جمائے تھا۔ باراتیوں میں سے کسی نے نئے نوٹ فضا میں نچھاور کئے تو جیسے یکدم سلطان کی آنکھوں میں چمک آگئی۔ اس نے بچوں کی طرح ادھر ادھر نوٹ پکڑنے شروع کئے۔
یہ بھی پڑھئے:
مکران، لسبیلہ، خاران کے پاکستان سے الحاق کی پیچیدہ کہانی
علامہ اقبالؒ اور تحریکِ پاکستان
ابھی ،زیادہ دیر نہ گزری کہ کسی نے پیچھے سے آکر اسے گریبان سے دبوچ لیا اور گالیاں بکتے ہوئے چوری کا الزام لگادیا۔ سلطان نے قسمیں کھائیں کہ ایسا کچھ نہیں وہ محض پیسے لوٹ رہا ہے۔ مگر اس شخص کے شور مچانے پر مزید لوگ جمع ہوگئے انہوں نے سلطان کی ایک نہ سنی۔ اس قدر وحشیانہ انداز سے تشدد کیا کوئی اس کی حمایت میں آگے نہ آیا۔ وہ بے بسی اور لاچاری کی تصویر بنا سب کی مارپیٹ برداشت کررہا تھا۔ اس دوران اس کو اپنی بیوی بڑی بیٹی اور دو چھوٹے بیٹوں کی ڈری سہمی شکلیں دکھائی دے رہی تھیں جیسے وہ باربار اپنے شوہر اور باپ کی بےگناہی کی قسمیں کھا رہے ہوں۔ وہ جب بھی کبھی کسی شادی کی تقریب کے باہر آتا اپنی بیٹی یاد آتی کہ کبھی اس کی رخصتی کا دن بھی آئے گا وہ دلہن کے روپ میں اس کے خیالوں میں آجاتی۔
سلطان کبھی ہاتھ جوڑ کر منت سماجت کرتا کبھی واسطے دیتا کہ اس نے چوری نہیں کی۔ وہ پاپڑوالا ہے۔ چاہے کسی سے پوچھ لو مگر کوئی گواہی دینے آگے نہ آیا۔ لوگ تماشا دیکھتے رہے اور سانس کا مریض پچاس سالہ سلطان آخر کار برداشت نہ کرپایا۔ اس کی سانس کی ڈور ٹوٹ گئی۔ وہ خوشی منانے آئے لوگوں کے غضب کا نشانہ بن گیا۔ اس کا دم نکل گیا باراتیوں نے مردہ سلطان کو وہیں ہال میں ایک کونے میں چادر ڈال کررکھ دیا۔ جس کے بعد معمول کی تقریب ہوئی سب نے وہیں شادی کا کھانا کھایا اور خوشی کے موقع کو ضائع نہیں جانے دیا۔
معاشرہ عدم برداشت کی جس حد کو عبور کرچکا ہے ہماری بے حسی جہاں پہنچ گئی ہے شاید اب کسی طور واپس نہ آسکے۔ ہم ایک دوسرے سے رحم کی بھیک بھی مانگ نہیں پاسکتے۔ انسانیت۔ رواداری۔ برداشت۔ تحمل احساس اور نہ جانے لغت میں موجود کئی لفظ محض لکھنے پڑھنے تک رہ گئے ہیں مفہوم یا عملی اظہار نہ جانے کہیں دکھائی دیتا ہے۔
سلطان پاپڑ والے جیسے بےشمار اس احساس کے ساتھ اپنی زندگیاں ختم کرجاتے ہیں کہ شاید کوئی اللہ کے واسطے ان کی مجبوری سمجھ لے کوئی ایک ہاتھ تھام لے۔
دوسرا ہمارے معاشرے میں خودساختہ عدل کا نظام چلانے کا چلن بہت خطرناک صورت اختیار کر چکا ہے خود ہی منصف بن بیٹھے سماج کے ٹھیکیداروں کو روکا نہ گیا تو سماج غیرا نسانی روش اختیار کرجائے گا۔
سلطان پاپڑوالا کس سے اپنے ناحق خون کا سوال کرے۔ ریاست پہلے ہی بڑے مسائل اور آئینی پیچیدگیوں میں گھری ہے۔ اس کو سلطان پاپڑ والے سے زیادہ کسی اور پاپڑوالے کی فکر لاحق ہے جس نے کبھی شکنجے میں نہیں آنا۔۔
سلطان پاپڑ والا ایسے بےشمار لوگوں میں سے ایک تھا جس نے زندگی کی تلخیوں میں آسودگی کی خواہشوں کا انتظار کبھی ترک نہ کیا۔
نیکی اور بدی میں مقابلہ ثواب اور گناہ کے نتیجے پر ختم ہوتا ہے۔ اللہ نے انسان کو لالچ کی مٹی میں گوندھ کر بنایا ہے۔ وہ کسی اچھے یا برے مقصد کو نصب العین اور منزل بناکر زندگی میں جدوجہد کرتا ہے۔
سب سے بڑی آزمائش معاش کا حصول ہے جس کے گرد تمام مسائل گھومتے ہیں۔ مفلسی کی چادر پھیلانے اور سمیٹنے کی جنگ ساری عمر لگی رہتی ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
سلطان پاپڑ والا ایسے بےشمار لوگوں میں سے ایک تھا جس نے زندگی کی تلخیوں میں آسودگی کی خواہشوں کا انتظار کبھی ترک نہ کیا۔ وہ مختلف کام کرتا جس سے اپنے کنبے کی ضرورتوں کا حصول ممکن بناسکتا۔ اب وہ پاپڑ بیچ کر گھر کا راشن ڈالتا۔ یہ کام سلطان کو زیادہ آمدن نہیں دے پاتا تھا۔ وہ ایسے مقام تلاش کرتا جہاں بچے ہوں کیونکہ بڑوں سے زیادہ کمسن اس کے پاپڑوں میں دلچسپی لیتے۔ شادی بیاہ اور ایسی تقریبات کے باہر وہ چھابہ لیکر کھڑا ہوکر صدا لگادیتا۔ یہاں کبھی کبھار کسی بارات کی آمد پر خوشی میں پیسے لٹانے کی رسم ہوتی۔
اس کا پہلے ضمیر گوارہ نہ کرتا مگر اب مجبور ہوکر سلطان بھی گداگروں کی صف میں خود کو کھڑا کرلیتا۔ سب کچھ ایک طرف رکھ پیسے لوٹتا کیونکہ کسی کو پاپڑ کھانے میں خاص دلچسپی نہیں رہی۔ لوٹ کے مال میں بھی کوئی خاطر خواہ رقم نہ ہوتی چند روپوں کو ہاتھ میں بڑی خفگی کے تاثرات کے ساتھ تھامے یہ سلطان خود کو کسی بھکاری سے بھی زیادہ گرا محسوس کرتا لیکن وہ کیا کرتا بچوں اور گھر کی ضرورتیں نظروں کے سامنے رہتی تھیں۔ اس کا ذہن کچھ اور سوچ ہی نہیں پاتا تھا۔
اس روز بھی ایک آدھ پاپڑ بیچ پایا تھا کسی نے سلطان کی صدا پر لبیک نہ کہا وہ اپنی بے بسی کے اسی عالم میں نگاہیں چاروں طرف دڑا رہا تھا کہ کوئی آگے بڑھے اور اسے آواز دے پاپڑ والے۔ لیکن نہیں ایسا کچھ نہیں۔ آج کا دن بھی جیسے مایوسی کی کھائی میں دھکے دے رہا تھا اور وہ آس امید کے کسی افق پر نگاہیں جمائے تھا۔ باراتیوں میں سے کسی نے نئے نوٹ فضا میں نچھاور کئے تو جیسے یکدم سلطان کی آنکھوں میں چمک آگئی۔ اس نے بچوں کی طرح ادھر ادھر نوٹ پکڑنے شروع کئے۔
یہ بھی پڑھئے:
مکران، لسبیلہ، خاران کے پاکستان سے الحاق کی پیچیدہ کہانی
علامہ اقبالؒ اور تحریکِ پاکستان
ابھی ،زیادہ دیر نہ گزری کہ کسی نے پیچھے سے آکر اسے گریبان سے دبوچ لیا اور گالیاں بکتے ہوئے چوری کا الزام لگادیا۔ سلطان نے قسمیں کھائیں کہ ایسا کچھ نہیں وہ محض پیسے لوٹ رہا ہے۔ مگر اس شخص کے شور مچانے پر مزید لوگ جمع ہوگئے انہوں نے سلطان کی ایک نہ سنی۔ اس قدر وحشیانہ انداز سے تشدد کیا کوئی اس کی حمایت میں آگے نہ آیا۔ وہ بے بسی اور لاچاری کی تصویر بنا سب کی مارپیٹ برداشت کررہا تھا۔ اس دوران اس کو اپنی بیوی بڑی بیٹی اور دو چھوٹے بیٹوں کی ڈری سہمی شکلیں دکھائی دے رہی تھیں جیسے وہ باربار اپنے شوہر اور باپ کی بےگناہی کی قسمیں کھا رہے ہوں۔ وہ جب بھی کبھی کسی شادی کی تقریب کے باہر آتا اپنی بیٹی یاد آتی کہ کبھی اس کی رخصتی کا دن بھی آئے گا وہ دلہن کے روپ میں اس کے خیالوں میں آجاتی۔
سلطان کبھی ہاتھ جوڑ کر منت سماجت کرتا کبھی واسطے دیتا کہ اس نے چوری نہیں کی۔ وہ پاپڑوالا ہے۔ چاہے کسی سے پوچھ لو مگر کوئی گواہی دینے آگے نہ آیا۔ لوگ تماشا دیکھتے رہے اور سانس کا مریض پچاس سالہ سلطان آخر کار برداشت نہ کرپایا۔ اس کی سانس کی ڈور ٹوٹ گئی۔ وہ خوشی منانے آئے لوگوں کے غضب کا نشانہ بن گیا۔ اس کا دم نکل گیا باراتیوں نے مردہ سلطان کو وہیں ہال میں ایک کونے میں چادر ڈال کررکھ دیا۔ جس کے بعد معمول کی تقریب ہوئی سب نے وہیں شادی کا کھانا کھایا اور خوشی کے موقع کو ضائع نہیں جانے دیا۔
معاشرہ عدم برداشت کی جس حد کو عبور کرچکا ہے ہماری بے حسی جہاں پہنچ گئی ہے شاید اب کسی طور واپس نہ آسکے۔ ہم ایک دوسرے سے رحم کی بھیک بھی مانگ نہیں پاسکتے۔ انسانیت۔ رواداری۔ برداشت۔ تحمل احساس اور نہ جانے لغت میں موجود کئی لفظ محض لکھنے پڑھنے تک رہ گئے ہیں مفہوم یا عملی اظہار نہ جانے کہیں دکھائی دیتا ہے۔
سلطان پاپڑ والے جیسے بےشمار اس احساس کے ساتھ اپنی زندگیاں ختم کرجاتے ہیں کہ شاید کوئی اللہ کے واسطے ان کی مجبوری سمجھ لے کوئی ایک ہاتھ تھام لے۔
دوسرا ہمارے معاشرے میں خودساختہ عدل کا نظام چلانے کا چلن بہت خطرناک صورت اختیار کر چکا ہے خود ہی منصف بن بیٹھے سماج کے ٹھیکیداروں کو روکا نہ گیا تو سماج غیرا نسانی روش اختیار کرجائے گا۔
سلطان پاپڑوالا کس سے اپنے ناحق خون کا سوال کرے۔ ریاست پہلے ہی بڑے مسائل اور آئینی پیچیدگیوں میں گھری ہے۔ اس کو سلطان پاپڑ والے سے زیادہ کسی اور پاپڑوالے کی فکر لاحق ہے جس نے کبھی شکنجے میں نہیں آنا۔۔
سلطان پاپڑ والا ایسے بےشمار لوگوں میں سے ایک تھا جس نے زندگی کی تلخیوں میں آسودگی کی خواہشوں کا انتظار کبھی ترک نہ کیا۔
نیکی اور بدی میں مقابلہ ثواب اور گناہ کے نتیجے پر ختم ہوتا ہے۔ اللہ نے انسان کو لالچ کی مٹی میں گوندھ کر بنایا ہے۔ وہ کسی اچھے یا برے مقصد کو نصب العین اور منزل بناکر زندگی میں جدوجہد کرتا ہے۔
سب سے بڑی آزمائش معاش کا حصول ہے جس کے گرد تمام مسائل گھومتے ہیں۔ مفلسی کی چادر پھیلانے اور سمیٹنے کی جنگ ساری عمر لگی رہتی ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
سلطان پاپڑ والا ایسے بےشمار لوگوں میں سے ایک تھا جس نے زندگی کی تلخیوں میں آسودگی کی خواہشوں کا انتظار کبھی ترک نہ کیا۔ وہ مختلف کام کرتا جس سے اپنے کنبے کی ضرورتوں کا حصول ممکن بناسکتا۔ اب وہ پاپڑ بیچ کر گھر کا راشن ڈالتا۔ یہ کام سلطان کو زیادہ آمدن نہیں دے پاتا تھا۔ وہ ایسے مقام تلاش کرتا جہاں بچے ہوں کیونکہ بڑوں سے زیادہ کمسن اس کے پاپڑوں میں دلچسپی لیتے۔ شادی بیاہ اور ایسی تقریبات کے باہر وہ چھابہ لیکر کھڑا ہوکر صدا لگادیتا۔ یہاں کبھی کبھار کسی بارات کی آمد پر خوشی میں پیسے لٹانے کی رسم ہوتی۔
اس کا پہلے ضمیر گوارہ نہ کرتا مگر اب مجبور ہوکر سلطان بھی گداگروں کی صف میں خود کو کھڑا کرلیتا۔ سب کچھ ایک طرف رکھ پیسے لوٹتا کیونکہ کسی کو پاپڑ کھانے میں خاص دلچسپی نہیں رہی۔ لوٹ کے مال میں بھی کوئی خاطر خواہ رقم نہ ہوتی چند روپوں کو ہاتھ میں بڑی خفگی کے تاثرات کے ساتھ تھامے یہ سلطان خود کو کسی بھکاری سے بھی زیادہ گرا محسوس کرتا لیکن وہ کیا کرتا بچوں اور گھر کی ضرورتیں نظروں کے سامنے رہتی تھیں۔ اس کا ذہن کچھ اور سوچ ہی نہیں پاتا تھا۔
اس روز بھی ایک آدھ پاپڑ بیچ پایا تھا کسی نے سلطان کی صدا پر لبیک نہ کہا وہ اپنی بے بسی کے اسی عالم میں نگاہیں چاروں طرف دڑا رہا تھا کہ کوئی آگے بڑھے اور اسے آواز دے پاپڑ والے۔ لیکن نہیں ایسا کچھ نہیں۔ آج کا دن بھی جیسے مایوسی کی کھائی میں دھکے دے رہا تھا اور وہ آس امید کے کسی افق پر نگاہیں جمائے تھا۔ باراتیوں میں سے کسی نے نئے نوٹ فضا میں نچھاور کئے تو جیسے یکدم سلطان کی آنکھوں میں چمک آگئی۔ اس نے بچوں کی طرح ادھر ادھر نوٹ پکڑنے شروع کئے۔
یہ بھی پڑھئے:
مکران، لسبیلہ، خاران کے پاکستان سے الحاق کی پیچیدہ کہانی
علامہ اقبالؒ اور تحریکِ پاکستان
ابھی ،زیادہ دیر نہ گزری کہ کسی نے پیچھے سے آکر اسے گریبان سے دبوچ لیا اور گالیاں بکتے ہوئے چوری کا الزام لگادیا۔ سلطان نے قسمیں کھائیں کہ ایسا کچھ نہیں وہ محض پیسے لوٹ رہا ہے۔ مگر اس شخص کے شور مچانے پر مزید لوگ جمع ہوگئے انہوں نے سلطان کی ایک نہ سنی۔ اس قدر وحشیانہ انداز سے تشدد کیا کوئی اس کی حمایت میں آگے نہ آیا۔ وہ بے بسی اور لاچاری کی تصویر بنا سب کی مارپیٹ برداشت کررہا تھا۔ اس دوران اس کو اپنی بیوی بڑی بیٹی اور دو چھوٹے بیٹوں کی ڈری سہمی شکلیں دکھائی دے رہی تھیں جیسے وہ باربار اپنے شوہر اور باپ کی بےگناہی کی قسمیں کھا رہے ہوں۔ وہ جب بھی کبھی کسی شادی کی تقریب کے باہر آتا اپنی بیٹی یاد آتی کہ کبھی اس کی رخصتی کا دن بھی آئے گا وہ دلہن کے روپ میں اس کے خیالوں میں آجاتی۔
سلطان کبھی ہاتھ جوڑ کر منت سماجت کرتا کبھی واسطے دیتا کہ اس نے چوری نہیں کی۔ وہ پاپڑوالا ہے۔ چاہے کسی سے پوچھ لو مگر کوئی گواہی دینے آگے نہ آیا۔ لوگ تماشا دیکھتے رہے اور سانس کا مریض پچاس سالہ سلطان آخر کار برداشت نہ کرپایا۔ اس کی سانس کی ڈور ٹوٹ گئی۔ وہ خوشی منانے آئے لوگوں کے غضب کا نشانہ بن گیا۔ اس کا دم نکل گیا باراتیوں نے مردہ سلطان کو وہیں ہال میں ایک کونے میں چادر ڈال کررکھ دیا۔ جس کے بعد معمول کی تقریب ہوئی سب نے وہیں شادی کا کھانا کھایا اور خوشی کے موقع کو ضائع نہیں جانے دیا۔
معاشرہ عدم برداشت کی جس حد کو عبور کرچکا ہے ہماری بے حسی جہاں پہنچ گئی ہے شاید اب کسی طور واپس نہ آسکے۔ ہم ایک دوسرے سے رحم کی بھیک بھی مانگ نہیں پاسکتے۔ انسانیت۔ رواداری۔ برداشت۔ تحمل احساس اور نہ جانے لغت میں موجود کئی لفظ محض لکھنے پڑھنے تک رہ گئے ہیں مفہوم یا عملی اظہار نہ جانے کہیں دکھائی دیتا ہے۔
سلطان پاپڑ والے جیسے بےشمار اس احساس کے ساتھ اپنی زندگیاں ختم کرجاتے ہیں کہ شاید کوئی اللہ کے واسطے ان کی مجبوری سمجھ لے کوئی ایک ہاتھ تھام لے۔
دوسرا ہمارے معاشرے میں خودساختہ عدل کا نظام چلانے کا چلن بہت خطرناک صورت اختیار کر چکا ہے خود ہی منصف بن بیٹھے سماج کے ٹھیکیداروں کو روکا نہ گیا تو سماج غیرا نسانی روش اختیار کرجائے گا۔
سلطان پاپڑوالا کس سے اپنے ناحق خون کا سوال کرے۔ ریاست پہلے ہی بڑے مسائل اور آئینی پیچیدگیوں میں گھری ہے۔ اس کو سلطان پاپڑ والے سے زیادہ کسی اور پاپڑوالے کی فکر لاحق ہے جس نے کبھی شکنجے میں نہیں آنا۔۔
سلطان پاپڑ والا ایسے بےشمار لوگوں میں سے ایک تھا جس نے زندگی کی تلخیوں میں آسودگی کی خواہشوں کا انتظار کبھی ترک نہ کیا۔
نیکی اور بدی میں مقابلہ ثواب اور گناہ کے نتیجے پر ختم ہوتا ہے۔ اللہ نے انسان کو لالچ کی مٹی میں گوندھ کر بنایا ہے۔ وہ کسی اچھے یا برے مقصد کو نصب العین اور منزل بناکر زندگی میں جدوجہد کرتا ہے۔
سب سے بڑی آزمائش معاش کا حصول ہے جس کے گرد تمام مسائل گھومتے ہیں۔ مفلسی کی چادر پھیلانے اور سمیٹنے کی جنگ ساری عمر لگی رہتی ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
سلطان پاپڑ والا ایسے بےشمار لوگوں میں سے ایک تھا جس نے زندگی کی تلخیوں میں آسودگی کی خواہشوں کا انتظار کبھی ترک نہ کیا۔ وہ مختلف کام کرتا جس سے اپنے کنبے کی ضرورتوں کا حصول ممکن بناسکتا۔ اب وہ پاپڑ بیچ کر گھر کا راشن ڈالتا۔ یہ کام سلطان کو زیادہ آمدن نہیں دے پاتا تھا۔ وہ ایسے مقام تلاش کرتا جہاں بچے ہوں کیونکہ بڑوں سے زیادہ کمسن اس کے پاپڑوں میں دلچسپی لیتے۔ شادی بیاہ اور ایسی تقریبات کے باہر وہ چھابہ لیکر کھڑا ہوکر صدا لگادیتا۔ یہاں کبھی کبھار کسی بارات کی آمد پر خوشی میں پیسے لٹانے کی رسم ہوتی۔
اس کا پہلے ضمیر گوارہ نہ کرتا مگر اب مجبور ہوکر سلطان بھی گداگروں کی صف میں خود کو کھڑا کرلیتا۔ سب کچھ ایک طرف رکھ پیسے لوٹتا کیونکہ کسی کو پاپڑ کھانے میں خاص دلچسپی نہیں رہی۔ لوٹ کے مال میں بھی کوئی خاطر خواہ رقم نہ ہوتی چند روپوں کو ہاتھ میں بڑی خفگی کے تاثرات کے ساتھ تھامے یہ سلطان خود کو کسی بھکاری سے بھی زیادہ گرا محسوس کرتا لیکن وہ کیا کرتا بچوں اور گھر کی ضرورتیں نظروں کے سامنے رہتی تھیں۔ اس کا ذہن کچھ اور سوچ ہی نہیں پاتا تھا۔
اس روز بھی ایک آدھ پاپڑ بیچ پایا تھا کسی نے سلطان کی صدا پر لبیک نہ کہا وہ اپنی بے بسی کے اسی عالم میں نگاہیں چاروں طرف دڑا رہا تھا کہ کوئی آگے بڑھے اور اسے آواز دے پاپڑ والے۔ لیکن نہیں ایسا کچھ نہیں۔ آج کا دن بھی جیسے مایوسی کی کھائی میں دھکے دے رہا تھا اور وہ آس امید کے کسی افق پر نگاہیں جمائے تھا۔ باراتیوں میں سے کسی نے نئے نوٹ فضا میں نچھاور کئے تو جیسے یکدم سلطان کی آنکھوں میں چمک آگئی۔ اس نے بچوں کی طرح ادھر ادھر نوٹ پکڑنے شروع کئے۔
یہ بھی پڑھئے:
مکران، لسبیلہ، خاران کے پاکستان سے الحاق کی پیچیدہ کہانی
علامہ اقبالؒ اور تحریکِ پاکستان
ابھی ،زیادہ دیر نہ گزری کہ کسی نے پیچھے سے آکر اسے گریبان سے دبوچ لیا اور گالیاں بکتے ہوئے چوری کا الزام لگادیا۔ سلطان نے قسمیں کھائیں کہ ایسا کچھ نہیں وہ محض پیسے لوٹ رہا ہے۔ مگر اس شخص کے شور مچانے پر مزید لوگ جمع ہوگئے انہوں نے سلطان کی ایک نہ سنی۔ اس قدر وحشیانہ انداز سے تشدد کیا کوئی اس کی حمایت میں آگے نہ آیا۔ وہ بے بسی اور لاچاری کی تصویر بنا سب کی مارپیٹ برداشت کررہا تھا۔ اس دوران اس کو اپنی بیوی بڑی بیٹی اور دو چھوٹے بیٹوں کی ڈری سہمی شکلیں دکھائی دے رہی تھیں جیسے وہ باربار اپنے شوہر اور باپ کی بےگناہی کی قسمیں کھا رہے ہوں۔ وہ جب بھی کبھی کسی شادی کی تقریب کے باہر آتا اپنی بیٹی یاد آتی کہ کبھی اس کی رخصتی کا دن بھی آئے گا وہ دلہن کے روپ میں اس کے خیالوں میں آجاتی۔
سلطان کبھی ہاتھ جوڑ کر منت سماجت کرتا کبھی واسطے دیتا کہ اس نے چوری نہیں کی۔ وہ پاپڑوالا ہے۔ چاہے کسی سے پوچھ لو مگر کوئی گواہی دینے آگے نہ آیا۔ لوگ تماشا دیکھتے رہے اور سانس کا مریض پچاس سالہ سلطان آخر کار برداشت نہ کرپایا۔ اس کی سانس کی ڈور ٹوٹ گئی۔ وہ خوشی منانے آئے لوگوں کے غضب کا نشانہ بن گیا۔ اس کا دم نکل گیا باراتیوں نے مردہ سلطان کو وہیں ہال میں ایک کونے میں چادر ڈال کررکھ دیا۔ جس کے بعد معمول کی تقریب ہوئی سب نے وہیں شادی کا کھانا کھایا اور خوشی کے موقع کو ضائع نہیں جانے دیا۔
معاشرہ عدم برداشت کی جس حد کو عبور کرچکا ہے ہماری بے حسی جہاں پہنچ گئی ہے شاید اب کسی طور واپس نہ آسکے۔ ہم ایک دوسرے سے رحم کی بھیک بھی مانگ نہیں پاسکتے۔ انسانیت۔ رواداری۔ برداشت۔ تحمل احساس اور نہ جانے لغت میں موجود کئی لفظ محض لکھنے پڑھنے تک رہ گئے ہیں مفہوم یا عملی اظہار نہ جانے کہیں دکھائی دیتا ہے۔
سلطان پاپڑ والے جیسے بےشمار اس احساس کے ساتھ اپنی زندگیاں ختم کرجاتے ہیں کہ شاید کوئی اللہ کے واسطے ان کی مجبوری سمجھ لے کوئی ایک ہاتھ تھام لے۔
دوسرا ہمارے معاشرے میں خودساختہ عدل کا نظام چلانے کا چلن بہت خطرناک صورت اختیار کر چکا ہے خود ہی منصف بن بیٹھے سماج کے ٹھیکیداروں کو روکا نہ گیا تو سماج غیرا نسانی روش اختیار کرجائے گا۔
سلطان پاپڑوالا کس سے اپنے ناحق خون کا سوال کرے۔ ریاست پہلے ہی بڑے مسائل اور آئینی پیچیدگیوں میں گھری ہے۔ اس کو سلطان پاپڑ والے سے زیادہ کسی اور پاپڑوالے کی فکر لاحق ہے جس نے کبھی شکنجے میں نہیں آنا۔۔