معروف شاعر طاہرحنفی صاحب کا چوتھا شعری مجموعہ یرغمالِ خاک گزشتہ سال جب موصول ہوا تو ایک عمدہ شعری مجموعہ ملنے کی خوشی کے ساتھ ساتھ ایک خوشگوار حیرت کا سامنا بھی ہوا کیوں کہ طاہر حنفی صاحب نے اپنی عمرِ عزیز کے چھیاسٹھویں برس میں داخل ہونے کی خوشی کو ایک منفرد انداز سے یادگار بنایا اور اپنے باذوق قارئین کی خدمت میں اپنے ان 66 برسوں کے نشیب و فراز اور تجربات و مشاہدات کا نچوڑ اپنے شعری مجموعہ کلام یرغمالِ خاک میں اپنی 66 شاندار غزلوں، 66 فکر انگیز نظموں اور 66 ہی متنوع موضوعاتی اشعار کی صورت میں پیش کیا۔
216 صفحات پر مشتمل کتاب کا سرورق نہایت دیدہ ذیب ہے اور ابتدا میں ہی معتبر ادبی شخصیات ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی، ڈاکٹر محمد افتخار الحق اور خاور اعجاز صاحب کے تاثرات بھی شامل ہیں۔ کتاب کے آخر میں طاہر حنفی صاحب نے “مقامِ شکر” میں اپنے ان تمام دوستوں، ساتھیوں اور خیر خواہوں کے نام شامل کر کے ایک نئی روایت رقم کی ہے جو کتاب کی تکمیلیت تک کسی نہ کسی مرحلے پر ان کے ساتھ جڑے رہے۔ اس فہرستِ دوستاں میں راقم الحروف اپنا نام شامل کیے جانے پر طاہر حنفی صاحب کی تہِ دل سے ممنون ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ان کے گزشتہ تینوں شعری مجموعے “شہرِ نارسا”، “گونگی ہجرت” اور “خانہ بدوش آنکھیں” پہلے ہی اہلِ سخن کی بھرپور داد سمیٹ چکے ہیں۔
طاہر حنفی صاحب کی شاعری محض روایتی شاعری نہیں۔ یرغمالِ خاک طاہر حنفی صاحب کی پر اعتماد اور طاقتور شعری صلاحیتوں کا اظہاریہ ہے۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ طاہر حنفی نے جو کچھ کہا وہ شعورِ حیات اور دل آویزی فن کے سائے میں کہا۔ حَرف و صَوت کی شگفتگی اور فکر و خیال کی تازگی کے ساتھ کہا۔ کلاسیکی مطالعہ وسیع رکھنے کے باوجود روایتی اور تقلیدی شاعری سے ہٹ کر جدیدیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے کہا۔ اپنے لہجے کی ندرت کو برقرار رکھتے ہوئے جدت پسندی سے کہا۔ طاہر حنفی کی شاعری جمالیات و سماجیات کے بنیادی ستونوں پر پوری شان و شوکت سے کھڑی نظر آتی ہے جس کی مضبوط بنیاد، محسوسات، تصورات، تجربات و مشاہدات پر ہے۔ اپنے مخصوص طرزِ اظہار کے ساتھ منفرد ردیف و قافیے کا استعمال اور کمال مہارت کے ساتھ استعارات و تشبیہات کا استعمال شعری میدان میں ان کی مہم جو طبیعت کی عکاسی کرتا ہے۔
ایک حساس شاعر اپنے وقت کا سب سے بڑا نباض ہوتا ہے۔ وہ حالات و واقعات اور سانحات پر ایک بھرپور عقابی نظر رکھتا ہے اور اپنے مشاہدات کو اتنی ہی حساسیت کے ساتھ بیان کر دیتا ہے جو اس کو متاثر کرتی ہے۔ ذرا ان اشعار میں بیان کیا گیا المیہ محسوس کیجیے۔
وہ کہ جس شخص کے ہاتھوں سے شفا ملنی تھی
ہائے اس شخص کے گائوں سے وبائیں نکلیں
اس قدر خون بہا تھا کہ زمیں سرخ ہوئی
کتنی کشمیر سے روتی ہوئی مائیں نکلیں
کن کی چیخیں تھیں، گئیں رات کو جو عرش تلک؟
چیتھڑے، چیتھڑے، کن کی یہ ردائیں نکلیں
معاشرتی و سماجی رویوں سے دلبرداشتہ ہونے کے باوجود آپ کی شاعری میں یاس و قنوطیت، محرومی و ناامیدی، شکست و اضمحلال شاذ ہی نظر آتا ہے۔ طاہر حنفی بنیادی طور پر امید و رَجا کے شاعر ہیں۔ وہ نہ صرف خود پر امید ہیں بلکہ معاشرے کو بھی اچھی امید دلاتے اور جہد و عمل کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں۔
طاہر! اچھا وقت کبھی تھا، پھر سے اچھا وقت آئے گا
پہلے سا گر وقت نہیں تو، یہ بھی وقت گزر جائے گا
ظلمتِ شب سے لڑنے کی خاطر یہاں
جیسے تیسے سہی، کچھ دیے تو جلے
وہ نہ صرف فنِ تحریر سے واقف ہیں بلکہ لفظوں کو نہایت سلیقے اور وضعداری سے نبھانا بھی خوب جانتے ہیں۔ خیال کی ہمہ گیری، اسلوب کی چاشنی اور طنز کے نشتر برساتا یہ سچا اور لہجہ نہ صرف صاحبِ ذوق قاری بلکہ عام قاری پر بھی براہِ راست اثر انداز ہوتا ہے اور اس کے دل کی آواز بن جاتا ہے اور یہی ان کی کامیابی کی سند ہے۔
ایک بیوہ کو، خلقِ خدا! چاہیے
ننگا سر ڈھانپنے کو ردا چاہیے
طاہرحنفی صاحب درد کو اپنے قلم میں سما کر احساسات کو اس طرح درد آمیز بنا دیتے ہیں کہ ذات کی درد آمیزی معنی و مفہوم میں رچ بس جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
پتوکی کے لوگ اور سلطان پاپڑ والا
پچیس مارچ: آج نام ور شاعر سراج الدین ظفر کا یوم پیدائش ہے
مکران، لسبیلہ، خاران کے پاکستان سے الحاق کی پیچیدہ کہانی
میں اپنے غم کو، اپنے دردِ دل کو لے کر آتا ہوں
مقابل اس کے، تم چاہو تو دو عالم کو لے آئو
ہمارے شہر میں کوئی بھی بے لباس نہیں
سبھی پہنے ہوئے ہیں اپنی اپنی خود غرضی
اپنے تخلیقی ذہن اور درد مند دل کے ساتھ طاہر حنفی صاحب کی شاعری زندگی سے وابستہ انسانی رویوں کی بہترین انداز میں عکاسی و منظر کشی کرتی ہے۔ جب وہ استحصال، ظلم و زیادتی اور معاشرتی برائیوں کو بے نقاب کرتے ہیں تو سارا درد و کرب ان کے اشعار میں امنڈ آتا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ کیجئے۔
اے رب ذوالجلال! سماعت بھی چھین لے
سن سن کے جھوٹ لوگوں کے، الفاظ چل بسے
پھر کبھی اترے نہ اس پر رات ظلم و قہر کی
کر رہا ہوں، کبریا سے بات اپنے شہر کی
ہوس دل میں چھپی ہوتی ہے، سر پر ہاتھ رکھتے ہیں
دکھاوا کرتے ہیں، مفلس کی دلداری نہیں کرتے
یہ سب بیان کرتے ہوئے طاہر حنفی صاحب کا لہجہ خودکلامی کرتے ہوئے لمحہ بھر کے لیے دکھی تو ہوتا ہے مگر پھر اسی زخمی لہجے کو مضبوطی دیتے ہوئے وہ جابروں اور حکمرانوں کو گرجدار لہجے کے ساتھ نہ صرف للکارتے ہیں بلکہ استحصالی و آمرانہ نظام کے خلاف عوام کے شعور کو بیدار کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔
دل چیرنے والی ہے یہ مظلوموں کی فریاد
قسمت سے تو سلطان بنا ہے تو مدد کر
شہر کو آگ لگانے والے رہبر نے
گھر میں قیدی کر رکھا تھا پانی کو
سماجی ناانصافیوں اور ناہمواریوں اور لوگوں کی بے حسی، پر کہیں وہ ڈھکے چھپے لفظوں میں تو کہیں کھل کر طنز کرتے نظر آتے ہیں۔
یہاں پہ کوئی بھی سچ سن کے رہ نہیں سکتا
میرے لبو رہو چپ، اے میرے ہنر! خاموش
کہ ناخدا کو دلاؤ نہ اس طرح سے طیش
الٹ نہ جائے یہ کشتی ارے بھنور! خاموش
طاہر حنفی صاحب یہی پرعزم اور گرجدار لہجہ اب ان کی پہچان بن چکا ہے۔
جتنے بھی مخالف ہیں، خدائوں سے لڑوں گا
میں دیپ جلاؤں گا، ہوائوں سے لڑوں گا
حق کے رستے سے پلٹوں گا ہرگز نہیں
چھوڑ جائے مجھے دوست، تو بھی بھلے
انسانی نفسیات اور جبلی تقاضوں پر ان کی گہری نظر ہے۔ ان کے بعض اشعار معنوی اعتبار سے بڑے بلیغ و فکر آفریں ہیں مگر وہ اسی فکر کو ابلاغ کے تمام تقاضے پورے کرتے ہوئے نہایت سادہ و دلکش اسلوب میں قاری کے سامنے رکھ دیتے ہیں اور قاری کو کسی مشکل میں نہیں ڈالتے۔
یا نفرتوں کے ساتھ مجھے کر زمین بوس
یا اپنی خودسری میرے قدموں میں ڈال دے
ہر شاعر کا اپنا ایک منفرد لہجہ، عہد اور شعری پس منظر ہوتا ہے جس کا وہ خود ترجمان ہوتا ہے۔ طاہر حنفی صاحب کا انداز فطری، نہایت سادہ و شگفتہ ہے جبکہ لہجہ دبنگ ہے۔ ان دونوں صفات کے ساتھ وہ ایک منفرد انداز میں شعر گوئی کرتے ہیں۔ سہل ممتنع میں بھی ان کے بے شمار دلپذیر اشعار ہیں جو قارئین کے دل کو چھو جاتے ہیں۔
اتنی باتیں کافی ہوں گی!!!!
ہم نے جو چپ رہ کر کرلیں
ہم فقیروں کا بھی ہے اپنا جہاں
آپ گو سلطان ہیں اپنی جگہ
اپنے گزشتہ تینوں مجموعہ کلام کے برعکس یرغمالِ خاک میں وہ ایک بھرپور رومان پرور شاعر کے طور پر سامنے آئے ہیں اور خود سے وابستہ اس تاثر کو زائل کیا ہے کہ ان کا رجحان محض معاشرتی و سماجی تلخ رویوں کی نقاب کشائی پر ہے۔ رومانی تصورات کی مدھم تال اور جذبات کی ہلکی سلگتی آنچ پر کہے گئے دل آویز و دل پذیر اشعار اور نظمیں قارئین کی انگلی پکڑ کر ان کو ایک ایسی دنیا کی سیر کرا دیتی ہیں جہاں کے باسیوں کا اوڑھنا بچھونا عشق ہے۔ جہاں کسک، چبھن اور ان گنت مچلتی تشنہ خواہشات مکین ہیں، ہجر و وصال کے جھرنے بہتے ہیں اور احساسات و جذبات کی آندھیاں بگولوں کی مانند رقصاں ہیں۔
اجنبی سے لمس کا اجنبی سا ہے نشہ
اجنبی خمار میں چوڑیاں کھنکتی ہیں
سنہری دھوپ مجھے برف میں رلاتی ہے
کسی کی یاد دبے پائوں چل کے آتی ہے
غزلوں کی طرح نظموں پر بھی طاہر حنفی صاحب کی گرفت مضبوط ہے اور ان کا قلم آزاد و نثری نظم کی شاہراہ پر خوب رواں نظر آتا ہے۔ نظموں کے متنوع مضامین اس میدان میں ان کی انتہا درجے کی عرق ریزی کا ثبوت ہیں۔ عصرِ حاضر کے مسائل پر مبنی ان نظموں کی کاٹ دار سطریں معنویت کا ایک جہان آباد کر دیتی ہیں۔ پرت در پرت قارئین پر کھلنے والی یہ پیچیدہ و تہہ دار نظمیں اپنے ذائقے و تاثیر میں منفرد ہیں کیوں کہ ہر قاری ان نظموں کو ایک نئے زاویے سے دیکھتا ہے اور حظ اٹھاتا ہے۔طاہر حنفی صاحب احساسات کو جب تخلیقی وفور کے ساتھ رقم کرتے ہیں تو نظمیں ان کی پوروں سے کھیلنے لگتی ہیں۔ مصرعے دل بن کر دھڑکنا شروع ہو جاتے ہیں اور تخیل، بادل کا لبادہ اوڑھ کر آسمان کی وسعتوں کو تسخیر کرنے اور نئی جہتوں کی تلاش کی آرزو لیے چلنا شروع کر دیتا ہے اور ناکام نہیں ہوتا۔
“مردہ پرست، دستار بندی، بانجھ پن، مہر بند راز، ادھوری ملکیت، مردہ پرست، اور ہمزاد” جیسی شاندار نظمیں قارئین کو نہ صرف متوجہ کرتی ہیں بلکہ تادیر اپنے حصار میں رکھتی ہیں۔
“قلعی”
“پرانے” لوگ
پرانے دوست
پرانی محبتیں اور
پرانی یادوں کے سہارے
ہر “نیا” دن
بِتاتے ہیں
خود کو
“نیا نکور” بناتے ہیں
نظم کا تاثر ابتدا سے آخر تک برقرار رکھنا ایک مشکل امر سمجھا جاتا ہے۔ اس میدان میں بہت مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ تلازمات کا بنائو سنگھار، عہدِ جدید کی لفظیات اور معانی و مفہوم کی بھرپور رمزیت کا پیراہن اوڑھی طاہر حنفی صاحب کی نظمیں نہایت نفاست اور قرینے کے ساتھ پڑھنے والے کے دل میں اتر جاتی ہیں۔
دیکھیے قارئین کو مشکل میں ڈالے بغیر کس قدر سادہ اسلوب کے ساتھ ایک عام سماجی رویے کو کتنی خوبصورتی سے نظم کیا ہے۔
“خود احتسابی”
جب بھی خود احتسابی کے بارے سوچا
تو محسوس ہوا یہ دنیا کا سب سے مشکل کام ہے لیکن کام تو کام ہے نا
دوسرے کی طرف انگلی اٹھانا
سب سے آسان کام
لیکن اپنی طرف ہی
بڑھتی ہوئی انگلیوں کا کوئی حساب نہیں
ایک حساس شاعر کا ادبی سفر آسان نہیں ہوتا۔ ذاتی زندگی کی مصروفیات کے ساتھ معاشرے کے بیمار ذہنوں کا علاج کرنا، دکھی دلوں کی داد رسی کرنا، رِستے زخموں پر مرہم رکھنا، اور مایوسی کے اندھیروں میں امید کی شمع روشن کرنا خراج مانگتا ہے اور یہ اپنی ہستی کو خاک کر دینے کے مترادف ہے اور طاہر حنفی صاحب اپنی پوری لگن اور توانائیوں کے ساتھ محوِ سفر ہیں۔ “شہرِ نارسا”، “گونگی ہجرت”، “خانہ بدوش آنکھیں” اور اب چوتھے شعری مجموعے یرغمالِ خاک کے ساتھ اپنے اس سفرِ مسلسل میں طاہر حنفی صاحب انسانی سوچ و فکر کی بالیدگی، شعوری ارتقاء اور اعلٰی اقدار کے فروغ میں اپنا مثبت کردار ادا کر رہے ہیں اور اس بے لوث خدمت کے صلے میں اپنے دوستوں اور خیر خواہوں سے فقط ان کی اپنائیت اور محبتوں کے حصول کی طلب کا اظہار کرتے ہیں۔
کچھ نہیں چاہیے اور احباب سے
مجھ کو بس ان کی طاہر دعا چاہیے