یہ لوٹا ڈھائی ہزار سال پہلے ٹیکسلا میں کسی نے بنایا تھا۔ اب بھی وہاں عجائب گھر میں رکھا ہوا ہے۔ میں نے یہ تصویر اسی عجائب گھر میں بنائی تھی۔ تب اس لوٹے نے مجھے زیادہ متوجہ نہیں کیا تھا۔ اب حالات دیکھ کر اس لوٹے کی ساخت میں پوشیدہ دانش سے حیران ہوں۔
آفرین ہے اس شخص کو جس نے یہ لوٹا بنایا تھا۔
یہ بھی دیکھئے:
یقیناً بہت دور اندیش تھا جسے آنے والے دور میں اس خطے کے حکمرانوں اور ارکانِ اسمبلی کے مزاج کی خبر تھی۔ دیکھیے کتنی خوب صورتی سے پاکستان کے سیاسی رہنمائوں کی عکاسی کی ہے۔
یہ ایک لوٹا، کئی دہانوں کو سیراب کرسکتا تھا۔ جیسا کہ آج کے سیاسی نمائندے کررہے ہیں۔ وابستگی کسی ایک جماعت سے۔ نظریں کسی دوسری پر، اور حوصلہ کسی تیسری کو دے رہے ہیں مگر ٹکٹ چوتھی سے لیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
علامہ اقبالؒ اور تحریکِ پاکستان
تیئس مارچ : آج جدوجہد آزادی کے ہیرو بھگت سنگھ کی برسی منائی جارہی ہے
منگل کا دن عمران خان کے لیے عظیم ناکامیاں کیسے لایا؟
سب کی کوشش ہے کہ باغباں بھی خوش رہے، راضی رہے صیاد بھی۔ ہاتھ جوڑ بھی رہے ہیں، ملا بھی رہے ہیں اور دکھا بھی رہے ہیں۔
شاید اسی لوٹے نے پاکستانی سیاسی ذہن کی آبیاری کی ہے۔
ہم سنگل ٹونٹی لوٹے سے اب تک استفادہ کرتے آئے تھے۔
ٹیکسلا والوں نے ڈھائی ہزار سال پہلے بتادیا تھا کہ تمہیں ملٹی ٹونٹی لوٹا چاہیے۔ تم لوگ اسی کے قابل ہو۔
خیراندیش
ٹونٹی سے ٹوٹا ہوا ٹکڑا