26 دسمبر 2007 کو سیکیورٹی اداروں کے ذمہ داروں نے دو مرتبہ وزیراعظم کے عہدے پر رہنے والی بھٹو کی نڈر بیٹی بے نظیر بھٹو کو متنبہ کیا کہ وہ اگلے روز راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسہ نہ کریں ان کی جان کو خطرہ ہے کیونکہ اکتوبر میں پاکستان آمد پر ایک بڑے حملے میں وہ بچ چکی تھیں جس میں دوسو سے زائد افراد جاں بحق ہوئے۔
بے نظیر بھٹو نے حفاظت کی ذمہ داری سیکیورٹی اداروں پر ڈالی اور کسی خوف کو بالائے طاق رکھا۔ اپنا شیڈول تبدیل نہ کیا۔
مجھے یاد پڑتا ہے اوروں کی طرح میں نے ایسے خدشے کا اظہار کیا تھا۔ خدشہ یہ تھا کہ لیاقت باغ کی تاریخ کوئی اچھی نہیں کچھ بھی ناخوشگوار واقعہ ہوسکتا یے۔
یہ بھی پڑھئے:
حکومت کے خیمے اکھڑنے کا وقت آگیا، شیخ رشید بول پڑے
ستائس دسمبر: آج دختر مشرق بے نظیر بھٹو کا یوم شہادت ہے
خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات:تحریک انصاف کے آدھے ووٹ کم ہوئے
بے نظیر پروگرام کے مطابق آئیں۔ اپنے روایتی بے باک اور پراعتماد انداز سے سٹیج کی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر گئیں۔ انھوں نے مجمعے کو ہاتھ ہلاکر نعروں جواب دیا۔ ان کی آنکھوں کی چمک اور چہرے پر اطمینان تھا۔ جو ظاہر کررہا تھا کہ وہ کسی تھریٹ الرٹ سے پریشان یا خوفزدہ نہیں ہیں۔
ان کی ذات میں بھٹو سے وراثت میں ملنے والا اعتماد تھا۔ اس روز عوام کے سامنے پرجوش انداز خطابت میں کسی طور کمی نہ دکھائی دی۔ جنرل مشرف اور ان کے ٹولے پر تنقید کے نشتر چلائے۔ ہزاروں کے اجتماع کو خوب جوش دلایا۔ تقریر کے اختتام پر ایک بار پھر نعروں کا بھرپور جواب دیا۔ انہیں آنے سے لے کر آخر تک باربار اشاروں سے مطلع کیا جارہا تھا کہ یہاں زیادہ ٹھہرنا درست نہیں۔ مگر وہ بھٹو کی بیٹی تھی۔ عوامی جذبات کے سامنے ان کا سیاسی جنون ماند نہیں پڑ رہا تھا۔ گاڑی میں بیٹھنے کے بعد بھی بے نظیر نے کارکنوں کے نعروں کا جواب دینے کے لئے سن روف کھلوالی۔ باہر نکل کر ہاتھ ہلایا۔
۔۔۔۔۔۔اور پھر تین مختلف پوزیشنوں سے حملہ ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ بہت اچانک اور تیزی سے انجام پذیر ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے منظر بدل گیا۔ ایک بار پھر کانوں کے پردے پھاڑ دینے والا دھماکہ ہوا۔ گولیوں کی گونج کے بعد چیخ وپکار کے ساتھ آہ وزاری کے مناظر تھے۔
یہ بھی دیکھئے:
دل دھڑکا اور یہی آواز آئی۔ اسی کا ڈر تھا۔ کیوں دھیان اس طرف جارہا تھا۔ سڑک پر لاشیں اور بکھرا خون کسی تباہی کی تصویر بن چکا تھا۔ یہ وہ علاقہتھا، جہاں پہلے وزیراعظم کو جلسے میں گولی مار کر شہید کردیا گیا تھا۔
لاکھوں دلوں کی دھڑکن لہو لہو تھی۔ ایمبولینس میں ہسپتال لے جایا گیا۔ مگر جمہوری قوتوں کو کمزور کرنے والے دشمن کا وار اس بار کارگر ثابت ہوا۔ دلوں کی دھڑکن بند ہوگئی۔ کسی کو یقین نہیں آرہا تھا۔
ہم بھول گئے پاکستان میں یہ کوئی نئی واردات نہیں تھی۔ عوام اپنے نمائندوں سے ایسا سلوک دیکھ چکے تھے۔ صرف یہ باور کرانا مقصد تھا کہ اختلاف جمہوریت میں برداشت ہوتا ہے۔ کسی اور لغت میں اس کے معنی کچھ مختلف ہوتے ہیں۔
بے نظیر بھٹو کا قتل ایک تاریخ بن گیا۔ جس میں کئی سبق ہیں۔ جمہوریت کے نام لیواوں اور اس کا انکار کرنے والوں کے لئے بھی۔
عوام کو اپنے قائدین کے نظریات کی قدر کرتے ہوئے کبھی پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔ مخالفت کرنے والے ایسے قدم اٹھاتے سوچ لیں کہ عوامی جذبات کسی طور دبائے نہیں جاسکتے۔ قومیں ایسے ہتھکنڈوں سے نہیں بنتیں۔
ایسے قتل درحقیقت پوری قوم کا قتل ہوتے ہیں۔ یہ جاننے کے باوجود ایسا کرنا کہیں بھی انسانیت یا سیاست کے اصولوں کی نفی کرتا ہے۔ نہ جانے ہمیں یہ بات کیسے اور کب سمجھ آئے گی۔