میاں محمد نواز شریف، پاکستان کے عوام کے ووٹوں سے تین بار وزیر اعظم منتخب ہوئے لیکن بد قسمتی سے تینوں بار وہ اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری نہیں کرسکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کو تینوں بار اقتدار سے معذول کئے جانے کا طریقہ کار تبدیل ہوتا رہا۔ پہلی بار 1993 میں ان کی حکومت کا خاتمہ ہوا ۔ طریقہ یہ اختیار کیا گیا کہ اس وقت کے صدر مملکت غلام اسحاق خان نے آئین میں صدر کو حکومت برطرف کرنے کے حاصل اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ان کی حکومت کو برطرف کردیا۔ نواز شریف نے ان کے اقدام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا،بعدازاں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں صدر مملکت غلام اسحاق خان کے اقدام کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا اور حکومت کو بحال کر دیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں ملک میں شدید تناؤ پیدا ہوگیا۔ اس تناؤ کا حل یہ تجویز ہوا کہ صدر اور وزیراعظم دونوں اپنے اپنے عہدوں سے مستعفی ہوجائیں اور ملک میں ازسرنو انتخابات کروادیئے جائیں چنانچہ صدر مملکت غلام اسحاق خان نے اپنے منصب سے اور وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور ملک میں ازسرنو انتخابات منعقد ہوۓ تب کہیں جاکر وہ بحران ٹلا۔ دوسری بار 1999 جب صدر کے حکومت برطرف کرنے کے اختیار کو ایک آئینی ترمیم کے تحت ختم کیا جا چکا تھا تو اس موقع پر حکومت کے خاتمے کا یہ طریقہ کار وضع کیا گیا کہ جنرل پرویز مشرف نے بغاوت کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا، وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت ختم کر دی اور ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی ۔ آئین معطل کردیا گیا اور وزیر اعظم نواز شریف کو گرفتارکر کے ان کے خلاف طیارہ سازش کیس میں مقدمہ چلایا گیا بعد ازاں اس مقدمے میں انہیں عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔ تیسری بار وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کے خاتمے کے لیے بہت ہی انوکھا طریقہ اختیار کیا گیا۔ اس بار وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف ان کے اپنے دور حکومت میں پانامہ لیکس میں ان کے بیٹے کے نام آف شور کمپنی کو بنیاد بنا کر ایک مقدمہ قائم کروایا گیا۔ جس کی تفتیش میں وہ وزیراعظم ہوتے ہوئے ملک کی تاریخ کی طاقتور ترین جی آئی ٹی کے روبرو پیش ہوتے رہے۔ اس مقدمے کا حتمی نتیجہ یہ نکلا کہ ان کو نااہل قرار دے کر اقتدار سے معذول کر دیا گیا۔
میاں محمد نواز شریف نے 2017 میں اپنے تیسرے دور اقتدار میں اپنے خلاف بننے والے ایک بے بنیاد، انتہائی متنازع اور کمزور مقدمہ میں کہ جس میں بعد ازاں ان کو عدالت سے نااہل کرکے اقتدار سے معذول بھی کیا گیا۔ انہوں نے اس بار عوام کے حق حکمرانی کو تسلیم کروانے کے لیےاسی موقع پر فیصلہ کن سیاسی جدوجہد کرنے کا عزم کیا۔ جدوجہد کرنے کے اسی پر عزم فیصلے کی روشنی میں نواز شریف نے اپنے اسلام آباد سے لاہور تک کے تین روزہ سفر کے دوران “مجھے کیوں نکالا؟” کا نعرہ لگا کر ملک میں سول سپرمیسی کی اپنی دیرینہ خواہش کو باقاعدہ مطالبے کی شکل دے دی اور جدوجہد کا اعلان کردیا۔ اس کے بعد نواز شریف تواتر کے ساتھ قوم کے سامنے بتدریج اپنے مطالبے کی وضاحت کرتے چلے گئے۔ قوم کی غالب اکثریت ان کے نعرے” مجھے کیوں نکالا؟” کی تفہیم اور معنویت کو سمجھنے سے قاصر تھی لہذا نواز شریف نے اپنے مطالبے کو عام فہم بنایا اور ملک میں عوام کے حق حکمرانی، آئین و پارلیمنٹ کی بالادستی، آزاد و خودمختار عدلیہ اور ہر طرح کے دباؤ سے پاک میڈیا کا مطالبہ بہت ہی قابلِ فہم وضاحت کے ساتھ پیش کرتے ہوئے ” ووٹ کو عزت دو” کا نعرہ بلند کیا۔ اس نعرے کو عوام کی زبردست حمایت اور تائید حاصل ہوئی۔ نواز شریف نے ملک میں پہلی بار جرآت اور استقامت کے ساتھ عوام کی رائے کے آگے سب کو سرِ تسلیم خم کرنے کے ضمن میں” ووٹ کو عزت دو” کا نعرہ بلند کیا تھا، جسے قوم نے خوب سراہا۔ اس نعرے کوملک گیر سطح پر بے پناہ پذیرائی حاصل ہوئی اور یہ نعرہ دن بدن قوم میں مقبول ہوتا چلا گیا۔ملک کے جمہوریت پسند عوام کے لیے یہ نعرہ امید کی ایک کرن کا درجہ حاصل کرگیا۔ نواز شریف اپنے نعرے کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے سخت گیر رویے کے ساتھ اپنے مطالبے پر کمربستہ ہوگئے۔ انہوں نے اپنے نعرے کو حقیقت کا روپ دینے کی ہر قیمت ادا کی، اب وہ پیچھے ہٹنےکو تیار دیکھائی نہیں دے رہے ۔
2017 میں نواز شریف کو اقتدار سے معذول کئے جانے کا قصہ بہت تعجب خیز تھا کیونکہ پانامہ لیکس میں جاری کردہ آف شور کمپنیوں میں نواز شریف کے نام پر کوئی کمپنی نہ تھی، ہاں البتہ ان کے صاحبزادے کے نام پر آف شور کمپنی ضرور تھی لیکن اس کی تفتیش وزیر اعظم نواز شریف سے ہوئی اور مقدمہ بھی وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف قائم کیا گیا۔ اس موقع پر ملک کی تاریخ میں پہلی بار بہت ہی اعلیٰ اختیاراتی جی آئی ٹی بنی، اس نے خوب تفتیش کے بعد وزیراعظم کی بے قاعدگی کا یہ نکتہ نکالا کہ نواز شریف نے اپنے بیٹے سے اپنے اس عہدے کی تنخواہ نہیں لی جس پر وہ فائض تھے، چونکہ تنخواہ نہیں لی لہذا اسے اپنی آمدن میں شو بھی نہیں کیا، اب چونکہ شو نہیں کیا لہذا اس پر ٹیکس ادا نہیں کیا اور اپنی آمدن کو بھی چھپایا لہذا اعلیٰ عدلیہ نے اس جرم کی پاداش میں بلیک ڈکشنری کا سہارا لے کر ملک کے منتخب وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کو سزا سناتے ہوئے ان کو نااہل بھی قرار دیا اور ان کو اقتدار سے معذول بھی کردیا، یعنی قوم کے ایک منتخب وزیراعظم کو ایک ایسے الزام میں سزا دی گئی جو ان سے وقوع پذیر ہی نہیں ہوا لیکن افسوس کہ انہیں وزیراعظم کے منصب سے نااہل قرار دے دیا گیا۔ پھر معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہوا بلکہ نواز شریف کو ملک کے آئین میں دی گئی سیاست کرنے کی بنیادی آزادی کےحق سے بھی محروم کر دیا گیا، آئینی ماہرین کے نزدیک یہ اقدام ازخود آئین سے انحراف کے زمرے میں آتا ہے۔ خیر نواز شریف کا طرزِ عمل اس مرحلے پر قابلِ تحسین رہا کہ انہوں نے ظلم و زیادتی پر مبنی اس متنازع فیصلے کو بھی قبول کیا اور وزارت عظمیٰ کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ( ن) کی صدارت سے بھی مستعفی ہوگئے۔ ان کو پارٹی صدارت سے محروم کرنے کے فیصلے کا مقصد اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتا تھا کہ اس فیصلے سے نواز شریف کی سیاست کا خاتمہ کیا جاسکے گا لیکن نواز شریف نے اس بار فیصلہ سن کر ماضی کی طرح سر جھکا کر گھر جانے کے بجائے سیاسی لڑائی لڑنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے قریبی دوست احباب نے ان کے مزاحمت کے فیصلے کے مضمرات سے انہیں آگاہ بھی کیا لیکن اس بار نواز شریف نے سیاسی جدوجہد کا راستہ اختیار کر لیا۔ وہ اس لڑائی کے لیے پوری طرح تیار تھے۔ جس میں اس بار ان کی بہادر بیٹی بھی ان کے شانہ بشانہ ان کے ساتھ کھڑی رہی۔ یہ امر ملک کے عوام کے سیاسی ارتقاء کی دلیل ہے کہ پوری پارٹی بلا کسی ابہام اپنے قائد میاں محمد نواز شریف کے بیانیے کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔ متعدد رہنما و کارکنان نے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن ان کے پاۓ استقامت میں ذرہ برابر بھی لغزش نہ آئی اور سب سے بڑھ کر عوام نے بے پناہ حمایت اور اعتماد سے نوازا۔ جس کا واضح ثبوت ملک میں ہونے والی ضمنی انتخابات کے نتائج ہیں۔
پالیسی سازوں کی نواز شریف کو سیاست سے بے دخل کرنے کی ساری حکمت عملی دھری کی دھری رہ گئی اور حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ نواز شریف پاکستان کی سیاست کا محور بن گئے۔
وزیراعظم نواز شریف کو اقتدار سے معذول اور سیاست سے بے دخل کرکے طاقتور حلقے سیاست پر اپنی گرفت کو زیادہ مضبوط بنانے اور اپنے بناۓ ہوۓ مصنوعی بندوست کے لیے محفوظ حالات کے خواہشمند تھے تاکہ آئندہ دس برس ملک کی سیاسی بساط پر وہ اپنی گرفت کو مضبوط رکھ سکیں لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ، ہوا اس کے بالکل برعکس نوزائیدہ حکومت چہ جائیکہ جی ڈی پی کی 5.8 کی شرح نمو کی رفتار سے ترقی کرتی ہوئی معیشت کو ناصرف برقرار نہ رکھ سکی بلکہ اپنی نااہلی اور ناتجربہ کاری سے معیشت کو ایسی زبوحالی کا شکار کیا کہ اسے زمیں بوس کر کے منفی 1.5 پر پہنچا دیا جبکہ رہا سہا کام نیب کی بے جا مداخلت اور انتقامی کارروائیوں نے کردیا۔ ملک کے طاقتور حلقے افغانستان سے امریکہ کے انخلاء کے بعد کے حالات اور بھارت سے تجارت کھولنے کے ضمن میں حکومت سے بدظن ہوۓ اس کے نتیجے میں ان کے اور حکومت کے مابین تعلقات میں تناؤ پیدا ہوگیا۔ خارجی سطح پر عالمی تنہائی کا تصور زیادہ شدید ہوا۔ اس بار فوجی قیادت کی بھرپور کوششوں کے باوجود چین، سعودی عرب اور امریکہ سمیت دیگر کئی ممالک سے تعلقات میں پہلے جیسی گرم جوشی نہ رہی۔ داخلی طور پر جرائم پیشہ افراد پر گرفت اتنی کمزور پڑ گئی کہ ملک میں ایک بار پھر ڈکیتی، راہزنی کے علاوہ اندرون سندھ اور پنجاب میں ڈاکوؤں کا عملاً راج قائم ہو گیا۔ آج نظم حکمرانی اس درجہ بدتر ہو چکی ہے کہ ملک کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب انتظامی طور پر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ کرپشن کا بڑھتا ہوا رجحان دن بدن مستحکم ہوتا جا رہا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق موجودہ دور حکومت میں ماضی کے مقابلے میں کرپشن میں اضافہ ہوا ہے۔ اداروں کے مابین تعلقات کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت اور عدلیہ کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف جس طرح حکومت روز بروز ریفرنس دائر کررہی ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ حکومت جسٹس فائز عیسیٰ، کہ جو مستقبل میں چیف جسٹس کے منصب پر فائز ہوں گے، حکومت ان کو کسی بھی طرح چیف جسٹس بننے سے روکنا چاہتی ہے ۔ حکومت کے اس بے سروپا اقدام سے اس کے عدلیہ کے ساتھ تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں۔ اسی طرح الیکشن کمیشن کے ساتھ بھی تعلقات میں کافی کھچاؤ آچکا ہے جس کا مشاہدہ ڈسکہ میں ہونے والے حالیہ ضمنی انتخابات کے موقع پر کیا گیا۔جب الیکشن کمیشن نے اپنی پریس ریلیز میں حکومتی دعوؤں کی نفی کردی۔ صحافیوں کی زباں بندی کی حکومتی خواہش نے حکومت اور میڈیا کے درمیان تعلقات کو بہت زیادہ ہی خراب کر دیا ہے۔ حکومت اپنی تنقید برداشت کرنے کو ہرگز تیار نہیں ہے۔ اسی خواہش کے پیشِ نظر حکومت نے میڈیا کو دیوار سے لگا دیا ہے جبکہ صحافی آزادی اظہار رائے کے خلاف اس غیر آئینی اقدام کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں اور انہوں نے بھی اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے مزاحمت کا فیصلہ کر لیا ہے۔ سب سے بڑھ کر ملک میں اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ حکومت کا انتقام کا رویہ سیاسی عدم استحکام کا باعث ہے۔ جس کی وجہ سے ملک میں حکومت اور سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلافات بہت شدت اختیار کر چکے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ ان تمام امور میں ناکامی کے بعد اب موجودہ بندوبست کرنے والی طاقتور قوتوں نے ان سے جان چھڑانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ الجھن یہ درپیش ہے کہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت اور اس کے قائد میاں محمد نواز شریف “ووٹ کو عزت دو” کے اپنے نعرے سے ایک قدم پیچھے ہٹنے کو تیار دیکھائی نہیں دیتے۔ دوسری جانب پارٹی میں ایک مؤثر گروپ ان افراد پر مشتمل ہے جو اپنے مطالبات میں تھوڑی سی لچک کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے نئے امکانات پیدا کرنے کی وکالت کرتے ہیں۔ بہرحال حتمی فیصلہ نواز شریف نے ہی کرنا ہے اور امکان یہی نظر آتا ہے کہ شاید ان کے نکتہ نظر کے مطابق فیصلہ کن مرحلہ آچکا ہے۔ اب وہ اقتدار کے ساتھ اختیار اور “ووٹ کو عزت دو” کے اپنے نعرے اور مطالبے سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہیں۔