28 مئی کا دن پوری قوم کے سامنے غور و فکر کا حامل ایک بنیادی نوعیت کا سوال چھوڑ کر گزر گیا کہ مقبول سیاسی جماعت کی جمہوری حکومت، غیر جمہوری حکومت اور غیر نمائندہ،غیر مقبول، نام نہاد جمہوری حکومت کے درمیان دنیا کس طرح کا فرق رکھتی ہے اور ان دونوں طرح کی حکومتوں کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کیا جاتا ہے۔
مئی 1998 میں ملک میں عوام کی منتخب حکومت برسرِ اقتدار تھی۔ میاں محمد نواز شریف ملک کے منتخب وزیراعظم تھے۔ پڑوسی ملک بھارت نے اچانک ایٹمی دھماکےکردیئے۔ بھارت کے اس اقدام سے برصغیر میں طاقت کا توازن بگڑ گیا۔ پاکستان کی جمہوری حکومت کے منتخب وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے برصغیر میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے اور پاکستان کے دفاع کے پیشِ نظر جوابی کارروائی کا فیصلہ کیا۔ حکومت کا فیصلہ عوام کی خواہشات کے عین مطابق تھا کیونکہ قوم بھی بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ایٹمی قوت بننا چاہتے تھی چنانچہ جمہوری حکومت کا فیصلہ قوم کی امنگوں کا آئینہ دار تھا اسے قوم کی تائید حاصل تھی۔ پاکستان نے اپنے فیصلے سے دوست ممالک کو بھی آگاہ کردیا۔ یہ خبر امریکہ اور پوری مغربی دنیا تک پہنچ گئی۔ امریکہ کے اس وقت کے صدر بل کلنٹن نے کئی ٹیلیفون کالز کے ذریعے پہلے دھمکی آمیز انداز میں امریکہ کا پیغام پاکستان کے منتخب وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو پہنچایا کہ وہ ایٹمی دھماکہ نہ کریں، وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کہ جن کو پوری قوم کا اعتماد اور تائید حاصل تھا وہ امریکی صدر کی دھمکی کو کسی خاطر میں نہ لاۓ اور پاکستانی سائنسدانوں کو ایٹمی دھماکہ کرنے کی تیاری کا حکم دے دیا۔ پاکستانی وزیر اعظم کے اس اعتماد کے بعد امریکی صدر بل کلنٹن کے انداز میں ٹھہراؤ پیدا ہوا اور انہوں نے دنیا کو مہلک ہتھیار کی دوڑ میں تیزی پیدا کرکے دنیا کی تباہی سے محفوظ رکھنے کے ضمن میں اپنی بات رکھی اور وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کو انتہائی پرکشش مالی پیشکشوں کا اظہار کیا۔ جس کی تفصیلات کے مطابق پاکستان کے تمام بیرونی قرضہ معاف کرنے کے علاوہ پانچ ارب ڈالرز کی امداد کے پیکج کا عندیہ دیا گیا لیکن پاکستان کے منتخب وزیراعظم نے ہر طرح کے دباؤ اور مالی پیشکشوں کو مسترد کرتے ہوئے جو اقدام ملک اور قوم کے مفاد میں بہتر جانا اس پر قائم رہتے ہوئے 28 مئی 1998 کو ایٹمی دھماکہ کر دیا۔ پاکستانی وزیر اعظم کے اس جرآت مندانہ اقدام سے امریکہ، بھارت اور مغربی ممالک سمیت ساری دنیا ہی ششدر رہ گئی۔
دوسرا واقعہ 11 ستمبر 2001 میں پیش آیا۔ جب امریکہ میں دہشت گردوں نے ہوائی جہاز اغواء کئے اور انہیں ٹوئنس ٹاورز سے ٹکرا دیا نتیجے میں یہ ٹاور تباہ ہوگئے۔ سیکڑوں افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ اس سے بڑھ کر پورا امریکی معاشرہ شدید خوف ہراس کا شکار ہو گیا۔ امریکی انٹیلیجنس ایجنسیوں کے مطابق دہشت گردی کے واقعات کا آپریشن افغانستان سے کیا گیا لہذا امریکہ نے افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ کا اعلان کردیا ۔ اس جنگ میں امریکہ نے نیٹو افواج کے ساتھ مل کر افغانستان پر حملے کا پروگرام ترتیب دیا۔ افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ کے لیے امریکیوں کو اس خطے میں ایک ایسے اتحادی کی ضرورت درپیش تھی کہ جہاں سے ان کی افواج کی روز مرہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے علاوہ وہاں کے ہوائی اڈوں سے ان کے طیارے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کے لیے اڑان بھی بھر سکیں ۔ اس بار پاکستان میں فوجی آمریت تھی اور جنرل پرویز مشرف اس کے سربراہ تھے۔ اس موقع پر امریکہ کے ڈیفنس سیکریٹری کولن پاؤل کی جنرل پرویز مشرف کو ایک ٹیلی فون کال آئی جس کے ذریعے امریکی ڈیفنس سیکریٹری نے انہیں افغانستان میں موجود دہشت گردوں کے خلاف اپنے جنگی منصوبے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ اس جنگ میں آپ ہمارے ساتھ ہوں گے یا دہشت گردوں کے ساتھ ؟ صرف امریکی ڈیفنس سیکریٹری کی دھمکی آمیز ٹیلی فون کال کے نتیجے میں ملک کی غیر منتخب فوجی حکومت نے فی الفور امریکہ کی توقعات سے بڑھ کر پاکستان کے ہوائی اڈے، فضائی حدود، فوجی ضروریات کی تکمیل کے لیے اپنا سمندر اور گذرگاہیں سب کچھ پیش کردیا۔
بعد ازاں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ہماری لاجسٹک سپورٹ سے افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف اپنے مقاصد کے حصول تک جنگ لڑی جبکہ اس کے نتائج پاکستان کو بدامنی اور دہشت گردی کی صورت میں دیر تک بھگتنا پڑے۔ ہماری شہری آبادیوں اور فوجی تنصیبات تک پر حملے ہوئے ۔ طویل عرصہ تک ہماری قومی سلامتی کو شدید خطرات کا سامنا کرنا پڑا۔ جس عرصہ میں پاکستان شدید دہشت گردی کی لپیٹ میں رہا اس عرصے میں پاکستان میں سرمایہ کاری کا رجحان بھی رک گیا۔ سرمایہ بیرونِ ملک منتقل ہوتا رہا۔ ہماری معیشت سکڑتی رہی ٹیکس ریونیو کی آمدن کم سے کم تر ہوتی رہی۔ جنگ کے زمانے میں مسلسل امریکی امداد اور قرضوں سے ملکی معیشت مصنوعی طور پر چلتی رہی جو امریکی مفادات کے حصول کے بعد بند ہونے والی امریکی امداد سے مشکلات کا شکار ہوگئی۔ یہاں تک کہ 2013 کے قومی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کامیاب ہوئی ۔ اس کے بعد میاں محمد نواز شریف جب ایک بار پھر وزیر اعظم بنے تو انہوں نے ملک میں پھیلے ہوئے دہشت گردی کے پورے نیٹ ورک کے خلاف یک بعد دیگرے ضربِ عضب اور ردالفساد کے نام سے دو فوجی آپریشنز کرواۓ جس میں افواج پاکستان سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بیش بہا قربانیاں پیش کرکے ملک میں امن و امان کو بحال کیا۔
تیسرا واقعہ اب پیش آیا ہے کہ جب ملک میں غیر نمائندہ، غیر مقبول، نام نہاد جمہوری حکومت برسرِ اقتدار ہے۔ اب امریکہ نے افغانستان سے اپنی اور اپنے اتحادیوں کی واپسی کا اعلان کردیا ہے۔ اعلان کے مطابق وہ افغانستان سے 11 ستمبر تک مکمل طور پر نکل جائیں گے۔ اس کے بعد امریکہ کو افغانستان پر نظر رکھنے کے لیے ایک بار پھر اس خطے میں کسی ایسے ملک کی ضرورت درکار تھی کہ جہاں سے بیٹھ کر وہ افغانستان میں ہونے والی سرگرمیوں پر نظر رکھ سکے اور اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرسکے۔ اس بار پھر اس کی نظر پاکستان پر پڑی آج ملک میں برسرِ اقتدار غیر نمائندہ، غیر مقبول، نام نہاد جمہوری حکومت جو پاکستان کے عوام کی اکثریت کی حمایت و تائید سے یکسر محروم ہے۔ اطلاعات کے مطابق وہ پاکستان کے قومی مفادات کے ضمن میں سوچ بچار کئے بغیر ہی بلا کسی چوں چراں امریکی خواہشات کے سامنے ڈھیر ہو چکی ہے۔ اس نے بدقسمتی سے ایک بار پھر امریکہ کی ضروریات پورا کرنے کے لیے اسے اپنے ہوائی اڈے سمیت لاجسٹک فراہم کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ اب اس کے نتیجے میں پاکستان کو قومی سلامتی کے کس طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن اس مرحلے پر اس فرق کو ضرور دیکھا جا سکتا ہے کہ عوام کی حمایت یافتہ جمہوری حکومت کے سربراہ اور غیر جمہوری یا غیر نمائندہ و غیر مقبول نام نہاد جمہوری حکومت کے سربراہان کے ساتھ دنیا کس طرح کا برتاؤ کرتی ہے اور کس طرح ان سے پیش آیا جاتا ہے لہٰذا دنیا میں باوقار انداز میں رہنے کا واحد راستہ ملک میں حقیقی جمہوریت کا قیام ہی ہے جس میں اب ہمیں مزید تاخیر نہیں کرنا چاہیے۔