پاکستان تحریک انصاف نے جب ملک میں حکومت بنائی تو اس وقت اور اس کے بعد بھی یہ اصطلاح تواتر کے ساتھ استعمال ہوتی رہی کہ سب ایک پیچ پر ہیں۔ قوم اس نئی اصطلاح سے نابلد تھی لیکن جب اس کی تفہیم سامنے آئی تو قوم نے سکھ کا سانس لیا کیونکہ گزشتہ پانچ پانچ سالہ دو ادوار ان کے سامنے تھے جب سب ایک پیچ پر نہیں تھے۔ اس دور میں حکومت اور ریاستی اداروں کے مابین تعلقات میں شدید تناؤ رہا تھا۔ گزشتہ ادوار کی دونوں حکومتوں کے وزرائے اعظم کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے کی مہلت نہیں مل سکی تھی بلکہ اعلیٰ عدلیہ کے ذریعے دونوں وزرائے اعظم کو نااہل کر کے ان کو اقتدار سے معذول کیا گیا تھا جبکہ اسی اسمبلی سے دوسرے قائد ایوان کا انتخاب کرواکر اسمبلی کی آئینی مدت ضرور پوری کروائی گئی تھی۔ دوسرے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو عدلیہ سے نااہل کروانے کے موقع پر تو ٹکراؤ کی سی کیفیت کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔ جب ایک بہت ہی کمزور مقدمہ میں عدالتی حکم پر ملک کی طاقتور ترین جی آئی ٹی بنائی گئی جس کا نگران سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج کومقرر کرکے نئی عدالتی روایت قائم کی گئی اور انہیں پہلے مرحلے پر وزارتِ عظمیٰ کے منصب سے نااہل کیا گیا اور بعد ازاں ان کو کسی سیاسی جماعت کا عہدیدار تک بننے سے محروم کر دیا گیا۔ جس کا مقصد ان کا سیاسی کردار ختم کرنا تھا لیکن آج کے حالات بتاتے ہیں کہ ہوا اس کے بالکل برعکس۔
میاں محمد نواز شریف کو تو اقتدار سے معذول کر دیا گیا لیکن ان کی جماعت کو نئے قائد ایوان کی سربراہی میں اپنے پانچ سال مکمل کرنے دیئے گئے۔ اس کے بعد کشیدہ سیاسی ماحول میں برسرِ اقتدار آنے والی نئی حکومت کو ریاست کے تمام اداروں کے اعتماد کا سن کر خود قوم کا اعتماد بھی بحال ہوا۔ حکمران جماعت کے سربراہ، وزیر اعظم عمران خان چونکہ گزشتہ دونوں ادوار میں حکومت پر شدید تنقید کرکے ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے حوالے سے اپنی ٹیم اوراس کی تیاری کا خوب ذکر کیا کرتے تھے اور اس کے بہت ہی آسان نسخے ہر تقریر میں قوم کے سامنے پیش کرتے تھے لہذا قوم بہت پر امید تھی۔ شاید اس بنا پر اپوزیشن پہلے پہل پریشان بھی ہوئی اور اسی لیے پہلے روز سے ہی حکومت کو اپنے سیاسی دباؤ میں رکھنے کی حکمت عملی کے ساتھ اپوزیشن قومی اسمبلی کے ایوان میں آئی تھی۔ جہاں پارلیمانی پارٹیوں کے لیڈرز نے اسمبلی کے پہلے اجلاس ہی میں وزیر اعظم کو سلیکٹڈ کے ٹائٹل سے نوازا تھا، یہ سیاسی دباؤ کا آغاز تھا جو ہنوز جاری ہے۔ اس روز اسمبلی میں خوب شور و غل ہوا، خوب گھمسان کا رن پڑا۔ اب حالات کا جائزہ لے کر کہا جا سکتا ہے کہ اپوزیشن کی یہی کوشش رہی کہ حکومت کوایسے ہی مصنوعی معاملات میں الجھا کر رکھا جاۓ تاکہ وہ اپنے وعدوں کی تکمیل کی جانب توجہ نہ دے سکیں اور قوم حکومت سے بدظن ہو جائے۔جس میں اپوزیشن کامیاب دکھائی دیتی ہے۔
دوسری جانب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بات واضح ہوئی کہ عمران خان کی نہ کوئی ٹیم تھی اور نہ کوئی تیاری، چہ جائیکہ ایسے میں وہ اپنی اس کمی کو دور کرتے اور عوام کی توقعات کو پورا کرنے کی درست سمت میں کوشش کرتے وہ اپوزیشن کے الجھاوے کا شکار ہو گئے اور انتقامی کارروائیوں کا وہ سلسلہ شروع کیا کہ دن بدن اس کی شدت میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا گویا وہ اپنی منزل سے دور سے دور ہوتے غیر ضروری الجھنوں میں پھنستے چلے گئے۔
دوسری طرف ایک پیچ کے باقی کھلاڑی تھے۔ جو ان کی بہتر کارکردگی کے اظہار کے منتظر رہے اس اثناء میں انہوں نے متعدد مرتبہ ایک پیچ پر ہونے کا واضح ثبوت فراہم کیا جب وزیر اعظم کی جانب سے ریاستی اداروں کے اپنے ہی بیانیے پر کڑی تنقید کی گئی تو اس تک کو نظر انداز کر دیا گیا بلکہ اس کی وضاحتیں پیش کرکے ایک پیچ پر ہونے کے تاثر کو قائم رکھا گیا۔
اس صورتحال کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک پیچ پر ہونے کا حکومتی دعویٰ کوئی غلط بھی نہ تھا کیونکہ متعدد مرتبہ قوم کو ایسے اقدامات دیکھنے کو ملے جس سے اس دعوے کو مستند گواہی ملتی رہی کہ واقعی سب ایک پیچ پر ہیں۔ جیسا کہ وزیر اعظم نے امریکہ میں بیٹھ کر قومی مفادات کے خلاف اپنی قومی سلامتی سے متعلق کچھ ایسی گفتگو کرڈالی جو اگر کوئی دوسرا وزیر اعظم کرتا تو اسے قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے جیسے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا لیکن سب کے ایک پیچ پر ہونے کا حکومت کو پورا ایڈوانٹیج ملا۔
ایران گئے تو وہاں ایسا بیان دے آۓ کہ اگر ان کی جگہ کوئی اور وزیر اعظم ہوتا تو قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے جرم میں بدترین تنقید کا نشانہ بنتے۔ اسلامی امہ کی تنظیم OIC کے مقابلے میں ترکی، ملائیشیا اور ایران کے اشتراک سے اسلامی ممالک کی نئی صف بندی کے مشن پر سرگرم ہوگئے، جس سے سعودی عرب سے تعلقات سرد مہری کا شکار ہوۓ اور فوج کے سربراہ کو خود مداخلت کرکے حالات معمول پر لانے کی کوششیں کرنا پڑی، اسی طرح امریکہ، چین اور افغانستان کی پالیسیوں پر دیکھا گیا لیکن ہر بار حکومت کو ایک پیچ پر ہونے کی بھرپور سہولت ملتی رہی لیکن شاید اب ملک میں بڑھتے ہوئے معاشی دباؤ پر اس ایک پیچ پر کچھ تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ۔ اب شاید سب ایک پیچ پر نہیں رہے۔ جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ابھی بھارت سے مسئلہ کشمیر کو دونوں ممالک کے مابین تنازع تسلیم کرتے ہوئے باقی امور پر مذاکرات کرکے تعلقات کو معمول پر لانے کی فوجی سربراہ کی خواہش کے برخلاف وزیر اعظم کا واضح اعلان بھی سامنے آگیاہے۔ جس میں انہوں نے اپنے مطالبے کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت جب تک مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے اپنے آئین میں کی گئی ترامیم کو واپس لے کر 5 اگست 2019 کی پوزیشن پر نہیں چلا جاتا اس وقت تک بھارت سے کوئی بات نہیں ہو سکتی۔ اب اس مسئلہ پر حکومت اور ریاست کے سب سے طاقتور فریق کے مابین ہونے والی شدید کشیدگی کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ایسے میں اب واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ سب ایک پیچ پر نہیں رہے، حکومت اور ریاستی اداروں کے درمیان مثالی تعلقات کا تین سالہ ہنی مون پیریڈ اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ اب حکومت اور ریاستی اداروں کے مابین شدید تناؤ ہے ان کے تعلقات میں پڑنے والے شگاف اورنمایاں دوریوں کو بآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔
اب حکومت کو عدلیہ اور نیب سے شکایت پیدا ہو چکی ہے ۔ خارجی امور پر بالادست قوتوں سے بھی اختلاف دیکھا جاسکتا ہے۔ موجودہ عالمی حالات میں ملک کی ابتر معاشی صورتحال پر فکر مند طاقتور حلقے اس سے نکلنے کی اپنی سی کوششوں میں مصروف ہیں اور جہانگیر ترین گروپ کو بھی اسی کے تسلسل میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس پوری صورتحال میں اپوزیشن کی سب سے بڑی اور مقبول سیاسی جماعت اور اس کے قائد میاں محمد نواز شریف کا عمران خان کو فوری اقتدار سے معذول کرنے لیکن خود حکومت میں نہ آنے کے واضح اشارے سامنے آ رہے ہیں۔ وہ اس صورتحال کا بھرپور فائدہ حاصل کرکے طاقتور حلقوں پر اپنے دباؤ میں اضافہ کرنے میں مصروف ہیں ۔ آج وہ صرف اقتدار میں آنے کے متمنی دکھائی نہیں دیتے بلکہ اب شاید ان کا مطالبہ اس سے زیادہ کا ہے۔ وہ ایک آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن کے زیر نگرانی منصفانہ انتخابات کروانے اور اس کے نتیجے میں منتخب ہونے والی جماعت کو اقتدار کے ساتھ اختیار کی منتقلی چاہتے ہیں۔ جہاں تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں رہ کر اپنی قومی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کا عہد کریں اور اس عہد کی پاسداری کے کچھ ضامن بھی ہوں ورنہ وہ صرف عمران خان کی حکومت کی ناکامی کے تاثر کے ساتھ خاتمے کی حکمت عملی پر ضرور عمل پیرا ہیں۔ موجودہ صورتحال سے اس امر کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نواز شریف کو اسی طرح کے کمزور سیاسی ماحول میں برسرِ اقتدار آنے کی کوئی جلدی نہیں۔
دیکھنا ہوگا کہ ملک کے طاقتور حلقے سب کے ایک پیچ پر ہونے کے اس تاثر کو کیسے ختم کرکے تبدیلی کی راہ نکالتے ہیں تاکہ قوم جو اگرچہ کہ حکومت کی تین سالہ کارکردگی سے مکمل مایوس ہو چکی ہے لیکن اسے ان کے جانے پر کوئی اچھنبے والی بات بھی محسوس نہ ہو۔