دس سال پرانی بات ہے، کراچی میں پاک بحریہ کے اڈے پی این ایس مہران پر دہشت گردی کے حملے کی پورے پندرہ گھنٹے نیوز کوریج کرنے کے بعد جب میں اگلے دن اپنے پاکستان ٹیلی ویژن کے نیوز روم آیا تو وہاں ایک ہنگامہ بپا تھا۔ ہوا یہ تھا کہ ایک ساتھ کئی نیوز کوریجز آگئی تھیں۔ ایک تو پی این ایس مہران کے حوالے سے وزیر اعظم کی کوریج اور دوسری اسی حوالے سے کوئی کوریج تھی اور تیسری اہم بات یہ کہ اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کے والد اور ایک نامور سیاستدان حاکم علی زرداری کا انتقال ہوگیا تھا۔
اس حوالے سے ہمارے نیوز روم کے انچارج کا بلڈ پریشر بڑھا ہواتھاکہ نیوز ٹیمیں کیسے مینیج کریں۔ کیونکہ زرداری کے ابا کا (24/ مئی 2011 کو) اسلام آباد میں انتقال ہوا تھا اور ان کی میت طیارے کے ذریعہ اسلام آباد سے نوابشاہ لائی جارہی تھی۔ ڈی ایس این جی (براہِ راست نیوز کوریج کے لئے) اور ہمارے ایک ساتھی رپورٹر زبیر الدین کوفوری طور پر نوابشاہ روانہ کردیا گیا تھا۔ اسلام آباد سے نوابشاہ تک طیارے کوپہنچنے میں بمشکل ڈیڑھ گھنٹہ صرف ہوتا، لیکن ہمیں کراچی سے نوابشاہ جانے میں چار گھنٹے لگتے۔
اپنے افسر کو شش و پنج میں مبتلا دیکھ کر میں نے انہیں پیشکش کی کہ میں فوری طور پر نوابشاہ جانے کے لئے تیار ہوں۔ انہوں نے گھبرا کر کہا کہ فوری نکل جائیں اور ہاں کسی کو گھر سے اپنے کپڑے وغیرہ لے جانے کی اجازت نہیں ہے، کیونکہ ایم ڈی کا فون آیا ہے کہ شام پانچ بجے حاکم زرداری کی تدفین ہے ٗ اُس وقت ساڑھے بارہ بجے تھے۔ ڈرائیور اور کیمرہ مین کو آفس سے لے کر نکلنے میں ایک بج گیا ٗ ہم سب اپنے گھروں سے زادِ راہ لئے بغیر ہی نوابشاہ روانہ ہوئے۔ صرف میں نے دوپہر کا کھانا نہیں کھایا تھا، اسلئے راستے سے روٹی لے کر سفر کے دوران ہی پانی سے روٹی کھالی۔
مسلسل سفر کرتے ہوئے ساڑھے چھ بجے شام نوابشاہ پہنچے۔ صدر مملکت کچھ دیر پہلے ہی پہنچے تھے ٗ مگرہماری خوش نصیبی کہ میت نہیں آئی تھی۔حاکم زرداری کے جسد خاکی کو پہلے پریذیڈنٹ ہاؤس لایا گیا جہاں سے اسے خصوصی طیارے کے ذریعے زرداری ہاؤس نواب شاہ پہنچایا گیا اور اس جگہ کو ریڈزون قرار دیا گیا کیونکہ خطرات بدستور منڈلا رہے تھے۔
ہمارے ساتھ ہی ڈی ایس این جی بھی وہاں پہنچی اور زبیر الدین اور شاہدپر مشتمل ٹیم بھی ہمارے ہمراہ تھی۔ ہمارے آنے کے تھوڑی دیر بعد کرنٹ افئیرز کا پروڈیوسر اسد اللہ بھٹی بھی اپنی کار پر نوابشاہ پہنچا۔ صدرمملکت کے افسر تعلقات عامہ نے بتایا کہ نماز جنازہ ابھی نہیں ہورہی ٗ صبح چار بجے آنا۔
نوابشاہ کے زرداری ہاؤس کے وسیع وعریض لان میں بہت بڑا اور عالی شان شامیانہ لگ چکا تھا۔ میں نے پہلی مرتبہ نوابشاہ کا زرداری ہاؤس دیکھا تھا ٗ وہ ایک قلعہ نما عمارت تھی۔ جس کے پہرے پر سیکڑوں سپاہی مامور تھے۔ وہیں پی ٹی وی کے سابق سینئر پروڈیوسر منظور قریشی بھی مل گئے، وہ آصف علی زرداری کے قریبی رشتے دار ہیں۔ وہ حسب عادت بہت گرمجوشی سے ملے اورہم سے کہا کہ کوریج کے لئے آئے ہو، پھر انہوں نے وہاں کے نظم و نسق کے انچارج سے کہا کہ یہ ہماری پی ٹی وی کی نیوز ٹیم ہے، ان کا خاص خیال رکھنا۔ بس پھر کیا تھا، اس پوری نیوز کوریج کے دوران ہمیں ٹھنڈے مشروبات اور مزیدار کھانے ملتے رہے۔ یہ بتاتا چلوں کہ مئی ختم ہورہاتھا اور نوابشاہ کی گرمی پورے ملک میں مشہور ہے، اس نیوز کوریج کے دوران شدید گرمی سے بُرا حال رہا۔
وہاں سے فارغ ہوکر ہم اسد اللہ بھٹی کے ساتھ اس کے دوست جنید شاہ کے اوطاق میں گئے۔ کھانا کھاکر آرام کیا۔
اگلی صبح تین بجے سوکر اٹھے ٗ تیاری کے بعد چاربجے ہم زرداری ہاؤس پر تھے۔ میں نے زبیر الدین کی سر براہی میں پی ٹی وی کی دوسری نیوز ٹیم کو قبرستان بھیج دیا اورڈی ایس این جی زرداری ہاؤس کے باہر لگوائی۔ نماز فجر کے بعد زرداری ہاؤس میں نماز جنازہ ہوئی۔ جس میں صدر آصف علی زرداری ٗ سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ ٗ بعض وفاقی وزراء اور ان کے قریبی رشتے داروں سمیت سو ڈیڑھ سو افراد شریک ہوئے۔ اسے میری خوش نصیبی کہہ لیں یا بدنصیبی کہ میں بھی ان میں شامل تھا۔
زبیرالدین نے تدفین کی کوریج قبرستان میں کی۔وہاں معلوم ہوا کہ جس قبرستان میں وہ دفن ہوئے وہ چار سو سال پرانا ہے۔آصف زرداری خود قبر میں اترے، اس دوران ڈاکٹر عاصم حسین، اس وقت کے وفاقی وزیر اور آصف زرداری کے ذاتی دوست قبر کے سامنے ہی کھڑے تھے، ان کے جوتے کے ٹکرانے سے تھوڑی سی مٹی قبر میں گرگئی، بس پھر کیا تھا، اس وقت کے صدر آصف زرداری آپے سے باہر ہوگئے۔ چونکہ تدفین کے وقت خاص افراد ہی تھے، اسلئے زرداری نے ڈاکٹر عاصم حسین کی دل کھول کر کلاس لی۔
دوپہر تک اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور بہت سی اہم شخصیات آتی رہیں۔ ہم نے ناشتہ تک نہیں کیا تھا۔ گرمی کی شدت ائرکنڈیشنڈ شامیانے میں بھی بہت زیادہ ہی محسوس ہورہی تھی۔ وہاں منرل واٹر اور سافٹ ڈرنک کے کین تو وافر مقدار میں تھے ٗ مگر کھانے کو کچھ نہیں تھا۔ ہم صبح چار بجے آئے تھے ٗ مسلسل بھوکے رہے اور دو بجے دوپہر کاکھانا کھایا۔ہم رات تک فارغ ہوئے۔ اس کے بعد نوابشاہ کے باہرایک ریسٹ ہاؤس میں آگئے ٗ جہاں زبیر الدین نے ہمارے قیام کا انتظام کیا تھا۔
اگلی صبح دس بجے ہم زرداری ہاؤس پہنچے ٗ سخت ترین گرمی پڑرہی تھی۔ گرمی کے سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے تھے ٗ اس دن درجہ حرارت 48ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا۔ مختلف وفو د کی آمد کا سلسلہ جاری رہا۔ شام کوفاتحہ سوئم میں ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا، فاتحہ کے لئے آنے والا مولوی تو زرداری فیملی کا ہی تنخواہ دار تھا، لیکن اس کی جرئات دیکھ کر میں بہت حیران ہوا، ہوا یوں کہ فاتحہ سے قبل کسی نے ایک پرچہ دیا، جس میں یہ درج تھا کہ اتنے سو قرآن پاک کا ختم ہوا، اتنی کروڑ مرتبہ درود شریف اور کئی ارب مرتبہ سورہ اخلاص پڑھی گئی۔ جس پر اس نے مائیک پر کہا کہ سائیں، یہ کیا گپ ہے؟ ان کی یہ آواز سن کر صدر زرداری بھی چونک گیا۔ پھر مولوی نے کہا کہ سائیں (یعنی حاکم زرداری) کے کسی بیٹے یا قریبی عزیز کو میرے پاس بٹھاؤ تاکہ فاتحہ پڑھوں۔ اس پر زرداری کے چہرے پر ناگواری کے اثرات دیکھے۔ اور فوری طورپر زرداری کے ایک خاص اہلکار نے مولوی کے کان میں کچھ کہا، اس پر وہ بولا کہ ٹھیک ہے بابا، میں فاتحہ پڑھتا ہوں۔ مگر یہ طریقہ غلط ہے۔ اس کی اس بے باکی پر مجمع پر سناٹا چھاگیا۔
بہرحال سوئم کی فاتحہ کے بعد صدر مملکت واپس چلے گئے اورہم کو بھی کوچ کرنے کا اشارہ مل گیا۔ہم رات کا کھانا کھا کر دس بجے کراچی واپس روانہ ہوئے۔ مسلسل سفر کرتے ہوئے اگلی صبح کسی وقت کراچی پہنچے۔
اکیاسی برس قبل صوبہ سندھ کے ضلع نوابشاہ میں پیدا ہونے والے حاکم علی زرداری کا تعلق ایک متوسط درجے کے زمیندار گھرانے سے تھا۔وہ اندرون سندھ کے پہلے زمیندار تھے جنہوں نے قیام پاکستان کے بعد کراچی شہر میں تعمیراتی شعبے میں سرمایہ کاری کی تھی اور کراچی کا مشہور بمبینو سنیما بھی انہوں نے تعمیر کروایا تھا۔
ان کے خاندان کا سیاست سے ناتا کئی نسل پرانا تھا اور ان کے دادا سجاول خان زرداری بھی برطانوی راج کے دوران سیاست میں رہ چکے تھے۔خاندانی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے حاکم علی زرداری نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز 1960ء کے عشرے میں ضلع کونسل نوابشاہ کے انتخابات سے کیا۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں جب پاکستان پیپلز پارٹی وجود میں آئی تو وہ اس کے بانی ممبران میں شامل ہوئے اور پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ہی 1970ء کے عام انتخابات میں و ہ پہلی بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے دوران ہی پارٹی قیادت سے بعض اختلاف کی وجہ سے انہوں نے پیپلز پارٹی چھوڑ دی اور عوامی نیشنل پارٹی میں شامل ہوگئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ بلوچستان میں فوجی آپریشن ان کے اختلافات کا اہم سبب تھا جس کی پاداش میں انہیں قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑی تھیں۔
حاکم علی زرداری نے 1985ء کے غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے والے عام انتخابات میں بھی حصہ لیا لیکن کامیاب نہیں ہوسکے اور 1986ء میں جب جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران بے نظیر بھٹو نے پاکستان واپس جاکر پیپلز پارٹی کی باگ ڈور سنبھالی تو حاکم علی زرداری نے دوبارہ پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔
اگلے ہی برس ان کے اکلوتے بیٹے آصف علی زرداری اور بینظیر بھٹو رشتہئ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ سنہ اٹھاسی میں جب عام انتخابات کا انعقاد ہوا تو حاکم علی زرداری پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر دوسری بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔
بینظیر بھٹو نے انہیں اپنی پہلی حکومت میں قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا تھا۔ بے نظیر بھٹو کی حکومت گرنے کے بعد 1990ء کے انتخابات میں بھی حاکم زرداری نے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر حصہ لیا لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے۔سنہ 1993ء کے انتخابات میں وہ تیسری بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے لیکن سنہ انیس سو ستانوے کے بعد سے انہوں نے پاکستان کی عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔
نوے کے عشرے میں آصف علی زرداری کی طرح ان کے والد حاکم علی زرداری اور والدہ کے خلاف بھی کرپشن اور دیگر جرائم میں مقدمات درج کیے گئے تھے۔سنہ 1997ء میں صوبہ سندھ کے شہر حیدرآباد میں اس وقت کے وفاقی سیکریٹری سائنس و ٹیکنالوجی عالم بلوچ کے قتل کا مقدمہ بھی آصف علی زرداری اور ان والد کے خلاف درج ہوا تھا جس میں کئی سالوں بعد عدالت نے انہیں باعزت طور پر بری کر دیا تھا۔
جنرل مشرف کے دور میں قومی مفاہمتی آرڈیننس کے تحت مقدمات کے خاتمے کا فائدہ حاکم زرداری کو بھی ہوا تھا تاہم2010 میں نیب کی اپیل پر لاہور ہائی کورٹ نے ان کے خلاف اراضی کی غلط الاٹمنٹ کا مقدمہ بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔
حاکم زرداری نے دو شادیاں کی تھیں اور ان کی دونوں اہلیاؤں کا تعلق اپنے دور کے بڑے علمی اور ادبی گھرانوں سے تھا۔ان کی پہلی شادی صوبہ سندھ کی پہلی جدید درسگاہ سندھ مدرستہ الاسلام کے بانی حسن علی آفندی کی نواسی سے ہوئی تھی جبکہ ان کی دوسری اہلیہ معروف براڈکاسٹر زیڈ اے بخاری کی سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں۔ان کے اکلوتے بیٹے آصف علی زرداری اور بیٹیاں فریال تالپور اور عذرا پیچوہو ہیں۔
(شبیر ابن عادل کی پیشہ ورانہ زندگی کی یادداشتوں پر مشتمل زیرتکمیل کتاب ”پاکستان کی تاریخ کے اہم واقعات“ سے اقتباس)