برسرِ اقتدار جماعت پاکستان تحریک انصاف کے اندر جہانگیر ترین گروپ کے اعلان کے نتیجے میں ملک ایک ممکنہ آئینی بحران کا شکار بھی ہو سکتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس گروپ میں قومی اسمبلی کے دس ارکان جبکہ پنجاب اسمبلی کے بائیس ارکان شامل ہیں جس میں مزید اضافے کا دعویٰ بھی کیا جارہا ہے۔ جہانگیر ترین گروپ کے ارکان نے اسمبلی میں اپنے گروپ کے لیے علیحدہ نشستوں کی درخواست بھی دیدی ہے اور اپنے پارلیمانی لیڈرز کے ناموں کا بھی اعلان کر دیاگیا ہے۔
یہ سب کچھ یکایک ہرگز نہیں ہوا بلکہ کئی ماہ سے جاری پارٹی کے اندر اختلافات اور تناؤ کا حتمی نتیجہ ہے لیکن اس کا اعلان ایک ایسے موقع پر کیا گیا ہے کہ جب محض چند روز بعد حکومت نے اگلے مالی سال کے لیے بجٹ پیش کرکے اسے منظور بھی کروانا ہے۔ مشکل یہ درپیش ہے کہ حکومت جو کل چھ ووٹوں کی معمولی سی برتری کے ساتھ کھڑی ہے تو دس ارکان کی حمایت سے محرومی کے بعد اس کے لیے بجٹ کی منظوری کس طرح ممکن ہو گا۔ اب اگر حکومت بجٹ منظور کروانے میں کامیاب نہ ہوسکی تو آئین کے مطابق حکومت ختم ہو جائے گی۔ پھر قائد حزب اختلاف کو حکومت سازی کی دعوت دی جائے گی۔ اگر وہ اپوزیشن کی تمام جماعتوں اور جہانگیر ترین گروپ کو ساتھ ملا کر حکومت بنانے اور اپنے پیش کردہ بجٹ کو منظور کروانے میں کامیاب ہو گئے تو موجودہ اسمبلی کا یہی بندوبست چلتا رہے گا اور اگر قائد حزب اختلاف اپوزیشن کی تمام جماعتوں اور جہانگیر ترین گروپ کو ساتھ ملا کربھی حکومت سازی میں کامیاب نہیں ہو سکے تو پھر کیا ہو گا؟ تو ملک ایک شدید آئینی بحران کا شکار ہو جاۓگا۔ اس صورتحال میں صدر مملکت رہنمائی کے لیے سپریم کورٹ میں اس ضمن میں ایک ریفرنس دائر کریں گے اور اس کے بعد اعلیٰ عدلیہ آئینی بحران کے خاتمے کے لیے ان کی رہنمائی کرے گی۔ وہ جو بھی رہنمائی ہو گی بہر کیف آئینی حدود کے اندر ہی ہو گی اور اعلیٰ عدلیہ قوم کے آگے بڑھنے کے جس راستے کا بھی تعین کرے گی وہ بہرحال آئینی ہوگا۔ یقین رکھا جانا چاہیے کہ اعلیٰ عدلیہ خود کسی تنازع کا شکار نہیں کرے گی بلکہ ملک میں نئے انتخابات کا اعلان کر کے خود کو اس طرح کے تمام تنازعات سے الگ رکھے گی۔
معاشرے میں اپنے آپ کو عقل کل تصور کرنے والے اپنی خواہش کو ممکنہ عدالتی راستہ قرار دے رہے ہیں ان کا خیال ہے کہ جس طرح ماضی میں عدالتیں معاشرے کی مقتدر قوتوں کو راستے فراہم کرتی رہی ہیں اسی طرح کا کوئی راستہ نکال کر عبوری مدت کے لیے ملک میں قومی حکومت کے نام پر چند سالوں کے لیے ایک نیا نظام حکومت نافذ کر دیا جائے گا۔ اپنی دلیل میں وزن پیدا کرنے کے لیے ان کا اسرار ہے کہ جس طرح ماضی قریب میں ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کو اعلیٰ عدلیہ نے آئین میں ترمیم تک کرنے کی اجازت دے دی تھی اسی طرح اس نئے نظام کوکچھ عرصہ کے لیے نافذ کردیا جائے گا اور اس حکومت کے سربراہ کو بھی اسی طرح کے اختیارات تفویض کر دیئے جائیں گے۔ خواہش کی حد تک تو یہ ٹھیک ہے لیکن وہ اس حقیقت کو نظر انداز کر رہے ہیں کہ اس وقت آئین معطل تھا اور اقتدار پر ایک آمر کا قبضہ تھا۔ ایسے میں صرف چند جج حضرات نے PCO پر حلف لینے سے انکار کرتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کی راہ لی تھی جبکہ ان چند کے علاوہ اس وقت کی عدلیہ میں وہی جج صاحبان موجود رہ گئے تھے کہ جنہوں نے آئین کی معطلی کے بعد ڈکٹیٹر کے دیئے ہوئے عبوری آئین پر حلف اٹھا کر اس سے وفاداری کا عہد کیا تھا چنانچہ ان جج صاحبان نے اپنے عہد کے مطابق اسے ہر وہ سہولت مہیا کی جس کی اس نے خواہش کا اظہار کیا۔ آج مجبوری یہ لاحق ہے کہ نہ تو ملک میں آئین معطل ہے اور نا ہی کسی ڈکٹیٹر کی حکومت ہے۔ آج تو ملک میں ایمرجنسی بھی نہیں اور آئین بھی موجود ہے۔ جہاں بنیادی حقوق معطل نہیں بلکہ محفوظ ہیں۔ لہذا ایسے حالات میں اعلیٰ عدلیہ جو بھی راستہ نکالے گی وہ ماورائے آئین ہر گز نہیں ہو گا۔
فرض کیجئے کہ اگر اعلیٰ عدلیہ کوئی ایسا راستہ نکالتی ہے کہ جو واضع طور پر تو آئین میں نہیں لکھا لیکن روایات، عدالتی نظیروں اور آئینی اشاروں پر مبنی ہو تو کیا
ایسی مبہم شہادتوں کی بنیاد پر کسی ایسے فیصلے کو ملک کی مقبول سیاسی جماعتیں قبول کریں گی؟ بالخصوص ملک کی سب سے بڑی اور عوامی حمایت کی حامل جماعت اور اس کے قائد میاں محمد نواز شریف اور ان کے علاوہ اقتدار سے محروم کئے جانے والے عمران خان کیا خصوصی طور پر یہ دونوں رہنما کسی ایسے فیصلے کو خوش دلی سے تسلیم کریں گے جو ان کے مفادات کے منافی اور ماورائے آئین ہوں یا پھر اس طرح کے فیصلے کے خلاف مزاحمت کا اظہار کریں گے اور اس کو ماننے سے انکار کر دیں گے۔ اگر خدا نخواستہ عدالتی فیصلہ ماننے سے انکار کیا گیا اور اس کے خلاف مزاحمتی تحریک شروع ہوئی تو کیا یہ بحران مزید سنگین اور پیچیدہ ہونے کا امکان نہیں ہو گا اور چونکہ آج کے حالات میں ملک میں مارشل لاء لگنے کے امکانات ختم ہو چکے ہیں تو پھر کیا ہو گا؟ ارباب اختیار کے لیے یہ مرحلہ بہت غور وفکر کا متقاضی ہے کیونکہ کوئی غلط فیصلہ ملک کی مزید مشکلات میں اضافے کا سبب بھی بن سکتا ہے جبکہ ملک اس وقت کسی غلط فیصلے کا متحمل نہیں ہوسکتا لہذا اگر حکومت بجٹ کی منظوری میں اور اپوزیشن حکومت سازی میں ناکام ہوتی ہے تو پھر اعلیٰ عدلیہ کو ملک میں فی الفور آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن کے زیر نگرانی ایسے منصفانہ الیکشن منعقد کروانے کا حکم صادر فرمادینا چاہئیے کہ جو تمام سیاسی جماعتوں کے لیے قابل قبول ہو۔
آج ملک سیاسی عدم استحکام ، ابتر معاشی حالات ، ایف اے ٹی ایف کے جائزے کا قریب آتا ہوا وقت اور افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کے پاکستان پر اثرات جیسے مسائل سے دوچار ہے۔ ان تمام معروضات کو پیش نظر رکھ کر ہی ملک کے لیے طویل مدتی پالیسی وضع کرنا ہوگی کیونکہ محض خواہشات کی تکمیل کے لیے کوئی قدم ملک کو کسی نئے بحران میں بھی مبتلا کر سکتا ہے۔ جس سے کامیابی کے ساتھ ہمارے آگے بڑھنے کے تمام راستے بند ہوتے دیکھائی دیتے ہیں۔