کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ1933ء میں مردان سے تعلق رکھنے والے خدائی خدمتگار امیر محمد خان کے گھر جنم لینے والی بچی ایک روز اس ملک کی سیاسی بساط کو ہلا کر رکھ دے گی اور ذولفقار علی بھٹو جیسے عالمی لیڈر کو اسی کے باعث شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ بیگم نسیم ولی خان تھیں۔16 مئی کو ان کی وفات کی خبر ذرائع ابلاغ میں خوب پھیلی۔ آج مرے کل دوسرا دن۔۔۔اور اب کوئی اور ایشو میڈیا پر چھا چکا ہے۔ ان کی کہانی آٹھ دہائیوں سے زاید پر محیط پاکستانی سیاست، پاکستانی عورت اور رشتوں کے عروج و زوال کی داستان ہے۔ ان کی زندگی میں خوشیاں، دکھ، سانحہ، ٹھکراؤ، تنازغات، تضادات، نفرتیں، محبتیں عرض وہ سب کچھ ہے جو ایک بھر پور زندگی میں ممکن ہے۔ اس کہانی کا آغاز ہوا تو مردان سے ہوا لیکن 1954ء میں ان کی شادی خدائی خدمتگار تحریک کے بانی خان عبدالغفار خان کے صاحبزادے خان عبدالولی خان سے ہوئی تو گویا ان کی زندگی کو مقصد مل گیا۔ وہ خان عبدالولی خان کی دوسری بیوی تھیں اور ان کی پہلی بیوی کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے اسفندیار ولی خان کی ماں کا کردار بھی اب نسیم ولی خان کو ہی ادا کرنا تھا۔ یہاں سے ہی رشتوں میں تلخ تجربوں کا آغاز ہوا۔ پختون معاشرے میں سوتیلے پن کے حوالہ سے جو تلخیاں پائی جاتی ہیں فطری طور پر وہ بیگم نسیم ولی اور اسفندیار ولی خان کے حصہ میں آئیں جس کا اثر ولی خان کی وفات کے بعد ماں بیٹے کی سیاست میں بھی نظر آیا۔ 1975ء وہ سال بنا کہ جس نے نسیم ولی خان کو روایتی پختون خاتون کے کردار سے نکالا۔ ان کے شوہر خان عبدالولی خان کو ذوالفقار علی بھٹو نے حیات محمد خان شیرپاؤ کے قتل کے الزام میں جیل بھیج دیا تھا۔ باچاخان کی اپنی زندگی زیادہ تر جیل میں گزری تھی اس لئیے وہ اس کو معمول کی سیاسی انتقامی کاروائی سمجھ کر انتظار کرتے رہے کہ ایک دن خود ہی چھوٹ کر آ جائیں گے۔ بیگم نسیم ولی خان نے باچاخان سے بات کی تو انہوں نے صاف جواب دیا کہ ولی خان ان کے بیٹے ہیں اس لئیے جیل جانا کوئی بڑی بات نہیں ہاں البتہ وہ اگر اپنے شوہر کو بچانا چاہتی ہیں تو کر لیں۔ یہ ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا نسیم ولی خان کا کیونکہ اس کے بعد اس نے اپنے شوہر کو جیل سے باہر لانے کی ٹھان لی۔ اصل میں اسی کردار کے باعث بعد میں بیگم نصرت بھٹو اور بیگم کلثوم نواز بھی اپنے اپنے شوہروں کے لئیے میدان میں اتریں۔ نسیم ولی خان کو کوئی راستہ نہیں سوجھ رہا تھا تو اس نے کابل میں مقیم جلا وطن پختون رہنماؤں کا رخ کیا۔ دراصل اس وقت زیادہ تر پاکستانی قوم پرست ترقی پسند رہنماؤں نے کابل میں ڈیرے جمائے ہوئے تھے۔ وہاں ان کی ملاقات مرحوم اجمل خٹک سے ہوئی جس نے ان کو سیاسی اتحاد بنانے کا مشورہ دیا اور کابل میں موجود دیگر رہنماؤں سے تعاون طلب کیا۔ جب بیگم نسیم ولی خان نے بارڈر کراس کرکے پاکستان میں قدم رکھا تو بہت کچھ بدلنے والا تھا۔ نسیم ولی خان نے جیل میں ولی خان اور سردار شیر باز مزاری سے ملاقاتیں کیں اور اس طرح ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان نیشنل الائینس کی بنیاد پڑی۔ ان کا نعرہ تھا “نظام مصطفیٰ” اور اس میں مذہبی جماعتوں نے بھی ساتھ دیا۔ وقت بھی عجیب ہے سیاست میں مدمخالف کا خاتمہ کرنے کے لئیے ایک خاتون نظام مصطفیٰ کے لئیے آگے تھی اور مولوی حضرات ان کی قیادت میں اکٹھے تھے۔ 1977ء کے الیکشن ہوئے تو نسیم ولی خان نے چارسدہ اور صوابی کی دو قومی نشستوں سے بیک وقت جیت کر ریکارڈ قائم کیا۔ یہ کسی خاتون کی عام انتخابات میں پہلی مرتبہ بڑی کامیابی تھی۔ بیگم نسیم ولی خان نے اتحاد کے فیصلہ کو تسلیم کرتے ہوئے اسمبلی میں جانے سے انکار کر دیا۔ بھٹو حکومت ختم۔۔۔اور پھر بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی۔
سیاست ایک عجب کھیل ہے۔ برسوں بعد جب شہید بے نظیر بھٹو جلاوطنی کے بعد مشرف دور میں اپنی شہادت سے کچھ روز قبل ولی باغ گئیں تو ہم نے وہ منظر بھی دیکھا جب بیگم نسیم ولی خان نے بانہیں پھیلا کر اسی بھٹو کی صاحبزادی کا استقبال کیا جن کے والد کو نسیم ولی خان کی تحریک کے باعث نہ صرف کرسی سے اترنا پڑا بلکہ دار پر چڑھنا پڑا۔ شاید وہ ٹھیک کہتی تھیں سیاست میں حرف آخر نہیں ہوتا۔ ایک بار ان سے پوچھا سیاست کیا ہے تو پہلے تو سر جھکا کر دونوں ہاتھ جوڑ کر سوچ میں چلی گئیں وہ جب بات سنتیں تو نیچھے زمین پر دیکھنے لگتیں کہ جیسے زمین کی تہہ سے جواب نکال کر دیں گی۔ کہا “سیاست نام ہے برداشت کا، تنظیم کا، مفاہمت کا اور ممکنات کا” دیکھا جائے تو یہ اصول ساری زندگی ان کے ساتھ رہے۔ جب بھی باچا خان مرکز جانا ہوا تو بھنڈی، دال ماش، کڑی پکوڑہ وغیرہ ہی کھانے کو ملتا۔معلوم ہوا انہیں سبزیاں پسند تھیں۔ انہیں انتہائی قریب سے جاننے والے جانتے ہیں کہ مرحوم ولی خان کے بعد رشتوں میں ان کی دو ہی کمزوریاں تھیں ان کے بھائی اعظم خان ہوتی جن کی شادی انہوں نے اپنی سوتیلی بیٹی اور اسفندیار ولی خان کی حقیقی بہن سے کر رکھی تھی اور ان کے صاحبزادے سنگین ولی خان۔ سیاسی طور پر دیکھا جائے تو ان کے نظریات ولی خان اور اعظم خان کے بیچ پھنسے رہے۔ کبھی اصولوں پر ڈٹ جانا، سخت اصولی موقف اپنانا اور کبھی مفاہمت کا راستہ نکالنا۔ انہوں نے ولی خان کی طرح حکومت میں شراکت داری کا راستہ بھی نکالا۔ان کی لیڈرشپ میں پارٹی نے صوبے کے اندر نظریاتی سیاست سے پارلیمانی سیاست کی طرف اڑان بھری۔ انہوں نے صوبے میں وزارت اعلیٰ دے کر پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے ساتھ حکومتیں بنائیں۔ خود ان پر کبھی کرپشن کے الزامات نہیں لگے لیکن خاتون ہونے کے ناطے اس دور کے حساب سے ٹرولنگ کا نشانہ بھی بنیں۔ اعتراض کے وقت ان کی عادت تھی کہ وہ پہلے مسکراتیں اور پھر گویا ہوتیں۔حاضر جوابی کا یہ عالم تھا کہ ایک بار مولانا فضل الرحمٰن نے کہا”بی بی صاحبہ، بس اب آپ بوڑھی ہو گئی ہیں” حسب معمول قہقہ لگا کر جواب داغا۔” بوڑھی تو لگوں گی ناں!جب سے سیاست میں ہوں جب آپ ابھی بچے تھے”
جب مشرف دور کا آغاز ہوا تو جن رہنماؤں کو کرپشن کی بنا پر جیل میں ڈالا گیا ان میں نسیم ولی خان کے بھائی یعنی ان کی کمزوری اعظم خان ہوتی بھی تھے۔ جب جنرل مشرف نے اپنی پہلی سیاسی اپوزیشن ملاقات اجمل خٹک مرحوم سے کی تو کیمرے اجمل خٹک مرحوم پر فوکس ہوگئے۔مرحوم اجمل خٹک کی وساطت سے ان کی ملاقات اٹک قلعہ میں ان کے بھائی اعظم ہوتی سے ہوئی اس ملاقات کا تاثر یہ بنا کہ نسیم ولی خان سوچنے لگیں اور ولی خان سے گلہ کیا کہ ان کے بھائی کو اجمل خٹک مرحوم کی وجہ سے جیل میں ڈالا گیا ہے۔ یہ تلخی اتنی برقرار رہی کہ اجمل خٹک مرحوم پارٹی چھوڑ کر پارٹی بنانے پر مجبور ہوگئے۔ تاہم بعد ازاں خود خان عبدالولی خان کی فہم وفراست کے باعث ان کو پارٹی میں واپس لایا گیا۔
کہتے ہیں سیاست میں ماضی سائے کی طرح ہوتا ہے جو آپ کے آگے چلتا ہے۔ وقت بدل چکا تھا۔ پہلے شوہر نہ رہے اور پھرسنگین ولی کیا فوت ہوئے بیگم نسیم ولی خان کے بڑھاپے کی لاٹھی ہی ٹوٹ چکی تھی۔ 2008ء میں اے این پی کی حکومت بنی تو اعظم خان ہوتی کے صاحبزادے حیدر خان ہوتی وزیر اعلیٰ بنے۔ ایک وقت ایسے آیا کہ سوتیلے پن کی تلخیاں عود آئیں۔ نسیم ولی خان کے دست راست فرید طوفان کو پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی پر پارٹی سے نکالا گیا۔ فرید طوفان کی مثال بیگم نسیم ولی کے لئیے شطرنج کی بساط پر وزیر کی سی تھی۔ ان کا وہ مہرہ کیا پٹا کہ یہ سلسلہ بیگم نسیم ولی خان کو بھی بہا کر لے گیا۔ عجب رشتوں کی عضب کہانی، اب سیاست کی بساط ہونے کو تو اس کے گھر پر تھی لیکن وہ سمجھ گئی تھیں کہ وزیر کھونے کے بعد گو وہ کہنے کو تو ملکہ تھیں لیکن صرف ایک قدم ہی چل سکتیں تھیں۔ انہیں شہہ مات کہہ دیا گیا تھا۔ بھاگ اب ان کے ہاتھ میں نہیں رہی۔ اب اسفندیار ولی خان پارٹی کے اصل کرتا دھرتا، ان کے بھتیجے حیدرخان ہوتی صوبے کے اصل کرتا دھرتا اور ان کے پیچھے ذہن اسکے اپنے بھائی اعظم ہوتی کا لیکن وہی قصہ جب بہار آئی تو کہتے ہیں ترا کام نہیں۔ نسیم ولی خان ایک دن مشرق ٹی وی سے اپنی گفتگو میں پھٹ پڑیں اور اپنے گھر ہی کی حکومت پر کرپشن کے سنگین الزامات لگائے۔ جب تحریک انصاف کی حکومت بنی تو کہا کہ اے این پی کرپشن کے باعث تینتیس نشستوں سے تین نشستوں پر آ گئی۔حالات اتنے بگڑ گئے کہ پختون سیاست کے آسمان نے وہ منظر بھی دیکھا کہ جس بنیاد پر اجمل خٹک مرحوم نے علیحدگی کے بعد اپنی جماعت بنا لی نسیم ولی خان نے بھی اپنی جماعت بنا لی۔ وہ اپنی کمزوری اپنے بھائی سے بھی دور ہوگئی۔ وہ مردان اپنے گھر نہیں جا سکتی تھیں۔ کمزوری کمزوری ہوتی ہے جب اعظم خان ہوتی بستر مرگ پر تھے تو بہن کی محبت مجبور ہوئی اور وہ خود ملنے چلی گئیں۔ پھر اجمل خٹک مرحوم کی طرح اپنی جماعت بھی اے این پی میں دوبارہ ضم کر لی۔ پہلے شوہر، پھر بیٹے اور آخر میں بھائی نے دنیا چھوڑ دی۔ اب ان کی کوئی کمزوری نہ رہی تھی لیکن اب وہ خود کمزور ہو چکی تھی۔لیٹے لیٹے اب شاید وہ صرف اوپر ہی دیکھ پاتی تھیں۔ آخری وقت تک دماغ نسیم ولی خان کا ساتھ دیتا رہا لیکن سانسوں نے ساتھ چھوڑ دیا۔ شاید دم آخر بھی وہ یہی سوچتی ہوں گی کہ کہیں پارلیمانی سیاست جیتتے جیتتے اس نے نظریاتی سیاست کو توموت کے گھاٹ نہیں اتارا۔
بیگم نسیم ولی خان کو چارسدہ میں اپنے شوہراوربیٹے کے پہلو میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ ان کے بھائی اعظم خان کا مدفن ان سے کچھ ہی دور مردان میں واقع ہے۔ ایک شوہر، بھائی،بیٹے اور سیاست میں پھنسی ایک باہمت خاتون کی ایک کہانی یہ بھی ہے۔