اردو زبان پر جمود طاری ہونے کی دہائی نصف صدی سے بھی زائد عرصے سے دی جا رہی ہے۔ یہ زبان اب تک رب بھلا کرے بالی وڈ کی فلموں کا، کہ ان کے طفیل ابھی بھی ادھ مری ہونے کے باوجود بے غیرتی سے جیے ہی چلی جا رہی ہے۔ ہمیں اردو کے بھارت میں حالیہ احوال کی تو کوئی خاص خبر نہیں ہے مگر پاکستان میں اردو کی دگرگوں حالت سات سمندر پار بیٹھ کر بھی کسی اندھے، کور چشم، نابینا سے بھی ہرگز پوشیدہ نہیں ہے۔
اردو ادب میں گروہ بندی، گروپ بازی، منفی مقابلہ بازیاں عروج پر ہیں۔ ادباء ہوں یا شعرا ہر جگہ اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بناتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یوں تو خیر سے وطن عزیز میں اینٹ اٹھاؤ تو اس کے نیچے سے ماشاءاللہ ادیب یا شاعر نکلتا ہے مگر دیکھنے سننے اور پڑھنے میں سارے بالکل ایک جیسے ایسے ہی محسوس ہوتے ہیں جیسے انھیں کسی کارخانے میں تھوک کے بھاؤ گھڑا گیا ہو۔
اردو زبان میں ہر شہر، قصبے، گاؤں میں جگہ جگہ ہفتہ وار مشاعرے، نشستیں، کانفرنسیں، سیمینار، عالمی اردو کانفرنسیں، جشن منائے جاتے ہیں۔ پاکستان و ہند کی نابغہ روزگار مشہور یونیورسٹیوں میں روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں کے حساب سے نئے پی ایچ ڈی “پیدا کیے جاتے ہیں” جو یہ ڈگریاں تھوک کے بھاؤ حاصل کرنے کے بعد سالہا سال ٹوٹی سڑکوں پر اپنی جوتیاں چٹخاتے، نوکریاں ڈھونڈتے، خود کو کوستے اور اردو کے درجات بآواز بلند سے بلند تر کرتے نظر آتے ہیں اور کچھ برسوں کے بعد اپنی ڈاکٹریٹ کی ڈگری کو فریم میں سجا کر کسی سبزی، فروٹ چاٹ، بھیل پوری، مونگ پھلی کا ٹھیلہ لگا کر رزق حلال کمانے لگتے ہیں پھر کسی ان پڑھ دیہاتن سے ہنسی خوشی بیاہ رچانے پر بھی راضی ہو جاتے ہیں۔ ان کو جو ملازمتیں ہرگز نہیں ملتیں، ان سبھی جگہوں پر وہی گنتی کے سفارشی، نااہل لوگ رشوتیں دے کر بھرتی ہو جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
کیا یہ کانٹے نواز شریف کی راہ کے ہیں؟
کیا یہ کانٹے نواز شریف کی راہ کے ہیں؟
اردو کی عالمی کانفرنسیں ہوں یا مشاعرے، بڑے بڑے بینرز لیے سیمنار ہوں یا دیگر تقریبات چند دس بارہ نام نہاد بڑے، نامور، دانشور اور با رسوخ لوگ ہی نظر آتے ہیں من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو کے مصداق اک دوجے کا کلمہ ہی بھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک دوسرے کو بڑھاوا دے کر اور اپنے جیسوں ہی کو پرموٹ کرتے ہوئے ان کا کاروبار چلتا ہے۔ قابل جائز اور عمدہ ادیبوں شاعروں کو تو کسی گنتی میں شمار نہیں کیا جاتا۔
کس نمے پرسد کہ بھیا کون ہو؟
تین ہو یا ڈیڑھ ہو یا پون ہو؟
منصرم ہوں یا منتظم، پڑھنے سننے اور دیکھنے والے سبھی ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے، ایک ہی گروپ یا گروہ کے بندے یا بندیاں ہوتے ہیں۔ کبھی نہ دیکھا بوریا اور سپنے آئی کھاٹ۔نئے اچھے لکھنے والے شاعر ہوں یا مصنف بغیر پی آر یا دوستیاں و تعلقات نبھائے کوئ اپنی جگہ کہیں نہیں بنا سکتا۔ پاکستان اور بھارت دونوں ممالک میں اردو زبان میں پی ایچ ڈی کے لیے تھیسس اپنے چاچے مامے بنے ادیبوں شاعروں پر ہی لکھے جاتے ہیں۔ ریسرچ، تحقیق، چھان بین اور دانشوری کو تعلقات، سیاست اور دولت کی بلی پر چڑھا دیا گیا ہے۔ مبہم تک بندی، چوری چکاری اور محض خانہ پوری کر کے ان ادباء شعرا پر تھیسس لکھ لیے جاتے ہیں جن کو خود ان کی اپنی ماں بھی نہیں پہچانتی۔ پوری اردو دنیا میں ہر ملک یا ہر جگہ پر عن و من یہی کچھ ہو رہا ہے۔ پہلے اردو ایک ایسی غارت گر ایمان و فتنہ گر زمان عروس نو تھی کہ الامان!
اس سالار گیتی فروز، خورشید عالم افروز، عروس نو روز کے لیے نت نئے گھڑے گھڑائے سونے کے گہنوں جیسے الفاظ عربی، فارسی، ترکی اور سنسکرت سے دستیاب تھے۔ زمانے کی ٹھوکروں میں کسی بیوہ کی طرح ٹھکرائ ہوئ اردو اب صرف انگریزی کی اترن پہن کر ہی اپنی نظریں جھکائے شرمندہ اور آب آب رہتی ہے۔ اب یہ غریب کی جورو، سب کی بھابھی بن چکی ہے۔ اس کی جبری آبرو ریزی کے بعد اس کا نکاح بوڑھے دیور “پنچابی” زبان سے زبردستی کر دیا گیا ہے۔ کچھ اور زبانوں سے بھی اس کے ناجائز بچے برآمد ہو کر اس کی ناک چوٹی کاٹ کر اس کے منہ پر کالک ملتے ہیں اور اس کی لٹیا مزید ڈبوتے ہیں۔
کسی مجبور، لاچار، یتیم و یسیر پر یوں اتنے ظلم و ستم ہوتے کبھی دیکھے، نہ سنے۔ الہی توبہ۔ دل توسن صبا رفتار و طاوس نگار برق کی چشمک زنی، بید بازی جیسی بیت بازی اور چھتر پول جیسے بول سن کر سخت بے زار و بیقرار ہے۔
اردو نثر کی حالت تو شاعری سے بھی بہت زیادہ پتلی ہو چکی ہے۔ نگوڑی نثر کو اب ٹکے کے بھاو دو بھی کوئی نہیں پوچھتا۔ کبھی اس کے یہاں ہن برستا تھا، اب کسی کوڑھی کی طرح اس کی ٹکہ چھدام اور کوڑی کی عزت بھی باقی نہیں رہی۔ اردو ناول کی وفات حسرت آیات کے بعد افسانہ بھی جان بلب ہے، آپ بیتیاں جگ بیتیاں آخری ہچکیاں لے رہی ہیں۔تنقید کو چربہ سازی کی آکسیجن لگانے کے باوجود نہیں بچایا جا سکا۔ محترم یوسفی صاحب کے بعد طربیہ، طنزیہ، انشائیہ و مزاحیہ نثر کا چالیسواں اور قل بھی خیر سے ہو چکے ہیں۔ ترجمہ سازی کا بستر کب کا گول ہو چکا۔ اردو کا لب و لہجہ، گرائمر، فصاحت و بلاغت، صرف و نحو، تذکیر و تانیث، ہجے، اعراب، صوتی صورت، شرح و بسط، تلفظ، درست ادائیگی و کامل استعمال آہستہ آہستہ مرتا جا رہا ہے۔ لاتعداد الفاظ، محاورے، روز مرہ، ضرب المثال، مقولے، مشتقات، مرکبات، مترادفات، ادبی، علمی، فنی اصطلاحات متروک ہو کر بھلائے جا چکے ہیں۔ نئ نسل کا شین قاف ہی درست نہیں مگر گلہ آخر کس سے کیا جائے کہ پڑھانے والے نکمے اساتذہ نے بھی یہی اغلاط ٹی وی اور معاشرے سے سیکھی ہیں۔ جملہ بازی اور پوتھیاں نوک زبان پر رکھنے والے، علم و ہنر کو پرکھنے والے اور حرف حرف کی چونچ لینے والے لوگ اب آخر کہاں سے لائیے؟
پہلے ہر گلی ہر محلے ہر نکڑ پر عالم فاضل اردو دان مل جایا کرتے تھے۔ پرانے چاول جو عربی، فارسی، سنسکرت، ترکی سمیت ہفت زبان پڑھ لکھ اور سمجھ لیتے تھے۔ اب ایسے تمام دانشور تیزی سے راہ عدم کے راہی ہو کر سپرد خاک کیے جا رہے ہیں۔ مرصع، مسجع، مقفع، مفرس و معرب لکھنے والوں کا چل چلاو ہے۔ علمیت اور خبریت کے ہمراہ ادبی چاشنی و کلاسیکل روایت کا چلن ہی اٹھ گیا۔ سیدھے سبھاو عام فہم اردو نہ لکھو تو دنیا رام دہائیاں دینے اور اللہ اللہ کہنے لگتی ہے۔ اب کچھ لکھیے بھی تو آخر کس کے لیے؟
صرف انگلیوں پر گنے جانے والے چند ناموں کے سوائے سبھی نئے لکھنے والے تلچھٹ ہی لکھ رہے ہیں کہ یہی پھیکی سیٹھی بے رنگ و بو اردو ہی آج لکھی، پڑھی اور پسند کی جا رہی ہے۔