حضرت علی ابن عثمان ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب کشف المحجوب گزشتہ ایک ہزار برس سے راہ سلوک کے مسافروں کی تربیت اور تزکیہ نفس کے لیے ام الکتاب کی حیثیت رکھتی ہے۔ برعظیم پاک و ہند میں اس عظیم کتاب کے تراجم اور تشریحات تو ایک زمانے سے شائع ہو رہی ہیں لیکن اس کتاب میں حکایات کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ کچھ ایسی ہی حکایات مولانا روم علیہ رحمۃ اور شیخ سعدیؒ کے ملفوظات و کتب میں بھی موجود تھیں جنھیں ان معاشروں کے دانش وروں نے منتخب کر کے پورے سیاق و سباق کے ساتھ علیحدہ شائع کیا۔ اب یہ حکایات نہ صرف ہمارے علمی ورثے بلکہ تربیت نفس اور تہذیبی تربیت کا حصہ بھی ہیں۔ بدقسمتی سے داتا صاحب کی واحد محفوظ کتاب میں حکایات کے اس عظیم ذخیرے پر توجہ نہیں دی گئی حالاں کہ یہ حکایات بھی غیر معمولی علمی گہرائی اور گیرائی رکھتی ہیں۔ اسی خیال کے پیش نظر ڈاکٹر فاروق عادل نے اس عظیم علمی ورثے پر توجہ کی اور ان حکایات کو ان کے پورے علمی پس منظر کے ساتھ حکایت ہی روایت کی پیروی کرتے ہوئے عام فہم زبان میں از سر نو تحریر کیا ہے۔ اگر یہاں یہ دعویٰ کیا جا ئے تو بالکل غلط نہ ہو گا کہ اردو میں تصوف کے ادب میں گزشتہ ایک ہزار برس میں یہ پہلی کوشش ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب اللہ کی مہربانی سے یہ کام مکمل کر گزرتے ہیں تو یہ ایک بڑا کارنامہ ہو گا۔ (ادارہ)
######
ایک نوجوان شیخ رویم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض گزاری:
‘ حضرت! مجھے کچھ نصیحت فرمائے۔’
حضرت نے نگاہ اٹھا کر نوجوان کی طرف دیکھا۔ کچھ دیر مراقبے میں رہے پھر فرمایا:
‘ برخوردار! اس راہ ( تصوف کی راہ) پر چلنا ہے تو روح و جان کا سودا کر کے چلنا ہے۔ یہ قدرت تم میں اگر نہیں تو پھر کوئی اور راستہ اختیار کر۔
شیخ رویم نے کچھ دیر توقف فرمایا پھر ایک آیت کی تلاوت فرمائی جس کا مفہوم ہے:
‘ اور جو اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے ہر گز انہیں مردہ خیال نہ کرنا بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں ، انہیں رزق دیا جاتا ہے۔ (ترجمہ: کنز الایمان)۔
مفہوم
اقبال علیہ رحمہ نے فرمایا ہے:
یہ معاملے ہیں نازک، جو تری رضا ہو تُو کر
کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریقِ خانقاہی
شاعر مشرق نے اس شعر میں بھی اسی جانب اشارہ کیا ہے کہ اللہ کی راہ اور سلوک و معرفت کا راستہ نظام خانقاہی کا معروف راستہ نہیں ہے۔ سیدنا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے ایک معروف شارح ابو الحسنات سید محمد احمد قادری کے مطابق صوفیا کے یہاں اس ( جسم و جاں) کے سودے کے بغیر جو کچھ ہے وہ سب بے ہودہ اور لغو ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی اس راہ پر اس لیے چلنے کا خواہش مند ہے کہ وہ دنیا میں اہمیت پائے، کچھ چمک دمک اس کے حصے میں آ جائے یا کچھ کرتب سیکھ کر وہ دنیا کو متاثر کر لے۔ یہ راستہ ایسے لوگوں کے لیے نہیں ہے۔ یہ راستہ کن لوگوں کے لیے ہے؟ اس سوال کا جواب اس آیت کے ذریعے دے دیا گیا کہ جن لوگوں نے اللہ کی خوش نودی کے بدلے اپنی جان کا سودا کر لیا، وہی مقبول حق ہیں یعنی یہ مشکلات بھرا راستہ ہے جو اس راہ کی آزمائش برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے، وہی یہاں کارخ کرے۔
یہ بھی پڑھئے:
!یہود و نصاریٰ کی’’اسلامی‘‘ تجارت