دیکھا یہی گیا ہے کہ جب بھی دنیا کے کسی ملک میں کوئی اسلام دشمن مسلمانوں کا دل چھیدنے کی کوشش کرتا ہے کوئی ایسی بات یا روادری کو تار تار کرنے کی کوشش کرتا ہے تو مسلمان بجا طور پرشدید ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں ہزاروں لاکھوں کے جلوس نکالے جاتے ہیں اس بدبخت شاتم کے پتلے جلائے جاتے ہیں۔ مذہبی رہنما دلوں کو گرمانے والی تقاریر کرتے ہیں۔ نوجوانوں کے جوش کو ابال دیتے ہیں۔ توڑ پھوڑ بھی ہوجاتی ہے۔ جذباتی نوجوان پولیس سے بھڑ جاتے ہیں۔ لاٹھی چارج ہوتا ہے۔ گولی بھی چل جاتی ہے۔ لوگ زخمی ہوجاتے ہیں اور اپنی جان سے گزر بھی جاتے ہیں۔ اس سارے عمل میں بائیکاٹ کا نعرہ واجب ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ان اشیاء کی طویل فہرست شیئر کی جاتی ہے جن کا تعلق اغیار سے ہوتا ہے گن گن کر بتایا جاتا ہے کہ شاتم ملعون کا تعلق فلاں ملک سے تھا تو اس ملک کی یہ یہ مصنوعات خود پر حرام کر لیجئے۔
حضور بجا ، بہت اچھا ، ماشاء اللہ لیکن وہیں سوال پیدا ہوتا ہے تو پھر خود پر حلال کیا کریں ؟ اسی مخمصے میں پڑے ہمارے دوست کی ہم سے ملاقات ہوئی اور جناب نے ہمیں بھی الجھن میں ڈال دیا۔ وہ مہینے بھر کا سودا سلف لینے کسی اسٹور پر پہنچے تھے۔ بیگم بھی ہمراہ تھیں۔ انہوں نے طے کیا کہ میڈ ان پاکستان اشیاء لیں گے یا ان ممالک یا کمپنیوں کی مصنوعات خریدیں گے جن کا نفع ظالم، غاصب کو تقویت پہنچانے کا ذریعہ نہ بنتا ہو۔ وہ بتانےلگے دالوں، چاول ، آٹا مصالحوں کے مرحلے میں تو کوئی مشکل نہیں آئی۔ گھی اور خوردنی تیل کے مرحلے میں بھی سرخرو رہے۔ تین چار مشہو ر برانڈ موجود تھے۔ ہمارے یہاں اچھے اور برے کی جانچ کا کوئی معیار تو ہے نہیں جس کے اشتہار زیادہ دکھائی دیتے ہیں وہی اچھا مانا جاتا ہے۔ سو دیسی کمپنیوں کا کوکنگ آئل لے لیا اس کے بعد آگے مشکل میں پڑ گیا۔ بیٹی جس بسکٹ پر ہاتھ رکھتی وہ ان ہی مشکوک کمپنیوں کا ہوتا جن کانام بائیکاٹ لسٹ میں شامل تھا۔ بڑی مشکل سے گمان کر کرکے ایک نیک نام کمپنی کے بسکٹ لئے جس کے بارے میں گمان تھا کہ یہ میڈ ان پاکستان ہیں۔
اس کے بعد کے مراحل تو اچھا خاصا ا متحان ثابت ہوئے۔ شیمپو، صابن ، ٹوتھ پیسٹ،ٹشو پیپرز،اور چاکلیٹس میں تو ہمارے پاس انتخاب ہی نہ تھا۔ اسٹور کے ملازم سے پوچھ پوچھ کر خریداری کی اور گھر آگئے۔ اب بسکٹ کا ڈبا کھولا گیا تو پاپڑ کی طرح پتلے اور چھوٹے بسکٹ شرمندہ شرمندہ سے برآمد ہوئے۔ ظاہر ہے منافع کی شرح برقرار رکھنے اور بڑھا نے کا اس کے سوا کیا طریقہ ہوسکتا ہے ؟وہ کہنے لگا دیگر بھی جو میڈ ان پاکستان اشیا ء لیں ان کا معیار اچھا نہ تھا۔ وہ سوال کرنے لگا کہ ہم اچھی چیزیں کیوں نہیں بناتے ؟ اچھی معیاری اشیاء ایسے مواقع پر مارکیٹ پکڑنے میں کام آتی ہیں۔ یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ صارف نے کسی جذبے سے مقامی طور پر بنی اشیاء لیں تو آئیندہ کے لے کان پکڑ لئے۔
ہمارے دوست کی بات سو فیصد درست ہے۔ یہی ہمارا رونا ہے ہم یہود ونصاریٰ پر گرجتے برستے رہتے ہیں لیکن ان جیسی معیاری کھریتجارت کرتے ہیں نہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ یورپ امریکہ کے کسی بھی اسٹور سے کچھ خرید لیں اور واپس کرنا چاہیں تو مجال ہے کہیں انکار ہو، ہمارے یہاں دکان میں داخل ہوتے ہی سامنے دیوار پر رزق میں برکت کا وظیقہ قیمتی فریم میں آویزاں ہوتا ہے اور ساتھ ہی جلی حروفوں میں لکھا ہوتا ہے۔
‘‘خریدا ہوا مال واپس نہیں ہوگا’’
حالاں کہ اس حوالے سے سرکار دو عالم ﷺ کی حدیث بھی موجود ہے جس میں فروخت کی گئی شے واپس لے لینے پر اجر کی نوید ہے لیکن ہم اعلانیہ اس اجر سے محروم رہتے ہیں۔ گاہک کچھ واپس کرنے جائے تو دکاندار کا سلوک برہمن اور اچھوت والا ہوتا ہے اور ظاہر ہے اچھوت خریدار ہی ہوتا ہے۔ ہمارے ایک دوست پہلی بار امریکہ گئے انہیں رات کو دودھ پئے بنا نیند نہ آتی تھی سو وہ خود ہی نیچے اتر گئے اور گھر کے قریب اسٹور سے دودھ کا پیکٹ لیا رقم چکاتے ہوئے انہوں نے غلطی سے پوچھ لیا کہ یہ کیسا دودھ ہے ؟ ٹھیک تو ہے ناں۔ یہ پوچھنا تھا کہ دکاندار نے انہیں سر تا پا غور سے دیکھا اور پوچھا یہ یہاں اس دکان پر فروخت ہورہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ بہترین ہے، ٹھیک ہے سے کیا مطلب ؟ ہمارے دوست نے گڑبڑا کر بات بنانی چاہی کہ میرا مطلب تھا کہ ایکسپائر تو نہیں۔ اب تو دکاندار بھڑک اٹھا کہ تم مجھ پر ایکپسائر چیزیں بیچنے کا الزام کیسے لگاسکتے ہو یہ الزام مجھ پر نہیں نیویارک اسٹیٹ پر ہے۔ آپ کہنا کیا چاہتے ہو یہاں ایکسپائر دودھ جو زہر ہوتا ہے وہ فروخت ہوتا ہے ہمارے دوست کو جان چھڑانی مشکل ہوگئی۔ معافی تلافی کرکے بوڑھے دکاندار سےجھڑکھیاں کھا کر باہرنکلے۔
اب دل پر ہاتھ رکھ کر بتادیں کہ آپ کے گھر میں جو دودھ آتا ہے آپ کو یقین ہے کہ وہ سو فیصد خالص ہے ؟ ہم ملاوٹ سے آگے بڑھ کر اب تو کیمیکل سے دودھ بنانے لگے ہیں،آئے دن اسلام آباد کے داخلی راستوں پر اس کیمیائی دودھ کی گاڑیاں پکڑی جاتی ہیں چند ہفتے پہلے راولپنڈی کے فوڈ ڈپارٹمنٹ نے کئی من مردہ مرغیوں سے بھری گاڑی پکڑی جس میں پڑی مردار مرغیاں ریستورانوں میں چکن کڑاہی، سجی اور ملائی بوٹیاں بننے جارہی تھیں۔میں بائیکاٹ والے دوستوں سے الجھنا نہیں چاہتا ان کے موقف کا حامی ہوں کہ اپنا اگاؤ اپنا کھاؤ لیکن یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ ہم کب اپنے اس طرز کا بائیکاٹ کرکے یہود و نصاریٰ کی طرح کھرا سودا بیچیں گے !وہ وقت کب آئے گا؟