آدم شیراردوافسانے کی دونئی اورتواناآوازیں ہیں،جنہوں نے اپنے افسانوں کے پہلے ہی مجموعے سے ناقدین اورقارئین کوچونکادیاہے۔ آدم شیر25جنوری 1985ءکوگوجرانوالہ کے ایک گاں گوندالوالہ میں پیداہوئے۔ان کاقیام لاہورمیں ہے۔حارث الحراث اورمیمونہ تبسم کی تین اولادوں میں سب سے بڑے ہیں۔میٹرک میں فیل ہوگئے۔اسی دوران والدصاحب سخت بیمارہوئے اورانتقال کرگئے۔بہن بھائیوں میں بڑاہونے کی وجہ سے گھرکی تمام ترذمہ داری کم عمری میں ان کے کاندھوں پرآگئی اوروہ اس سانحے کے بعد اسکول نہ جاسکے ، لیکن حوصلہ مندآدم شیرنے ذمہ داریوں کے ساتھ تعلیم کاسلسلہ بھی منقطع نہ ہونے دیا۔اس مشکل دور میں نوجوان آدم شیرنے محنت ومشقت جاری رکھی اورجلدسازی ،سائیکل پرٹافیاں اورگولیوں کی فروخت اورپلاسٹک کے بٹن اورسوئچ بنانے والی فیکٹری میں ملازمت کی۔جس کے بعد ایک اخبارمیں کام کرنے کاموقع مل گیا۔یہیں انہوں نے پرائیویٹ میٹرک کاامتحان پاس کیا۔خوددار اورمحنتی آدم شیرنے اسکول جائے بغیرمیٹرک،انٹر،بی اے اور ایم اے اردوکی ڈگریاں حاصل کیں۔اس دورمیں وہ کبھی دن میں پڑھائی اوررات میں مزدوری اور کبھی رات میں پڑھائی اوردن میں مزدوری کرتے۔شب وروز کی جدوجہدرائیگاں نہ گئی۔آدم شیرنے نہ صرف گھریلو ذمہ داریاں بخوبی اداکیں بلکہ صحافت میں مقام بھی بنایایا۔اخبارمیں ملازمت کے دوران مالک سے کھانامانگنے پربچے کاہاتھ کاٹنے کے سچے واقعے سے متاثرہوکرآدم شیرنے 2009ءمیں پہلاافسانہ”روٹی “ تحریرکیا۔ان کی پہلی شائع شدہ کہانی”پاک نگرکی کتھا“ہے۔جوسنگت کوئٹہ میں شائع ہو ئی۔
آدم شیربہت وسیع المطالعہ ہیں۔انہوں نے اردو،انگریزی اورپنجابی ادب کا بالاستیعاب مطالعہ کیاہے۔جوان کی تحریروں سے بھی عیاں ہے ۔خوش قسمتی سے انہیں رشیدمصباح،ڈاکٹرامجدطفیل،ایوب خاور،ڈاکٹرعباس نیئر،ڈاکٹریونس جاوید،ڈاکٹرسعادت سعید جیسے اہل قلم کی رہنمائی میسرآئی۔رشیدمصباح نے انہیں حلقہ اربابِ ذوق میں متعارف کرایا۔زندگی میں عملی محنت اورجدوجہدکی وجہ سے وہ سیاسی،معاشی ، معاشرتی اورمذہبی ناہمواریوں سے بخوبی واقف ہیں اورانہیں بہت عمدگی سے اوربلاکم کاست اپنی کہانیوں میں پیش کرتے ہیں۔ان کے افسانے معروف ادبی جرائد لوح، سویرا، سنگت، اجرا، بیاض، ادبیات اورچہارسو کے علاوہ بھارت کے چندادبی رسائل میں بھی باقاعدگی سے شائع ہو رہے ہیں۔
آدم شیرکے افسانوں کا پہلا مجموعہ ”اِک چپ ،سودُکھ“ عکس پبلی کیشنزنے شائع کیاہے۔پیپربیک پرایک سو چھہترصفحات کی کتاب کی قیمت چارسوروپے بھی مناسب ہے۔ مشہورافسانہ وناول نگارخالدفتح محمد نے کتاب کے بیک ورق پرمصنف کے بارے میں لکھاہے۔”آدم شیر نئی نسل کااہم فکشن نگارہے۔اس ک ےہاں تصوراتی،ماورائی اورجادوئی دنیاکی کہانیاں نہیں،وہ ان کٹروں،گلیوں اورمحلوں کاجاروب کش ہے،جہاں سیلن، بیماری،تعفن اور افلاس پلتے ہیں اورجنہیں اس کاہم عصرفکشن نگارجدیدیت کی منزل تک پہنچنے کی کوشش میں درخوراعتنا نہیں سمجھتا۔اس کی زبان پختہ، اندازبالغانہ اورتکنیک منفردہے۔ کہانی لکھناجہاں ایک فن ہے وہاں کہانی کاسمجھنااہم ترہے اورآدم شیرجوکہانی لکھتاہے اسے سمجھتاہے۔ کیوں کہ اس کے ہاں کہانی کہیں سے نازل نہیں ہوتی بلکہ وہ اس کی کیمسٹری کاحصہ ہے۔“
دنیائے ادب میں قدم رکھتے ہی میں ایسے مستندقلم کارکی یہ داد آدم شیرکے روشن مستقبل کی دلیل ہے۔یہی نہیں بہاؤالدین ذکریایونیورسٹی ملتان میں محترمہ آمنہ خورشید نے آدم شیرکے مجموعے ”اِک چپ،سودُکھ“پر ایم اے اردوکامقالہ بھی تحریرکیاہے۔جس سے ان کی فنی پختگی کاثبوت ملتا ہے ۔ابھی آدم شیرکے افسانوں کاصرف ایک مجموعہ منظرعام پرآیاہے۔یقینا ان کاشماراردوکے اہم افسانہ نگاروں میں کیاجائے گا۔
”اَک چپ سودُکھ“ میں اٹھارہ افسانے ہیں۔جن میں بیشترپانچ چھ صفحات پرمشتمل ہیں۔وہ کم الفاظ میں موضوع کوبھرپورانداز میں بیان کردیتے ہیں۔ان کے کردارمعاشرے کے ٹھکرائے اورمجبورلوگ ہیں۔کمزور،لاچارافراد،عورتوں اوربچوں پرڈھائے جانے والے ظلم ان کے خاص موضوع ہیں۔کتاب کے ہرافسانے کے بعد اسے تحریرکرنے کی تاریخ بھی دی ہے۔جس سے قاری کوآدم شیرکے فنی سفرکااندازہ ہوتاہے۔افسانے ’دُبدھا‘کااقتباس دیکھیے۔”ہماری گلی میں ایک لڑکاایساہے جیسے اسپیشل قراردیے گئے چلڈرن ہوتے ہیں۔اُس کاسریہ بڑاکدوکی طرح اورجسم چھوٹاسابڈاوے کی طرح،نام اس کا۔۔نام جوبھی ہو،کیافرق پڑتاہے کیونکہ ایسے بچوں کوہمیشہ ایسے ویسے ناموں سے پکاراجاتاہے۔یہاں تک کہ اس کے ماں باپ بھی سیدھے ناموں سے کم کم بلاتے ہیں۔ایسے بچوں کے ساتھ چھیڑچھاڑزیادہ ہوتی ہے اوروہ لڑکے جواسپیشل چلڈرن کے زمرے میں نہیں آتے،موخرالذکرکے ساتھ جنسی تسکین کاکچھ سامان پیداکرنے کی کوشش بھی کرلیتے ہیں،اورکچھ نہ ہوتوزبانی کلامی ہی سہی۔“
کیایہ سب کچھ ہمارے اردگرد روزمرہ کامعمول نہیں۔ہم سب ایسی باتوں کااکثرمشاہدہ کرتے ہیں اورچپ رہتے ہیں۔اسی افسانے کاایک اوراقتباس ۔”یہ جگہ بھی وہ جگہ ہے جوبچوں کے رہنے کے لائق نہیں رہی تھی۔میں کہانیاں لکھ لکھ کرلوگوں کوبتاتی رہی کہ پھول توڑے جارہے ہیں۔پھول مسلے جارہے ہیں مگرکسی نے میری بات پردھیان نہیں دیابلکہ میری ہنسی اڑائی گئی۔اس بستی کے بڑے بڑے دانشوروں نے میری بات ہواکردی کہ ساری دنیاکے سارے ملکوں میں،سارے شہروں میں،سارے قصبوں میں،سارے دیہاتوں میں بچوں کے ساتھ یہی کچھ ہوتاہے۔کہیں بھی لوگ بچوں پردھیان نہیں دیتے، بچے آسان ہدف ہوتے ہیں عورتوں کی طرح مگرمیں۔میں کیاکرتی، میں لکھ سکتی تھی سومیں نے لکھاکہ آؤ بچوں کوبچاؤ مگرکسی نے لبیک نہیں کہا۔سب لوگ میراٹھٹھہ اڑاتے تھے کہ یہ بی بی دیوانی ہے، دیوانے کی بڑ کون سنے،جوسنتا،یہی کہتاکہ میں اکیلاکیاکرسکتاہوں؟اوردیکھوکیاہوا؟میراکہاسچ ثابت ہواکہ جوبستیاں بچوں کے رہنے کے لائق نہیں رہتیں ،ان پرقیامت اترآتی ہے کیونکہ وہ لوگ،جوبچوں پرشفقت کی صلاحیت کھودیتے ہیں وہ دراصل اتنے مکروہ ہوچکے ہوتے ہیں کہ ہربستی ان کی نحوست سے بربادہوجاتی ہے۔“
یہ زینب کی اورمروہ کی کہانی ہے۔مدرسوں اورمحلوں میں زیادتی کاشکاربچوں اوربچیوں کاالمیہ ہے اگراب بھی ہم نے اس پردھیان نہیں دیا۔اس کاتدارک نہیں کیاتووہی ہوگاجولکھنے والے کہاہے۔’ارتعاش‘ میں تنہائی،طاقتورکاکمزورسے رویہ اوردوردیس جانے والے بچوں کے والدین کاغم کئی موضوعات ہیں۔لیکن حقیقت سے قریب تریہ اقتباس ملاحظہ کریں۔”موٹی موٹی آنکھوں،کھِلتی رنگت،گھنی مونچھوں، چوڑے سینے والاتنومنداورسروقدنوجوان نسل درنسل غلامی سے تنگ آکربولنے کاگناہِ عظیم کربیٹھاتھا۔پہلے اُسے چُپ کرانے کی کوشش کی گئی مگر وہ تھک چکاتھا جبرسہتے سہتے۔حق مانگتارہااورمانگتارہا۔وہ زبان بندی کی کوشش کرتے رہے مگربات اُس وقت ناقابلِ برداشت ہوگئی جب اُ س نے زرداروں کی بھتہ خوری کے خلاف لوگ اکٹھے کرنے کی ٹھان لی اوراِس سے قبل کہ وہ مجمع لگاتا،انہوں نے ہجوم اکٹھاکرلیاجو کبھی عقیدت کی اوٹ لے کراورکبھی طاقت کے زورپرگندادھنداکرتے رہتے ہیں،اورانہوں نے مشہورکردیاکہ اُس نے اپنے پلیدمنہ سے انتہائی پلیدلفظ نکالے ہیں توبہ توبہ۔ ایسے بول بولنے والے کوتوسنگسارکردیناچاہیے۔اس کے ساتھیوں نے بھی نہیں سوچا،لکیرکے فقیربن گئے اورجس کے ہاتھ جولگا،مارنے لگااورمارتارہاحتیٰ کہ وہ مرگیا مگرکسے پرواتھی سومارتے رہے۔اس پربھی ٹھنڈنہ پڑی توننگاکرکے گھسیٹتے رہے،اورقانون کے رکھوالے قانون کے ساتھ زنابالجبردیکھتے رہے۔“
ایسے کتنے ہی واقعات روزانہ اخبارات اورٹی وی چینل کی زینت بنتے ہیں۔لیکن انہیں آدم شیرجیسادردمنددل رکھنے والاادیب ہی اجاگرکر کرسکتاہے۔کتاب کانام جس افسانے پررکھاگیاہے۔’اِک چپ،سودُکھ‘بھی ہمارے معاشرے میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے موضوع پر ہے۔”میں نے اسے ایک سات سالہ بچی دکھائی جس کی خالی آنکھوں میں وہ داستان بھری ہوئی تھی جوسنناچاہوتوسنی نہ جائے،نہ سنناچاہوتو ان سنی نہ ہو،اس کی انگلیاںٹوٹی،کلائیاں کٹی،جبڑے تڑخے،ہونٹ پھٹے،ناک کی ہڈی پچکی ،سینہ زخم زخم،ٹانگیں مڑی تڑی اوروہ گندے پانی میں بہہ رہی تھی،میں نے اسے ایک اورلاش دکھائی جودن بھرروڑی پرپڑی رہی اوراسے وہ باپ بھی دکھایاجواپنے پرنے میں اپنی گڑیا سمیٹے ہسپتال جارہاتھاکہ شایدزندہ ہومگروہ نہیں تھی۔ اسے معبدمیں پنکھے سے جھولتابچہ بھی دکھایاجس کے ماں باپ نے اپنے دوسرے بچوں کو بچا نے کے لیے لوطیے کومعاف کردیاتھا۔میں نے اُسے اُس بچے کی لاش بھی دکھائی جوماں کے پیٹ میں تھااوراُس کی ماں کونہ ناچنے پرگولی ماردی گئی تھی جوبچے کے دل کوجالگی تھی۔وہ بھاگ سڑی مرتے مرتے بھی باجابجانے والے جیون ساتھی کی بچت کرگئی کہ اسے دوقبروں کے پیسے نہ دینے پڑے۔“
”اِک چپ،سودُکھ“ کے تمام اٹھارہ افسانے حساس دل کوجھنجھوڑ کررکھ دیتے ہیں۔یہ معاشرے کی جیتی جاگتی کہانیاں یاالمیے ہیں۔جن کو پڑھتے ہوئے قاری کے لیے اپنے اشکوں پرقابوپانادشوارہوجاتاہے۔کاش یہ کہانیاں معاشرے کوجگاسکیں اورحقیقی انقلاب کاپیش خیمہ ثابت ہوں اورایک ایسامعاشرہ تشکیل پاسکے جس کاخواب آدم شیرجیسے مصنف دیکھتے ہیں۔
سبین علی بھی فکشن کاایک نیانام ہے۔ان کے افسانوں کاپہلا مجموعہ”گلِ مصلوب“ عکس پبلی کیشنزنے شائع کیاہے۔”گُلوں سے حرف کروں“ کے عنوان سے سبین علی لکھتی ہیں۔”اپنی پہلی کتاب کے ساتھ قارئین کے ساتھ ہم کلام ہوں ۔پہلی تحریر اورپہلی کتاب موسم کی پہلی بارش جیسی ہوتی ہے موسموں کوبدل دینے والی،روئیدگی بخشنے والی یاخزاں کے موسم میں برگ وبارکے رنگ بدل دینے والی۔لفظ بارش کی مانندمیرے شعورکے پردے پراترتے ہیں اورانگلیوں کی پوروں سے برقی صفحات پرمنتقل ہوجاتے ہیں۔آخرہم لکھتے کیوں ہیں ؟یہ سوال کبھی نہ کبھی ہرمصنف سے پوچھاجاتاہے اورکئی بارہم ادیب خودسے بھی یہ سوال کرتے ہیں۔مصنفین ،قارئین سے جوکہناچاہتے ہیں وہ افسانوں اورکہانیوں میں موجود ہوتاہے،لکھنے کے محرک سے قطع نظرلفظ بننے اورجڑنے کے عمل میں ہمارے وجودکے سنگریزے بھی ریزہ ریزہ ہماری تخلیقات ،ہماری تحریروں میں شامل ہوتے رہتے ہیں اورعلم نہیں ہوپاتاکہ ہم کب لکھنے لگتے ہیں۔میری والدہ معلمہ تھیں۔گھرکا ماحول علمی وادبی تھا۔ہماری والدہ نے اپنے سبھی بچوں میں کتب بینی کاشوق ابھارا۔ہربچے کواس کے ذوق کے مطابق کتب خرید کردیتیں۔ خواہ کوئی ناول پڑھے یاشاعری،تاریخی کتب پڑھے یاانگریزی ادب سب کی ہمت افزائی کرتیں۔بہت کم سنی میں والدہ کی کتب سے سعدی اوررومی کوپڑھاتھا۔والداوروالدہ دونوں معالطہ کے شوقین تھے۔گھرکے ماحول کی بناکراسکول کی ابتدائی تعلیم سے قبل پڑھناسیکھ لیاتھا اسی طرح لکھنے کاشوق بھی خداداد ہی ہے۔جدہ میں پندرہ برس قیام کے بعد پاکستان واپس لوٹی توتین کتب کے مسودے تیارتھے مگراشاعت کی بابت سنجیدگی سے سوچاہی نہ تھا۔کتاب محل کے محمدفہد نے میری کتب کی اشاعت کابیڑہ اٹھایا۔ان کی مساعی سے یہ کتاب قارئین تک پہنچنے جارہی ہے۔“
سبین علی کے بائیس افسانوں پرمشتمل”گلِ مصلوب“ ایک سوچھیاسٹھ صفحات کی کتاب ہے۔مجلدکتاب کی قیمت پانچ سوروپے ہے۔بیک ورق پرمصنفہ کاتعارف کراتے ہوئے مشہورافسانہ نگاراورمترجم محموداحمدقاضی لکھتے ہیں۔” سبین علی فکشن کانسبتاً نیانام ہے۔وہ گلِ مصلوب کے نام سے افسانوں کاجوپراگاہمارے سامنے لائی ہیں اسے پڑھتے ہوئے اس کے افسانے”چیونٹیاں“ کی چیونٹیاں ہماری فکرکی کمرپر رینگتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں اوراس کی”کتن والی“ ہمارے من اندربیٹھ کرچرخہ کاتنے لگتی ہے۔مطالعہ،پرکھ اورمشاہدہ جن تین چیزوں کا ایک لکھنے والے کے پاس ہونا ضروری ہے وہ سبین کے پاس بدرجہ اتم موجود ہیں۔اس سے مستزاداس کاادراک اوراحساس بھی اس کے ذہنی خزانے میں شامل ہے۔یہ بات اسے یہ اعزازعطاکرتی ہے کہ وہ محاذ پرلڑنے والے سپاہی اورایک جولاہی کے بھیترمیں اترسکے اورپڑھنے والے کواپنے ساتھ لے کرچل سکے۔سبین اگراسی ڈگرپرچلتی رہی توایک سنجیدہ اورتہہ داری پرمبنی فکرکی حامل فنکارہ کے طورپرضرورابھرکر سامنے آئے گی۔“
بھارت کے مشہورافسانہ نگارشموئل احمدنے کچھ یوں اظہارِ خیال کیاہے۔”سبین علی اپنے تخلیقی رویے میں قدرے مختلف نظرآتی ہے۔ موضوع کے تنوع اورعصری مسائل کے ساتھ ان کے افسانے علامات اوراستعارات کی نئی جہت سے آشناکراتے ہیں۔ان کے افسانے مو ضوع کے اعتبارسے اپنااسلوب خود گھڑھتے ہیں۔یہ کبھی وضاحتی طرزِ بیان سے کام لیتی ہیں،کبھی استعاراتی نظام کی طرف مائل ہوتی ہیں۔ اساطیرکے بطن سے یہ کامیاب افسانے بازیافت کافن جانتی ہیں۔یونانی دیومالاکے پس منظرمیں سانس لیتاہواافسانہ”ایتھنے اورسموں“ بین الاقوامی اثرات کااشاریہ ہے۔”کلمہ ومہمل“ صرف کمیونی کیشن گیپ کاافسانہ نہیں ہے بلکہ سبین کی تانیثی فکرکاآئنہ داربھی ہے۔افسانہ بصارت پرسماعت کی فوقیت کاسوال قائم کرتاہے۔ایک گونگی بہتری نسوانی کردارکی پیکرتراشی سبین معاشرے میں رینگتے سانپوں سے خود کو بچاتی معذورجسم کے ساتھ جیتی لڑکی کوایک بہترزندگی جینے کاحوصلہ بخشتی ہے۔افسانہ ’ان ٹیوشن“ انسانی زوال کاالمیہ ہے جہاں انتہائی کرب سے گزرنے کے بعد تخلیق وجودمیں آتی ہے اورکچرے میں ڈال دی جاتی ہے۔سبین نے نفسی محرکات اوررشتوں کی تجدیدسے اردوافسانے کو نیا فلسفیانہ آہنگ بخشاہے۔“
شموئل احمدنے مختصرفلیپ میں سبین علی کے افسانوں کی تمام خوبیاں واضح کردی ہیں۔جس کے بعد ان کے افسانوں کے جائزے کی ضرورت نہیں رہتی۔تاہم مشہورافسانہ نگار اورشاعرہ نسیم سیدنے بھی فلیپ میں سبین علی کاافسانوں کاجائزہ لیاہے۔”فیس بک افسانہ فورم پرسبین کے بے ساختہ تبصروں کوپڑھ کراس کی تنقیدی بصیرت کی قائل اوراس کے افسانوں میں اس کی تخلیقی رچاو¿،شدت فکرکی گہرائی،ندرتِ خیال اور موضوع کامتن میں پھیلاو¿،نبھاو¿ اورسلیقہ مندی کی گھائل رہی ہوں۔سبین کے افسانے زندگی کی حقیقتوںسے سرشارہیں۔اسکی ذہانت،فکری نکتہ رسی،تخلیقی شائستگی ووارفتگی میں ایساوالہانہ امتزاج ونامیاتی وحدت قائم کرتی ہے کہ سب ایک اکائی میں ڈھل کے اس کے افسانوں کی شنا خت بنادیتے ہیں۔ادب کی دنیامیں تخلیق کارکی اولین تخلیقات کے لیے کوئی پیش گوئی مناسب نہیں مانی جاتی لیکن ادب کی تاریخ اس کی بھی گواہ ہے کہ اولین فن پارہ ہی قبول ورد کاواضع اشارہ بھی متعین کرتاہے۔ مجھے یقین ہے کہ سبین علی فکنش کی دنیامیں اپنی منفردشناخت قائم کر نے جارہی ہیں۔“
نسیم سیدصاحبہ نے بھی سبین علی کے ادب میں جگمگانے کی پیش گوئی کردی ہے۔”گلِ مصلوب“ کاپیش لفظ فنون کے مدیر اوراحمدندیم قاسمی کے نواسے نیر حیات قاسمی نے لکھاہے۔”گفتگو،بیان،قصے،کہانیاں اوربات چیت انسان کی موجودگی کی نشانیاں ہیں۔اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے انسان کوحرف کی نعمت سے سرفرازکیاگیاہے۔ان نے اسی حرف سے لفظ بنائے،لفظوں سے جملے بُنے،جملوں سے زبان اوران کے ملاپ سے نئی زبانیں وجود میں آئیں۔زبانیں نہ صرف گفتگوکاوسیلہ ہیں بلکہ شعرونثر،علم وادب کی ترویج کاباعث بھی ہیں،سبین علی کا’گلِ مصلوب‘ افسانے کی نئی کروٹ کااہم حصہ ہے۔سب سے پہلے تواس افسانوی مجموعے کاعنوان قارئین کاہاتھ ہولے سے تھام کر اپنے پاس بٹھالیتاہے اورہم اس نام کی خوبصورتی کوکچھ وقت دیئے بغیرصفحات کی پرتوں میںداخل نہیں ہوسکتے۔دیکھاجائے توہرگُل اپنی شاخ پرمصلوب ہوتاہے۔اس کے باوجود کھِلتاہے،خوشبواوررنگ بکھیرتاہے۔اورآخرکارپتیوں کی شکل میں اپنی ذات دھرتی کے سپردکر کے نہ ختم ہونے والے قدرتی عمل کاپھرسے حصہ بن جاتاہے۔علامتی لحاظ سے دیکھاجائے توگلِ مصلوب کی مثال انسان پربھی صادق آتی ہے کہ انساکی دنیاوی زندگی بھی انہیں مراحل سے گزرکراختتام پذیرہوتی ہے۔گل ِ مصلوب کاانسانی طرح زمین سے گہراناطہ ہوتاہے۔شا خ،کانٹے،شبنم،پتے،ہوا،بارش،دھوپ،چھاو¿ں اورباغبان اس کی زندگی کے اہم جزوہیں۔لہٰذااس نام کے انتخاب کے پیچھے یقینا گہرا فلسفہ ءحیات پنہاں ہے۔گلِ مصلوب کی باغباں ،سبین علی ہیں۔جنہوں نے فکری کشیدکی چھلنی سے روایت وجدت،جذبہ وتخیل،حسن ومحبت ، تلخی وامید جیسے بے شمارگوہرِ نایاب تلاش کرکے ان کاکامیاب مرکب تیارکیاہے۔اس ضمن میں چندباتیں قابل ذکرہیں۔عام طور پردو مختلف ممالک کے کلچرسے منسلک ہونے کے بعدتحریرمیں ایک مخصوص توازن برقراررکھنامشکل ہوتاہے۔کیونکہ لکھاری کامادرِوطن اورزبان مختلف ہواوروہ کسی اورملک میں رہائش پذیرہو،توایسی صورت میں تحریرکاڈھب ،لہجہ اورساخت کواپنی زبان کے مطابق قابلِ مطالعہ رکھنے کے لیے اعلیٰ قسم کی کرافٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔سبین علی اس ضمن میں تمام تربینادی پیمانوں کی کسوٹی پرپوری اُترتی دکھائی دیتی ہیں۔گلِ مصلوب شاخِ ادب پرعرصہءطویل کے لیے لہرانے کوتیارہے۔سبین علی صاحبہ اپنے ادبی کیریئرکی ابتدامیں جناب احمدندیم قاسمی صاحب کے معتبرادبی جریدے ’فنون ‘کے ساتھ منسلک ہوئیں اورآج بھی ان کاتخلیقی تعاون فراوانی کے ساتھ جاری وساری ہے۔“
ان بڑے اورمستنددانشوروں کی آراءکے بعد ”گلِ مصلوب“ کے بارے میں مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔اس میں شامل تمام افسانے موضوع،تخیل اوربیانیے کے اعتبارسے ایک سے بڑھ کرایک ہیں۔تاہم”کلمہ ومہمل“،”کتن والی“،” ان ٹیوشن“ گلِ مصلوب“،” ایتھنے اورسموں“،” چیونٹیاں“ ،” عیباں والیاں دے متھے لالڑیاں“،”ہلدی بچاری کیاکرے“ اورجامن کاپیڑ“ قارئین کی خصوصی توجہ چاہتے ہیں۔سبین علی نے پہلے مجموعے سے ہی اپنابھرپورتعارف کرادیاہے۔قارئین کوان کی اگلی کتب کاانتظاررہے گا۔