ADVERTISEMENT
صحافت کے شعبے میں میرا مشاہدہ ہے کہ کرائم رپورٹروں کا ادب وغیرہ سے کم ہی تعلق ہوتا ہے ۔ 43 سال میں علم و ادب سے دلچسپی رکھنے والے صرف دو کرائم رپورٹروں سے تعارف ہوا.. ایک سجاد شفیق بٹ اور دوسرے بابا پرویز چشتی.
بٹ صاحب نے بھی کرائم رپورٹنگ تو پہلے ہی چھوڑی تھی اور سیاسی تجزیہ کار بن گئے تھے، پھر صحافت بھی چھوڑ دی اور تعلیم کا شعبہ چن لیا.
ہاں بابا پرویز چشتی نے مشق سخن اور چکی کی مشقت ساتھ ساتھ جاری رکھی. ان کے کتنے ہی نام تھے… عطا اللہ پنجابی، پرویز چشتی، شاعر مساوات…
میں امروز میں تھا تو وہاں انہیں دیکھا، رپورٹنگ سیکشن میں بدرالاسلام بٹ اور دوسرے دوستوں سے ملنے آتے تھے. منو بھائی اور شفقت تنویر مرزا سے بھی ملتے. ہمیشہ سفید شلوار قمیص اور سیاہ چشمے کے ساتھہ دیکھا. اتنے سیاسی قطعات، اردو پنجابی اردو غزلیں لکھیں کہ اچھا بھلا مجموعہ چھپ سکتا ہے اور چھپنا چاہئیے لیکن پڑھی لکھی اولاد، صحافت اور اشاعت سے تعلق رکھنے کے باوجود اس طرف متوجہ نہیں ہوئی. تمثیلہ ملتی رہتی ہے، اسے یاد بھی دلاتا رہتا ہوں. بازغہ بہت عرصہ تو اپنے بچوں میں مصروف رہی.،اب منظر عام پر آئی تو اس کے سامنے بھی بات ہوئی. جمیل چشتی اب بڑے آدمی ہوگئے ہیں. عرصہ ہوا ملاقات نہیں ہوئی. یہ سطریں پڑھنے والا کوئی انہیں پیغام پہنچائے کہ بابا جی کا کلام جمع کریں اور جلدی چھاپ ڈالیں. انہیں جاننے والے اب کم ہوتے جارہے ہیں. لوگ اپنے والدین کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں، آپ کے والد تو واقعی قابل فخر تھے.
ستمبر 1982 میں وفات سے ایک آدھ دن پہلے عطااللہ پنجابی یعنی پرویز چشتی نے منو بھائی کو ایک خط لکھا جو منو بھائی کو ان کے انتقال کے بعد ملا ۔ خط میں حالاتِ حاضرہ پر گپ شپ کے ساتھہ اپنی ایک غزل بھی بھیجی جو منو بھائی نے اپنے 24 ستمبر1982 کو شائع ہونے والے کالم میں شامل کی. یہ شاید ان کی آخری غزل ہو۔ وہ 17 ستمبر کو وفات پاچکے تھے۔
آج ان کی برسی ہے
ہر نیا سانس خطا ہو جیسے
زندگی کوئی سزا ہو جیسے
میری نس نس میں رچا ہو جیسے
جسم خوشبو میں بسا ہو جیسے
بند کھڑکی ہہ بھی احساس رہا
وہ مجھے دیکھہ رہا ہو جیسے
یاد ہے اس سے بچھڑنے کا سماں
جسم سے روح جدا ہو جیسے
بن ترے لگتا ہے دل کے اندر
میرا کچھہ ٹوٹ گیا ہو جیسے
ہے تو انساں ہی پہ تیور دیکھو
یوں اکڑتا ہے خدا ہو جیسے
قتل کے بعد سکوں چہرے کا
دست قاتل ہی شفا ہو جیسے
وہ خیالوں میں ہے یوں محو خرام
صحن گلشن میں صبا ہو جیسے
توڑنا عہد گنہ تھا لیکن
تیرے مسلک میں روا ہو جیسے
بھٹو کی شہادت پر بابا پرویز چشتی کی دو غزلوں کے کچھہ شعر:
پیشِ نگاہ آج بھی صورت اسی کی ہے
افتادگانِ خاک کو چاہت اسی کی ہے
گو تم بہ جبر جسموں کو زنجیر کر چکے
لیکن ہر ایک دل پہ حکومت اسی کی ہے
ہر ایک نشیبِ شہر میں آباد اس کی یاد
ہر بے چراغ گھر میں سکونت اسی کی ہے
وہ بن چکا ہے آج زمانے کا نظریہ
ہر بوریا نشین کو ضرورت اسی کی ہے
جیسے صلیب شاخ پہ ہو گل کھلا ہوا
خنداں فرازِ دار پہ صورت اسی کی ہے
مرکر بھی جس کی قبر پہ پہرہ لگا رہا
ہیبت اسی کی دل پہ جلالت اسی کی ہے
۔۔۔۔
اب کے برس تو ساون برسا نینن میں
اگلی رُت جانے کیا لائے دامن میں
ہم کو یقین ہے پھول اور پھل بھی لائے گا
اس کی یاد کا پیڑ لگا ہر آنگن میں
جس کے باعث قد اس کا کچھہ اور بڑھا
وہ پھندا محسوس ہوا ہر گردن میں
عطا اللہ پرویز چشتی 1932 میں پیدا ہوئے۔ نوائے وقت ، کوہستان اور مساوات سے وابستہ رہے۔ اس سے پہلے فلمی دنیا میں جگہ بنانے کی کوشش کی لیکن پھر وہ خیال چھوڑ کر صحافت میں آگئے۔
انہوں نے 1959 میں فلم ’’ساتھی ‘‘ کیلئے دو گیت لکھے۔۔۔ دل والے دل والے پی کر رنگ جمالے آ۔۔۔۔ ناہید نیازی نے گایا۔ دھیرے دھیرے بہے جائے رے، نیا جھکولے کھائے رے۔۔۔۔ ناہید نیازی اور منیرحسین نے گایا۔
1961 میں فلم ’’ منگول ‘‘ میں ان کا گانا ، یہ دل ہے میرا او بھولے پیا، ملکہ ترنم نورجہاں نے گایا۔
1963 میں فلم’’ ماں بیٹی‘‘ میں پرویز چشتی کا گانا ، یہ زندگی ہے کیا جو تم سے ہو جدا، مالا نے گایا۔
ناصر بیگ چغتائی بتاتے ہیں، بابا چشتی سے ایک خاص تعلق رہا ۔ جب بھی مساوات کراچی آتے بڑے مزے رہتے اور ہم اکثر پوچھا کرتے یہ شاعری اور کرائم کا ساتھہ کیسے ہو گیا ۔۔۔۔ دو تین شعراء کے نام لے کر کہتے ۔۔۔۔ یہ بھی تو جرائم کرتے ہیں۔
رضا حمید نے بتایا امروز کے زمانے میں ،میں نے بھی کچھہ عرصہ کرائم رپورٹنگ کی جس کی وجہ سے بابا جی سے گہری دوستی ہو گئی ۔وہ اکثر مجھے اپنے شعر سناتے تھے۔ بہت کم لوگوں کو ان کے شاعر ہونے کا علم تھا ۔ضیا الحق مردود کے عہد پر لکھی گئی ان کی نظم کے کچھہ شعر مجھے آج بھی یاد ہیں:
ہر ایک مرض ہر اک درد کی دوا کوڑے
طبیب شہر کا ہے نسخہ شفا کوڑے
سوال کرتے ہیں آٹے کے بڑھ گئے بھاؤ
جواب ملتا ہے آٹا نہیں تو کھا کوڑے
گلاب بھی ہے لہو رنگ تو یہی سمجھو
تمام رات لگاتی رہی صبا کوڑے
جو ٹکٹکی سے بندھا ھے برھنہ تن احساس
تو بن گئی تیرے شہر کی ہوا کوڑے