”کون ہوں میں؟“ ایک منفرد اوردلچسپ ترین کتاب ہے۔اس کی اہم خصوصیت تویہ ہے کہ یہ کتاب فیض احمدفیض کی صاحبزادی منیزہ ہاشمی کی تحریرکردہ ہے اوراس کا پیش لفظ پاکستان کی پہلی انگریزی ناول نگاربیپسی سدھوانے لکھاہے۔پاکستان ٹیلیویژن نے نوے کی دہائی میںایک مقبول پروگرام”تم جوچاہوتوسنو“پیش کیا۔پروگرام کامرکزی خیال 1960ءمیں پی بی ایس سے چلنے والی سیریز”فیس توفیس“ سے لیاگیاتھا اوراس کاٹائٹل فیض احمدفیض کی نظم ”تم جوچاہوتوسنو،اورنہ چاہونہ سنو“سے اخذکیاگیاتھا۔جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کارہائے نمایاں انجام دینے والے مشہورخواتین وحضرات کے انٹرویوزپیش کیے گئے۔ پروگرام کی میزبان منیزہ ہاشمی تھیں اوریہ پروگرام 1997ءسے 2002ءتک پیش کیاجاتارہا۔اس میں سوسے زائدمشہورشخصیات کے انٹرویوز پیش کیے گیے۔منیزہ ہاشمی پی ٹی وی کی سینئر پروڈیوسر تھیں اوراس وقت کے پالیسی کے مطابق ٹی وی کاکوئی ملازم آن ایئرنہیں آسکتاتھا۔ منیزہ ہاشمی کے لیے خصوصی اجازت حاصل کی گئی ۔’کتاب’کون ہوں میں؟“ میں پروگرام میں شامل پاکستان کے مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والی بیس مشہورخواتین کے انٹرویوز کو شامل کیا گیاہے۔ان میںموسیقی،فلم،اردوادب،انگریزی ادب،سیاست،سماجی خدمات،فنونِ لطیفہ اورشاعری کی نامور خواتین شامل ہیں ۔ کتاب میں پاکستان کی ان مشہورومعروف خواتین کی زندگی اورجس میدان میں انہوں نے کام کرکے نام کمایا،اسے پیش کیاگیا ہے۔ منیزہاشمی کاارادہ اس کتاب کادوسراحصہ بھی پیش کرنے کاہے، جوملک کے نامورمردوں کے بارے میں ہوگا ۔
منیزہ ہاشمی نے علامہ اقبال کے بعد بیسویں صدی کے سب سے بڑے اردوشاعرفیض احمدفیض اورایلس فیض کے گھرمیں جنم لیا۔کینرڈکالج اورپنجاب یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔1981ءمیں ہوائی یونیورسٹی سے ماسٹرزکی ڈگری حاصل کی۔کئی شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دیے اوردے رہی ہیں اورکامن ویلتھ براڈکاسٹنگ ایسوسی ایشن کی دوبارصدرمنتخب ہوئیں۔ہم ٹی وی پاکستان کی جنرل منیجربین الاقوامی تعلقات ہیں،لائٹ اسٹورم انٹرٹینمنٹ کی پروجیکٹ ایڈوائزراورفیض فاو¿نڈیشن اورفیض گھرکی ٹرسٹی ہیں۔منیزہ ہاشمی بنیادی طور پر ماہر ِ تعلیم ہیں اوران کاشعبہ بنیادی اورپرائمری تعلیم ہے،انہوں نے ٹی وی کی دنیامیں1967ءمیں قدم رکھااورپی ٹی وی لاہورمیں پروڈیو سر کی حیثیت سے کام کاآغازکیااورجلد ہی خوبصورت پروگراموںاورتخلیقی صلاحیتوں کی وجہ سے اپنی الگ شناخت قائم کرلی ۔ 2004ءمیں وہ پی ٹی وی میں پروگرام ڈائریکٹرکے عہدے سے ریٹائرہوئیں۔وہ پی ٹی وی کی تاریخ میں آج تک اس عہدے تک پہنچنے والی واحدخاتون ہیں۔انہوں نے پہلی بارپی ٹی وی پر”خواتین ٹائمز“ کے نام سے عورتوں کے لیے خصوصی نشریات کا آغازکیا۔جس میں ٹی وی ناظرین میں جنس،انسانی حقوق،اقلیتوں کے حقوق،تولیدی صحت،تعلیم،عورت کی معاشی خودمختاری،عورت کے قانونی حقوق اور عورتوں پرتشددجیسے موضوعات پرمعلومات فراہم کرنے اورشعوراجاگرکرنے کی کوشش کی گئی۔مینزہ ہاشمی متعدد قومی اوربین الاقوامی اعزاز ات حاصل کرچکی ہیں۔ 2002ءمیں پاکستان کے الیکٹرونک میڈیا پرعورتوں کی معتبرعکاسی کرنے پرانہیں تمغہءحسن کارکردگی دیاگیا۔ جسے وہ ملنے والے تمام اعزازات میں سب سے اہم قراردیتی ہیں۔منیزہ ہاشمی کی رہائش لاہور میں ہے لیکن اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں اور مشاورت کے لیے پوری دنیا ہی سمٹ کران کی پروازمیں آچکی ہے۔
اعتراف میں منیزہ ہاشمی نے پروگرام”تم جوچاہوتوسنو“ کے پروڈیوسرشوکت زین العابدین کوخراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا۔”شوکت اس سیریز کے پروڈیوسر،ڈائریکٹرتھے۔پروجیکٹ کے لیے ہرقدم پران کابے پناہ تعاون ہم سب کے ساتھ رہا۔آج وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن شوکت زین العابدین نہ صرف پی ٹی وی میں میرے دوست اورساتھی تھے بلکہ میرے استاداوررہنمابھی تھے۔اس کتاب میں چھ خواتین نے میرابھرپورساتھ دیا۔عائشہ سروری نے انٹرویوزکاانگریزی میں ترجمہ کیا،خزیمہ فاطمہ حق اورمریم عباسی نے منتخب خواتین کے حالات ِزندگی کے بارے میں تحقیق کی۔آمنہ علی،مہوش حیدرعلی اورفرح نورنے کتاب کے مسودے کوموجودہ شکل دی اورنیررباب نے اس کااردوترجمہ کیا۔“
پاکستان کی پہلی انگریزی ناول نگاربیپسی سدھواجن کاانٹرویوبھی کتاب میں شامل ہے،پیش لفظ میںوہ لکھتی ہیں۔”میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں کہ منیزہ ہاشمی کی جانب سے اس کتاب کاپیش لفظ لکھنے کی دعوت مجھے دی گئی،جنہوں نے ٹی وی سیریز”تم جوچاہوتوسنو“کوتخلیق کیا اوراس کی میزبانی کے فرائض انجام دیے۔اس کتاب میں منیزہ نے بیس نامورخواتین کے انٹرویوزکوتحریرکیاہے جواس سیریز کاحصہ تھیں ، انہوں نے انٹرویوکی جانے والی ہرشخصیت کے حوالے سے اپنی یادوں،احساسات اورتاثرات کوبھی قلم بندکیاہے تاکہ پڑھنے والے جان سکیں کہ انٹرویو کی ریکارڈنگ سے پہلے اوردوران کیاہورہاتھاتاکہ قاری اپنے آپ کووہیں محسوس کرسکے۔سوسے زائد نامور کامیاب مردوں اورعورتوں کے انٹرویوز،اس سیریز کے لیے کیے گئے،جن کاتعلق سیاست،قانون، مصوری، شاعری، موسیقی، سائنس، کھیل، اداکاری ، رقص ، ادبیات،تھیٹر وغیرہ سے تھا۔یہ سلسلہ بہت مقبول ہوااوراسے پی ٹی وی کی بہترین پیشہ ورانہ پروڈکشن قرار دیاگیا۔پروگرام کامقصدان غیر معمولی افرادکوایساموقع فراہم کرناتھاجس میں وہ اپنی زندگی کے بارے میں آسانی سے ناظرین کے ساتھ کھراسچ بیان کرسکیںاوردوسری طرف ناظرین کی اس خواہش کوپوراکیاگیاکہ وہ جن لوگوں کوپوجتے ہیں،مگردوررہتے ہیں،ان کی کہانی انہی کی زبانی سن سکیں،یوں کہیں تو بے جا نہ ہوگاکہ منیزہ نے عاشق اورمعشوق کی ملاقات کاایک منفردطریقہ اختیارکیا۔پروگرام کی تخلیق کارمنیزہ ہاشمی نے چھوٹی اسکرین پر میزبان اورمہمان کے درمیان ایک اچھوتاتعلق قائم کیا۔انٹرویوکے عام روایتی طریقے سے بالکل مختلف ۔انٹرویولینے والے کے لیے کیمرے کی آنکھ بندکردی گئی تھی،تمام سوالات مہمان کے چہرے کے تاثرات کے ساتھ سنائی دیتے۔منیزہ نے اس کی وضاحت کرنے ہوئے کہا۔میں چاہتی تھی مرکزِ نگاہ صرف مہمان ہوناظرین اس کے کہے ایک ایک لفظ کوتوجہ سے سنیں اوراس کے جذبات کوسمجھیں۔دیکھنے والا میرے مہمان کے ساتھ جڑجائے ،ناظرین میرے مہمان کووہ عزت اوراہمیت دیں،جس کاوہ حقدارہے۔میں اُن خوش قسمت خواتین میں سے ایک ہوں ،جن کااس اندازسے انٹرویوکیاگیا۔سوال پوچھنے کے بعدانہوں نے کبھی گفتگوکے دوران ٹوکانہیں،کہنے والے نے جب اپنی بات مکمل کی تب ہی آگے بڑھے۔منیزہ نے بتایاکہ انہیں بہت زیادہ کوفت ہوتی ہے جب انٹرویولینے والے لمبے لمبے سوال پوچھتے ہیں،اورمہمان پراپنی معلومات کارعب ڈالنے کی کوشش کرتے ہی اوروہ تمام باتیں بھی خودبیان کردیتے ہیں جس کی وجہ سے اس شخص کوانٹرو یودینے کے لیے بلایاگیاہے۔وہ اپنے مہمان کولاکھوں لوگوں کے سامنے نیچادکھاکرشرمندہ کرتے ہیں۔پورے شوکے دوران میرا مقصد صرف یہ ہوتاہے کہ مہمان نوازی کے تقاضوں کوپوراکیاجائے اورجووہ کہناچاہتے ہیں اس کوتوجہ سے سناجائے۔اپنے اسی نظریہ کی بنیاد پر انہوں نے میراانٹرویوکیااورمیری کسی بات کے دران مداخلت نہیں کی۔“
”کون ہوں میں؟“ میں جن نامورخواتین کے انٹرویوزشامل ہیں۔ان میں موسیقی سے عابدہ پروین،اداکارہ بابرہ شریف اوربہاربیگم،اردو ادب سے بانوقدسیہ اورانگریزی ادب سے بیپسی سدھوا،سیاست میں دومرتبہ کی وزیراعظم بے نظیربھٹو،سماجی خدمت میں بلقیس بانوایدھی، اسی شعبے سے نابیناڈاکٹرفاطمہ شاہ اورکوڑھ کے مریضوں کی خدمت کرنے والی رتھ فاو¿،فریدہ خانم،ملکہ پکھراج،سیاست ہی سے بیگم نسیم ولی خان،فلم سے صبیحہ خانم،شمیم آرا،سورن لتا، فنون لطیفہ سے سلیمہ ہاشمی،سیاسی سماجی رہنماطاہرہ مظہرعلی،وقارالنساءنون،زری سرفراز اورشاعرہ زہرہ نگاہ کے انٹرویوزشامل ہیں۔ہرانٹرویوکے آغاز میں متعلقہ شخصیت سے ان کے متعلق چندسوالات شامل کیے گئے ہیں۔جس سے ان کے بارے میں اہم معلومات فراہم ہوجاتی ہیں،پھرہرانٹرویوسے قبل منیزہ ہاشمی پوراماحول بیان کرتی ہیں۔کتاب کے اختتام پران بیس شخصیات کی مختصرسوانح حیات بھی درج کیے گئے ہیں۔اس طرح کتاب کاقاری متعلقہ شخصیت سے پوری طرح آگاہ ہوجاتاہے۔
”کون ہوں میں؟“ کاپہلاانٹرویوملک کی نامورگلوکارہ عابدہ پروین کاہے،جواکتوبر1997ءمیں کیاگیا۔آغازمیںمنیزہ ہاشمی نے بتایا۔” عابدہ پروین کے سادہ سے کمرے میں داخل ہوتے ہی جس چیزنے مجھے چونکایااورمیرے قدم رک گئے وہ کمرے کے درمیان لگی،ہنستی مسکراتی،بڑی سی میرے اباکی تصویرتھی۔فیض احمدفیض کی تصویرجولگتاتھاکہ مجھے ہی دیکھ کرمسکرارہے ہیں۔مجھے آج بھی یادہے کہ اس تصویر کویہاں دیکھ کر،جہاں اس کی وجہ جاننے کی جستجوپیداہوئی وہیں اس بات نے مجھے بہت متاثربھی کیاتھا۔عابدہ کے ڈرائنگ روم کی سجاوٹ فرشی تھی،یہ اس وقت کی بات ہے جب عابدہ پروین کانام ہرزبان پرنہیں آیاتھا۔مگرایک صوفی درویش کے طور پرلوگ انہیں جاننے لگے تھے ۔عابدہ پروین میدانوں میں بہتے پرسکون دریاکی طرح کمرے میں داخل ہوئیں۔مجھے لگتاہے کہ ان کی چال ڈھال کواس سے بہترانداز میں بیان نہیں کیاجاسکتا۔اس قدوقامت اورجسامت کے باوجوددریاکی سی روانی کے ساتھ حرکت کرنا ،ایک عجیب سی بات لگتی ہے۔وہ کس قدراطمینان اوروقارکے ساتھ قدم اٹھاکرچلتی ہیں،جیسے کوئی نغمہ اپنے سروں کے درمیان بہتاچلاجائے،ایک طمانیت جوان کی آوازکاحصہ ہے،ایک نرمی جوان کی شخصیت میں شامل ہے۔عابدہ پروین نے اپنی زبان دانی اورگفتگوکی روانی سے ایک بارپھرمجھے حیرت زدہ کردیا۔ سندھ سے تعلق رکھنے والی اس ہمہ جہت فنکارہ کی شخصیت انتہائی منکسرالمزاج اورگوشہ نشین درویش کی صورت ابھرکرسامنے آئی۔میں اپنے آپ کوبہت خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ چند برس پہلے مجھے ان سے ملنے اورروبروبات کرنے کاموقع ملا۔جب بھی ان سے ملتی ہوںتووہ جھک کرمیرے دونوں ہاتھ تھام کراپنی آنکھوں سے لگاتی ہیں اورمیرے اباکے ساتھ اپنی محبت اوراحترام کااظہارکرتی ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ وہ جتنی بڑی فنکارہیں اس سے کہیں عظیم انسان ہیں۔“
اپریل دوہزارمیں منیزہ ہاشمی نے اداکارہ بہاربیگم سے انٹرویوکیا۔کشورعرف بہارکے بارے میں کہتی ہیں۔”بہارہماری فلم انڈسٹری میں اپنے زمانے کی واحدانگریزی بولنے والی اداکارہ تھیں۔انہوں نے کانوینٹ میں تعلیم حاصل کی،جب وہ فلموں میں آئیں توسینئرکیمبرج پاس کرچکی تھیں۔وہ اتنی روانی سے انگریزی میں اپنے خیالات کااظہارکرتی تھیں کہ اپنی ٹین ایج میں مجھے ان سے پیارہوگیاتھا۔میں سوچتی تھی کہ اتنی پرکشش ،تعلیم یافتہ خاتون فلموں میں کس طرح کام کرسکتی ہیں،یہ تودیکھنے میں ڈاکٹریااستادلگتی ہیں،وہی بننابھی چاہیے تھا۔ یہی سوال جب بہاربیگم سے کیاتوانہوں نے بتایاکہ میں سینئرکیمبرج میں تھی جب انورکمال پاشاسے ملاقات ہوئی،میں کراچی اپنے ماموں کے پاس گئی تھی اورپاشاصاحب میرے ماموں کے دوست تھے۔انہوں نے کہاکہ آپ فلموں میں کیوں نہیں آتیں۔کسی دفتر میں نوکری سے فلموں میں کام کرنا بہت بہترہے۔انہوں نے اتنی خوبصورتی سے منظرکشی کی کہ سب اس پرتیارہوگئے۔“
نامورادیبہ بانوقدسیہ کاانٹرویواپریل 1997ءمیں کیاگیا۔ان کے بارے میں منیزہ کہتی ہیں۔”بانوقدسیہ سے تعلقات کاتانابانامیرے ماڈل ٹاو¿ن شفٹ ہونے بنااورآج بھی میں انہیں بھابی جی ہی کہہ کرپکارتی ہوں۔وہ اورخان صاحب ہمارے گھرکے پاس رہاکرتے تھے ۔میرابڑابیٹاعلی اس وقت چندمہینوں کاتھا،اوراردگردکے ماحول سے شناسائی پیداکررہاتھا۔اس آیااسے روزصبح پرام میں بٹھاکرسیرکرانے لے جاتی،آہستہ آہستہ وہ روزبھابی جی کے گھرجانے لگا۔دونوں میاں بیوی اس کابہت لاڈکرتے تھے،کبھی کبھی میں بھی علی کولے کران کے گھرچلی جاتی۔میں آج بھی ان دنوں کویادکرتی ہوں جب اتنے پڑھے لکھے قابل لوگوں کے ساتھ بیٹھ کران کی باتیں سننے کاموقع ملتااوروہ دونوں اپنی زندگی کے تجربات بیان کرتے اورمیرے بیٹے پراپنی محبتیں نچھاورکرتے۔بانوقدسیہ کوانٹرویودینے کامشہورہونے سے چڑ تھی مگر مجھے بھی ضدہوگئی تھی،ان کی خوشامدکی،پاو¿ں پڑگئی،علی کی محبت کے واسطے دیے،وقت کی پابندی کاوعدہ کیا۔آخرکارتھک ہارکرمیں اپناترپ کاپتہ نکال کران کے سامنے رکھ دیا۔وہ ایک نام جوابتک نہیں لیاتھا۔نام سن کرانہوں نے میری طرف پیارسے دیکھا،اپنی نرم اورغنائی آواز میں کہا۔تمہارے والدوہ شخصیت ہیں جن کومیں پسندکرتی ہوں،جن کابہت احترام کرتی ہوں اورانہوں نے بھی ہمیشہ مجھے وہی احترام دیا ہے،تم ان کی بیٹی ہواورمیں تم سے اپنے بچوں کی طرح پیارکرتی ہوں ،اس لیے تمہیں انکارنہیں کرسکتی۔“
اتنی کاوشوں کے بعدمنیزہ ہاشمی نے بانوقدسیہ سے طویل ترین انٹرویوکیا۔جس کے لیے وہ پی ٹی وی اسٹوڈیو نہیں آئیں،منیزہ حسب ِ وعدہ ان کے گھرپہنچ گئیں۔منیزہ کے مطابق ان کے گھرکی بیٹھک میں فرش پربیٹھ کرمیں نے اپنی زندگی کے چندیادگارانٹرویوزمیں سے ایک ریکارڈ کیا۔انٹرویوکیاتھا دل سے دل کی باتیں تھیں۔انہوں نے کہاکہ مجھے آج تک نہیں معلوم کہ میرامقصدِ حیات کیاہے؟اپنے آپ کی جاننے کے لیے پچھلے دس سال بڑی مشقت میں بسرکئے ہیںتاہم پانچویں جماعت میں یہ احساس ہوگیاتھاکہ میں شائدلکھوں گی۔
منیزہ ہاشمی کاایک اوریادگارانٹرویوپاکستان کی پہلی انگریزی ناول نگاربیپسی سدھواکاہے،جودسمبر 1999ءمیں کیاگیا۔پارسی مذہب سے تعلق رکھنے والی بیپسی سدھواسے ملاقات سے پہلے منیزہ نے ان کے بارے میں بہت کچھ سناتھالیکن یہ بات معلوم نہیں تھی کہ ان کی کتاب کی اشاعت میں کوئی کردارفیض احمدفیض نے بھی اداکیاتھا۔وہ لکھتی ہیں۔”دوپہرکے کھانے پرلاہورکینٹ میں بنے ان کے خوبصورت گھر پہنچی تودی برائڈ کی مصنفہ ان سے ملنے کے لیے کتنی بے تاب اورمشتاق تھیں۔میں نے ان کاناول ایک نشست میں پڑھاتھا اوراس پرپی ٹی وی کاسیریل بنانے کاسوچ رہی تھی۔ان کی بیٹی پری زادمیری طالبہ رہی تھی۔اس سے ،اکثراس کی ماں کی تحریروں کے حوالے سے بات کیا کرتی لیکن میںکبھی بھی بیپسی اوران کی لکھنے کی عادات اورروانی کی وجہ نہ جان سکی۔بیپسی کی آوازسن کرکانوں میں گھنٹیاں بجتی ہیں اورمنہ سے پھول جھڑتے ہیں۔میں جب ان سے انٹرویوکے لیے پی ٹی وی اسٹوڈیومیں بیٹھی تھی تووہ حسبِ معمول بہت پرسکون تھیں اوران کے چاروں طرف میرااسٹاف ناچتاپھررہاتھا۔میرے سامنے دنیاکی مشہورمصنفہ موجودتھی جوکبھی اسکول نہیں گئی،جوپولیوکاشکارہوئی تھی اورجس کی وجہ سے اس کابچپن ادھورا رہ گیاتھا۔اسی لیے پہلاسوال ہی بچپن کے بارے میں کیا۔انہوں نے بتایا،بچپن میں مجھے پولیوہوگیاتھا۔ ڈاکٹروں نے والدین سے کہاکہ مجھے اسکول بھیجنامناسب نہیں ہوگاکیونکہ میں بچوں کامذاق نہیں سہہ سکوں گی۔اسی وجہ سے میرے کئی آپریشنزہوئے اورمیں اسکول نہیں جاسکی۔میں گھرپرٹیوشن لتی تھی ۔آپ کہہ سکتی ہیں کہ میں تقریباً خود ہی پڑھا۔میرابچپن تنہائی میں گزرا، اورہروقت پڑھتی رہتی تھی ۔اب مجھے لگتاہے کہ یہ سراسرمیرے فائدے میں تھا۔اسی وجہ سے میں نے لکھناشروع کیا۔وہ بہت اچھاوقت تھا۔“
منیزہ ہاشمی کے پروگرام”تم جوچاہوتوسنو“ کااہم ترین انٹرویودنیا کی پہلی مسلمان خاتون وزیراعظم محترمہ بے نظیربھٹوکاتھا۔جوفروری 1995ءمیں بے نظیربھٹوکی وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دورمیں لیاگیا۔انٹرویوسے قبل منیزہ ہاشمی کافی شش وپنج کاشکارتھیں۔موجودہ وزیرِ اعظم سے کوئی کیاسوال کرسکتاہے؟ میں ان کوکس طرح مخاطب کروں گی؟اس طرح کے سوالات نے ان کے دماغ میں گھوم رہے تھے جب چمکتی دوپہرمیں ان کاجہازاسلام آبادایئرپورٹ پراترا۔”بی بی کی قریبی دوست اوراس وقت کی وزیرِتعلیم شہنازوزیرعلی نے بتایا۔آپ ان سے میڈم پرائم منسٹرکہہ کربات کریں گی۔پریشان ہونے کی ضرورت نہیں وہ بہت اچھی عادت کی مالک ہیں۔بے نظیربھٹوایک شاہانہ انداز لئے کمرے میں داخل ہوئیں،فرحت اللہ بابران کے پیچھے تھے۔میں انہیں دیکھ کراپنی جگہ کھڑی ہوگئی اورایک جھٹکے سے واپس بیٹھ گئی کیونکہ میرے مائیک لگاہواتھا۔انہوں نے کسی کومخاطب کیے بغیرپوچھامجھے کہاں بیٹھناہے؟ جب وہ بیٹھ گئیں تومیں نے سلام دعاکی اورشکریہ ادا کیا۔جس کاانہوں نے بہت محبت سے جواب دیا۔وہ ٹینیکل امورسے فارغ ہوکرمیری طرف متوجہ ہوئیں اورمسکراتے ہوئے کہنے لگیں ۔ میں بہت ملانی تونہیں لگ رہی نا۔میں نے کہا،میڈم پرائم منسٹراجازت ہوتوہم شروع کریں۔جی ہاں ضرور۔میں نے کہا۔میڈم میں بہت نروس ہوں ۔جس پرانہوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔کیوں۔۔آپ نروس کیوں ہیں؟انٹرویوتومجھے دیناہے۔میری یادوں میں میرے پروفیشن کی اس سے یادگارصبح کوئی اورکہاں ہوسکتی ہے؟۔“
”کون ہوں میں؟“ ایسی بیس نامورخواتین کی دلچسپ اورپرازمعلومات گفتگوسے سجی ہے۔ہرگفتگومیں کوئی نیاپہلو،کوئی نئی بات قاری کے علم میں آتی ہے اورکتاب ختم کرنے کے بعد ان خواتین سے جڑی ہراہم بات ان کی یادداشت کاحصہ بن جاتی ہے۔دلچسپ کتاب کے بعد اس کے دوسرے حصے کاانتظاریقینا رہے گا۔
کون ہوں میں؟پاکستان کی 20کامیاب ترین خواتین کے انٹرویوز
تحریر:نعیم الرحمٰن
”کون ہوں میں؟“ ایک منفرد اوردلچسپ ترین کتاب ہے۔اس کی اہم خصوصیت تویہ ہے کہ یہ کتاب فیض احمدفیض کی صاحبزادی منیزہ ہاشمی کی تحریرکردہ ہے اوراس کا پیش لفظ پاکستان کی پہلی انگریزی ناول نگاربیپسی سدھوانے لکھاہے۔پاکستان ٹیلیویژن نے نوے کی دہائی میںایک مقبول پروگرام”تم جوچاہوتوسنو“پیش کیا۔پروگرام کامرکزی خیال 1960ءمیں پی بی ایس سے چلنے والی سیریز”فیس توفیس“ سے لیاگیاتھا اوراس کاٹائٹل فیض احمدفیض کی نظم ”تم جوچاہوتوسنو،اورنہ چاہونہ سنو“سے اخذکیاگیاتھا۔جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کارہائے نمایاں انجام دینے والے مشہورخواتین وحضرات کے انٹرویوزپیش کیے گئے۔ پروگرام کی میزبان منیزہ ہاشمی تھیں اوریہ پروگرام 1997ءسے 2002ءتک پیش کیاجاتارہا۔اس میں سوسے زائدمشہورشخصیات کے انٹرویوز پیش کیے گیے۔منیزہ ہاشمی پی ٹی وی کی سینئر پروڈیوسر تھیں اوراس وقت کے پالیسی کے مطابق ٹی وی کاکوئی ملازم آن ایئرنہیں آسکتاتھا۔ منیزہ ہاشمی کے لیے خصوصی اجازت حاصل کی گئی ۔’کتاب’کون ہوں میں؟“ میں پروگرام میں شامل پاکستان کے مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والی بیس مشہورخواتین کے انٹرویوز کو شامل کیا گیاہے۔ان میںموسیقی،فلم،اردوادب،انگریزی ادب،سیاست،سماجی خدمات،فنونِ لطیفہ اورشاعری کی نامور خواتین شامل ہیں ۔ کتاب میں پاکستان کی ان مشہورومعروف خواتین کی زندگی اورجس میدان میں انہوں نے کام کرکے نام کمایا،اسے پیش کیاگیا ہے۔ منیزہاشمی کاارادہ اس کتاب کادوسراحصہ بھی پیش کرنے کاہے، جوملک کے نامورمردوں کے بارے میں ہوگا ۔
منیزہ ہاشمی نے علامہ اقبال کے بعد بیسویں صدی کے سب سے بڑے اردوشاعرفیض احمدفیض اورایلس فیض کے گھرمیں جنم لیا۔کینرڈکالج اورپنجاب یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔1981ءمیں ہوائی یونیورسٹی سے ماسٹرزکی ڈگری حاصل کی۔کئی شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دیے اوردے رہی ہیں اورکامن ویلتھ براڈکاسٹنگ ایسوسی ایشن کی دوبارصدرمنتخب ہوئیں۔ہم ٹی وی پاکستان کی جنرل منیجربین الاقوامی تعلقات ہیں،لائٹ اسٹورم انٹرٹینمنٹ کی پروجیکٹ ایڈوائزراورفیض فاو¿نڈیشن اورفیض گھرکی ٹرسٹی ہیں۔منیزہ ہاشمی بنیادی طور پر ماہر ِ تعلیم ہیں اوران کاشعبہ بنیادی اورپرائمری تعلیم ہے،انہوں نے ٹی وی کی دنیامیں1967ءمیں قدم رکھااورپی ٹی وی لاہورمیں پروڈیو سر کی حیثیت سے کام کاآغازکیااورجلد ہی خوبصورت پروگراموںاورتخلیقی صلاحیتوں کی وجہ سے اپنی الگ شناخت قائم کرلی ۔ 2004ءمیں وہ پی ٹی وی میں پروگرام ڈائریکٹرکے عہدے سے ریٹائرہوئیں۔وہ پی ٹی وی کی تاریخ میں آج تک اس عہدے تک پہنچنے والی واحدخاتون ہیں۔انہوں نے پہلی بارپی ٹی وی پر”خواتین ٹائمز“ کے نام سے عورتوں کے لیے خصوصی نشریات کا آغازکیا۔جس میں ٹی وی ناظرین میں جنس،انسانی حقوق،اقلیتوں کے حقوق،تولیدی صحت،تعلیم،عورت کی معاشی خودمختاری،عورت کے قانونی حقوق اور عورتوں پرتشددجیسے موضوعات پرمعلومات فراہم کرنے اورشعوراجاگرکرنے کی کوشش کی گئی۔مینزہ ہاشمی متعدد قومی اوربین الاقوامی اعزاز ات حاصل کرچکی ہیں۔ 2002ءمیں پاکستان کے الیکٹرونک میڈیا پرعورتوں کی معتبرعکاسی کرنے پرانہیں تمغہءحسن کارکردگی دیاگیا۔ جسے وہ ملنے والے تمام اعزازات میں سب سے اہم قراردیتی ہیں۔منیزہ ہاشمی کی رہائش لاہور میں ہے لیکن اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں اور مشاورت کے لیے پوری دنیا ہی سمٹ کران کی پروازمیں آچکی ہے۔
اعتراف میں منیزہ ہاشمی نے پروگرام”تم جوچاہوتوسنو“ کے پروڈیوسرشوکت زین العابدین کوخراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا۔”شوکت اس سیریز کے پروڈیوسر،ڈائریکٹرتھے۔پروجیکٹ کے لیے ہرقدم پران کابے پناہ تعاون ہم سب کے ساتھ رہا۔آج وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن شوکت زین العابدین نہ صرف پی ٹی وی میں میرے دوست اورساتھی تھے بلکہ میرے استاداوررہنمابھی تھے۔اس کتاب میں چھ خواتین نے میرابھرپورساتھ دیا۔عائشہ سروری نے انٹرویوزکاانگریزی میں ترجمہ کیا،خزیمہ فاطمہ حق اورمریم عباسی نے منتخب خواتین کے حالات ِزندگی کے بارے میں تحقیق کی۔آمنہ علی،مہوش حیدرعلی اورفرح نورنے کتاب کے مسودے کوموجودہ شکل دی اورنیررباب نے اس کااردوترجمہ کیا۔“
پاکستان کی پہلی انگریزی ناول نگاربیپسی سدھواجن کاانٹرویوبھی کتاب میں شامل ہے،پیش لفظ میںوہ لکھتی ہیں۔”میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں کہ منیزہ ہاشمی کی جانب سے اس کتاب کاپیش لفظ لکھنے کی دعوت مجھے دی گئی،جنہوں نے ٹی وی سیریز”تم جوچاہوتوسنو“کوتخلیق کیا اوراس کی میزبانی کے فرائض انجام دیے۔اس کتاب میں منیزہ نے بیس نامورخواتین کے انٹرویوزکوتحریرکیاہے جواس سیریز کاحصہ تھیں ، انہوں نے انٹرویوکی جانے والی ہرشخصیت کے حوالے سے اپنی یادوں،احساسات اورتاثرات کوبھی قلم بندکیاہے تاکہ پڑھنے والے جان سکیں کہ انٹرویو کی ریکارڈنگ سے پہلے اوردوران کیاہورہاتھاتاکہ قاری اپنے آپ کووہیں محسوس کرسکے۔سوسے زائد نامور کامیاب مردوں اورعورتوں کے انٹرویوز،اس سیریز کے لیے کیے گئے،جن کاتعلق سیاست،قانون، مصوری، شاعری، موسیقی، سائنس، کھیل، اداکاری ، رقص ، ادبیات،تھیٹر وغیرہ سے تھا۔یہ سلسلہ بہت مقبول ہوااوراسے پی ٹی وی کی بہترین پیشہ ورانہ پروڈکشن قرار دیاگیا۔پروگرام کامقصدان غیر معمولی افرادکوایساموقع فراہم کرناتھاجس میں وہ اپنی زندگی کے بارے میں آسانی سے ناظرین کے ساتھ کھراسچ بیان کرسکیںاوردوسری طرف ناظرین کی اس خواہش کوپوراکیاگیاکہ وہ جن لوگوں کوپوجتے ہیں،مگردوررہتے ہیں،ان کی کہانی انہی کی زبانی سن سکیں،یوں کہیں تو بے جا نہ ہوگاکہ منیزہ نے عاشق اورمعشوق کی ملاقات کاایک منفردطریقہ اختیارکیا۔پروگرام کی تخلیق کارمنیزہ ہاشمی نے چھوٹی اسکرین پر میزبان اورمہمان کے درمیان ایک اچھوتاتعلق قائم کیا۔انٹرویوکے عام روایتی طریقے سے بالکل مختلف ۔انٹرویولینے والے کے لیے کیمرے کی آنکھ بندکردی گئی تھی،تمام سوالات مہمان کے چہرے کے تاثرات کے ساتھ سنائی دیتے۔منیزہ نے اس کی وضاحت کرنے ہوئے کہا۔میں چاہتی تھی مرکزِ نگاہ صرف مہمان ہوناظرین اس کے کہے ایک ایک لفظ کوتوجہ سے سنیں اوراس کے جذبات کوسمجھیں۔دیکھنے والا میرے مہمان کے ساتھ جڑجائے ،ناظرین میرے مہمان کووہ عزت اوراہمیت دیں،جس کاوہ حقدارہے۔میں اُن خوش قسمت خواتین میں سے ایک ہوں ،جن کااس اندازسے انٹرویوکیاگیا۔سوال پوچھنے کے بعدانہوں نے کبھی گفتگوکے دوران ٹوکانہیں،کہنے والے نے جب اپنی بات مکمل کی تب ہی آگے بڑھے۔منیزہ نے بتایاکہ انہیں بہت زیادہ کوفت ہوتی ہے جب انٹرویولینے والے لمبے لمبے سوال پوچھتے ہیں،اورمہمان پراپنی معلومات کارعب ڈالنے کی کوشش کرتے ہی اوروہ تمام باتیں بھی خودبیان کردیتے ہیں جس کی وجہ سے اس شخص کوانٹرو یودینے کے لیے بلایاگیاہے۔وہ اپنے مہمان کولاکھوں لوگوں کے سامنے نیچادکھاکرشرمندہ کرتے ہیں۔پورے شوکے دوران میرا مقصد صرف یہ ہوتاہے کہ مہمان نوازی کے تقاضوں کوپوراکیاجائے اورجووہ کہناچاہتے ہیں اس کوتوجہ سے سناجائے۔اپنے اسی نظریہ کی بنیاد پر انہوں نے میراانٹرویوکیااورمیری کسی بات کے دران مداخلت نہیں کی۔“
”کون ہوں میں؟“ میں جن نامورخواتین کے انٹرویوزشامل ہیں۔ان میں موسیقی سے عابدہ پروین،اداکارہ بابرہ شریف اوربہاربیگم،اردو ادب سے بانوقدسیہ اورانگریزی ادب سے بیپسی سدھوا،سیاست میں دومرتبہ کی وزیراعظم بے نظیربھٹو،سماجی خدمت میں بلقیس بانوایدھی، اسی شعبے سے نابیناڈاکٹرفاطمہ شاہ اورکوڑھ کے مریضوں کی خدمت کرنے والی رتھ فاو¿،فریدہ خانم،ملکہ پکھراج،سیاست ہی سے بیگم نسیم ولی خان،فلم سے صبیحہ خانم،شمیم آرا،سورن لتا، فنون لطیفہ سے سلیمہ ہاشمی،سیاسی سماجی رہنماطاہرہ مظہرعلی،وقارالنساءنون،زری سرفراز اورشاعرہ زہرہ نگاہ کے انٹرویوزشامل ہیں۔ہرانٹرویوکے آغاز میں متعلقہ شخصیت سے ان کے متعلق چندسوالات شامل کیے گئے ہیں۔جس سے ان کے بارے میں اہم معلومات فراہم ہوجاتی ہیں،پھرہرانٹرویوسے قبل منیزہ ہاشمی پوراماحول بیان کرتی ہیں۔کتاب کے اختتام پران بیس شخصیات کی مختصرسوانح حیات بھی درج کیے گئے ہیں۔اس طرح کتاب کاقاری متعلقہ شخصیت سے پوری طرح آگاہ ہوجاتاہے۔
”کون ہوں میں؟“ کاپہلاانٹرویوملک کی نامورگلوکارہ عابدہ پروین کاہے،جواکتوبر1997ءمیں کیاگیا۔آغازمیںمنیزہ ہاشمی نے بتایا۔” عابدہ پروین کے سادہ سے کمرے میں داخل ہوتے ہی جس چیزنے مجھے چونکایااورمیرے قدم رک گئے وہ کمرے کے درمیان لگی،ہنستی مسکراتی،بڑی سی میرے اباکی تصویرتھی۔فیض احمدفیض کی تصویرجولگتاتھاکہ مجھے ہی دیکھ کرمسکرارہے ہیں۔مجھے آج بھی یادہے کہ اس تصویر کویہاں دیکھ کر،جہاں اس کی وجہ جاننے کی جستجوپیداہوئی وہیں اس بات نے مجھے بہت متاثربھی کیاتھا۔عابدہ کے ڈرائنگ روم کی سجاوٹ فرشی تھی،یہ اس وقت کی بات ہے جب عابدہ پروین کانام ہرزبان پرنہیں آیاتھا۔مگرایک صوفی درویش کے طور پرلوگ انہیں جاننے لگے تھے ۔عابدہ پروین میدانوں میں بہتے پرسکون دریاکی طرح کمرے میں داخل ہوئیں۔مجھے لگتاہے کہ ان کی چال ڈھال کواس سے بہترانداز میں بیان نہیں کیاجاسکتا۔اس قدوقامت اورجسامت کے باوجوددریاکی سی روانی کے ساتھ حرکت کرنا ،ایک عجیب سی بات لگتی ہے۔وہ کس قدراطمینان اوروقارکے ساتھ قدم اٹھاکرچلتی ہیں،جیسے کوئی نغمہ اپنے سروں کے درمیان بہتاچلاجائے،ایک طمانیت جوان کی آوازکاحصہ ہے،ایک نرمی جوان کی شخصیت میں شامل ہے۔عابدہ پروین نے اپنی زبان دانی اورگفتگوکی روانی سے ایک بارپھرمجھے حیرت زدہ کردیا۔ سندھ سے تعلق رکھنے والی اس ہمہ جہت فنکارہ کی شخصیت انتہائی منکسرالمزاج اورگوشہ نشین درویش کی صورت ابھرکرسامنے آئی۔میں اپنے آپ کوبہت خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ چند برس پہلے مجھے ان سے ملنے اورروبروبات کرنے کاموقع ملا۔جب بھی ان سے ملتی ہوںتووہ جھک کرمیرے دونوں ہاتھ تھام کراپنی آنکھوں سے لگاتی ہیں اورمیرے اباکے ساتھ اپنی محبت اوراحترام کااظہارکرتی ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ وہ جتنی بڑی فنکارہیں اس سے کہیں عظیم انسان ہیں۔“
اپریل دوہزارمیں منیزہ ہاشمی نے اداکارہ بہاربیگم سے انٹرویوکیا۔کشورعرف بہارکے بارے میں کہتی ہیں۔”بہارہماری فلم انڈسٹری میں اپنے زمانے کی واحدانگریزی بولنے والی اداکارہ تھیں۔انہوں نے کانوینٹ میں تعلیم حاصل کی،جب وہ فلموں میں آئیں توسینئرکیمبرج پاس کرچکی تھیں۔وہ اتنی روانی سے انگریزی میں اپنے خیالات کااظہارکرتی تھیں کہ اپنی ٹین ایج میں مجھے ان سے پیارہوگیاتھا۔میں سوچتی تھی کہ اتنی پرکشش ،تعلیم یافتہ خاتون فلموں میں کس طرح کام کرسکتی ہیں،یہ تودیکھنے میں ڈاکٹریااستادلگتی ہیں،وہی بننابھی چاہیے تھا۔ یہی سوال جب بہاربیگم سے کیاتوانہوں نے بتایاکہ میں سینئرکیمبرج میں تھی جب انورکمال پاشاسے ملاقات ہوئی،میں کراچی اپنے ماموں کے پاس گئی تھی اورپاشاصاحب میرے ماموں کے دوست تھے۔انہوں نے کہاکہ آپ فلموں میں کیوں نہیں آتیں۔کسی دفتر میں نوکری سے فلموں میں کام کرنا بہت بہترہے۔انہوں نے اتنی خوبصورتی سے منظرکشی کی کہ سب اس پرتیارہوگئے۔“
نامورادیبہ بانوقدسیہ کاانٹرویواپریل 1997ءمیں کیاگیا۔ان کے بارے میں منیزہ کہتی ہیں۔”بانوقدسیہ سے تعلقات کاتانابانامیرے ماڈل ٹاو¿ن شفٹ ہونے بنااورآج بھی میں انہیں بھابی جی ہی کہہ کرپکارتی ہوں۔وہ اورخان صاحب ہمارے گھرکے پاس رہاکرتے تھے ۔میرابڑابیٹاعلی اس وقت چندمہینوں کاتھا،اوراردگردکے ماحول سے شناسائی پیداکررہاتھا۔اس آیااسے روزصبح پرام میں بٹھاکرسیرکرانے لے جاتی،آہستہ آہستہ وہ روزبھابی جی کے گھرجانے لگا۔دونوں میاں بیوی اس کابہت لاڈکرتے تھے،کبھی کبھی میں بھی علی کولے کران کے گھرچلی جاتی۔میں آج بھی ان دنوں کویادکرتی ہوں جب اتنے پڑھے لکھے قابل لوگوں کے ساتھ بیٹھ کران کی باتیں سننے کاموقع ملتااوروہ دونوں اپنی زندگی کے تجربات بیان کرتے اورمیرے بیٹے پراپنی محبتیں نچھاورکرتے۔بانوقدسیہ کوانٹرویودینے کامشہورہونے سے چڑ تھی مگر مجھے بھی ضدہوگئی تھی،ان کی خوشامدکی،پاو¿ں پڑگئی،علی کی محبت کے واسطے دیے،وقت کی پابندی کاوعدہ کیا۔آخرکارتھک ہارکرمیں اپناترپ کاپتہ نکال کران کے سامنے رکھ دیا۔وہ ایک نام جوابتک نہیں لیاتھا۔نام سن کرانہوں نے میری طرف پیارسے دیکھا،اپنی نرم اورغنائی آواز میں کہا۔تمہارے والدوہ شخصیت ہیں جن کومیں پسندکرتی ہوں،جن کابہت احترام کرتی ہوں اورانہوں نے بھی ہمیشہ مجھے وہی احترام دیا ہے،تم ان کی بیٹی ہواورمیں تم سے اپنے بچوں کی طرح پیارکرتی ہوں ،اس لیے تمہیں انکارنہیں کرسکتی۔“
اتنی کاوشوں کے بعدمنیزہ ہاشمی نے بانوقدسیہ سے طویل ترین انٹرویوکیا۔جس کے لیے وہ پی ٹی وی اسٹوڈیو نہیں آئیں،منیزہ حسب ِ وعدہ ان کے گھرپہنچ گئیں۔منیزہ کے مطابق ان کے گھرکی بیٹھک میں فرش پربیٹھ کرمیں نے اپنی زندگی کے چندیادگارانٹرویوزمیں سے ایک ریکارڈ کیا۔انٹرویوکیاتھا دل سے دل کی باتیں تھیں۔انہوں نے کہاکہ مجھے آج تک نہیں معلوم کہ میرامقصدِ حیات کیاہے؟اپنے آپ کی جاننے کے لیے پچھلے دس سال بڑی مشقت میں بسرکئے ہیںتاہم پانچویں جماعت میں یہ احساس ہوگیاتھاکہ میں شائدلکھوں گی۔
منیزہ ہاشمی کاایک اوریادگارانٹرویوپاکستان کی پہلی انگریزی ناول نگاربیپسی سدھواکاہے،جودسمبر 1999ءمیں کیاگیا۔پارسی مذہب سے تعلق رکھنے والی بیپسی سدھواسے ملاقات سے پہلے منیزہ نے ان کے بارے میں بہت کچھ سناتھالیکن یہ بات معلوم نہیں تھی کہ ان کی کتاب کی اشاعت میں کوئی کردارفیض احمدفیض نے بھی اداکیاتھا۔وہ لکھتی ہیں۔”دوپہرکے کھانے پرلاہورکینٹ میں بنے ان کے خوبصورت گھر پہنچی تودی برائڈ کی مصنفہ ان سے ملنے کے لیے کتنی بے تاب اورمشتاق تھیں۔میں نے ان کاناول ایک نشست میں پڑھاتھا اوراس پرپی ٹی وی کاسیریل بنانے کاسوچ رہی تھی۔ان کی بیٹی پری زادمیری طالبہ رہی تھی۔اس سے ،اکثراس کی ماں کی تحریروں کے حوالے سے بات کیا کرتی لیکن میںکبھی بھی بیپسی اوران کی لکھنے کی عادات اورروانی کی وجہ نہ جان سکی۔بیپسی کی آوازسن کرکانوں میں گھنٹیاں بجتی ہیں اورمنہ سے پھول جھڑتے ہیں۔میں جب ان سے انٹرویوکے لیے پی ٹی وی اسٹوڈیومیں بیٹھی تھی تووہ حسبِ معمول بہت پرسکون تھیں اوران کے چاروں طرف میرااسٹاف ناچتاپھررہاتھا۔میرے سامنے دنیاکی مشہورمصنفہ موجودتھی جوکبھی اسکول نہیں گئی،جوپولیوکاشکارہوئی تھی اورجس کی وجہ سے اس کابچپن ادھورا رہ گیاتھا۔اسی لیے پہلاسوال ہی بچپن کے بارے میں کیا۔انہوں نے بتایا،بچپن میں مجھے پولیوہوگیاتھا۔ ڈاکٹروں نے والدین سے کہاکہ مجھے اسکول بھیجنامناسب نہیں ہوگاکیونکہ میں بچوں کامذاق نہیں سہہ سکوں گی۔اسی وجہ سے میرے کئی آپریشنزہوئے اورمیں اسکول نہیں جاسکی۔میں گھرپرٹیوشن لتی تھی ۔آپ کہہ سکتی ہیں کہ میں تقریباً خود ہی پڑھا۔میرابچپن تنہائی میں گزرا، اورہروقت پڑھتی رہتی تھی ۔اب مجھے لگتاہے کہ یہ سراسرمیرے فائدے میں تھا۔اسی وجہ سے میں نے لکھناشروع کیا۔وہ بہت اچھاوقت تھا۔“
منیزہ ہاشمی کے پروگرام”تم جوچاہوتوسنو“ کااہم ترین انٹرویودنیا کی پہلی مسلمان خاتون وزیراعظم محترمہ بے نظیربھٹوکاتھا۔جوفروری 1995ءمیں بے نظیربھٹوکی وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دورمیں لیاگیا۔انٹرویوسے قبل منیزہ ہاشمی کافی شش وپنج کاشکارتھیں۔موجودہ وزیرِ اعظم سے کوئی کیاسوال کرسکتاہے؟ میں ان کوکس طرح مخاطب کروں گی؟اس طرح کے سوالات نے ان کے دماغ میں گھوم رہے تھے جب چمکتی دوپہرمیں ان کاجہازاسلام آبادایئرپورٹ پراترا۔”بی بی کی قریبی دوست اوراس وقت کی وزیرِتعلیم شہنازوزیرعلی نے بتایا۔آپ ان سے میڈم پرائم منسٹرکہہ کربات کریں گی۔پریشان ہونے کی ضرورت نہیں وہ بہت اچھی عادت کی مالک ہیں۔بے نظیربھٹوایک شاہانہ انداز لئے کمرے میں داخل ہوئیں،فرحت اللہ بابران کے پیچھے تھے۔میں انہیں دیکھ کراپنی جگہ کھڑی ہوگئی اورایک جھٹکے سے واپس بیٹھ گئی کیونکہ میرے مائیک لگاہواتھا۔انہوں نے کسی کومخاطب کیے بغیرپوچھامجھے کہاں بیٹھناہے؟ جب وہ بیٹھ گئیں تومیں نے سلام دعاکی اورشکریہ ادا کیا۔جس کاانہوں نے بہت محبت سے جواب دیا۔وہ ٹینیکل امورسے فارغ ہوکرمیری طرف متوجہ ہوئیں اورمسکراتے ہوئے کہنے لگیں ۔ میں بہت ملانی تونہیں لگ رہی نا۔میں نے کہا،میڈم پرائم منسٹراجازت ہوتوہم شروع کریں۔جی ہاں ضرور۔میں نے کہا۔میڈم میں بہت نروس ہوں ۔جس پرانہوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔کیوں۔۔آپ نروس کیوں ہیں؟انٹرویوتومجھے دیناہے۔میری یادوں میں میرے پروفیشن کی اس سے یادگارصبح کوئی اورکہاں ہوسکتی ہے؟۔“
”کون ہوں میں؟“ ایسی بیس نامورخواتین کی دلچسپ اورپرازمعلومات گفتگوسے سجی ہے۔ہرگفتگومیں کوئی نیاپہلو،کوئی نئی بات قاری کے علم میں آتی ہے اورکتاب ختم کرنے کے بعد ان خواتین سے جڑی ہراہم بات ان کی یادداشت کاحصہ بن جاتی ہے۔دلچسپ کتاب کے بعد اس کے دوسرے حصے کاانتظاریقینا رہے گا۔