پندرہ سال پہلے کی بات ہے ممبئی بارشوں میں ڈوب گیا، ایسی ہولناک بارش کہ پورا شہر دریا بن گیا، بجلی کے پول تک پانی، لوگ گھنٹوں نہیں دنوں تک چھتوں اور اونچی عمارات پر محصور کھانے پینے کو محتاج رہے۔ بھارت کا تجارتی مرکز جولائی 2005 میں 994 ملی میٹر بارش، لگ بھگ 11 سو لوگ ہلاک ہوئے، لوکل ٹرین سروس، ٹیلیفون، اسپتال، ایمبولنس، گویا پورا نظام حقیقی معنوں میں تہس نہس ہو گیا، ایک ہفتے میں 100 ملین ڈالرز کا نقصان ہوا۔ تحقیقاتی مقالے لکھے گئے، فلمیں بنیں، نیشنل جیوگرافک نے بھی اس المیے پر ڈاکومنٹری بنائی ہے۔ وجہ کیا تھی، جناب اندھا دھند تعمیرات، کنکریٹ کا جنگل، نکاسی آب کی قدرتی گزرگاہوں پر پلازے بنا دیئے گئے، ندی نالے سکیڑ کر ہائی رائز بلڈنگز اگا گئیں، خاص طور پر شہر سے پانی سمندر میں جانیوالے راستوں میں رکاوٹ کے باعث پانی نے ایسا طوفان مچایا کہ چاروں طرف سیلاب، پانی کو سمندر جانے کا راستہ نہ ملے تو تباہی ناگزیر ہے۔
اب ذرا کراچی کی صورتحال ملاحظہ فرمائیں، یہی کچھ شہر قائد میں بھی ہوا اور مسلسل ہو رہا ہے مگر ٹہریئے کراچی کی صورتحال ممبئی سے زیادہ گھمبیر ہے۔ شہر قائد کسی ایک ادارے کے تحت یا کسی ایک منصوبہ بندی کے تحت نہیں، سندھ اور شہری حکومت کو گالی دینا نہایت آسان ہے مگر کیا مسئلہ صرف اتنا ہی ہے؟ نہیں جناب صورتحال یہ ہے کہ شہر کا 40 فیصد حصہ کنٹونمنٹ ہے، کنٹونمنٹ یعنی چھائونی یا پھر ڈی ایچ اے، یعنی ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی، کچھ حصہ کراچی پورٹ ٹرسٹ کے پاس ہے تو کچھ پی آئی اے کے پاس، یعنی اگر بڑی سخاوت سے بھی سوچا جائے تو شہری یا صوبائی حکومت کے زیر انتظام صرف 50 فیصد کراچی ہے۔ ڈی ایچ اے تو ایک آزاد ادارہ یعنی اتھارٹی ہے، کلفٹن، شاہراہ فیصل، ریلوے اور ملیر، کورنگی، فیصل کینٹ، پوری شاہراہ فیصل بھی، اب سمجھ یہ نہیں آتا کہ شاہراہ فیصل کے انڈر پاس میں پانی بھر جائے تو تنقید کس پر کی جائے؟ گویا 50 فیصد شہر کے مالی وسائل پر کنٹونمنٹس اور ڈی ایچ کے کا اختیار ہے، تو پھر مسائل بھی انہی اداروں کو حل کرنا چاہیئں۔ اب ذرا سوچیں کراچی میں ماسٹر پلان کی بات ہوتی ہے، منصوبہ بندی کی بات کی جاتی ہے تو جناب کون کریگا منصوبہ بندی، کوئی ایک ادارہ تو ہے نہیں چار یا پانچ ادارے ہیں، ہر کوئی اپنے مفادات کے تحت شہر کو نوچ رہا ہے، ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے، اس حمام میں تو سارے ہی مقدس ہیں۔
زیادہ نہیں بس کچھ 8، 10 سال پرانی بات ہے، بلوچ پل سے ڈیفنس کی جانب مڑیں تو ایک پل ہوا کرتا تھا جس کے نیچے خاصی چوڑی ندی بہتی تھی جو شہر کا پانی سمندر میں لیجاتی تھی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ پیچھے تو ندی موجود ہے مگر ڈیفنس کا فیز سیون اور ایکٹینشن اسی ندی پر تعمیر کیا گیا ہے، ندی کو آٹھ، دس فٹ پکے نالے کی صورت میں محدود کر دیا گیا ہے۔ گجر نالے کی تجاوزات ختم کی جا رہی ہیں، ملیر ندی کے گرد بسنے والے مکانات بھی گرائے جائینگے، پوچھنا صرف یہ چاہتا ہوں کہ غریبوں کے مکانات تو گر جائیں گے ڈیفنس فیز سیون اور ایکسٹینشن کا کیا بنے گا جو ندی پر قائم ہے۔ اگر غریب ندی کے کنارے گھر بسائے تو تجاوزات اور ادارے بسائیں تو تجارت، ویسے آپس کی بات ہے ندی کی زمین بسانا پورے شہر کیلئے خطرے کا باعث ہے پھر قانونی ہو یا غیر قانونی، بس ذرا یوں سوچ لیں کہ ڈیفنس کے عالیشان مکانات چار سے پانچ فٹ پانی میں ڈوبے رہے تو قصور کس کا ہے؟ ڈیفنس جو شہر کا مہنگا ترین پوش علاقہ ہے یہاں کی صورتحال یہ ہے تو باقی شہر کا کیا رونا رویا جائے، ڈیفنس میں اتنی ہی بھیانک صورتحال تھی کہ طبقہ اشرافیہ بھی احتجاج پر مجبور ہو گیا۔ ہفتے بھر گھروں میں پانی اور بجلی سے محروم مظاہرین پر مقدمہ بھی قائم کر دیا گیا، عجب انصاف ہے جناب، کیا گھروں نے نقصان اور خاندانوں کی اذیت پر بھی کوئی مقدمہ قائم کیا جا سکتا ہے، کیا شہری حقوق کا کوئی قانون موجود ہے یا صرف قانون سیاستدانوں اور اداروں کے تحفظ کیلئے ہے؟ بہرحال یہ ضرور ہوا کہ ایک اور ادارے کی انتظامی صلاحیت کھل کر سامنے آ گئی۔
اسکا یہ مطلب قطعی طور پر نہیں کہ شہری اور سندھ حکومت اس کھیل میں شریک نہیں، جناب جہاں جس کا بس چلتا ہے مال بناتا ہے، کراچی پاکستان کا مالدار ترین شہر ہے جو قومی خزانے کو 60 فیصد اور صوبائی حکومت کو 90 فیصد خزانہ فراہم کرتا ہے۔ کراچی میں قومی اسمبلی کی 21 نشستیں ہیں جن میں سے تحریک انصاف کے پاس 14، ایم کیو ایم کی 4 اور پیپلز پارٹی کی 3 ہیں، صوبائی اسمبلی کی 42 نشتسوں میں سے تحریک انصاف کی 22، ایم کیو ایم کی 13، پی پی کے پاس 4 اور جماعت اسلامی اور ٹی ایل پی کے پاس ایک ایک نشست ہے۔ یہ تاثر غلط ہے کہ پیپلز پارٹی کو کراچی سے کچھ زیادہ دلچسپی نہیں چونکہ یہاں سے ووٹ نہیں ملتے، حضور لاڑکانہ اور سندھ کے دیگر شہروں سے تو ووٹ ملتے ہیں، پی پی حکومت نے وہاں کون سے جھنڈے گاڑ دیئے۔ ایم کیو ایم، قیام کے کچھ عرصہ تو کراچی میں فعال رہی مگر پھر انہیں بھی قبضے اور بھتے کے مزے لگ گئے، سو میئر وسیم اختر نے چار سالوں میں کیا کچھ کیا سب کے سامنے ہے، مزید تفصیلات کیلئے سابق میئر مصطفی کمال کے الزامات کا جائزہ لیں تو ہوش اڑ جاتے ہیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی 12 سالوں سے اقتدار میں ہے تو کیا گل کھلائے، ایم کیو ایم ہر مقتدر حکومت کی اتحادی رہی تو گزشتہ عشرے میں ایسا کون سا کام کیا ہے جس پر ووٹ حاصل کر سکے۔ اب رہ گئی بات تحریک انصاف کی جسکو کراچی کے شہریوں نے ایم کیو ایم پر ترجیح دیکر تبدیلی کے نام پر منتخب کیا، اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی کو کراچی میں کڑے امتحان کا سامنا ہے۔ کراچی کی نمائندگی اب تحریک انصاف کے پاس ہے اور 14 نشستیں حکومت کیلئے نہایت اہم ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ وفاق کراچی پیکج دے رہا ہے۔
سیاستدانوں کو گالی دینا آسان ہے اور یہی سب کر رہے ہیں، اللہ ہم پر رحم کرے۔ کراچی کے وسائل اور مسائل کو قریب سے جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہر ایک نے شہر قائد کو لوٹنے میں پورا پورا حصہ ڈالا ہے، بہتی گنگا کے مقدس پانی میں سب نے اشنان کیا ہے، مزید کیا تفصیل بیان کی جائے، چلتے چلتے ناصرہ زبیری کا شعر سنتے جائیں جو صورتحال کا بہترین عکس ہے
مدت سی پنپتی ہوئی سازش نے ڈبویا
کہنے کو مرے شہر کو بارش نے ڈبویا