پاکستان میں اپنے ملک کوغلط قراردیناایک عام رویہ ہے۔بانی پاکستان قائداعظم بھی نکتہ چینی کی زدمیں رہتے ہیں۔مذہبی جماعتوں نے تو قیامِ پاکستان کی مخالفت کی ہی تھی،اب بھی بے شمارلوگ ہندوستان کی تقسیم کوقائداعظم کی غلطی قرار دیتے ہیں۔قائداعظم محمدعلی جناح پر اعتراض کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ان میں سرفہرست باچاخان کے بیٹے ولی خان ہیں۔جنہوں نے اپنی کتاب ”حقائق حقائق ہیں“ میں قائداعظم پربہت اعتراضات کیے ہیں۔عمادبزدارنے اپنی تالیف ”ملزم جناح حاضرہو! “ میں بانی پاکستان پراعتراضات کابھرپوراور مدلل جواب دیا ہے۔ان کی یہ کتاب پاکستان کی ایک بنیادی ضرورت کوپوراکرتی ہے۔عماد بزدارنے جذبات سے بلندہوکرٹھوس حوالہ جات کی مدد سے ثابت کیا ہے کہ مسلمانوں کودیوارسے لگایاگیااوراس حدتک زچ کیاگیاکہ پاکستان کے مطالبے کے سواکوئی چارہ نہ رہا۔ قائداعظم نے ہندومسلم اتحادکے لیے جدوجہدکی اوراس میں ناکامی کے بعداس نتیجے پرپہنچے کہ ہندوکے ساتھ رہناممکن نہیں۔عماد نے پاکستانی مسلمانوں کارُخ اصل قائداعظم کی طرف پھیراہے۔یہ ایک خالص تحقیقاتی کتاب ہے۔اس میں نعرے ہیں نہ جذبات۔حقائق کو مذہبی لبادہ پہنانے کی کوشش کی گئی ہے نہ مذہب سے دُوردھکیلنے کی۔
کتاب کے آغاز میں ”چندگزارشات“میں شاعر،دانشوراورکالم نگارمحمداظہارالحق نے لکھاہے۔” قائداعظم کاپاکستان بنانے کافیصلہ درست تھا۔قائداعظم کی بھارت پراعتبارنہ کرنے والی بات آج درست ثابت ہورہی ہے۔قائداعظم نے ٹھیک کہاتھابھارت پراعتبارنہیں کیاجاسکتا۔“ یہ الفاظ کسی مسلم کے ہیں نہ کسی پاکستانی کے! یہ اعتراف مقبوضہ کشمیرکے سابق وزیراعلیٰ اورنیشنل کانفرنس کے صدرفاروق عبدا للہ نے حال ہی میں کیاہے۔تقسیم سے پہلے معاشی اورمعاشرتی میدانوں میں مسلمان،ہندو¿ں کے مقابلے میں،کہاں کھڑے تھے؟اس کا اندازہ آج کے نوجوان کونہیں ہوسکتا۔اس کی پیدائش ہی پاکستان میں ہوئی۔اس نے اپنے بڑوں کوہندوساہوکاروں سے قرض مانگتے دیکھا نہ ہندوجاگیرداروں کے کھیتوں میں ہل چلاتے۔اسے کیامعلوم کہ ایک مسلمان اپنے بچے کوملازمت دلوانے کے لیے ہندوبابووں کے سامنے کیسے اپنی عزت ِ نفس کوتارتارکرتاتھا۔یہ تھیوری بھی اب غلط ثابت ہوچکی ہے کہ پاکستان،بنگلہ دیش اوربھارت کے منقسم مسلمان اگر متحدہوتے توایک بڑی طاقت ہوتے ،ایساکہنے والے بھول جاتے ہیں کہ ہندووں کی اقتصادی برتری کے ساتھ ون مین ون ووٹ کی قوت متحدہ ہندوستان میں بھی مسلمانوں کواقلیت ہی کادرجہ دیتی۔قائداعظم ،دوسرے لفظوں میں پاکستان،کی مخالفت آج کے پاکستان میں دو گروہ کررہے ہیں اوردونوں انتہاپسندہیں۔ایک وہ جن کامذہب سے کوئی خاص علاقہ نہیں اورمتحدہ ہندوستان کے رومان کے اسیرہیںان میں سے اکثربھارت یاتراکرتے رہتے ہیں۔یہ اپنی دانست میں بارڈرکی مدہم لکیرکوکالعدم گردانتے ہیں۔دوسراگروہ اہلِ مذہب کاہے جن کے تعلیمی اداروں میںقائداعظم کانام لیناجرم ہے۔تحریکِ پاکستان کی تاریخ سے طلبہ کوہرممکن حدتک ناقاواقف رکھاجاتاہے اورقائداعظم کا ذکرکرنا بھی پڑے توبیگانگی کے بے مہرلمس کے ساتھ جناح صاحب کہہ کرخانہ پری کردی جاتی ہے۔وقت کی غیرجانبدارچکی نے دونوں انتہا پسندوں کے موقف کوپیس کررکھ دیا۔پہلے گروہ کواس وقت شکست کاسامناکرناپڑاجب سلیمہ ہاشمی اورکشورناہیدجیسے نیوٹرل پاکستانیوں کوبھارت نے ویزا دینے سے انکارکردیا۔رہادوسرامذہبی گروہ ،توقدرت کی لاٹھی بے آوازہے۔زبان سے مانیں یانہ مانیں،مگرنہاں خانہ دل میں جانتے ہیں کہ بھارت میں مدارس کی چھت پرترنگالہرانالازم ٹھہراہے۔رکھشابندھن،دیوالی،دسہرہ،کرسمس اوردوسرے تہواروں پرمدارس بندکرنے کاحکم ہے اوراسلامی تعطیلات کم کرنے کاکہاگیاہے۔آج پاکستانی نوجوانوں کومسلح افواج،سول سروس،بینکاری،آئی ٹی اوردیگرشعبوں میں جانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے اوراقتصادی استحکام کی جانب رواں دواں ہے۔یہ وہ انعامات ہیں جن کابھارتی مسلمان سوچ بھی نہیں سکتا۔اس کاکریڈٹ اگرقائداعظم اوران کی جدوجہدکونہ دیاجائے توکسے دیاجائے؟ بہرطور یہ طے ہے کہ وقت قائداعظم کی صداقت اورعظمت جریدہ عالم پرثبت کرتاجائے گا۔رہاکتاب کاباب جوولی خان کی کتاب کے حوالے سے ہے تومیرے ناقص علم کے مطابق یہ ولی خان کے الزامات کاپہلاباقاعدہ اورباضابطہ جواب ہے۔مختلف حضرات نے اپنی کتابوں میں ان الزامات کاردپیش کیاہے،کچھ نے محض ذکرکیاہے،مگربالاستیعاب اس معاملے کوعمادہی نے سلجھانے کی کوشش کی ہے۔“
ثمینہ رشید اورسحرش عثمان نے ”ملزم جناح حاضرہو!“ کے دیباچہ اسی عنوان سے لکھے ہیں۔ثمینہ رشیدکہتی ہیں۔”پاکستان کوبنے سترسال ہو گئے ہیں۔وہ نسل جس نے پاکستان بنتے دیکھااس کی جدوجہد میں حصہ لیا،تہہ خاک ہوئی۔جواس وقت بچے تھے شایدان میں سے کچھ لوگ اب بھی زندہ ہوں۔آج ہم اورہمارے بچے صرف کتابوں میں پڑھتے ہیں کہ پاکستان کیسے بنا۔پاکستان بننے میں قائداعظم کاکردارکیاتھا ۔لیکن کہیں نہ کہیں قائداعظم اوران کے رفقاءکواحترام کے اونچے مینارپرایستادہ کرکے ،ہم نئی نسل کوان کی اصل شخصیت اورجدوجہدکوسمجھنے سے بہت دورلے گئے ہیں۔ان کے لیے قائداعظم شایدبس ایک تصویرہیں،مطالعہ پاکستان کی کتاب کاایک باب یاسرکاری افسرکی کرسی کی پشت پرآویزاں ایک تصویر۔اس پورے پس منظرمیں لبرلزاورقوم پرستوں کاٹولہ جوقائدکی تضحیک کرنے اورقائداعظم کی شخصیت کوگاندھی کے مقابلے میں کمترثابت کرنے کاکوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ان کے لیے ایک مدلل اورجامع موازنے پرمشتمل ایک ایساجواب وقت کی اشدضرورت تھا جودونوں شخصیات کوتاریخ کے آئینے میں ان کی تمام ترخوبیوں اورخامیوں سمیت آج کی نئی نسل کے سامنے رکھ سکے ۔ان تمام تاریخی حوالوں کے ساتھ جوآزادی سے پہلے اوراس کے فوراً بعد لکھے گئے اورجن کے مستندہونے پرآج کے قاری کوکوئی کلام نہ ہو۔ ان تمام حوالوں کوانتہائی محنت سے جمع کرنے اورتجزیاتی طور پرپیش کرنے کاکارنامہ عماد بزدارنے انجام دیاہے۔قائد سے عقیدت اورمحبت کے دعویدارتوبہت ہیں لیکن ان کی شخصیت کی سچائی کوسامنے لانے کے لیے اتنی عرق ریزی اورمحنت کرنے کااعزاز بہت کم لوگوں کوحاصل ہواہے۔عماد بزدارکی یہ کتاب اوران کی اس محنت کوعشق اورجنون کاکارنامہ کہیں توبے جانہ ہوگا۔یہ کتاب برصغیرکی دواہم شخصیات قائد اعظم اورگاندھی کااحاطہ کرتی ہے۔اگرتاریخی حقائق کی روشنی میں دیکھیں توجناح اپنے ارادوں کی مضبوطی اورراست گوئی پرقائم شخصیت کے طورپرسامنے آتے ہیں۔دوسری جانب گاندھی کی سادگی اورمذہب کے نام پرابہامات پرمشتمل فلاسفی جسے خود کانگریس نے آزادی سے پہلے ہی بالائے طاق رکھ دیاتھا۔فلسفہ عدم تشدد کے بانی اورپھراس کے قطعی برخلاف پہلی جنگ عظیم کے لیے گاو¿ں گاو¿ں فوج میں بھرتی کی مہم چلانے والے گاندھی۔اورتاریخ کی گواہی ہے کہ اس کے مقابلے میں جناح اپنے موقف پرڈٹ جانے والے اوراصولوں پرکبھی سودانہ کرنے والے لیڈرتھے۔جوحق بات کوحاکمِ وقت کے سامنے کہنے سے کبھی پیچھے نہ ہٹے۔“
سحرش عثمان نے لکھاہے۔” قائدصحیح تھے اس وقت بھی جب انہوں نے کہاتھا ہندولیڈرشپ پراعتبارنہیں کیاجاسکتااوراس وقت بھی درست تھے جب کہاتھا آج سے ہمارے تمہارے راستے جداہیں ،اوراس وقت بھی درست تھے جب کہاہم مذہبی ،معاشی اورمعاشرتی ہرلحاظ سے ایک الگ قوم ہیں۔اوروقت نے ثابت کیاکہ ہم ایک الگ قوم تھے اوررہیں گے۔جناح کوغلط کہہ دیناآسان غلط ثابت کرنامشکل ترہے۔ کیاکسی ایسے شخص کوغلط ثابت کیاجاسکتاہے جس کواپنی قوم کے دردنے بے چین کررکھاہو۔جس نے کسی مالی فائدے کی کسی ذاتی مفاد کی پروا کیے بغیراپنی بستی کے لیے بہترزندگی کاخواب دیکھا۔پھراس بڑے خواب کی تکمیل کے لیے ہرممکن کوشش کی ہو۔تعبیرکی سہانی صبح وہ شخص آنکھوں میں نمی لیے قوم کاحوصلہ بلندکررہاہو۔لیکن ہماری بستی میں رسم چلی ہے احسان فراموشی کی،ہم محسن کش مرعوب ذہن قوم آپ کوغلط ثابت کرنے کوششوں میں سردھڑکی بازی لگادیتے ہیں۔ایسے میں ایسی کوئی کتاب روزن سے آتی پہلی کرن جیسی لگی جوہرزبان درازکے منہ پرتمانچے جیسی ہے۔علمی وتاریخی طمانچہ جب یہ پڑھی توبے ساختہ خواہش جاگی اس میں حصہ داربننے کی اس کتاب میں کچھ لکھنے کی۔اس جلتے دیئے کی لوکاتھوڑاحصہ بننے کی۔ایسی کتابیں کسی انعام یاتعریف کے لیے نہیں لکھی جاتیں ایسی کتابیں توفرض کی طرح اداکی جاتی ہیں اور قرض کی طرح ادا کی جاتی ہیں۔وہ قرض جوآزادفضاو¿ں میں سانس لینے سے ہم پرواجب ہوتاہے۔“
عمادبزدارکی اس تاریخ سازتالیف ”ملزم جناح حاضرہو!“ کوچارباب میں تقسیم کیاگیاہے۔جس میں قائداعظم کی زندگی اورجدوجہد کاپورا نقشہ،گاندھی کی شخصیت اورکردار اورولی خان اوردیگرکے قائداعظم پراعتراضات کے مدلل اورمنت توڑ جوابات دیئے گئے ہیں۔پہلاباب ہے۔”متحدہ ہندوستان کاحامی جناح“ ۔اس باب میں قائداعظم کی سیاسی زندگی کے اس دور کابھرپوراحاطہ کیاگیاہے۔جب انہیں ہندو مسلم اتحادکاسفیرقراردیاگیا،اورانہوں نے ہندوستان کی آزادی کے لیے تن من دھن سے جدوجہدکی اورقوم پرست کہلائے۔اس باب کے ذیلی عنوانات سے اس کااندازہ کیاجاسکتاہے۔”متحدہ ہندوستان کاحامی،قوم پرست جناح“،”رولٹ ایکٹ پرجناح کاردِعمل“،” گا ندھی کی ڈکٹیٹرشپ کی کہانی“،”ہوم رول لیگ“،”گاندھی کی ہوم رول میں انٹری اورڈکٹیٹرشپ کی کہانی“،” تحریکِ خلافت وعدم تعاون اورگاندھی کی طرف سے مذہب کااستعمال“،” جناح صاحب کی مزاحمت“،”گاندھی کے بلندوبالاعزائم،ہجرت اورموپلہ عوام کی بغاوت“، ”عدم تعاون میں شرکت کی پیشکش پرجناح صاحب کاجواب“،” عدم تعاون پررابندرناتھ ٹیگورکاردِعمل“،”طلباکے تعلیمی کیریئرکی تباہی“، ” نہرورپورٹ اورہندوستانی قوم پرست جناح کاالوداعی نغمہ“،” 14نکات پرہندولیڈرشپ کاردِعمل“،”گول میزکانفرنسزاورجناح کی مصرو فیات“اور”جناح صاحب کی وطن واپسی“ جس کے بعد حوالہ جات دیے گئے ہیں۔
کتاب کادوسراباب ”مسلمانوں کے قائداعظم“ ہے۔جس میں محمدعلی جناح کاقوم پرست لیڈرسے مسلمانوں کاقائد بننے کی داستان بیان کی گئی ہے۔اس باب کے ذیلی عنوانات ہیں۔”فیصلہ کن جنگ کاآغاز“،”کانگریسی وزارتیں اورمسلم لیگی کمیٹیاں“،”فضل الحق رپورٹ برائے بنگال“،” کانگریسی وزارتوں کااستعفیٰ“،” مطالبہ پاکستان کی وکالت“،”ہندوستان چھوڑوتحریک اورجناح گاندھی مذاکرات“،” ہندومسلم تضاد کے متعلق بیورلے نکولس اورڈاکترامبیڈکرکی رائے“،”جناح صاحب کابیورلے نکولس کودیاگیاانٹرویو“،” مفاہمت کی کچھ مزید کوششیں اورالیکشن ڈیسائی لیاقت معاہدہ“،”سپروکمیٹی رپورٹ“،”1945-46ءکے انتخابات اورمولانا آزادکی طرف سے پیش کردہ حل“،” کیبنٹ مشن پلان“،” 16مئی کومشن ارکان کی طرف سے لیگی نمائندوں کووضاحت“،”17مئی کوگاندھی کاردِعمل“،” 18مئی کو کرپس ولارنس کی گاندھی سے ملاقات“،”گاندھی کرپس اورپیتھک لارنس کے تعلقات پرایک نظر“،”ایچ ایم سیروائی کی تصدیق“،” 18 مئی کومشن ارکان کی وائسرائے کے ساتھ میٹنگ“،” 19اور20مئی کوگاندھی کے مشن کولکھے گئے خط“،”20مئی کوکانگریس کاپہلاردِعمل“ ،”20مئی کوگاندھی کی ہریجن میں لکھی گئی تحریر“،” 22مئی کومشن کاکانگریس کوجواب“،”24مئی کوکانگریس مجلسِ عاملہ کی قرارداد،سکیم کی کانگریسی تعبیر“،”مشن کی جانب سے گانگریس مجلسِ عاملہ کی قرارداداورتشریح کی تردید“،”مسلم لیگ کاردِعمل“،”3جون کوجناح ویول ملا قات اوریقین دہانیاں“،”لیگ کی طرف سے مشن منصوبہ کی منظوری“،” عبوری حکومت میں برابری کامسئلہ “،” 10جون کی آزاد اورنہرو کی مشن اوروائسرائے سے ملاقات“،” وائسرائے کی جانب سے چودہ رکنی ایگزیکٹیوپرمبنی اعلان“،” 17جون کوکوکانگریس مجلسِ عاملہ کااجلاس “،” 18جون ،جناح ویول ملاقات“،” 20جون کوکانگریس مجلسِ عاملہ کااجلاس اورگاندھی کانیشنلسٹ مسلمان کی شمولیت پراصرار“،” نیشنلسٹ مسلمانوں کےےے بارے میں جناح صاحب کاموقف“ ،”کرپس،لارنس کے بتائے ہوئے طریقہ کارکے مطابق کانگریسی قرارداد کی منظوری“،” کانفریس کی جانب سے مشن منصوبے کی منظوری پرویول کاردِعمل“،” 25 جون کوجناح اورمشن ارکاربشمول وائسرائے ملاقات “،” ویول کی دل برداشتگی“،” 20جون ،آزاد،نہروپٹیل،راجندرپرشاد کی مشن ارکان اوروائسرائے سے ملاقات“،” آل انڈیاکانگریس کا چھ سات جولائی کااجلاس“،”10 جولائی 1946کی نہروکی پریس کانفرنس“،” راست اقدام“،” ویول کی بے بسی کااظہار“،”کانگریس مجلسِ عاملہ کاواردھامیں اجلاس وقرارداداورامام الہندکی الفاظ سے کھیلنے کی ایک اورکوشش“،”ڈائریکٹ ایکشن ڈے“،”27اگست کی ویول ،نہرواورگاندھی ملاقات“،”جناح صاحب کی آبرومندانہ تصفیے کی آخری ناکام کوشش“،”کانگریس ایک قومی پارٹی؟ انڈیاایک سیکولر ریاست؟“،”دوقومی نظریہ اورنفرت پرمبنی ریاست“ اور”ہندولیڈرشپ کی نفرت اورتنگ نظری “ان تمام ذیلی عنوانات کے تحت قائداعظم اورگاندھی کے تضادات اوربرصغیرکی آزادی کے لیے قائداعظم کے واضح کرداراجاگرہوتاہے۔
”ملزم جناح حاضرہو!“ کاتیسراباب”گاندھی کی شخصیت“ ہے۔جس کے ذیلی عنوانات ہیں۔”گاندھی کی شخصیت“،”گاندھی کے بارے میں مختلف شخصیات کی آرا “،”نظریات“،”اقتصادی فلسفہ“،”گاندھی اورعدم تشدد“،”عدم تشددکے نام پرتشددبھڑکانے کاعمل“،”عدم تشدد کی بدلتی تعریفیں“،”شخصیت کے کچھ اورپہلو“ اوردوسری جنگ عظیم،مہاتمااورعدم تشدد“۔ان تمام عنوانات کے تحت بھرپورحوالہ جات کے ساتھ گاندھی کی متضاد شخصیت اورقول وفعل کا تضاد مولف نے عمدگی سے قارئین پرواضح کیاہے۔
کتاب کاچوتھا اورآخری باب”ولی خان کے الزامات کاجواب“ ہے۔اس باب میں عماربزدارنے باچاخان کے بیٹے کے قائداعظم پرلگا ئے الزامات کابھرپورجواب دیاہے۔اس باب کے ذیلی عنوانات ہیں۔”پس منظر“،”جناح صاحب کی شخصیت کے متعلق لوگوں کی رائے‘ ‘،”ہیکٹربولیتھوکی کتاب سے اقتباسات“،”جنرل گریسی کی رائے“،”ڈاکٹرسچدانندسنہاکی رائے“،” ڈاکٹرمبارک علی کے سہیل وڑائچ کے ساتھ انٹرویوکے اقتباسات“،”اوون بینٹ جونز،نامہ نگاربی بی سی“،” کانجی دوارکاداس کے تاثرات“،” بیورلے نکولس کی جناح صاحب کے بارے میں رائے“،”تلک کامقدمہ اوربمبئی بارکاڈنر“،”جسونت سنگھ کی کتاب سے اقتباس“،” فریڈم ایٹ مڈنائٹ سے اقتبا سات“،”کے ایل گابااورجنرل عمرکے انٹرویوزسے اقتباسات“،” جی الانا کی کتاب سے اقتباس“،” سابق وزیرِاعظم چوہدری محمدعلی کے تاثرات“ ،” جناح صاحب کے سیکریٹری کے ایچ خورشید کی رائے“،” ایجنٹ لقب کی داستان کی ابتدا“،” سرحدمیں ریفریڈم کے بارے میں ولی خان کی غلط بیانیاں“،” جناح ولنگڈن ناچاقی کے بارے میں ولی خان کی یک طرفہ رائے“،” ولی خان کے دیگرالزامات اوران کے جواب“،” گورنرجنرل کے انتخاب پرولی خان کے الزامات کاجواب“،” جناح پرولی خان کی جانب سے بزدلی کاالزام“،” قرارداد پاکستان کے بارے میں ولی خان کی غلط بیانی“،”پس منظر“،”جنگ عظیم کاآغاز“،” سکیم کی تیاری“،” جناح صاحب کی شراب نوشی اوررتی کے ساتھ نکاح“،” برطانوی ایجنٹ جناح کوملنے والاانعام“ اور”حریت پسندکانفریس کاکردار“۔
اس طرح ”ملزم جناح حاضرہو!“ کے مولف عمادبزدار نے کتاب میں قائداعظم کی شخصیت،کردار،ہندومسلم اتحاد کے سفیراورپھرمسلمانوں کے لیڈراورقیامِ پاکستان کی جدوجہدتک تمام پہلووںکا بہت خوبصورتی سے احاطہ کیاہے۔قائد اورگاندھی کی شخصیت اورکردارکافرق، اور ولی خان کے الزامات کامنہ توڑ جواب ہربات کامکمل اورحوالہ جات کے ساتھ کسی پہلوکوتشنہ نہیں چھوڑا۔مضمون کی گنجائش کے پیش نظرکتاب سے اقتباسات دینے سے گریزکیاہے ۔کیونکہ اس طرح مضمون بہت طویل ہوجاتا۔جیساکہ سحرش خان نے لکھاہے کہ کتاب کاحصہ بننے کی خواہش بے ساختہ پیداہوتی ہے۔تاہم ایک خیال یہ بھی ہے کہ اس طرح ہراس قاری کوپوری کتاب پڑھنے کی ترغیب بھی ملے گی۔جوقائد اعظم اورتحریکِ پاکستان کے حقائق جانناچاہتاہے ۔اس عمدہ تالیف پرعمادبزداراورکتاب کے پبلشرفکشن ہاوس مبارک بادکے مستحق ہیں۔