Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
وفاق اور سندھ کے مابین ویسے تو مختلف اوقات میں اختلافات سامنے آتے رہتے ہیں، ان میں قومی مالیاتی ایوارڈ ، پانی سمیت دوسرے قومی وسائل کی تقسیم ، عوامی خدمت ،صوبائی خود مختاری ،ملک اور صوبوں کے مفاد میں آئینی ترامیم ہوں یا بجلی،گیس ،گندم اور چینی کے مصنوعی بحران سمیت مہنگائی،بیروزگاری ،غربت اور صوبوں کو آئین کے مطابق وفاقی اداروں میں مقرر کردہ کوٹا کے مطابق ملازمت کے موقع کی فراہمی ہو ان تمام معاملات اور مسائل پر چھوٹے صوبے خاص کر سندھ بغیر کسی گھبراہٹ اور رکھ رکھاﺅ کے اپنا موقف بیان کرتے ہوئے اپنے حقوق کے حصول کا مطالبہ کرتا رہتا ہے۔ جمہوری حکومت کی یہی پہچان ہوتی ہے کہ وہ بر سر اقتدار حکومت اپنے عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کیلئے نہ صرف عملی اقدامات کرے بلکہ ملکی سطح پر موثر طور پر اپنی آواز کو بھی بلند کرتی ہے۔ اسی طرح جب بھی کسی خطے میں قدرتی آفات آتی ہیں تو اس سے نمٹنے اور عوام کے جانی اور مالی تحفظ کیلئے صوبائی اور وفاقی سطح پر حکام کے مابین رابطوں کی اعلی مثالیں قائم ہونی چاہئیں وہاں پر ہمارے ہاں بد قسمتی سے جہوری اقدار اورروایات کے برعکس ہو رہا ہے۔
اسی ماہ کراچی کے مسائل پر و فاق اور سندھ حکومت کے مابین نہ صرف رابطہ کمیٹی تشکیل دی گئی تھی بلکہ اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ تمام عوامی مسائل پر مشاورت سمیت عوام کو مشکلات اور مسائل سے نکالنے کیلئے مل کر کام کیا جائے گا ۔لیکن اس وقت جب سندھ کے دارلحکومت کراچی سمیت پورے سندھ میں حالیہ بارشوں کی وجہ سے ہونے والی تباہی پر وفاق اور سندھ کے مابین اعلی سطحی عملی اقدامات در کنار لیکن رابطوں میں بھی واضح کمی نظر آ رہی ہے۔ اس کی مثال اس وقت تک ہونے والی بارشوں سے سندھ کے دارلحکومت کراچی کا ڈھانچہ مکمل طورپر متاثر ہو گیا ہے لیکن وفاقی وزیر اسد عمر کے علاوہ وزیر اعلی، سندھ سے وفاقی حکمرانوں کی طرف سے کسی نے رابطہ نہیں کیا اور نہ ہی وفاقی نمائندوں کے ساتھ سندھ سر کار کے ساتھ ہونے والے رابطوں کا کوئی عملی اثر دکھائی دیا ہے۔ اپنے ایک حالیہ بیان میں وزیر اعظم نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں بارش سے متاثرہ لوگوں کے لئے جاری امدادی کارروائیوں کی ذاتی طور پر نگرانی کر رہے ہیں اور شدید بارشوں سے متاثر لوگوں کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ گورنر سندھ اور چیئرمین این ڈی ایم اے سے مسلسل رابطے میں ہیں اور متاثرین کو ہنگامی طبی امداد ، کھانا اور پناہ گاہیں فراہم کرنے کی ہدایات کر رہے ہیں۔
سندھی اخبار رونامہ عبرت نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ اگرچہ یہ اچھی بات ہے کہ وزیر اعظم نے گورنر سندھ اور چیئرمین این ڈی ایم اے کے ساتھ رابطہ کرکے انہیں کراچی میں شہریوں کے مسائل حل کرنے کی ہدایات کی ہیں لیکن موجودہ حکومتی نظام منتخب جمہوری تقاضوں کے مطابق قائم ہوا ہے جس میں پارلیمینٹ ، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں سمیت دیگر جمہوری ادارے موجود ہیں اس کے باوجود اعلی سطح پر ہونے والے رابطے نہ صرف اس عوامی نظام کو نظر اندازکرنے کے عکاس ہیں بلکہ یہ سوالات بھی پیدا ہو رہے ہیں کہ کیا وفاق سندھ میں منتخب نمائندوں کی حکمرانی سے نا خوش ہے جہاں پر ملک کے ایک منتخب وزیر اعظم کو سندھ کے وزیر اعلی سے براہ راست رابطہ کرنا چاہئے تھا وہاں گورنر اور ایک قومی ادارے کے سربراہ سے رابطہ کرکے انہیں ہدایات دی جا رہی ہیں ؟ ہمیں ان رابطوں پر اعتراض نہیں ہے بلکہ افسوس اس بات کا ہے کہ جمہوریت پسند قائدین تو منتخب نمائندوں کو اولین ترجیح دیتے ہیں اور عوامی مسائل کو جاننے کیلئے ان سے رابطے کر کے مسائل کے حل کیلئے درکار سہولتوں کی فراہمی کیلئے اقدامات کر تے ہیں لیکن انا، دشمنی ،تعصب وہ بڑی رکاوٹیں ہیں جو وفاقی اور صوبائی حکمرانوں کو آپس میں بات چیت کرنے سے روک رہی ہیں جس کی بنیادی وجہ رابطے کا بحران ہے جو کہ وفاق اور سندھ کے بابین ایک بڑا خلا پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کررہاہے جس کے نتائج بہت عرصے سے سندھ کی عوام بھگت رہی ہے۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حکمرانوں کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اس مثکل وقت میں اپنے سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر عوام کو مشکل وقت سے نکالنے کے لئے اکٹھے ہوکر کام کرنے کا عملی مظاہرہ کرنا چاہے کیونکہ یہ بات ماضی کے حالات سے ثابت ہو چکی ہے کہ ملک سیاسی کشمش کا متحمل نہیں ہوسکتا اور اس وقت بھی اس قسم کے رویے ملک اور عوام کے مفاد میں نھیں ہے۔ بلکہ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکمرانوں کو اپنے اختلافات کو بھلا کر ایک دوسرے کا ساتھ دیکر عوامی مسائل کے حل کیلئے ملک کر کام کرنا چاہئے ۔
وفاق اور سندھ کے مابین ویسے تو مختلف اوقات میں اختلافات سامنے آتے رہتے ہیں، ان میں قومی مالیاتی ایوارڈ ، پانی سمیت دوسرے قومی وسائل کی تقسیم ، عوامی خدمت ،صوبائی خود مختاری ،ملک اور صوبوں کے مفاد میں آئینی ترامیم ہوں یا بجلی،گیس ،گندم اور چینی کے مصنوعی بحران سمیت مہنگائی،بیروزگاری ،غربت اور صوبوں کو آئین کے مطابق وفاقی اداروں میں مقرر کردہ کوٹا کے مطابق ملازمت کے موقع کی فراہمی ہو ان تمام معاملات اور مسائل پر چھوٹے صوبے خاص کر سندھ بغیر کسی گھبراہٹ اور رکھ رکھاﺅ کے اپنا موقف بیان کرتے ہوئے اپنے حقوق کے حصول کا مطالبہ کرتا رہتا ہے۔ جمہوری حکومت کی یہی پہچان ہوتی ہے کہ وہ بر سر اقتدار حکومت اپنے عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کیلئے نہ صرف عملی اقدامات کرے بلکہ ملکی سطح پر موثر طور پر اپنی آواز کو بھی بلند کرتی ہے۔ اسی طرح جب بھی کسی خطے میں قدرتی آفات آتی ہیں تو اس سے نمٹنے اور عوام کے جانی اور مالی تحفظ کیلئے صوبائی اور وفاقی سطح پر حکام کے مابین رابطوں کی اعلی مثالیں قائم ہونی چاہئیں وہاں پر ہمارے ہاں بد قسمتی سے جہوری اقدار اورروایات کے برعکس ہو رہا ہے۔
اسی ماہ کراچی کے مسائل پر و فاق اور سندھ حکومت کے مابین نہ صرف رابطہ کمیٹی تشکیل دی گئی تھی بلکہ اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ تمام عوامی مسائل پر مشاورت سمیت عوام کو مشکلات اور مسائل سے نکالنے کیلئے مل کر کام کیا جائے گا ۔لیکن اس وقت جب سندھ کے دارلحکومت کراچی سمیت پورے سندھ میں حالیہ بارشوں کی وجہ سے ہونے والی تباہی پر وفاق اور سندھ کے مابین اعلی سطحی عملی اقدامات در کنار لیکن رابطوں میں بھی واضح کمی نظر آ رہی ہے۔ اس کی مثال اس وقت تک ہونے والی بارشوں سے سندھ کے دارلحکومت کراچی کا ڈھانچہ مکمل طورپر متاثر ہو گیا ہے لیکن وفاقی وزیر اسد عمر کے علاوہ وزیر اعلی، سندھ سے وفاقی حکمرانوں کی طرف سے کسی نے رابطہ نہیں کیا اور نہ ہی وفاقی نمائندوں کے ساتھ سندھ سر کار کے ساتھ ہونے والے رابطوں کا کوئی عملی اثر دکھائی دیا ہے۔ اپنے ایک حالیہ بیان میں وزیر اعظم نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں بارش سے متاثرہ لوگوں کے لئے جاری امدادی کارروائیوں کی ذاتی طور پر نگرانی کر رہے ہیں اور شدید بارشوں سے متاثر لوگوں کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ گورنر سندھ اور چیئرمین این ڈی ایم اے سے مسلسل رابطے میں ہیں اور متاثرین کو ہنگامی طبی امداد ، کھانا اور پناہ گاہیں فراہم کرنے کی ہدایات کر رہے ہیں۔
سندھی اخبار رونامہ عبرت نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ اگرچہ یہ اچھی بات ہے کہ وزیر اعظم نے گورنر سندھ اور چیئرمین این ڈی ایم اے کے ساتھ رابطہ کرکے انہیں کراچی میں شہریوں کے مسائل حل کرنے کی ہدایات کی ہیں لیکن موجودہ حکومتی نظام منتخب جمہوری تقاضوں کے مطابق قائم ہوا ہے جس میں پارلیمینٹ ، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں سمیت دیگر جمہوری ادارے موجود ہیں اس کے باوجود اعلی سطح پر ہونے والے رابطے نہ صرف اس عوامی نظام کو نظر اندازکرنے کے عکاس ہیں بلکہ یہ سوالات بھی پیدا ہو رہے ہیں کہ کیا وفاق سندھ میں منتخب نمائندوں کی حکمرانی سے نا خوش ہے جہاں پر ملک کے ایک منتخب وزیر اعظم کو سندھ کے وزیر اعلی سے براہ راست رابطہ کرنا چاہئے تھا وہاں گورنر اور ایک قومی ادارے کے سربراہ سے رابطہ کرکے انہیں ہدایات دی جا رہی ہیں ؟ ہمیں ان رابطوں پر اعتراض نہیں ہے بلکہ افسوس اس بات کا ہے کہ جمہوریت پسند قائدین تو منتخب نمائندوں کو اولین ترجیح دیتے ہیں اور عوامی مسائل کو جاننے کیلئے ان سے رابطے کر کے مسائل کے حل کیلئے درکار سہولتوں کی فراہمی کیلئے اقدامات کر تے ہیں لیکن انا، دشمنی ،تعصب وہ بڑی رکاوٹیں ہیں جو وفاقی اور صوبائی حکمرانوں کو آپس میں بات چیت کرنے سے روک رہی ہیں جس کی بنیادی وجہ رابطے کا بحران ہے جو کہ وفاق اور سندھ کے بابین ایک بڑا خلا پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کررہاہے جس کے نتائج بہت عرصے سے سندھ کی عوام بھگت رہی ہے۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حکمرانوں کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اس مثکل وقت میں اپنے سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر عوام کو مشکل وقت سے نکالنے کے لئے اکٹھے ہوکر کام کرنے کا عملی مظاہرہ کرنا چاہے کیونکہ یہ بات ماضی کے حالات سے ثابت ہو چکی ہے کہ ملک سیاسی کشمش کا متحمل نہیں ہوسکتا اور اس وقت بھی اس قسم کے رویے ملک اور عوام کے مفاد میں نھیں ہے۔ بلکہ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکمرانوں کو اپنے اختلافات کو بھلا کر ایک دوسرے کا ساتھ دیکر عوامی مسائل کے حل کیلئے ملک کر کام کرنا چاہئے ۔
وفاق اور سندھ کے مابین ویسے تو مختلف اوقات میں اختلافات سامنے آتے رہتے ہیں، ان میں قومی مالیاتی ایوارڈ ، پانی سمیت دوسرے قومی وسائل کی تقسیم ، عوامی خدمت ،صوبائی خود مختاری ،ملک اور صوبوں کے مفاد میں آئینی ترامیم ہوں یا بجلی،گیس ،گندم اور چینی کے مصنوعی بحران سمیت مہنگائی،بیروزگاری ،غربت اور صوبوں کو آئین کے مطابق وفاقی اداروں میں مقرر کردہ کوٹا کے مطابق ملازمت کے موقع کی فراہمی ہو ان تمام معاملات اور مسائل پر چھوٹے صوبے خاص کر سندھ بغیر کسی گھبراہٹ اور رکھ رکھاﺅ کے اپنا موقف بیان کرتے ہوئے اپنے حقوق کے حصول کا مطالبہ کرتا رہتا ہے۔ جمہوری حکومت کی یہی پہچان ہوتی ہے کہ وہ بر سر اقتدار حکومت اپنے عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کیلئے نہ صرف عملی اقدامات کرے بلکہ ملکی سطح پر موثر طور پر اپنی آواز کو بھی بلند کرتی ہے۔ اسی طرح جب بھی کسی خطے میں قدرتی آفات آتی ہیں تو اس سے نمٹنے اور عوام کے جانی اور مالی تحفظ کیلئے صوبائی اور وفاقی سطح پر حکام کے مابین رابطوں کی اعلی مثالیں قائم ہونی چاہئیں وہاں پر ہمارے ہاں بد قسمتی سے جہوری اقدار اورروایات کے برعکس ہو رہا ہے۔
اسی ماہ کراچی کے مسائل پر و فاق اور سندھ حکومت کے مابین نہ صرف رابطہ کمیٹی تشکیل دی گئی تھی بلکہ اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ تمام عوامی مسائل پر مشاورت سمیت عوام کو مشکلات اور مسائل سے نکالنے کیلئے مل کر کام کیا جائے گا ۔لیکن اس وقت جب سندھ کے دارلحکومت کراچی سمیت پورے سندھ میں حالیہ بارشوں کی وجہ سے ہونے والی تباہی پر وفاق اور سندھ کے مابین اعلی سطحی عملی اقدامات در کنار لیکن رابطوں میں بھی واضح کمی نظر آ رہی ہے۔ اس کی مثال اس وقت تک ہونے والی بارشوں سے سندھ کے دارلحکومت کراچی کا ڈھانچہ مکمل طورپر متاثر ہو گیا ہے لیکن وفاقی وزیر اسد عمر کے علاوہ وزیر اعلی، سندھ سے وفاقی حکمرانوں کی طرف سے کسی نے رابطہ نہیں کیا اور نہ ہی وفاقی نمائندوں کے ساتھ سندھ سر کار کے ساتھ ہونے والے رابطوں کا کوئی عملی اثر دکھائی دیا ہے۔ اپنے ایک حالیہ بیان میں وزیر اعظم نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں بارش سے متاثرہ لوگوں کے لئے جاری امدادی کارروائیوں کی ذاتی طور پر نگرانی کر رہے ہیں اور شدید بارشوں سے متاثر لوگوں کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ گورنر سندھ اور چیئرمین این ڈی ایم اے سے مسلسل رابطے میں ہیں اور متاثرین کو ہنگامی طبی امداد ، کھانا اور پناہ گاہیں فراہم کرنے کی ہدایات کر رہے ہیں۔
سندھی اخبار رونامہ عبرت نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ اگرچہ یہ اچھی بات ہے کہ وزیر اعظم نے گورنر سندھ اور چیئرمین این ڈی ایم اے کے ساتھ رابطہ کرکے انہیں کراچی میں شہریوں کے مسائل حل کرنے کی ہدایات کی ہیں لیکن موجودہ حکومتی نظام منتخب جمہوری تقاضوں کے مطابق قائم ہوا ہے جس میں پارلیمینٹ ، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں سمیت دیگر جمہوری ادارے موجود ہیں اس کے باوجود اعلی سطح پر ہونے والے رابطے نہ صرف اس عوامی نظام کو نظر اندازکرنے کے عکاس ہیں بلکہ یہ سوالات بھی پیدا ہو رہے ہیں کہ کیا وفاق سندھ میں منتخب نمائندوں کی حکمرانی سے نا خوش ہے جہاں پر ملک کے ایک منتخب وزیر اعظم کو سندھ کے وزیر اعلی سے براہ راست رابطہ کرنا چاہئے تھا وہاں گورنر اور ایک قومی ادارے کے سربراہ سے رابطہ کرکے انہیں ہدایات دی جا رہی ہیں ؟ ہمیں ان رابطوں پر اعتراض نہیں ہے بلکہ افسوس اس بات کا ہے کہ جمہوریت پسند قائدین تو منتخب نمائندوں کو اولین ترجیح دیتے ہیں اور عوامی مسائل کو جاننے کیلئے ان سے رابطے کر کے مسائل کے حل کیلئے درکار سہولتوں کی فراہمی کیلئے اقدامات کر تے ہیں لیکن انا، دشمنی ،تعصب وہ بڑی رکاوٹیں ہیں جو وفاقی اور صوبائی حکمرانوں کو آپس میں بات چیت کرنے سے روک رہی ہیں جس کی بنیادی وجہ رابطے کا بحران ہے جو کہ وفاق اور سندھ کے بابین ایک بڑا خلا پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کررہاہے جس کے نتائج بہت عرصے سے سندھ کی عوام بھگت رہی ہے۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حکمرانوں کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اس مثکل وقت میں اپنے سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر عوام کو مشکل وقت سے نکالنے کے لئے اکٹھے ہوکر کام کرنے کا عملی مظاہرہ کرنا چاہے کیونکہ یہ بات ماضی کے حالات سے ثابت ہو چکی ہے کہ ملک سیاسی کشمش کا متحمل نہیں ہوسکتا اور اس وقت بھی اس قسم کے رویے ملک اور عوام کے مفاد میں نھیں ہے۔ بلکہ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکمرانوں کو اپنے اختلافات کو بھلا کر ایک دوسرے کا ساتھ دیکر عوامی مسائل کے حل کیلئے ملک کر کام کرنا چاہئے ۔
وفاق اور سندھ کے مابین ویسے تو مختلف اوقات میں اختلافات سامنے آتے رہتے ہیں، ان میں قومی مالیاتی ایوارڈ ، پانی سمیت دوسرے قومی وسائل کی تقسیم ، عوامی خدمت ،صوبائی خود مختاری ،ملک اور صوبوں کے مفاد میں آئینی ترامیم ہوں یا بجلی،گیس ،گندم اور چینی کے مصنوعی بحران سمیت مہنگائی،بیروزگاری ،غربت اور صوبوں کو آئین کے مطابق وفاقی اداروں میں مقرر کردہ کوٹا کے مطابق ملازمت کے موقع کی فراہمی ہو ان تمام معاملات اور مسائل پر چھوٹے صوبے خاص کر سندھ بغیر کسی گھبراہٹ اور رکھ رکھاﺅ کے اپنا موقف بیان کرتے ہوئے اپنے حقوق کے حصول کا مطالبہ کرتا رہتا ہے۔ جمہوری حکومت کی یہی پہچان ہوتی ہے کہ وہ بر سر اقتدار حکومت اپنے عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کیلئے نہ صرف عملی اقدامات کرے بلکہ ملکی سطح پر موثر طور پر اپنی آواز کو بھی بلند کرتی ہے۔ اسی طرح جب بھی کسی خطے میں قدرتی آفات آتی ہیں تو اس سے نمٹنے اور عوام کے جانی اور مالی تحفظ کیلئے صوبائی اور وفاقی سطح پر حکام کے مابین رابطوں کی اعلی مثالیں قائم ہونی چاہئیں وہاں پر ہمارے ہاں بد قسمتی سے جہوری اقدار اورروایات کے برعکس ہو رہا ہے۔
اسی ماہ کراچی کے مسائل پر و فاق اور سندھ حکومت کے مابین نہ صرف رابطہ کمیٹی تشکیل دی گئی تھی بلکہ اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ تمام عوامی مسائل پر مشاورت سمیت عوام کو مشکلات اور مسائل سے نکالنے کیلئے مل کر کام کیا جائے گا ۔لیکن اس وقت جب سندھ کے دارلحکومت کراچی سمیت پورے سندھ میں حالیہ بارشوں کی وجہ سے ہونے والی تباہی پر وفاق اور سندھ کے مابین اعلی سطحی عملی اقدامات در کنار لیکن رابطوں میں بھی واضح کمی نظر آ رہی ہے۔ اس کی مثال اس وقت تک ہونے والی بارشوں سے سندھ کے دارلحکومت کراچی کا ڈھانچہ مکمل طورپر متاثر ہو گیا ہے لیکن وفاقی وزیر اسد عمر کے علاوہ وزیر اعلی، سندھ سے وفاقی حکمرانوں کی طرف سے کسی نے رابطہ نہیں کیا اور نہ ہی وفاقی نمائندوں کے ساتھ سندھ سر کار کے ساتھ ہونے والے رابطوں کا کوئی عملی اثر دکھائی دیا ہے۔ اپنے ایک حالیہ بیان میں وزیر اعظم نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں بارش سے متاثرہ لوگوں کے لئے جاری امدادی کارروائیوں کی ذاتی طور پر نگرانی کر رہے ہیں اور شدید بارشوں سے متاثر لوگوں کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ گورنر سندھ اور چیئرمین این ڈی ایم اے سے مسلسل رابطے میں ہیں اور متاثرین کو ہنگامی طبی امداد ، کھانا اور پناہ گاہیں فراہم کرنے کی ہدایات کر رہے ہیں۔
سندھی اخبار رونامہ عبرت نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ اگرچہ یہ اچھی بات ہے کہ وزیر اعظم نے گورنر سندھ اور چیئرمین این ڈی ایم اے کے ساتھ رابطہ کرکے انہیں کراچی میں شہریوں کے مسائل حل کرنے کی ہدایات کی ہیں لیکن موجودہ حکومتی نظام منتخب جمہوری تقاضوں کے مطابق قائم ہوا ہے جس میں پارلیمینٹ ، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں سمیت دیگر جمہوری ادارے موجود ہیں اس کے باوجود اعلی سطح پر ہونے والے رابطے نہ صرف اس عوامی نظام کو نظر اندازکرنے کے عکاس ہیں بلکہ یہ سوالات بھی پیدا ہو رہے ہیں کہ کیا وفاق سندھ میں منتخب نمائندوں کی حکمرانی سے نا خوش ہے جہاں پر ملک کے ایک منتخب وزیر اعظم کو سندھ کے وزیر اعلی سے براہ راست رابطہ کرنا چاہئے تھا وہاں گورنر اور ایک قومی ادارے کے سربراہ سے رابطہ کرکے انہیں ہدایات دی جا رہی ہیں ؟ ہمیں ان رابطوں پر اعتراض نہیں ہے بلکہ افسوس اس بات کا ہے کہ جمہوریت پسند قائدین تو منتخب نمائندوں کو اولین ترجیح دیتے ہیں اور عوامی مسائل کو جاننے کیلئے ان سے رابطے کر کے مسائل کے حل کیلئے درکار سہولتوں کی فراہمی کیلئے اقدامات کر تے ہیں لیکن انا، دشمنی ،تعصب وہ بڑی رکاوٹیں ہیں جو وفاقی اور صوبائی حکمرانوں کو آپس میں بات چیت کرنے سے روک رہی ہیں جس کی بنیادی وجہ رابطے کا بحران ہے جو کہ وفاق اور سندھ کے بابین ایک بڑا خلا پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کررہاہے جس کے نتائج بہت عرصے سے سندھ کی عوام بھگت رہی ہے۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حکمرانوں کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اس مثکل وقت میں اپنے سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر عوام کو مشکل وقت سے نکالنے کے لئے اکٹھے ہوکر کام کرنے کا عملی مظاہرہ کرنا چاہے کیونکہ یہ بات ماضی کے حالات سے ثابت ہو چکی ہے کہ ملک سیاسی کشمش کا متحمل نہیں ہوسکتا اور اس وقت بھی اس قسم کے رویے ملک اور عوام کے مفاد میں نھیں ہے۔ بلکہ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکمرانوں کو اپنے اختلافات کو بھلا کر ایک دوسرے کا ساتھ دیکر عوامی مسائل کے حل کیلئے ملک کر کام کرنا چاہئے ۔