ڈاکٹر تصوراسلم بھٹہ سرگودھا میں پیداہوئے۔ ایم بی بی ایس پنجاب میڈیکل کالج فیصل آبادسے کیا۔یونیورسٹی آف زیمبیا لوکاسا سے سرجری میں ماسٹرز اور رائل کالج آف سرجنز ایڈنبرا سے ایف آرسی ایس کیا۔ بیس سال سے آسٹریلیا کے شہربرسبین میں مقیم ہیں۔پائلٹ بننے کے شوق میں آسٹریلیا میں باقاعدہ ہوابازی کی تربیت اور پرائیویٹ پائلٹ لائنس حاصل کیا۔ میلبرن کی مونیش یونیورسٹی سے ایوی ایشن میڈیسن کا ڈپلوما بھی حاصل کیا۔ اردو،اقبالیات اورتاریخ اسلام میں اسکول کے وقت سے ہی دلچسپی تھی ۔اسی شوق میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے اقبالیات میں ایم اے کی ڈگری بھی حاصل کی۔ ان دنوں ڈاکٹر صاحب کی کتاب ‘ زبان یار من ترکی ‘ کا شمار مقبول ترین کتابوں میں ہوتا ہے۔
ڈاکٹرتصوراسلم بھٹہ کی ترکی سے محبت اورشیفتگی بڑھانے میں مشہورعالم ترک ڈرامے ” ارطغرل” نے اہم کردار اداکیا۔ارطغرل کے والدسلیمان شاہ،ان کے ساتھیوں اوراولادخصوصاً عثمان کے ساتھ انہیں بہت دلچسپی اورمحبت رہی اورانھوں نے ترکی کے وہ تمام مقامات اورشہر دیکھنے کافیصلہ کیا۔جہاں یہ سب رہے۔ان کا منفردسفرنامہ”زبانِ یارمن ترکی” ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ کے اسی سفرکی دلچسپ اورمعلومات افزا روداد ہے۔ انھوں نے ایک عام مگرپر اشتیاق مسافرکی طرح ان تمام اہم جگہوں اور مقامات کوکھوجنے کی کوشش کی اورجودیکھا اسے کسی مبالغے یاغیر رومانویت کے بغیرخوب صورتی سے بیان کردیا۔مصنف نے ہر اس اہم مقام کودیکھنے کی کوشش کی جوترک ڈراموں اورعثمانیہ تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے قابل ذکر ہو۔وہ بڑی دلکش نثرمیں اس جگہ کا تعارف کراتے اورہلکے پھلکے انداز میں اس کا پس منظربیان کردیتے ہیں۔ قاری سفرنامہ پڑھتے ہوئے ان کے ساتھ ساتھ سفرکرتامحسوس کرتا ہے اوراس میں بیان مناظرکوگویااپنی نظرسے دیکھتاجاتاہے۔
یہاں کتاب اورصاحب کتاب سے ہٹ کربک کارنرجہلم کے گگن شاہد اورامرشاہد اوران کے عظیم والدحمیدشاہدمرحوم کا ذکرلازمی ہے۔ بک کارنرجہلم حمیدشاہد صاحب نے آنہ لائبریری کی صورت انیس سو تہتر میں قائم کیاتھا۔دوسال قبل ان کی وفات کے بعدشاہد حمید کے لائق فرزندگان ادارے کو نا صرف عمدگی سے چلارہے ہیں۔ بلکہ ادارے کے گولڈن جوبلی سال تک چاریا آٹھ کیا سولہ چاند لگا چکے ہیں۔ انھوں نے کتابو ں کی طباعت،کتابت،تزئین وآرائش ،جلدبندی،سرورق اوراسترکے حسن کوایک باقاعدہ فن کا مقام دے دیاہے۔بک کارنرجہلم تقریباً ہرہفتے ایک سے بڑھ کرایک دلکش کتاب شائع کررہاہے اور اردو پرنٹنگ میں اس کاکوئی ہمسر یا ثانی نہیں ہے۔ ڈاکٹرتصور اسلم بھٹہ کی ”زبانِ یارمن ترکی” گگن شاہد اور امرشاہد نے ایک نئی آن بان سے شائع کیاہے۔ چھ سوساٹھ صفحات کی ضخیم کتاب انتہائی خوب صورت سرورق اور گردپوش اور دلکش استرکے ساتھ آرٹ پیپر پر شائع کی گئی ہے۔ ہرصفحہ کے اوپری حصے میں رنگین ترک تاریخی مسجد و مینارکی عکاسی کتاب کے حسن کودو چند کر دیتی ہے۔ہر باب رنگین تصاویرسے آراستہ اورقاری کوتحریری ہی نہیں تصویری صورت میں بھی ساتھ لے کرچلتاہے۔ بلاشبہ بک کارنرجہلم اردو طباعت وکتابت کے اعلیٰ ترین معیار کے خالق ہی نہیں خاتم بھی ہیں۔ وہی اس معیار کومزید بہتر بناسکتے ہیں۔پھر پروف ریڈنگ انتہائی عمدہ ہے۔ مجھے تلاش کرنے پربھی کتابت کی کوئی غلطی نظر نہیں آئی۔ ”زبانِ یارمن ترکی” کی شاندار اشاعت پرگگن اورامرشاہد برادرز کودل کی گہرائیوں سے مبارک باد۔
معروف شاعر،کالم اورسفرنامہ نگار خالدمسعود لکھتے ہیں۔ ”ڈاکٹر تصوربھٹہ کے اس سفرنامے کوایک قاری کی حیثیت سے دیکھوں توان کی تحریر میں ہر وہ چیز موجود ہے جوپڑھنے والے کونہ صرف متوجہ بلکہ اسیرکرتی ہے۔اس تحریر میں رنگارنگی اورترکی کے روایتی پہلوؤں کا بیان بے مثال ہے ۔یہ کتاب ترکی کے گہرے ثقافتی ورثے میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے توشہ خاص ہے جس میں ترکی کی تاریخ،ثقافت اور فنون لطیفہ کی خوب صورتی کوشاندار طریقے سے اجاگرکیاگیاہے۔”
معروف ٹی وی اینکرمصنف،کالم نگار اور استاد سہیل وڑائچ کا کہنا ہے ۔” اس سفرنامے میں ترکی جغرافیائی خوب صورتی کا جو خاکہ کھینچا گیا ہے، وہ قاری کوگھر بیٹھے ترکی کی سیر کراتا ہے۔ ڈاکٹر تصور بھٹہ کاقلم اس قدرموثر ہے کہ قاری خود کوترکی کی گلیوں میں گھومتاہوا محسوس کرتا ہے ۔ ترکی کے حسین مناظر،باغات اور تاریخی مقامات کی سحرانگیزی کے حوالے سے ان کے قلم کی جولانی دیکھنے کے قابل ہے۔ہاں یہ الگ بات ہے کہ قاری اس سوچ میں ڈوب جاتاہے کہ ترکی کا حال توبدلتادکھائی دیتاہے،خداجانے ہمارا حال کب بدلے گا۔”
نامورادیب اورفلاحی ادارے اخوت کے روح رواں ڈاکٹرامجدثاقب لکھتے ہیں۔” ڈاکٹرتصوربھٹہ کایہ سفرنامہ ایک شاندارادبی کاوش ہے۔ ترکی کی تاریخ،ثقافت اوراقدار۔یہ سب کچھ کمال دلکشی اورمہارت سے پیش کیاگیاہے۔چونکادینے والے انکشافات،تاریخ کے اسراراور مقامی کہانیاں قاری کے دل کوموہ لیتی ہیں۔یہ سب اپنی جگہ لیکن پسِ تحریردردمندی نے اس تحریر کویادگاربنادیاہے۔”
مصنف اورموٹی ویشنل اسپیکرقاسم علی شاہ نے ”زبانِ یارمن ترکی” پرکچھ یوں اظہارخیال کیاہے۔”ڈاکٹراسلم بھٹہ کے سفرنامے نے ترکی کی سیرکوایک نئے دور کی عینک سے دیکھنے کا موقع فراہم کیاہے۔حالیہ برسوں میں ، پاکستانی ناظرین کی ترکی کے ٹی وی ڈراموں میں دلچسپی نے دونوں ممالک کے مابین تاریخی اور ثقافتی روابط کومزید گہراکردیاہے۔ڈاکٹر بھٹہ کی یہ کتاب اس تاریخی رشتے کی گہرائی اورپاکستانی عوام کی ترکی کے تئیں بڑھتی ہوئی دلچسپی کوبخوبی بیان کرتی ہے۔”
ترک ڈپلومیٹ مترجمہ،مصنفہ و شاعرہ طاہرے گونیش نے مختصر اور پر وقار تعارفیے ”ترکیہ:داستانِ محبت کا اک ورق” میں ڈاکٹرصاحب کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیاہے۔”جب ”زبانِ یارمن ترکی” کامطالعہ شروع کیا تو ایسا لگا کہ جیسے میں تاریخ کے بحیرہ مرمرا میں غوطہ لگا چکی ہوں اوراب میرے آگے بے کراں متن ہے جس میں ہرطرح کا تحقیقی حوالہ موجود ہے۔شخصیات ہوں یا جگہیں ہوں یامقدس تبرکات ان سب کے بارے میں اتنی گہری تحقیق ہے کہ چند صفحات میں لگتاہے کہ کوزے میں بحیرہ مرمرا بندکرنے کی کاوش کی گئی ہو، جیسے تاریخی حوالے مستنداورنہایت محنت سے جمع کیے گئے ہیں۔یہ کتاب پڑھتے ہوئے مصنف کے عمیق مطالعے کارعب بھی قاری پرفوری طور پرطاری ہو جاتاہے۔ ڈاکٹر صاحب نہ صرف یہ کہ ترکیہ کی سیر کو گئے مگر وہاں جاکرسیرچشم نہ ہوئے کیونکہ اتنا کچھ انھوں نے دیکھناتھا مگر پھر بھی دو آنکھوں سے کتنا دیکھا جاسکتا ہے۔ مصنف ڈاکٹر تصوراسلم بھٹہ جوپیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں ہیں مگرترکی تہذیب ،ثقافت اورسیاحت کے مریض ہیں۔ان کاترکیہ کودیکھنے کازاویہ اورنظر ہی جداگانہ ہے۔ کیونکہ وہ ایک محبوب کودیکھنے جتنی عقیدت ومحبت اپنی گٹھڑی میں باندھ کر لے گئے وہ جب استبول کی ایک ایک جگہ کوتاریخی پس منظراورحال کے مشاہدے سے بیان کرتے ہیںتوانسان سوچتاہے کہ ان کامحبوب شہراستنبول ان کودم بخود سن رہاہے۔جیسے مرمراکے پانیوں سے ہمکلام ہوتے ہیں توپانی سرگوشیوں میں ان کاجواب دیتاہے کہ ہمیں فتح کر نیوالے بہت آئے مگرمحبت کی نگاہ ڈالنے والے فقط تم آئے ہو۔”
کتاب کاآغاز”نئی ریساں بابے دیاں”سے ہواہ ے۔جودراصل ڈاکٹرتصوراسلم بھٹہ کااپنے والدکا خوب صورت خاکہ ہے۔جس کے ہر لفظ سے مصنف کی اپنے والدسے محبت وشیفتگی عیاں ہے۔انہوں کتاب کا پر اثر انتساب بھی والدکے نام کیاہے۔”اس ہستی کے نام، میرے جسم کارواں رواں جس کاقرض دار ہے۔”اپنے بزرگوں سے پیاراوراحترام کرنے والوں کے ساتھ ان کی دعائیں ہمیشہ رہتی ہیں اور وہ ترقی کی منازل طے کرتے رہتے ہیں۔اس تحریر نے ڈاکٹرتصورکے اندرچھپے ایک عمدہ خاکہ نگارکی بھی نقاب کشائی کی ہے۔عقیدت کا انداز ملاحظہ کریں۔” میں شایدساری زندگی اس ہستی کے بدن سے نکلنے والے پسینے کے بظاہراس چھوٹے قطرے کی قیمت بھی ادانہ کرسکو ں جوانہوں نے مجھے ایک کامیاب انسان بنانے اورہمیشہ ہنستامسکراتا دیکھنے کے لیے بہایا۔” پھرکیااظہارکرب ہے جس کا بیرون ملک رہنے والوںکواکثرسامناکرنا پڑتاہے۔ ” ذہن میں بارباریہی خیال آتاہے کہ جب انہیں رخصت کرنے کاوقت آیاتومیں موجودنہیں تھا۔وہ جومجھے رخصت کرتے وقت تب تک گھرکے باہرکھڑے رہتے جب تک میری گاڑی موڑمڑکرنگاہوں سے اوجھل نہ ہوجاتی۔جب انہیں رخصت کرنے کاوقت آیاتومیں ان کانالائق بیٹاغائب تھا۔میں نہ ان کی قدم بوسی کے لیے پہنچ سکانہ ان کاآخری دیدار کرسکانہ ان کی میت کوکندھادے سکا اورنہ ہی انہیں اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارسکا۔بیٹا ہونے کاکونسافرض ہے جومیں نے اداکیاوہ میرے بغیر ہی کبھی نہ واپس آنے کے لیے اپنے آخری سفر پرروانہ ہوگئے۔”
سبحان اللہ یہ عقیدت بھری تحریر ایک فرماں برداربیٹے کااپنے عظیم والد کوخراج تحسین ہے۔بک کارنرجہلم کویہ اعزاز حاصل ہے کہ گگن شاہد اور امر شاہد نے اپنے والدحمیدشاہدکوخراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک عمدہ کتاب”اے عشق جنوں پیشہ” شائع کی۔والدکی محبت میں سرشارصدف مرزانے اپنے والدکی زندگی پر”برگد”کے عنوان سے عمدہ آپ بیتی تحریرکی اورڈاکٹرتصوراسلم بھٹہ کی یہ تحریروالدکے بارے میں بہترین خاکہ ہے۔باپ کے بارے میں ایسی دلکش تحریریں بہت کم نظرسے گزری ہیں۔اردومیں ماؤں کے بارے میں تو بہت خوب صورت کتب لکھی گئی ہیں۔ جن میں قدرت اللہ شہاب کی ”ماں جی” کااپنا مقام ہے۔محترم حامدسراج نے تو ”میا” کے نام سے پوری کتاب لکھ دی۔ ابدال بیلاکی دل میں اترنے والی ضخیم آپ بیتی”بندہ” بھی ماں کی محبت اوریادوں پرمشتمل ہے۔
”زبان یارمن ترکی” کے مصنف ڈاکٹرتصوراسلم بھٹہ کااسلوب تحریر بالکل مختلف اورانوکھاہے۔ وہ اس کتاب میں سفرنامہ نگارکے بجائے کسی دستاویزی فلم کے ڈائریکٹر محسوس ہوتے ہیں۔ جس طرح کسی بھی موضوع پردستاویزی فلم میں کہیں ڈرامائی تشکیل سے مدعا ناظر پر آشکار کیاجاتاہے۔ کہیں ماہرین اس کے مختلف پہلوؤں پر اظہارخیال کرتے ہیں اورساتھ ساتھ فلم بندی سے موضوع اجاگرکیاجاتاہے۔ اسی طرح زبان یارمن ترکی کا مصنف جب بھی ترکیہ کے کسی شہریاعلاقے میں جاتاہے توکبھی راوی بن کراس شہرکی تاریخ،ثقافت وتہذیب بیان کرتاہے اور خوب صورت تصاویرسے اپنے بیان کی وضاحت کرتاجاتاہے۔تحریروتصویر کے اس ملاپ کاقاری نے شایداس سے قبل کبھی تصوربھی نہیں کیاہوگا۔لیکن اس کتاب میں پڑھنے والا دستاویزی فلم کے ڈائریکٹرکی ماننداس کے ساتھ ساتھ چلتاہے اورہرشہر،قصبے یا تاریخی اہمیت کی حامل عمارت یا مقام کی تمام تفاصیل اسے ازبرہوجاتی ہیں۔ جیسے اس نے دستاویزی فلم دیکھی ہو۔
دیباچہ میں ڈاکٹرتصوراسلم بھٹہ نے ترکیہ سے اپنی دلچسپی کااحوال بیان کیاہے کہ کس طرح سلیمان شاہ کے مزارکی بازیابی کے لیے ترک فوج کے آپریشن کی خبر نے ان کی توجہ اپنی جانب کھینچی۔”جب تاریخ کے اوراق الٹنے شروع کیے توایک نئی ہی دنیا سامنے آئی پتہ چلاکہ سلیمان شاہ خاندان عثمانیہ کا جد امجد تھا۔ارطغرل کاباپ، دولت عثمانیہ کے بانی عثمان غازی کادادا اوراس قائی قبیلے کاسردار جوتیرہویں صدی کی دوسری دہائی میں منگولوں کی دسترس سے بچنے کے لیے شام اورترکی کی سرحد پردریائے فرات کے کنارے آکرآباد ہوگیاتھا ۔ارغوزترکوں کایہ قبیلہ تقریباً پچاس ہزار افراد پرمشتمل تھا۔سلیمان شاہ کے باپ کانام کایاالپ تھاوہ 1165ء میں پیداہوا۔1215ء میں اپنے والد کی وفات کے بعداور1235ء میں ددریائے فرات میں قلاب جبرکے قلعے کے باہرڈوب کرفوت ہوگیا۔
پہلی جنگ عظیم میں ترکوں کوشکست ہوئی اوران کی سلطنت کے حصے بخرے کردیے گئے۔معاہدہ لوزان کے تحت شام میں موجودسلیمان شاہ کا مقبرہ اوراس سے ملحقہ زمین ترکی کی ملکیت قرارپائی۔ترکی کویہ حق تفویض ہواکہ ترکی اس مقبرے کی حفاظت کے لیے اپنے فوجی تعینا ت کرسکے گا۔1235ء سے 1973ء تک یہی جگہ سلیمان شاہ کی آخری آرام گاہ رہی۔1973ء میں جب شام نے دریائے فرات پر طبقہ ڈیم بنانے کافیصلہ کیاتواندیشہ پیداہواکہ سلیمان شاہ کا مقبرہ بھی اس کے نتیجے میں بننے والی جھیل اسد میں زیرآب نہ آجائے۔اس لیے ترکوںنے سلیمان شاہ کے پورے مقبرے کواس کے احاطے سمیت اٹھاکرپچیاسی کلومیٹر دورکوبانی کے مقام پرمنتقل کردیا۔یہ علاقہ ترکی کی سرحد سے ستائیس کلومیٹرشام کے اندرواقع تھا۔2015ء میں سلیمان شاہ کا مقبرہ تیسری بارنئی جگہ منتقل کیاگیا۔اپنے اسلاف سے اتنی محبت اورعقیدت صرف زندہ قوموںکا خاصہ ہوتی ہے اورترک قوم اس دولت سے مالامال ہے۔
ڈاکٹر تصور دیباچہ میں ترکی کے سفرکے بارے میں لکھتے ہیں۔”سلیمان شاہ کے بارے میں جاننے کے لیے کی جانے والی تحقیق کے دوران میرا تعارف ڈرامہ سیریل ”ارطغرل” سے ہوا۔میں نے مارچ دو ہزارپندرہ میں یہ ڈرامہ سیریل دیکھناشروع کی اورپھرمجھے اس کاجیسے نشہ سا ہوگیا۔چند ہی دنوں میں اس کی تمام سابقہ اقساط دیکھ ڈالیں۔بڑی بے تابی سے میں ہرہفتے اس کی نئی آنے والی قسط کا انتظارکرنے لگا۔ یوں سلیمان شاہ اورارطغرل غازی کے خانوادے سے میری دوستی ہوگئی اور رفتہ رفتہ یہ رشتہ مضبوط ہونے لگا۔ اس نے میرے اندردولت عثمانیہ کی تاریخ پڑھنے کاشوق بھی جگادیاجو روز افزوں بڑھتا چلاگیا۔میں نے تاریخ کی ساری کتب کھنگال ڈالیں حتٰی کہ انٹرنیٹ پربھی جتنا موادسلاطین عثمانیہ اورترکوں کے بارے میں پڑھنے کوملاوہ بھی پڑھ ڈالا۔جوں جوں تاریخ کے اوراق پلٹتا گیامجھ پرایک نئی دنیامنکشف ہونے لگی۔ایک طلسم ہوشربا،ایلس کی ونڈرلینڈ جیسی دنیاجس کی وجہ سے مجھے لگاکہ میں ارطغرل غازی کے خانوادے کی محبت میں گرفتارہو گیاہوں۔دل میں ترکی جانے اوران سارے تاریخی مقامات کودیکھنے کاشوق پیداہوگیا۔بالآخر 2019ء میں اللہ تعالیٰ نے مجھے موقع فراہم کیااور ہم ستمبرکے مہینے میں ترکی کے لیے عازم سفرہوئے۔”
ڈاکٹرتصوراسلم بھٹہ نے چند روزہ سفرکے لیے ایک محقق کی طرح ترکی کی تاریخ،ثقافت اور شخصیات کے بارے میں تحقیقات کیں اورسفرکے دوران وہ جہاں سے بھی گزرے ۔ اس شہر،قصبے یاشخصیت کے بارے میں مکمل تفصیلات اپنی سادہ وپراثراسلوب میں بیان کردیں۔اس طرح ان کاسفرنامہ ”زبانِ یارمن ترکی” ترکی کے بارے میں ایک انسائیکلوپیڈیا بن گیا اوراسے پڑھنے والااس ملک کے بارے میں گفتگوکرنے پرقادرہوجاتا ہے۔سفرنامے کا حصہ اول”استنبول ” ہے۔جس کا پہلاباب”نیلی مسجد” ہے۔ملاحظہ کریں اس کاآغاز” استنبول ایئرپورٹ سے آنے والی بس نے ہمیں جس جگہ پراتاراوہ ایک بہت کشادہ اورسرسبزپارک تھا۔سورج سارے دن کی مسافت کے بعدتھک ہارکرسامنے کھڑی بہت خوب صورت مسجدکی پشت میں غروب ہورہاتھا۔ مسجدکے مینار ڈوبتے سورج کی نارنجی شعاعوں میں نہائے ہوئے تھے اورافق پرسرخی چھائی ہوئی تھی۔ اس مسجد کے عین سامنے مشرق کی جانب اس سے ملتی جلتی ایک اورعمارت ہے جس کی پشت پرآبنائے باسفورس کاپانی چمکتا نظرآرہاتھا۔یوں لگتاتھاکہ جیسے دونوں اوپرتلے کی جڑواں بہنیں ہوں۔ ان دونوں عمارتوںکے درمیان ایک بہت خوب صورت ،سرسبزو شاداب پارک تھا۔ہوامیں سوندھی سوندھی خوشبوپھیلی تھی۔ٹھنڈی ٹھنڈی ہواچل رہی تھی۔استنبول شہرکے اس پہلے جادوئی نظارے نے ہی مسحور کردیا۔ایساجادوکیاکہ آج تک اس سحر سے نہیں نکل پائے۔عمارت کے بارے میں پوچھنے پرپتہ چلاکہ مشرقی عمارت مشہورزمانہ ہائیہ صوفیہ ہے۔مسجد جس کے پیچھے سورج غروب ہورہاہے وہ سلطان احمدکی مسجدہے جسے عرف عام میں نیلی مسجدبھی کہتے ہیں۔اس جگہ کانام سلطان احمدچوک ہے۔”
مصنف کاشاعرانہ انداز بیان قاری کی توجہ سورج کی سارے دن کی مسافت کی تھکن سے ہی اپنی جانب کھینچ لیتاہے ۔پھروہ پورے سفرنامے میں مصنف کے ساتھ قدم بہ قدم چلتاجاتاہے اوراس داستان میں ترک تاریخ کی خفیہ گوشے واہونے لگتے ہیں۔”سلطان احمداول تیرہ سال کی عمرمیں چودھواں عثمانی سلطان بنااورتیرہ سال حکمرانی کے بعدچھبیس سال کی عمرمیں وفات پاگیا۔اسے اسی مسجدکے احاطے میں دفن کیاگیاجواس نے بنوائی تھی۔سلطان احمداول کاتیرہ سالہ حکمرانی کادورحکومت کئی لحاظ سے قابل ذکرہے۔اس نے مسجدنبوی اورحرم کی تعمیرنو بھی کروائی۔اسی کے دور میں پہلی مرتبہ زم زم کے کنویں پرلوہے کی جالی لگوائی گئی تاکہ لوگ کنوئیںمیں کود کراپنی جان نہ دے سکیں۔اس کا سب سے بڑا کارنامہ اس رسم بدکاخاتمہ تھاجوصدیوں سے شاہی خاندان میں چلی آ رہی تھی۔ وہ یہ کہ جب بھی کوئی نیاسلطان تخت نشین ہوتاوہ اپنے تمام بھائیوں کوقتل کروادیتاتاکہ کوئی دوسرابھائی تخت کادعوی دار بن کراس کے لیے مشکلات کھڑی نہ کرے۔جب احمدکاباپ سلطان محمدثالث تخت نشین ہواتواس نے تخت پر بیٹھنے سے پہلے روایت کے مطابق اپنے انیس بھائیوں کوقتل کروایاتھا۔جس کاسلطان احمد کے دل ودماغ پرگہرااثرہوا چنانچہ اس نے اپنی تخت نشینی کے وقت اپنے بھائی مصطفٰی کوقتل نہ کرنے کافیصلہ کیا۔”
بادشاہت کی کیاالمناک تاریخ ہے کہ ہربادشاہ اپنے بھائیوں کوقتل کراتاہے اور پھرایک تیرہ سالہ نوعمرسلطان کااس روایت پر عمل نہ کرتے ہوئے اپنے بھائی کوقتل نہ کرانے کافیصلہ، قاری اس صورت حال سے متاثرہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اورہل من مزید کی مانندآگے پڑھنے کاجذبہ بھی دوچند ہوجاتاہے۔
اس مسجدکی تعمیرمعمارسنان کے ایک مایہ نازشاگردصافکارمحمدنے کی اوراپنے فن تعمیرسے اسے رہتی دنیاتک شاندارشاہکاربنادیا۔اس مسجد کو بنانے کے لیے بزنطینی شاہی محل کومسمارکیاگیا۔اس مسجدکوہائیہ صوفیہ کی طرز پربنایاگیاتھا۔بزنطینی اوراسلامی فن تعمیرکی آمیزش نے اسے استنبول کی شاندارترین مسجد بنادیا۔ اس مسجد کے پانچ بڑے اورآٹھ چھوٹے گنبدہیں جوہائیہ صوفیہ کے طرز پربنائے گئے ہیں۔بڑاگنبدہائیہ صوفیہ کے بڑے گنبدکی طرح کسی ستون کے بغیرکھڑا ہے جوکسی دور میں ایک معجزہ تصورکیاجاتاتھا۔چھ میناروں پرمشتمل یہ مسجدہائیہ صوفیہ سے جداگانہ شناخت بھی رکھتی ہے کیونکہ ہائیہ صوفیہ کے چار مینار ہیں۔۔کہاجاتاہے کہ سلطان نے پانچ میناربنانے کاحکم دیاتھالیکن غلطی سے چھ میناربن گئے۔اس وقت پوری دنیا میں صرف حرم مکہ کے ہی چھ مینارتھے۔لہٰذاسلطان بہت پریشان ہوااس کی غیرت نے یہ گوارا نہ کی کہ اس کی تعمیرکردہ مسجدکسی بھی لحاظ سے اللہ کے گھرکی ہمسری کرسکے۔مشاورت اورسوچ وبچارکرنے کے بعداس نے حرم مکہ کے مینار چھ سے سات کرنے کاحکم دے دیا۔ مسجدکی اندرونی تزئین وآرائش نیلے رنگ کی ہاتھ سے بنی بیس ہزارسنگ مرمرکی ٹائیلوں سے کی گئی ہے ۔ رات کے وقت اس کے میناروں اورگنبدوںمیں نیلے رنگ کی روشنی کی جاتی ہے۔جس کی وجہ سے اسے نیلی مسجدبھی کہاجاتاہے۔
اس قسم کے تاریخی حقائق بہت کم کسی کتاب میں ملتے ہیں۔ڈاکٹرتصوراسلم بھٹہ کایہ سفرترکی ڈراموں سے دلچسپی کی وجہ سے ہوا۔سوترک ڈراموں کے کردارسفرنامے میں کیوں نہ جلوہ گرہوں۔ ایساہی ایک کردارکوسم سلطان بھی ہے۔یونانی پادری کی بیٹی جونصف صدی تک سلطنت عثمانیہ کی سب سے طاقتور شخصیت رہی۔سب سے پہلے ڈاکٹرصاحب نے مسجدسلطان احمدکارخ کیا۔جس کے داخلی دروازے سے پہلے ایک احاطے کے اندرسونے کی جالی میں سلطان احمداول اوراس کے تین بیٹوںکی قبریں ہیںجواس کے بعدیکے بعددیگرے تخت نشین ہوئے۔ان باپ بیٹوں کے قبروں کے ساتھ کوسم سلطان کی قبرہے جسے ماہ پیکرسلطان بھی کہتے ہیں۔ سلطنت عثمانیہ کی سب سے طاقتورملکہ کی قبرجونصف صدی تک اقتدار کے ایوانوں پرچھائی رہی۔جس کے اقتدار کی ہوس اورمحلاتی سازشوں نے دولت عثمانیہ کی بنیادوں کوکھوکھلا کردیاتھا۔اس نے سلطنت کوزوال اورپستی کی ان اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیاجہاں سے واپسی ناممکن تھی۔ارطغرل غازی کی اولاد نے تین سوسالوں میں جتنی کامیابیاں حاصل کی تھیں۔ وہ اس عورت کی ہوس اقتدار کی نذرہوگئیں۔یورپ کاشیرجوسارے یورپ میں دھاڑتا پھرتاتھا وہ یورپ کامردبیماربن کررہ گیا۔کوسم سلطان نے تین مختلف حیثیتوں میں حکمرانی کی ۔بارہ سال خاتون اول،پھرستائیس سال مادر سلطان اورتین سال دادی سلطان کی حیثیت سے حکمران رہی۔اپنے ہرکردار میں اپنی شخصیت کی وجہ سے اپنی موت تک اقتدار پرغالب رہی اورسلطنت کے فیصلے اس کی مرضی سے ہوتے رہے۔سلطان اس کی مرضی سے اقتدار میں لائے یانکالے جاتے اوران کی زندگی وموت کے فیصلے بھی اس کے ہاتھ میں تھے۔
یہ بھی پڑھئے:
جماعت اسلامی کے امیر نئے ، ایجنڈا پرانا
معروف شاعر رخسار ناظم آبادی اللہ کو پیارے ہوئے
مزاح، اس کا کمانڈر انچیف اور جبار مرزا
سلمیٰ اعوان نے جب دل کے دروازے پر دستک دی
اقتدارکی اس جنگ میں جوماں اپنے بیٹے کوسلطان بنانے میں کامیاب ہوجاتی وہ دوسرے تمام امیدواروں کوان کی ماؤں سمیت قتل کروا دیتی۔پھرمادرسلطان کے روپ میں اپنے نوعمربیٹوں کی سرپرست بن کرحکومت کرتی اورتقریباً ہر سلطان کاحرم ایسی بلندنظراورمہم جوخواتین سے بھراہواہوتاتھا۔حریم سلطان نے اپنے تین سالہ نوعمربیٹے کوولی عہدبنوانے کے لیے اپنے سوتیلے بیٹے اور ولی عہدسینتیس سالہ مصطفٰی کواپنے باپ کے ہاتھوں قتل کرواکرجس کھیل کاآغاز کیاتھا،سوسال بعدکوسم سلطان نے اس فن کوعروج پرپہنچادیا۔
ترک تاریخ کے یہ تلخ حقائق بھی ”زبانِ یارمن ترکی” کااہم اوردلچسپ حصہ ہیں۔جن سے کتاب کی ریڈیبلیٹی میں اضافہ ہواہے۔سفر نامے کااہم باب ”ہائیہ صوفیہ”ہے،جوتقریباً ڈیڑھ ہزارسال تک عیسائیوں کی سب سے بڑی اورمتبرک عبادت گاہ رہی۔ عیسائیوں کے نزدیک اس کی وہی حیثیت تھی جومسلمانوں کے لیے خانہ کعبہ کی ہے۔ہائیہ صوفیہ کامطلب مقدس حکمت ہے۔یہ عمارت دیکھنے میں بالکل نیلی مسجدکی طرح نظرآتی ہے۔فرق صرف میناروں کاہے۔نیلی مسجدکے چھ مینارہیں جبکہ ہائیہ صوفیہ کے مینارچارہیں۔یہ عمارت تین بار تعمیر اورتین بارتباہ ہوئی۔ہربزنطینی حکمران اس عمارت میں تاج نشین ہوتاتھا۔عیسائیوں کاعقیدہ تھاکہ یہ عمارت حضرت عیسی کامعجزہ ہے اور مقدس روح یہاں رہائش پذیر ہے۔اس کے احاطے میں پانچ سلاطین مدفون ہیں۔ہائیہ صوفیہ کی داخلی دروازے کے دونوں طرف دوبہت بڑے سنگ مرمرکے مرتبان نمابرتن رکھے نظرآتے ہیں۔ان میں نمازیوں کے لیے ٹھنڈاپانی رکھاجاتااورجمعہ المبارک کواسے شربت سے بھرا جاتاتھا۔1453ء میں سلطان فاتح نے قسطنطنیہ فتح کیا اورہائیہ صوفیہ کومسجد میں تبدیل کردیا۔1934ء میں کمال اتاترک نے مغربی دباؤ میں آکر اسے میوزیم بنادیا۔یورپی سیاحوں کی اس عمارت سے محبت اوروارفتگی کے عجیب مناظردیکھنے میں آتے ہیں۔دس جولائی 2020ء کوترک سپریم کورٹ نے کمال پاشاکے 1934 ء کے فیصلے کوغیرقانونی قراردیتے ہوئے کالعدم قراردیدیا۔ استنبول شہرکے قدیم ریکارڈ کے مطابق ہائیہ صوفیہ کی عمارت سلطان محمدفاتح ٹرسٹ کی ملکیت ہے کیونکہ جب سلطان نے قسطنطنیہ فتح کیاتواس نے اپنی جیب سے یہ عمارت اس وقت کے آرتھوڈوکس چرچ سے خرید کرمسجدکے طور پروقف کی تھی۔اس کی خریداری کے دستاویزی ثبوت آج تک اپنی اصل حالت میں استنبول میوزیم میں محفوظ ہیں۔کسی نے بھی ان دستاویزات کوچیلنج نہیں کیا۔لہٰذا عدالت نے کمال پاشاکے فیصلے کوکالعدم قرار دے کرہائیہ صوفیہ کی مسجد والی حیثیت بحال کردی۔24جولائی 2020ء کوبروزجمعہ المبارک چھیاسی سال بعدہائیہ صوفیہ کے مینار سے ایک بارپھراذان دی گئی اور یہ عمارت اللہ اکبرکی آواز سے گونج اٹھی۔جس کے بعد ترک صدر طیب اردگان نے ہزاروں مسلمانوں کے ساتھ ہائیہ صوفیہ میں نمازجمعہ ادا کی۔
ڈاکٹرتصوراسلم بھٹہ نے ایک ”قصہ استنبول کے سوہنی مہنیوال کا” بھی بیان کیاہے۔”آبنائے باسفورس کے بیچوں بیچ اونچی چٹان پرایک برج بنا ہواہے۔اس برج کانام لیئنڈرٹاورہے۔ سوہنی مہیوال جیسی اس کہانی کاویساہی دردناک انجام ہوا۔اس برج میں ایک بہت خوبصورت راہبہ رہتی تھی۔ جس کانام ہیراتھا۔جودنیاکی رنگینیوں سے دوراس برج میں اپنا سارا وقت یونانی دیوی ایفروڈائیٹ کی عبادت میں گزارتی تھی۔ایک دفعہ ہیراکسی کام سے شہرگئی اور وہاں اسے ایک نوجوان دکاندارسے پیارہوگیاجس کانام لیئنڈرتھا۔اب لئینڈرروز رات کوآبنائے باسفورس میں تیرکراس سے ملنے آنے لگا۔ہیرارات کوکھڑکی میںایک لالٹین جلاکررکھ دیتی جورات کی تاریکی میں لئینڈرکی رہنمائی کرتی۔ گرمیاں یونہی وصال حسن وعشق میں گزرگئیں۔سردموسم آیاتوسمندرمیں طغیانی بڑھ گئی۔ تندوتیز موجوں میں تیرناناممکن ہوگیا۔ایک طوفانی رات ہیراکی نوکرانی نے غلطی سے لالٹین جلاکرجھروکے میں رکھ دی۔لئینڈرنے کھڑکی میں روشنی دیکھی تو وہ سمجھاکہ شائدہیرا ملاقات کرنا چاہتی ہے۔ وہ خود بھی فراق یار میں بے چین ہوچلاتھا۔اس سے رہانہ گیااورسوچے سمجھے بغیربپھرے سمندرمیں چھلانگ لگادی،جب قریب پہنچاتوطوفانی ہواؤں نے لالٹین بجھادی۔ وہ راستہ بھٹک گیااورسمندرکی طغیانی کی نذرہوگیا۔صبح سویرے اس کی لاش بہتی ہوئی برج سے جا لگی توہیراکواس کی موت کاعلم ہوا،جس پرہیرانے بھی سمندرمیں کودکرخودکشی کرلی اوریوں برج کانام لئینڈرٹاور پڑگیا۔”
ہمارا پنجاب بھی کسی سے کم نہیں۔حسن وعشق کی جوداستان یورپ میں رقم ہوئی ویسی ہی کہانی پنجاب کے سوہنی مہیوال سے بھی منسوب ہے بلکہ ہماری پنجاب کی سوہنی اس لحاظ سے ہیراسے نمبرلے گئی کہ وہ کچے کھڑے پرچناب کوپارکرکے اپنے مہیوال سے ملنے جایاکرتی تھی۔اس برج کا دوسرا نام میڈن ٹاورہے۔ جس سے منسوب کہانی بھی ہم نے بچپن میں سن رکھی ہے۔”ایک بادشاہ کے ہاں کوئی اولادنہیں تھی۔بہت دعاؤں کے بعدبہت خوبصورت بیٹی پیداہوئی۔اس بیٹی کی پیدائش پرساری سلطنت میں ایک مہینے تک جشن منایاگیا۔اس دوران مشہور نجومی کوقسمت کاحال جاننے کے لیے بیٹی کاہاتھ دکھایاگیا۔جس نے بتایاکہ شہزادی کی عمرکے پہلے اٹھارہ سال اس کے لیے بھاری ہیں اور اس کی موت سانپ کے ڈسنے سے ہوگی۔اگروہ اٹھارہ سال تک بچی رہی توپھر وہ ساری دنیا پرراج کرے گی۔شہنشاہ نے دریاکے درمیان بنے برج نمامحل میں شہزادی کومنتقل کردیا۔صرف شہنشاہ بیٹی سے ملنے روزکشتی پروہاں جایاکرتاتھا۔وقت گزرتارہا۔اٹھارہ سال بیت گئےَ آخروہ دن آپہنچاجب شہنشاہ نے بڑی دھوم دھام سے بیٹی کودارالحکومت واپس لانے کااہتمام کیا۔شہنشاہ خود شہزادی کولینے جزیرے پر پہنچا ۔ وہ اپنے ساتھ انواع واقسام کے پھلوں سے بھری ٹوکری بھی لے گیاتھا۔ لیکن ہونی ہوکررہتی ہے۔ اس ٹوکری کے پھلوں کے نیچے کہیں ایک زہریلا سانپ بھی چھپابیٹھاتھا۔شہزادی نے جیسے ہی ٹوکری میں ہاتھ ڈالا۔سانپ نے اس کے ہاتھ پرڈس لیا اوربیٹی نے باپ کی بانہوں میں دم توڑدیا۔”
استنبول پہنچ کرڈاکٹرتصورکوعلم ہواکہ اس شہنشاہ کانام قسطنطین اول تھا اور وہ شہزادی اوراس کی بیٹی جوزفین تھی اوردریاکے اندربنے جس برج میں وہ شہزادی رہتی تھی۔ اس کانام میڈن ٹاورہے،جس کامطلب ہے کنواری لڑکی کاٹاور۔اس سے ڈاکٹر صاحب کوکرکٹ کامیڈن اووریاد آگیا۔ان کے مطابق شاید اسی لیے ایسے اوورکوجس میں کوئی رن نہ بنے اسے میڈن اوورکہاجاتاہے۔اب اس کوکنوارہ اوورکہاجاسکتاہے یا نہیں یہ آئی سی سی سے پوچھناپڑے گا۔
مسلمان ہردور میںعلم دشمن رہے ہیں۔جس دین کاآغاز ”اقرا” کے لفظ سے ہوا۔اس میں علم دشمنی عام ہے اورستاون اسلامی ممالک میں اتنی یونیورسٹیاں نہیں جتنی صرف جاپان میں ہیں۔علم دشمنی کی بات تبصرہ کرتے ہوئے”زبانِ یارمن ترکی” کے ایک باب”ہزارفن احمدچلیبی ” پڑھ کرآیا۔احمدچلیبی دنیاکا پہلا ہواباز ہے۔”3جون1632ء جمعہ کادن تھا۔ساراقسطنطنیہ نمازجمعہ کی ادائیگی کے بعد آبنائے باسفورس کے دونوں کناروں پرجمع تھا۔ بیس سالہ عثمانی خلیفہ مراد رابع بھی اپنی ماں کوسم سلطان کے ساتھ یورپی کنارے پرواقع سرائے بورنومیں سنان پاشاکی چھت پرموجودتھا۔مرد،عورت،بچہ بوڑھاہرکوئی بڑی بیتابی سے گلاٹاٹاورکی طرف دیکھ رہاتھا۔جہاں تئیس سالہ ہزارفن احمد چلیبی اپنے بڑے بھائی حسن چلیبی کے ساتھ ٹاورکی چھت پرکھڑا تھا۔احمدچلیبی نے اپنے بازؤں اورجسم کے ساتھ پرندوں کے پروں جیسی فلائنگ مشین باندھ رکھی تھی۔اس نے آج کے دن کے لیے بڑی محنت کی تھی۔وہ پچھلے سات سال سے پرندے کی طرح ہوا میں اڑنے کا خواب دیکھ رہاتھا۔اس نے ہزاروں نقشے بنائے تھے۔کئی ہفتوں اورمہینوں تک عباس بن فرناس اورلیونارڈو ڈاونچی کے بنائے نقشوں کا مطالعہ کیاتھا۔ اس کاہیرووہ ترک اسماعیل جوہری تھا کوایک ہزارآٹھ میں پرندوں کی طرح ہوامیں اڑنے کی مشق کرتے ہوئے نیشاپورکی مسجد کی چھت سے گرکرہلاک ہوگیاتھا۔اس نے اسماعیل کے بنائے ماڈل میں کئی تبدیلیاں کی تھیں۔گھنٹوں پرندوں کے اڑنے کے عمل کا مشاہدہ کیاتھا۔تب جاکرعقاب کے پروں جیسے دوپراپنے جسم کے وز ن اورجسامت کے مطابق تیارکیے تھے۔اس نے اپنے جسم کوچوٹ سے بچانے کے لیے خاص لباس بنایاتھا۔پچھلے کئی ماہ سے وہ اپنے جسم کے ساتھ یہ پرباندھ کراڑنے کی مشق کررہاتھا۔نوباراسے اپنے کوششو ں میں ناکامی ہوچکی تھی لیکن وہ حوصلہ نہیں ہارا تھا۔احمدچلیبی نے گہری سانس بھری،ایک نظرنیچے کھڑے ہزاروں تماشائیوں پر ڈالی۔ سلطان کا اشارہ پاتے ہی حسن چلیبی نے اپنے بھائی احمدچلیبی کوگلاٹاٹاورسے دھکادیا۔وہ تیزی سے نیچے گرنے لگا۔اس کادل ڈوب رہاتھا ۔ خوف اورامید کی ملی جلی کیفیات کے ساتھ اس نے اپنے بازوؤں کوپرندوں کی مانند اوپرنیچے حرکت دیتے ہوئے اپنے جسم سے بندھے پر پھڑپھڑائے اورسات آٹھ کوششوں کے بعد وہ نیچے گرنے کے بجائے کسی بڑے پرندے کی مانندہوامیں تیرنے لگا۔اس کاوہ خواب جس کے لیے اس نے دن رات ایک کردیے تھے پورا ہوگیا۔وہ پرندوں کی طرح ہوامیں اڑرہاتھا۔کچھ دیرہوامیں تیرتارہااورپھرآبنائے باسفورس کے اوپرسے اڑتاہوا ساڑھے تین کلومیٹرکافاصلہ طے کرکے اسکودورکے ایک محلے ڈوگن کلیئرکے میدان میں بحفاظت اترگیا۔ اس کی پرواز کادورانیہ پندرہ سے بیس منٹ تھا۔”
یوں احمدچلیبی دنیاکا پہلاشخص بن گیاجس نے اسپین کے عباس بن فرناس اورنیشاپورکے اسماعیل جوہری کی بنائی ہوئی فلائنگ مشین (گلائیڈر)کوبہتر بنایااورپروندوں کے پروں کی شکل والی اس مشین کی مدد سے پہلی کامیاب پروازکی۔مغربی تاریخ دان اسے انسانوں کی تاریخ کے پہلے برڈمین کے نام سے یاد کرتی ہے۔ یہ دنیاکی پہلی بین البراعظمی فلائٹ بھی تھی۔ کیونکہ احمدچلیبی نے استنبول کے یورپی حصے سے پرواز کاآغاز کیا اوراستنبول کے ایشیائی حصے میں لینڈ کیاتھا۔
اگلے دن احمدچلیبی کے لیے توپ کاپی محل میں دربارسجایاگیا۔ خلیفہ مراد رابع نے سونے کے سکوں سے بھری بوری اسے انعام میں دی۔ لیکن چندماہ بعدسلطان نے احمدچلیبی کویہ کہتے ہوئے جلاوطن کردیاکہ ”ایسے انسان سے ڈرناچاہیے کیونکہ وہ جوچاہتاہے کرگزرتاہے۔ ایسے انسانوںکویہاں رہنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔” احمدچلیبی الجزائرچلاگیا اوروہیں گمنامی میں اس کی موت واقع ہوگئی۔ڈاکٹر تصوراسلم بھٹہ لکھتے ہیں۔” میں گلائیڈرکے ماڈل کے سامنے کھڑاسوچ رہاتھاکہ بیس اکیس سال کی عمرمیں احمدچلیبی علم وہنرکے اتنے بڑے رتبے پرفائز ہوگیاتھاکہ دنیاآج تک اسے ہزارفن چلیبی کے نام سے یادکرتی ہے۔ لیکن کس طرح وہ اپنوں کی ناانصافی،ناشناسی اوربے قدری کانشانہ بنا۔اگراس کے علم وفن کوعزت دی جاتی تونہ جانے وہ کیاقیامت ڈھاتا۔اگراس ٹیلنٹ کی قدرکی جاتی اوراسے اسباب مہیا کیے جاتے توعین ممکن ہے دنیاکوہوائی سفرکی نعمت کئی صدیاں قبل ہی میسرآجاتیں۔
یہی سلوک اس کے بھائی حسن چلیبی کے ساتھ ہواجس نے دنیاکی تاریخ میں پہلی مرتبہ اپنے بنائے سات پروں والے راکٹ میں پروازکی تھی۔اسے بھی پہلے انعام واکرام سے نوازاگیاپھرتنگ نظرملاؤں اوردرباریوں کے مشورے پرکریمیاجلاوطن کردیاگیا۔ڈاکٹراسلم بھٹہ کی کتاب کی دلچسپی میں اضافہ ایسی ہرتفصیل کے ساتھ فراہم کردہ رنگین تصاویرسے ہوجاتاہے اورسفرنامہ کی معنویت بھی بڑھ جاتی ہے۔
” زبانِ یارمن ترکی ” کامطالعہ ہرصاحب ذوق معلومات کے رسیا کے لیے لازمی ہے۔کتاب کے ابتدائی چند ابواب کا جائزہ ہی اتنا طویل ہوگیاکہ بقیہ کتاب کے موضوعات اورعنوانات کے ذکرتک ہی محدود رہنا پڑے گا۔کتاب کوتین حصوں میں تقسیم کیاگیاہے۔حصہ اول استنبول پینتیس ابواب پرمشتمل ہے۔ جن میں”نیلی مسجد”،”کوسم سلطان”،” ہائیہ صوفیہ”،”قسطنطین کاستون”،”آبنائے باسفورس”، ” قصہ استنبول کے سوہنی مہنیوال کا”،”ہزارفن احمدچلیبی”،”ترکی کاابن بطوطہ”،” قصہ چہاردرویش”،” حضرت ابوایوب انصاری” ،” استنبول کی زیرزمین مسجد”،” سلطان فاتح اوراس کی مسجد”،”توپ کاپی محل”،” استنبول کے چارمیوزیم”،”استنبول کانیول میوزیم”،”پنوراما1453 میوزیم”،”مینیاترک”،”گرینڈبازار”،” حضرت عثمان کاقرآن”،”نبی پاکۖ کی تلواریں”،”رسولِ اکرمۖ کا خط”،” چمچہ بنانے والے کاہیرا”،” سرخ داڑھی والا”،” ڈۖلماباغیچہ محل اور کمال پاشا”،”سلطان سلیم اول”،” مرکزآفندی اورجشن مسیر”،” سلیمانیہ مسجد”،” یحٰییٰ آفندی”،” سلطان عبدالحمید اورضیاگوکلیپ”،”معمارسنان طبریزی”،” شہزادوں کے جزیرے”،”کمال پاشاکاترکی یااردگان کا ترکیہ”،” طیب اردگان کی مسجد”،” سلطانیت” اور”قسطنطنیہ سے استنبول تک”۔ ہرباب ترکی تاریخ،تہذیب سے متعلق ایک نئی کہانی سے بھرپورہے۔جو معلومات کے ساتھ عقیدت سے لبریز ہیں۔جیسے ” قصہ چہاردرویش ” میں استنبول کے چہارجانب موجودچار درویشوں کا مختصر قصہ جن کے مزارات مرجع خلائق ہیں۔جہاں ترقی کا ذکرضروری ہے۔ وہاں جدید ترکی کااحوال بیان کیاگیاہے۔
”زبانِ یارمن ترکی” کا دوسرا حصہ”کیپا ڈوسیا”ہے۔جسے تیرہ ذیلی عنوانات میں تقسیم کیاگیاہے۔ ”پریوں کادیس”،”کیپاڈوسیاکے زمین دوزشہر”،” ایک بوڑھے ترک سے ملاقات”،”اپالوکاشہر”،” روئی کے قلعے”،” اوغوزخان اورترک”،” سلجوق بیگ سے منزکرت تک”،” انا طولیہ اورانطالیہ”،” ایفیسس”،” حضرت مریم کاگھر”،” اصحاب کہف کاغار”،” ڈائناکا مندر”اور ”قونیہ ،رومی اوراقبال”۔ ڈاکٹرتصوراسلم بھٹہ نے استنبول میں سات آٹھ دن خوب سیرکی ،لیکن یہ مختصرقیام محض تعارف ہی رہا۔گہری دوستی میں نہ بدل سکااورمزیددیکھنے کی تشنگی برقرار رہی۔استنبول کواس وعدے کے ساتھ الوداع کہا کہ دوبارہ ملیں گے اوراستنبول کے ہوالمانی((ہوائی اڈے) سے پریوں کے دیس کیپاڈوشیا روانہ ہوگئے۔کیپاڈوشیاکی تاریخ پانچ ہزارسال پرانی ہے۔مشہوریونانی مصنف اورتاریخ دان ہیروڈوٹس کے مطابق ٹارس پہاڑ ،بحیرہ روم،بحیرہ اسود،قیلیقیہ اوردریائے فرات کے درمیانی علاقے کوکیپاڈوشیاکہتے ہیں۔اسے تین ہزارقبل مسیح میں تانبے کے دور میں آباد کیاگیاتھا۔سکندراعظم اسی علاقے سے گزرکرشام میں داخل ہواتھا۔نہ جانے کیوں ایسالگتاہے کہ کیپاڈوشیاپریوں کادیس تھا۔یہاں پریوں رہتی تھیں جوانسانوں کے ڈرسے پہاڑوں اورمٹی کے ٹیلوں کے اندربنے اپنے چھوٹے چھوٹے گھر وں کوچھوڑکرکہیں دورچلی گئیں۔ ایسے ہی کسی دیس میں جہاں سے انسانوں گزرنہیں ہوتا۔یہاں مسلمانوں کی آمدحضرت امیرمعاویہ کے دورمیں ہوئی۔کیپاڈوشیامیں اب تک چھتیس زیرزمین شہردریافت ہوچکے ہیں۔یہ شہرتین تین چارچارمنزلہ ہیں۔ان شہروں کے اندرنہ صرف پانی کے تالاب تھے بلکہ اجناس کے گودام،اصطبل،جانوروں کے باڑے، چھوٹی فیکٹریاں،تیل کے ذخائر اورلاشیں محفوظ رکھنے کے کمرے تک موجود تھے۔ڈیرن کویو کیپا ڈوشیاکا گہراترین شہرتھا۔علاقے میں دوسوسے زائدزمین دوزشہرتھے جویہاں کے باشندوں نے بیرونی حملہ آوروں سے بچاؤ کے لیے بنا رکھے تھے۔مسلمانوں نے جب نویں صدی میں یہاں حملے شروع کیے تواس علاقے کے عیسائی باشندوں نے ایک بارپھراپنے ان زمین دوزشہروں سے مدد لی۔1923ء میںیہ شہردوبارہ دریافت ہوئے اورسیاحوں کی توجہ کا مرکزبن گئے۔مصنف کو ان میں سے دوشہروں جو نواشیراورگوریم کے درمیان واقع ہیں سیرکرنے کاموقع ملا۔ ان دوشہروں کونوکلومیٹر طویل سرنگ سے آپس میں ملایاگیاہے۔ جوبذات خود ایک عجوبہ ہے۔ڈاکٹرتصور کے مطابق قونیہ اوررومی کے ذکرکے بغیرترکی کی داستان مکمل نہیں ہوسکتی اورہماری بدقسمتی یہ رہی ہے ہم سارا ترکی گھوم لیے۔ لیکن نہ قونیہ جاناہماری قسمت میں تھانہ رومی کی زیارت نصیب ہوسکی۔ گوہماری ملاقات نہ ہوسکی لیکن میں سمجھتاہوں کہ مولانا روم کاتذکرہ کیے بغیرمیرایہ سفرنامہ مکمل نہیں ہوسکتا۔ملاقات نہ سہی،تذکرہ ہی سہی،دیارنہ سہی،اس عظیم شخصیت کے حضورعقیدت کے چند پھول ہی سہی۔جس کے کلام کی آج مغربی دنیادیوانی ہورہی ہے۔یہ ایک بہت دلچسپ اور معلوماتی باب ہے۔
خلافت عثمانیہ کے آخری خلیفہ ”سلطان عبدالحمیداورضیاگوگلیپ” بہت چشم کشاہے۔” وہ سلطان جوسلطنت عثمانیہ کاآخری طاقتوراوربااختیار سلطان تھا دنیابھرکے مسلمانوں کی آخری امیدتھا جس نے ترکوں کی ڈوبتی ناؤکوپارلگانے کی ہرممکن کوشش کی خلافت اسلامیہ کومٹانے کی غرض سے آنے والے ہرطوفان کے سامنے تینتیس سال تک کھڑا رہا لیکن آخرکاراہل مغرب اوریہودیوں کی بڑھتی ریشہ دوانیوں، اپنی محلاتی اوراندرونی سازشوں کے سامنے ہارگیا یہ وہ دورتھاجب یہودی اپنے سرمائے اوردولت کی بدولت دنیاکواپنی گرفت میں لے چکے تھے دنیاکی معیشت کے خدابن چکے تھے۔ان کے وطن اورخوابوں کی تعبیرکے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ خلافت اسلامیہ اورسلطنت عثما نیہ تھی جواپنی تمام ترکمزوریوں اورزوال کے باوجود کوہ گراں تھی۔ وہ اپنی پوری توانانیوں کے ساتھ اس پرحملہ آورتھے انہوں نے سلطان کوہر طرح مجبورکیا،ڈرایادھمکایا ، لالچ دیا کہ وہ کسی طرح فلسطین ان کے حوالے کردے۔لیکن سلطان نے ان کے آگے جھکنے سے انکارکردیا۔تھیو ڈورہرتزل کواسرائیل کا روحانی بانی سمجھاجاتاہے۔ اس نے الدولتہ الیہودیہ کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ جوپہلی مرتبہ 1896ء میں شائع ہوئی۔اس کتاب میں الگ صیہونی ریاست کاتصورپیش کیاگیاتھا۔لیکن وہ کتاب کی اشاعت سے پہلے ہی ویانامیں ہونے والے یہودیوں کی عالمی کانفرنس میں الگ یہودی ریاست کاتصورپیش کرچکاتھا۔جس کے مطابق وہ دوباریہ پیش کش لے کراستنبول گیاکہ اگرسلطان عبد الحمیددوئم یہودیوں کوفلسطین میں رہنے کے لیے ایک خطہ زمین عطاکردے تویہودی سلطنت عثمانیہ کا سارا قرضہ ادا کردیں گے بلکہ انہوں نے اس کے عوض سلطان کوسونے میں تولنے کی پیش کش بھی کی۔سلطان نے یہ کہہ کرانکارکردیاکہ فلسطین اس کی ذاتی جاگیرنہیں بلکہ مسلمانوں کی امانت ہے۔جس پرمایوس ہوکریہودیوں نے اسے راستے سے ہٹانے کی کوششیں شروع کردیں۔اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ سلطان اورخلافت کے خلاف بغاوت میں برطانیہ کے ترکی میں سفیرنے بھی بہت اہم کرداراداکیاتھااورباغیوں کوہرطرح کی مالی،فوجی اورقانونی مددفراہم کی۔”
اس مختصر اقتباس سے فلسطین کے بارے میں یہودی عزائم کی جھلک نظرآتی ہے کہ کس طرح یہودیوں نے خلافت اسلامیہ کے خاتمے کی سازش کی اورفلسطین کی زمین پرقابض ہوئے۔
کتاب کاتیسرا اورآخری حصہ”برصہ ” ہے۔ جواٹھارہ ذیلی ابواب میں تقسیم کیاگیاہے۔ ”برصہ”،” علی اوراس کاگاؤں”،”ارطغرل غازی”، ”عثمان غازی”،” عثمان غازی کی تلوار”،” شیخ ادابیلی”،” اورخان غازی”،” نیلوفرخاتون” ،”علاؤالدین پاشا”،” سلطان مراداول”،”
لالہ شاہین پاشا”،” جامعہ اولیٰ”،” امیرسلطان”،” سلطان محمداول”،” سلطان مرادثانی”،” برصہ کاچھ سوسالہ درخت”،”ہرکمالے را زوالے ” اور”خداحافظ ترکی”۔
برصہ عثمانی ترکوں کاتیسرادارالخلافہ ۔عثمانیوں کاآبائی شہر۔قصہ اس شہردل پذیرکی سیرکا جس کی فتح دراصل سلطنت عثمانیہ کے عروج کی ابتدا تھی۔ایفیسس کے بعدڈاکٹر اسلم بھٹہ کی اگلی منزل برصہ تھی۔ایفیسس کاموجودہ نام سلجوق ہے۔ابن بطوطہ نے اپنی کتاب”رحلہ” میںسلجوق کاذکرکیاہے۔وہ برصہ سے سلجوق اوروہاں سے ازمیر گیاتھا۔ڈاکٹرتصوراسلم ازمیرتو نہ جاسکے، لیکن برصہ ضرورگئے۔برصہ تین باراجڑا،تین باربربادہوا اورپھرتین بارآبادہوگیا۔سلطان بایزیدیلدرم انگورہ کی جنگ ہارگیاتوتیمورلنگ نے اسے گرفتارکرلیااوراپنے ساتھ سمرقندلے گیا۔تیمورلنگ کے پوتے محمدسلطان مرزانے برصہ پرقبضہ کرنے کے بعدشہرکوآگ لگادی اورتمام شہرمسمارکردیا۔لیکن چنددہائیو ںمیں برصہ دوبارہ آبادہوگیااوراس کی وہ پرانی رونقیں واپس لوٹ آئیں۔1805ء میں برصہ میں بڑی خوف ناک آگ لگی اوردوتہائی سے زیادہ شہرتباہ ہوگیا۔1855ء میں آنے والے زلزلے میں ایک بارپھرساراشہراس طرح بربادہواکہ شائدہی کوئی عمارت سلامت بچی ہو۔لیکن پھربھی کہاجاتاہے کہ برصہ جنت نظیرہے۔بلندوبالاپہاڑوں میں گھرا۔پراسرارسا،دل موہ لینے والاشہر۔تاریخ اورثقافت کامرکز۔ ترکی کی سیربرصہ کے بغیرمکمل ہی نہیں ہوسکتی۔یہ شہرڈھائی ہزارفٹ اونچے الوداپہاڑ کے دامن میں واقع ہے۔یہ آلوبخاے،اخروٹ، چیری،خوبانی اورانگورکے باغات سے گھراایک بہت ہی خوب صورت شہرہے۔جوزمانہ قدیم میں اپنے گرم چشموں کی وجہ سے بہت مشہور تھا ۔اسے دوسوقبل مسیح میں بیتھنہ کے بادشاہ پروسیس نے آبادکیا۔سوقبل مسیح میںیومینس نے اسے فتح کرکے رومی سلطنت میں شامل کرلیا۔ پانچویں صدی عیسوی میں جسٹنین اول نے یہاں ایک بہت مضبوط قلعہ تعمیرکروایاتویہ قسطنطنیہ کے بعدبزنطینی روم کادوسرا مشہوراوراہم ترین شہربن گیا۔برصہ کی فتح دراصل سلطنت عثمانیہ کے عروج کی ابتداتھی۔
ڈاکٹرتصوراسلم بھٹہ نے ”زبانِ یارمن ترکی” کی صورت میں اردو قارئین کوترک تاریخ وثقافت کاانسائیکلوپیڈیادیاہے۔اس کتاب کوپڑھنے والاترکی سے پوری طرح آشناہوجاتاہے۔سفرنامے کے لیے اتنی تحقیق وجستجوشائد ہی کسی سفرنامہ نگار نے کی ہو۔جس کے لیے ڈاکٹرتصور اسلم بھٹہ بھرپورداد کے مستحق ہیں اورقارئین بے چینی سے ان کی اگلی کتاب”اہل وفاکی بستی” کاانتظارکریں گے۔مصنف کی یہ دوسری تصنیف بیت المقدس میں رہنے والے اہل وفاکی وفاؤں اوران کے دیس کی یاتراکی رودادہوگی۔نہ توطاغوت کے جوروستم کی شدت کم ہو تی ہے اورنہ مظلوموں کے حوصلوں اورقربانیوں میں کمی آتی ہے۔یروشلم ،اسرائیل اوراردن کے سفرکی یاد داشتوں پرمبنی سفرنامہ پڑھنے والوں کے لیے تحفہ خاص ہوگا۔غزہ میں جاری اسرائیل کے ظلم وستم کے پس منظر میں یہ بہت اہم تصنیف ہوگی۔