پاک فوج نے اردو ادب کوکئی منفرد اورباکمال مزاح نگاردیے ہیں۔جن کے سرخیل جنرل شفیق الرحمٰن ہیں اس فہرست میں کرنل محمد خان ، سید ضمیر جعفری، کرنل اشفاق حسین، بریگیڈیئر صدیق سالک ، برگیڈیئر صولت رضاجیسے ہمیشہ زندہ رہنے والے مزاح نگار شامل ہیں۔ بریگیڈیئرنعمان الحق فرخ اس فہرست میں تازہ اضافہ ہیں۔ جن کی پہلی کتاب”زندہ لمحات” حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔
بریگیڈیئر(ر) نعمان الحق فرخ نے1978ء میں فوج میں کمیشن لیا اور2011ء تک فوج میں خدمات انجام دیں۔ ان کاتعلق پاک آرمی کی آرٹلری برانچ سے رہا اور وہ مختلف پوزیشنز پرفوج کے اہم شعبوںاورپلاننگ ڈویژن سے منسلک رہے اورفوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد دس سال تک نیشنل کمانڈاتھارٹی کے زیرکمان ایک اہم محکمے میں تعینات رہے۔چارعشروں تک آرمی سروس کے دوران انہیں ملک اور بیرون ملک خدمات انجام دینے کاموقع ملا۔انہوں نے طویل عرصہ تک فوج اورسرکاری اداروںکے سنجیدہ ماحول میں گزارنے کے باوجو داپنی حسِ مزاح کوقائم رکھااوراپنی کتاب ”زندہ لمحات ” میں بے مثال قابل ِ ستائش یادداشت اورشاندارقوتِ مشاہدہ کوبروئے کارلاتے ہوئے گذشتہ چاردہائیوں میں پیش آنے والے چند دلچسپ واقعات کوشگفتہ انداز میں قلم بندکیاہے۔
یہ بھی دیکھئے:
اندرون ملک تجربات کے ساتھ پاکستا ن سے باہرسروس کے دوران پیش آنے والے دلچسپ واقعات قاری کی توجہ اپنی جانب مبذول کراتے اورکتاب کوقابل مطالعہ بناتے ہیں۔
مشہورشاعر،دانشوراورپبلشرخالدشریف لکھتے ہیں۔” مزاح لکھنااوراس طرح لکھناکہ کسی کی دل آزاری نہ ہو، جان جوکھم کاکام ہے،یہی وجہ ہے کہ سات دہائیاں گزرنے کے بعدبھی وطنِ عزیز میں مزاح نگاروں کی تعداد دونوں ہاتھوں کی انگلیوں پر گِنی جاسکتی ہے۔ایسے میں حسنِ اتفاق کہئے یاکوئی ناقابل فہم وجہ کہ اردوکی اس کمیاب صنف کوثروت مندکرنے میں مرکزی کردارعساکرپاکستان سے تعلق رکھنے والے لکھاریوں نے اداکیاہے۔بظاہرسادہ اورآسان نظرآنے والے ہرجملے کوبقول شفیق الرحمٰن خون کی ایک بوتل پلاناپڑتی ہے۔یہی ریاضت ہے جوان کے تخلیق کردہ کرداروں کوضرب المثل بناکرہماری زندگیوں میں شامل کردیتی ہے۔
کرنل محمدخان، میجرسیدضمیرجعفری، بریگیڈیئر صدیق سالک اورصولت رضا جیسے اہم شگفتہ نگاروں صف میں نعمان الحق کی صورت میں ایک خوبصورت اضافہ ہورہاہے۔”زندہ لمحات” سہل اورسلیس زبان میں لکھی ہوئی دلکش تحریر ہے۔جس میں مصنف نے فوجی ملازمت کے آغازاورمابعدمراحل نیزبیرونِ ملک تعیناتیوں کا احوال مزاح کاتڑکا لگاکرپیش کیاہے۔جس مہارت اورچابکدستی سے انہوں نے کردارنگاری کی ہے اس سے کہیں یہ ظاہرنہیں ہوتاکہ یہ مصنف کی پہلی کتاب ہے۔”زندہ لمحات” آپ بیتی اورحقیقی داستان ہوتے ہوئے بھی فکشن کی سی جاذبیت اورلطف مطالعہ کی حامل ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
ریکو ڈیک: منصوبے کی عجلت میں منظوری بلوچستان کے وسائل پر ڈاکا
یوم ماں: مصری تہذیب میں قدیم وجدید پس منظر
شاہ محمود قریشی کی توقع اور لوٹا کریسی
دانشور،مصنف، ماہرلسانیات اور ادارہ فروغ زبان اردوکے ڈائریکٹر جنرل رؤف پاریکھ ”معروضات” کے عنوان سے ایک اہم نکتہ پیش کیاہے۔ ”ہماری افواج نے بہت سے جیداہل قلم قوم کودیے ہیں۔جس میں کرنل محمدخان،ضمیرجعفری، شفیق الرحمٰن، کرنل مسعوداحمد، اشفاق حسین، صولت رضا جیسے کئی نمایاں مزاح نگاروں کے نام توسرسری طور پردیکھنے میں آجاتے ہیں۔ان فوجی بھائیوں کی مزاح نگاری کاسب سے اہم وصف ان کا اندازِنظرہے۔وہ مشکلات میں مسکراناجانتے ہیں اورسچی بات یہ ہے کہ حوصلہ صرف فوجی کاہی نہیں بلکہ کسی بھی انسان کا سب سے بڑاہتھیارہواکرتاہے۔’
بقول مشتاق احمدیوسفی حسِ مزاح ہی انسان کی چھٹی حس ہے اوراگریہ حس پاس ہوتوانسان تمام مشکلات سے ہنستاکھیلتاگزرجاتاہے۔”زندہ لمحات ” کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس کامصنف اسی طرح کی چھٹی حس سے متصف ہے اورمشکلات میں مسکراناجانتاہے۔وہ مشکل ترین لمحات اورسخت ترین واقعے بلکہ سانحے کاذکربھی اس ہلکے پھلکے اندازمیں کرتاہے کہ قاری بے اختیارمسکرا اٹھتاہے۔”
کالم نگاریاسرپیرزادہ نے نعمان الحق فرخ کے بارے میں لکھاہے۔”میں ان لوگوں کورشک کی نگاہ سے دیکھتاہوں جوتمام عمرنوکری کرنے کے بعد ریٹائرہوتے ہیں اور پھربڑے اطمینان سے اپنی یادداشتوں پرمبنی کتاب لکھ مارتے ہیں۔ایسی ایسی جزئیات ان کتابوں میں بیان کی جاتی ہیں کہ بندہ حیران رہ جاتاہے ،یوں لگتاہے کہ جیسے کوئی فلم آنکھوں کے سامنے چل رہی ہو۔نوکری میں کب کیاہوا،کن کن لوگوں سے پالاپڑا،ان سے کیاگفتگوہوئی،ان ملاقاتوں میں مصنف کس ‘پوز’ میں بیٹھاتھا، اس نے کس رنگ کی قمیض پہنی ہوئی تھی،مدمقابل کے چہر ے پرکیاتاثرات تھے،اس ملاقات کے دوران کس قسم کی گفتگوکی تھی۔بریگیڈیئرنعمان الحق صاحب بھی کچھ ایسی یادداشت کے مالک ہیں۔ان کی یہ کتاب پڑھ کریوں لگتاہے کہ جیسے پی ایم اے کاکول اکیڈمی میں داخل ہوتے ہی انہوں نے یہ فیصلہ کرلیاہوگاکہ جب وہ فوج سے ریٹائرہوں توایک کتاب میں وہ تمام واقعات لکھیں گے جوآئندہ نوکری میں انہیں پیش آئیں گے،اوراس مقصدکے لیے انہوں نے روز اول سے ہی ڈائری لکھنا شروع کردی ہوگی۔
اگرایسانہیں ہے اور بریگیڈیئرصاحب نے محض اپنی یادداشت کے سہارے یہ کتاب لکھی ہے ومجھے یہ کہنے میں کوئی عارنہیں کہ وہ ایک غیرمعمولی صلاحیت کے حامل شخص ہیں۔بریگیڈیئرصاحب ادبی ذوق رکھتے ہیں اس کاثبوت انہو ں نے اشعارکی صورت دیاہے جوتقریباً ہردوسرے مضمون میں ہمیں نظرآتے ہیں۔ان کی کردارنگاری بھی عمدہ ہے۔دلچسپ فقرے کتاب میں جابجانظرآئیں گے۔اگرکچھ نظرنہیں آئے گاتوخودبریگیڈیئرصاحب نظرنہیں آئیں گے۔مجھے خوشی ہے کہ فوج کی نوکری افسرا ن میں ایسی حسِ مزاح پیداکردیتی ہے کہ بندہ ریٹائرمنٹ کے بعد طنزومزاح کی کتاب لکھنے پرقادرہوجاتاہے۔اگراسی رفتارسے
بریگیڈیئر صاحبان مزاح کی ایسی اچھی کتابیں لکھتے رہے تومستقبل میں شاید اس کام کے لیے ایک نئی’کور’ بنانی پڑجائے!”
مختصر”پیش لفظ” میں بریگیڈیئر(ر) نعمان الحق فرخ نے لکھاہے۔” روزمرہ زندگی میں پیش آنے والے چندواقعات اوران سے جڑے لوگ ماضی کی یادوں کاحصہ بن کرحافظے میں اس طر ح محفوظ ہوجاتے ہیں کہ ان کو بھلا دینا ممکن نہیں رہتا۔ ان لمحات کی یادیں نہ صرف بیتے ہوئے ایام پھرسے جینے کی فطری خواہش کی تکمیل کرتی ہیں بلکہ تنہائی کے لمحات میں لبوں پرمسکراہٹ بکھیرنے کاسبب بھی بنتی ہیں۔یہ غیر ریشہ ورانہ یادداشتیں قلم بندکرنے کامقصد زندگی میں پیش آنے والے ان خوشگوارلمحات کومحفوظ کرنا ہے جوکئی دہائیاں گزرجانے کے باوجود آج بھی روز اول کی طرح زندہ جاوی ہیں۔تمام یادداشتیں حقیقی واقعات پرمبنی ہیں لیکن بقول آصف عثمان کچھ ‘زندہ لمحات’ میں ‘زیبِ داستان’ کے لیے تھوڑے سے رنگ کی آمیزش ناگزیرہوتی ہے۔”
نعمان الحق صاحب کااسلوب بہت سادہ، زبان عام فہم اور انداز بے حدشگفتہ ہے۔ وہ بعض عام سے واقعے کوبھی بے حدپرمزاح بنادیتے ہیں۔پاکستان ملٹری اکیڈمی میں جسمانی سزاجسے اکیڈمی کی زبان میں ‘رگڑا’ کہاجاتاہے،جنٹلمین کیڈٹس کی تربیت کالازمی جزوہے،اکیڈمی کے روزاول سے یہ رسم کیڈٹس کی شخصیت اورکردارسازی میں اہم کرداراداکرتی ہے۔ اس مقصدکے لیے جسمانی تربیت کے اساتذہ اور ڈرل انسٹرکٹرزکے علاوہ چوتھی ٹرم کے کیڈٹس جو سینئرزکہلاتے ہیں،متعلقہ افسران کے مددگارہوتے ہیں۔
اس میں ‘بٹالین سارجنٹ میجر’ کا عہدہ رکھنے والے سینئرکورس میٹ کے کیڈٹ کاکردار سب سے اہم ہوتاہے۔پی ایم اے میں داخل ہونے پرنعمان الحق کوبھی اکیڈمی کی ان روایات کاعملی تجربہ کرناپڑا۔تاہم جب دوسری ٹرم کے کیڈٹ رشیدخان خودکوسینئرکورس کے بٹالین سارجنٹ میجرکے برابرخیال کرتے ہوئے غلیظ القابات سے نوازتے اورجسمانی تکلیف سے زیادہ ذہنی اذیت ہوتی۔رشیدخان کے ساتھ نعمان الحق فرخ نے کیاکیایہ دلچسپ کہانی انہی کے الفاظ میں پڑھنے والی ہے۔ان کے عمدہ رویے کی بناپررشیدخان نے نعمان ہی کو تفتیش کی ذمہ داری سونپی لیکن مجرم کاعلم نہ ہوسکا۔تیس سال بعدایک تقریب میں جب نعمان الحق نے رشیدخان کوبتایاکہ یہ اکٹیویٹی انہوںنے کی تھی تووہ حیران رہ گئے۔
”زندہ لمحات” میں دلچسپ واقعات کی بھرمارہے۔پاک فوج کی مزاح نگاربریگیڈ میں جن بڑے ناموں کاشمارکیاجاتاہے اورجن کی کتب کئی دہائیوں سے مسلسل شائع ہورہی اورپڑھی جارہی ہیں۔نعمان الحق فرخ کی کتاب اس میں ایک عمدہ اضافہ ہے۔کتاب دلچسپ اور قابل مطالعہ ضرور ہے ۔لیکن اس کے ابتدائی حصے کے کئی واقعات توکتابوں میں شائع ہونے والے لطائف کوایک نئے رنگ میں پیش کیاگیاہے۔
رؤف پاریکھ نے نعمان الحق کی مختصرنویسی کوبہت سراہاہے جبکہ کتاب کے بیشترواقعات بسیارنویسی محسوس ہوتے ہیںجس کی وجہ سے ان کی دلچسپی بھی متاثرہوئی۔بریگیڈیئر نعمان الحق فرخ کی تصنیفی صلاحیتوں کی جھلک تو”زندہ لمحات” میں نظرآتی ہے۔لیکن ایک منفرد اوراپنے پیشرومصنفین کاہم پلہ ثابت کرنے کے لیے انہیں مزیدکتب لکھنا ہوں گی۔ جس طرح صولت رضانے ایک ہی کتاب ”کاکولیات” تحریرکی ،لیکن چالیس سال بعدبھی وہ وعدے کے مطابق ”کاکولیات” کے بعد دوسری کتاب نہ لاسکے،البتہ کالمزکاایک مجموعہ ضرور شائع ہواہے۔ لیکن اس کتاب کی پرمزاح اورشگفتہ ہونے میں کوئی کلام نہیں ۔اسی وجہ سے حال ہی میں اس کاچالیس واں ایڈیشن شائع ہواہے۔تاہم جس طرح کہاجاتاہے کہ ایک ناول توکوئی بھی لکھ سکتاہے۔ناول نگارکافن دوسرے ناول سے ثابت ہوتاہے۔
ماوراپبلشرنے اپنے روایتی دلکش اورخوبصورت انداز میں ”زندہ لمحات ” کوشائع کیاہے۔بہترین کاغذ، عمدہ کتابت وطباعت بہترین جلد بندی اور شاندار کوردوسوباہتر صفحات اورآرٹ پیپر پررنگین تصاویرسے مزین سولہ صفحات کے ساتھ کتاب کی قیمت بارہ سوروپے بھی بہت مناسب ہے۔
”زندہ لمحات” میں شامل مضمون ”سودیشی ریل” شوکت تھانوی کے اسی نام کی تحریر کی یادضروردلاتاہے۔ لیکن یہ تحریر طوالت کاشکاراورغیر حقیقی واقعا ت سے بھری ہے۔اس میں مزاح کی بھی کوئی جھلک نہیں ہے،ہمارے ملک میں کس دورمیں کسی ریلوے اہلکارکی فوجی ٹرین روک کرمسافرٹرین کوگزرنے کاموقع دینے کی جرأت ہوئی ہے اور وہ بھی کسی ایک ٹرین کونہیں کی روزتک ،پھروہ فوجی ارکان اس ٹرین کوعملاً اغواکرکے لے گئے۔
یہ پورا واقعہ ہی عجیب وغریب ہے۔ ”دھلی ہوئی جراب”بچپن سے سنے لطیفے کا نیاورژن ہے۔البتہ کرنل عبدالمالک کی کردارنگاری بہت شاندار ہے۔جن کے بارے میں بریگیڈیئرصاحب لکھتے ہیں۔”کرنل عبدالمالک انتہائی شاندارشخصیت کے مالک تھے ،گوراچٹارنگ،درازقد،کلین شیو،ہمیشہ شاندارکپڑوںمیں ملبوس اورہاتھ میں پائپ۔ان کے حسن انتخاب،رکھ رکھاؤاورنفاست پسندی کی مثال دی جاتی تھی۔دفترمیں استعمال ہونے والاقلم ہوتایاکھانے کاانتخاب، ان کی پسندہمیشہ بہترین ہوتی تھی۔دھیمی آوازمیں بولتے اور ڈانٹ ڈپٹ بھی کرتے توایسے سلیقے سے کہ مخاطب کی عزتِ نفس مجروح نہ ہونے دیتے،دکھنے والے کومحسوس ہوتاکہ باہمی مفادکے کسی موضوع پرتبادلہ خیال کررہے ہیں۔
کرنل صاحب کی حددرجہ سنجیدگی اورکم گوئی کی وجہ سے ماتحتوں کوان سے ایک حدسے زیادہ بے تکلف ہونے کی ہمت نہ ہوتی۔کرنل صاحب کی شخصیت کے دوپہلوہمیں کبھی پسندنہیں آئے اوروہ تھے ان کابے لچک ڈسپلن اورحدسے زیادہ صفائی پسندی۔۔ڈسپلن پردوسراموقع دینے یامعاف کردینے پربالکل یقین نہیں رکھتے تھے۔صفائی کے معاملے میں ان کامعیاراتنابلندتھاکہ اس کو پالینے کی صرف خواہش کی جاسکتی تھی۔ اب ایسا فوجی افسر کرسی کی ناپائیداری سمجھ کراپنارویہ تبدیل بھی کرلے ،اسکے باوجودجراب میں چھانی ہوئی چائے کاپورا مگ پی کرڈرائیورکوداد بھی دے یہ قطعی ناممکن ہے۔
مزاح واقعے کے مضحک پہلوبیان کرنا ہے ،یکسر ناممکن کوممکن بناکر پیش کرنا نہیں۔یہ دومضامین کتاب کے سب سے کمزورہیں۔”دودھ کی طاقت” میں ایک حیرت انگیزانکشاف کیاگیاہے کہ بھینس کا خالص دودھ کار میں بریک آئل کی جگہ استعمال کیا جا سکتا ہے اگر اس میں کچھ زیبِ داستان کے لیے شامل نہ کیاگیاہو۔استادرفیق جیسے کاریگرکاذکر نعمان الحق میں چھپے ایک عمدہ خاکہ نگار کی نشاندہی کرتاہے۔مضمون کاآخری جملہ پنچ لائن کی حیثیت رکھتاہے۔”اویارا،اب سمجھ میں آیاکہ بھینس اتنارک رک کے کیوں چلتاہے۔”
ضیاالحق کے دورِ ضیاع کے اقدامات کے بارے میں ایک سے زائد تحریریں کتاب میں ہیں۔”فیصل آباد91کلومیٹر” میں آپریشن نظام صلواةکی مضحکہ خیزیاں اور اس سے کس کس طرح لوگوںنے فائدہ اٹھایا۔اسے بیان کیاہے۔منصوبے کے مطابق نامزد ناظمین صلواة لوگو ں کونمازاورتقویٰ کی طرف راغب کرنے کے ذمہ دارتھے،ان کی تقرری کاپیمانہ کیاتھا۔اس کے ایک ذمہ دار راناصاحب شیخوپورہ کے کسی میاں جی کے گھر پہنچے ،میاں صاحب توموجود نہ تھے ۔ان کی خوبصورت بیٹی پرنظرپڑی اور راناصاحب ریشہ ختمی ہوگئے۔باربارگھرکے چکرلگانے شروع کردیے۔میاں صاحب کی بیٹی نے بھی مثبت جواب دیا۔میاں صاحب کوناظم صلواة کے عہدہ جلیلہ کے ساتھ دامادبھی مل گیاشاندارتقریب منعقدہوئی۔تاہم محبت کی اس عظیم داستان کے مکمل ہونے سے پہلے آپریشن نظام صلواة مکمل ہوگیا اورراناصاحب کوواپسی کاحکم مل گیا۔ موصوف جلدبرات لانے کے وعدہ کرکے لاہور لوٹ گئے۔شیخوپورہ سے واپسی ْْْْْْْْ کے چند روزبعدراناصاحب شیرخوار بیٹے کوگود میں اٹھائے اپنی اہلیہ کے ہمراہ کسی عزیز کی تیمارداری کرنے ہسپتال پہنچے۔شومئی قسمت وہاں میاں جی کی صاحبزادی مل گئیں اور ان کی گودمیں بچہ دیکھتے ہی پوچھ بیٹھی کہ یہ بچہ کس کاہے اوریہ آنٹی کون ہے؟اس سوال کے بعد رانا صاحب کاکیا حشرہوا۔اہلیہ محترمہ نے پہلے توتھپڑوں سے راناصاحب کی ناہونے والی اہلیہ کی تواضع کی اورپھرراناصاحب کی مدارات کے لیے تمام عزیزواقارب کومدعوکرلیا۔اس سانحے کے بعد راناصاحب نے پاکستان کے نقشے اوراپنے دل ودماغ سے شیخوپورہ کانام ہمیشہ کے لیے حذف کردیا۔آج بھی ان سے پوچھا جائے کہ ‘ہرن مینار’ کس شہر میں واقع ہے توجواب میں شیخوپورہ کہنے کے بجائے کھسانی ہنسی کے ساتھ فرماتے ہیں”فیصل آبادسے 91کلومیٹرکے فاصلے پر۔”
ضیادورکاایک دلچسپ قصہ”مسلک دااختلاف ” ہے۔اس دورمیں فوج میں مقررہونے والے خطیب صاحبان کی اہلیت اورحرکتیں بیان کی گئی ہیں۔نئی تعمیرشدہ رہائشی میں جدیدفلیش سسٹم سے آراستہ لیٹرین بنائی گئیں۔خطیب صاحب نے خطبہ جمعہ میں فتویٰ دیاکہ پانی کے ساتھ صفائی کے باوجود،مٹی کے سات ڈھیلوںکے استعمال کے بغیر طہارت مکمل نہیں ہوتی۔چنانچہ ٹوائلٹ جانے والے جوان پانی کے لوٹے کے علاوہ جیب میں سات ڈھیلے بھی لے جاتے۔نتیجہ ظاہر ہے ،کیاہوا۔ یہ خطیب صاحب آؤٹ اسٹیڈنگ سالانہ رپورٹ نعمان الحق صاحب سے لکھواکرڈیپوٹیشن پرسعودی عرب جانا چاہتے تھے وہ ایک ٹائپ شدہ رپورٹ ان کے پاس لائے اورسائن کروانا چاہا۔
خطیب صاحب کے حسبِ منشاپہلے سے لکھی ہوئی رپورٹ پردستخط کرنے کاتوسوال ہی پیدا نہیں ہوتاکیونکہ یہ نہ صرف میری بلکہ سسٹم کی توہین کے مترادف تھالیکن مصنف نے محض ان کی دینی حیثیت کااحترام ملحوظ خاطررکھتے ہوئے رپورٹ اپنے پاس رکھ کر انہیں روانہ کردیااوردفترسے ان کاسروس ریکارڈ منگوالیا۔ خطیب صاحب کی فوج میں شمولیت سے اب تک کی کارکردگی نہایت مایوس کن تھی اور دوبنیادی کورسزمیں ان کی رپورٹیں بھی انتہائی خراب تھیں۔اس قسم کے غیرتسلی بخش ریکارڈ کے حامل شخص کاڈیپوٹیشن کے لیے انتخاب ناممکنات میں سے تھا۔اورجب ان کاانتخاب نہیں ہوسکاتو”مسلک دااختلاف ” کے نام پرانہوں نے کیافسادمچایا۔
فوجی ڈسپلن کی وجہ سے خطیب صاحب کوسروس کے دوران کھل کھیلنے کاموقع نہ مل سکالیکن ان کے بے شماربھائی بندگلی محلے کی مسجدوں میں بیٹھ کر’مسلک دااختلاف ‘ کے نام پرخلقِ خدا کوبے وقوف بنانے میں مصروف ہیں۔ایک دلچسپ مضمون”ہاف ٹائم” ہے۔ جس میںصدر ضیا الحق کے دورمیں پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے جوغیرمعمولی اقدامات کیے گئے ان میں ایک اچھوتااور مضحکہ خیزقدم پاکستانی سینماگھروں میں عرب ممالک کی منتخب تبلیغی فلموں کی نمائش کرکے پاکستانی معاشرے کی اخلاقی اصلاح کی کوشش تھی۔اس سلسلے میں مصر کی فلم ”عابدہ” نے بہت شہرت حاصل کی۔
اس تبلیغی واصلاحی فلم کامرکزی کردارصراطِ مستقیم سے بھٹکی ہوئی خوبصورت کلب ڈانسر تھی جوفلم کے ہاف ٹائم سے پہلے ایک مصری نائٹ کلب میں ہیجان خیزمصری رقص کرکے شائقین کادل گرماتی ہے لیکن ہاف ٹائم کے بعدایک نیک دل آدمی کے بلندکردارسے متاثرہوکرراہِ راست پرآجاتی ہے اورمکمل حجاب میں اسلام کی تبلیغ کرتی نظرآتی ہے۔
عربی زبان کی فلم کے سب ٹائٹل انگریزی میں تھے،زیادہ ترفلم بین دونوں ہی زبانوں سے نابلدتھے لیکن سینماگھروں کے باہر شائقین کاتانتابندھارہتاتھا۔
نوشہرہ میں ٹریننگ کے دوران تعریف سن کرنعمان الحق بھی اپنے دوست ظفرسلیم کے ہمراہ فلم دیکھنے سینماہال پہنچے۔آگے کااحوال انہی کی زبانی سنیے۔ ” سینماہال تماشائیوں سے کھچاکھچ بھراہواتھاعربی ڈائیلاگ سمجھ میں نہ آنے کے باوجودتماش بین فلم سے پوری طرح لطف اندوزہورہے تھے جس کی واحد وجہ فلیم کی ہیروئن کازمانہ جاہلیت یعنی نائٹ کلب میں کیے جانے والے واہیات ڈانس تھے۔ہال میں موجوداہل ایمان نیم برہنہ لباس میں ملبوس خوبصورت ہیروئن کے ڈانس مذہبی فریضہ سمجھ کردیکھنے کے ساتھ ساتھ سیٹیاں بجاتے ہوئے خودبھی جھوم جھوم کراپنا ایمان تازہ کررہے تھے۔
فلم کے ہدایتکارکوغالباً اس بات کابخوبی احساس تھاکہ برائی کی انتہا دکھائے بغیراچھائی کی اہمیت کومناسب طریقے سے اجاگرنہیں کیاجاسکتااسی لیے اس نے ہیروئن کی گناہ آلود زندگی دکھانے میں ذرابخالت یاکنجوسی سے کام نہ لیاتھا۔سینماانتظامیہ کوبھی اکثریت کی عربی زبان سے ناآشنائی اوردیگرسماجی مصروفیات کاپورا احساس تھااسی لیے فلم میں ہونے والی ہرقسم کی بات چیت کوسنسرکرکے یکے بعد دیگرے ہیروئن کے ڈانس دکھائے گئے توہاف ٹائم سے پہلے ڈیڑھ گھنٹہ کی فلم پینتیس منٹ میں ختم ہوگئی۔
ہاف ٹائم ہوتے ہی وہاں موجود تمام تماشائی بھاگم بھاگ سینماہال سے باہرنکل گئے، ہماراخیال تھاکہ سردموسم کی وجہ سے باہرواقع کینٹین سے چائے پینے کی جلدی ہے۔لیکن جب ہم کینٹین پہنچے تووہاں مکمل سناٹاتھا۔ہم چائے پی کرواپس آئے توہال میں ہم دوکے علاوہ کوئی شخص نہیں تھا۔تھوڑی دیربعد ایک خوش لباس شخص نے ہمارے پاس آکرخودکوسینمامنیجرکے طور پرمتعارف کراوایا اورنہایت احترام سے دریافت کیاکہ کیاہم فلم کا بقیہ حصہ بھی دیکھنا چاہتے ہیں؟
یہ غیرمعمولی سوال حیرت انگیز تھا۔معذرت خواہانہ اندازمیں اس نے وضاحت کی ”سر،دراصل تماشائی یہ تبلیغی فلم نہیں ہیروئن کے ڈانس دیکھنے آتے ہیں،جیساکہ آپ دیکھ چکے ہیں کہ جب تک ہیروئن برائی کے راستے پرچل رہی تھی،ایک بھی سیٹ خالی نہیں تھی،لیکن جیسے ہی اس معصوم کے راہِ راست پرآنے کاوقت آیا،سینماہال مکمل طور پرخالی ہوچکاہے۔جب سے فلم ریلیز ہوئی ہے کسی ایک شومیں بھی تماشائی ہاف ٹائم کے بعدفلم دیکھنے نہیں رکے،اگرآپ ہاف ٹائم کے بعد کی فلم دیکھناچاہتے ہیں تویہ خصوصی طور پرصرف آپ دونوں کے لیے چلائی جائے گی۔”
اس دلچسپ واقعے سے ضیادورکی اصلاحات کاقارئین کوبخوبی اندازہ ہوجائے گا۔”زندہ لمحات” کاسب سے شگفتہ حصہ”تبوک نامہ” ہے ۔ جومصنف کے ڈیپوٹیشن پرتبوک رہنے کے واقعات پرمشتمل ہے۔ اس میں نعمان الحق کی کولیگ خالدبشیرکی خریدی جوسرمشین اوران کے مخصوص جملے”لٹ پشوری” کی تفصیل خاصی دلچسپ ہے۔ان کے ایک اورمہربان میجرحنیف کی تبوک کے بجائے جدہ مارکیٹ سے سستی کار کی خریداری کا واقعہ انتہائی پرلطف ہے۔
اس تمام واقعے کے بیان میںایک اورکولیگ اخترنواز جوچوہدری صاحب کہلاتے تھے کا خاکہ زبردست ہے۔چوہدری صاحب کے بار بارڈرائیونگ ٹیسٹ میں فیل ہونے پرسعودی حکام نے انہیں لائسنس دینے سے انکارکردیا۔سب دوستوں نے جدہ سے گاڑی پانچ سے آٹھ سوریال سستی خریدی۔ لیکن میجرحنیف نے بقول ساتھیوں کے عرب شیخ کولوٹ لیا اورٹویوٹاکرو سیڈاکارایک ہزار ریال سستی خریدی۔میجرحنیف کے ہم سفرچوہدری صاحب تھے۔
مدینہ میں مختصرقیام کے بعدسفرکے دوبارہ آغاز پرڈیش بورڈ پرایک لال بتی جلتی نظرآئی جس میں انہوں نے چوہدری صاحب سے ماہرانہ رائے طلب کی۔ان سے گاڑی یاڈرائیونگ کے بارے میں مشورہ کرناایساہی تھاجیسے ویٹی کن سے کسی اسلامی مسئلے پرفتویٰ لیا۔موصوف نے پہلے توگاڑی کاتفصیلی معائنہ کیالیکن کہیں بھی لائٹ کو جلانے والاسوئچ نظرنہ آیاتومیجر حنیف سے کہا’دبی رکھ’۔ قافلے کے گاڑیاں واپس پہنچیں توٹیکنیکل افسرسہیل احمدقریشی کوکسی ناخوشگواربوکا احساس ہوا۔بھاگ کرمیجرحنیف کی گاڑی تک پہنچے توربڑجلنے کی شدیدبوپھیلی ہوئی تھی اورگاڑی کے ٹائروں سے دھواں نکل رہاتھا۔تفصیلی معائنے سے انکشاف ہواکہ گذشتہ دوگھنٹے کے سفرکے دوران گاڑی کی ہینڈبریک جزوی طور پرکھنچی ہوئی تھی جس کی وارننگ کے طورپرلال بتی جل رہی تھی۔ہینڈبریک کھولے بغیرگاڑی چلانے کی وجہ سے بریکنگ سسٹم کوشدید نقصان پہنچاہے۔جس کی فوری مرمت کرناضروری ہے ۔
پرزہ جات کی خریداری کے لیے دوہزارکے علاوہ مکینک کوپانچ سوریال بھی دیے گئے۔ایک ہزاربچانے کے چکرمیں ڈھائی ہزار کا تاوان میجرحنیف کو بہت برامحسوس ہوا۔تاہم پنچ لائن یہ ہے کہ جب میجرحنیف نے دبی رکھنے کے نامعقول مشورے پرخفگی کااظہارکیاتوچو ہددری صاحب نے انکشاف کیا۔”سرجی،ایدھے وچ میراکوئی قصورنئیں،ایہہ گڈی تے پہلے دی کھڑکی ہوئی سی۔ایہہ درمیان والاہینڈل (یعنی ہینڈبریک) بالکل ڈھلاسی، شکرکروگڈی چلن توں پہلے میں نے اسے اوپرکھینچ کرٹائٹ کردیاتھا۔”
یعنی ہینڈبریک کے جزوی کھینچنے کاکارنامہ بھی موصوف ہی نے انجام دیاتھا۔تبوک سے پاکستان فون کرنے کے لیے’ مفتا’کیا تھا۔ان کے ساتھ موجودعربی مترجمین کی اہلیت اورکارناموں کاذکر بھی کافی دلچسپ ہے۔کتاب کاآخری حصہ ”جوپڑھایاسبق زمانے نے” دراصل مختصر اوردلچسپ شخصی خاکے ہیں۔جنہیں پڑھ کراندازہ ہوتاہے کہ بریگیڈیئرنعمان الحق فرخ ایک اور بہت اچھے خاکہ نگار بھی ہیں اورانہیں اگلی کتاب خاکوں پرمبنی لکھنی چاہیے۔
”زندہ لمحات ” کے خاکوں میںخالدسہیل کاخاکہ”ہاتھی نکل گیا،صرف دم باقی ہے” پرلطف اورپرمزاح ہے ۔کس طرح موصوف نے ایک منفردکار مصنف کے لیے تلاش کی اورانہیں دلانے کے لیے کیاکاوشیں کیں۔یہ داستان پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔”کمپیوٹرکی موت” بریگیڈیئرخالدمحمود کاعمدہ خاکہ ہے،جس میں ابتدائی دورمیں کمپیوٹرکس طرح استعمال کیاجاتاتھااسے بہت دلچسپ اندازمیں بیان کیاگیاہے۔”نفسیاتی دہشت گرد” محمودصاحب کاخاکہ ہے ،جوبالمشافہ بات چیت فریق مخالف کوناکوں چنے چبوا دیتے تھے، لیکن ان سے فون پربات کرنا بہت آسان تھا۔اس حصے کے سب سے بہترین خاکے ”ففٹی ففٹی” اورنعمان الحق کااپنے والدپر” خاک میں کیاصورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں” ہے۔
‘گھرکے لان میں تین انتہائی قیمتی درختوں میں سے دوکے اچانک گرنے پرمصنف نے باغبانی کے ماہرافتخارصاحب کی خدمات حاصل کیں۔”ففٹی ففٹی” اسی کے بارے میں ایک ہے۔نام نہادماہرِ زراعت کی پیش کردہ رپورٹ کے چیدہ چیدہ نکات ملاحظہ کریں۔”اچھے خاصے صحت منددرختوںکے اچانک ٹوٹ کرگرجانے کی کوئی نہ کوئی وجہ توضرور ہے لیکن اس بارے میں یقین سے سے کچھ کہنامشکل ہے۔دو درختوں کااچانک ٹوٹ کرگرجاناکسی حاسد کی تخریبی کارروائی ہوسکتی ہے،اس کی وجہ ناموافق آب وہوابھی ہوسکتی ہے اورمتی کی خرابی یاکوئی بیماری بھی ،ان کے علاوہ محض بدقسمتی بھی ہوسکتی ہے،تاہم اس بارے میں یقین سے کچھ کہنامشکل ہے۔لان کی مٹی میں کوئی خرابی نہیںبلکہ یہ مٹی تواتنی زرخیزہے کہ ڈنڈابھی کھڑاکردیں تودرخت بن جائے۔تاہم درختوں کے خودبخودگرجانا اس خیال کی تائیدکرتاہے کہ لان کی مٹی میںضرور کوئی بہت بڑی خرابی ہے تاہم اس بارے میں یقین سے کچھ کہنابہت مشکل ہے۔
اسلام آباد کی آب وہوااس درخت کے لیے ناموافق ہوتی توننھے منے پودے تین سال میں جوان درخت نہ بنتے، اوراگرآب و ہوااس درخت کے لیے پوری طرح سے موافق ہوتی تودرخت یوں ٹورکرنہ گرتے،تاہم اس بارے میں بھی یقین سے کچھ کہنامشکل ہے۔ بظاہرصحت مندنظرآنے والے درختوں کے مرجانے کی وجہ کوئی اندرونی بیماری بھی ہوسکتی ہے،لیکن اگراندرونی بیماری ہوتی تودرخت اتنے خوبصورت اورصحت منددکھائی نہ دیتے،تاہم اس بارے میں بھی یقین سے کچھ کہنامشکل ہے۔آخری درخت کے گرنے یابچنے کے سوال پر موصوف نے انتہائی اعتماد سے جواب دیاففٹی ففٹی۔”
اس ماہرانہ رپورٹ کی داد توبنتی ہے۔اردوادب میں’ماں ‘ کے بارے میں بہت عمدہ اور یادگارخاکے لکھے گئے ہیں۔ والدکے حوالے سے کم ہی خاکے تحریرہوئے۔نعمان الحق کامختصرتحریربہت عمدہ ہے ۔مستقبل میں اگر وہ خاکوں کی کتاب لکھیں تووالدصاحب پرایک تفصیلی خاکہ ان پر ادھار ہے۔اباجی کے شخصیت کاایک پہلوکیازبردست ہے۔”پڑھنے اورپڑھانے سے اباجی کالگاؤ ضرب المثل کی حیثیت رکھتاتھادفتر سے واپسی کے بعدکھاناکھاتے اورپھرحقہ سلگاکرڈیوڑھی میں چارپائی پربیٹھ جاتے اورہم سب بھائیوں اوربہنوں کی ٹیوشن شروع ہوجاتی جو رات گئے تک جاری رہتی اس کلاس میں ہفتہ وارچھٹی کاکوئی تصورنہ تھا۔
ڈیوڑھی میں کلاس کے منعقدکرنے کامقصدیہ تھاکہ علاقے کاکسی بھی جماعت کاکوئی بھی طالبعلم بلاروک ٹوک اس میں شریک ہوسکتاتھالیکن ایک مرتبہ کلاس میں شامل ہونے والوں کواپنی مرضی سے چھٹی کرنے کی اجازت نہیں تھی۔امتحانات کے دنوں میںمحلے بھرکے والدین بچوں کواباجی کے پاس چھوڑجاتے اورجوبچہ ایک مرتبہ اباجی کی شاگردی میں آجاتاپھرکبھی کلاس کاناغہ نہ کرتا۔ وہ غالباًپاکستان بلکہ دنیاکے واحدرضاکاراستادتھے جن کی کلاس میں پہلی جماعت سے ماسٹرز اورسی ایس ایس تک کے تمام طالب علم بیک وقت شریک ہوتے اور وہ ہرایک کوانفرادی طور پریکساں توجہ سے پڑھاتے۔”
”زندہ لمحات” ایک دلچسپ اورقابل ِ مطالعہ کتاب ہے۔جس کے پہلے حصے کے مقابلے میں دوسرا اورتیسراباب زیادہ پرلطف ہیں۔نعمان الحق کے قلم سے مزیدکتب کاانتظاررہے گا۔