ماں ایک ایسی نعمت ہے جس کا زندگی میں کسی اور سے موازنہ نہیں کیا جاتا اور جو قربانیاں ماں دے سکتی ہے کوئی دوسرا نہیں دے سکتا – ماں کی اہمیت کے پیش نظر دنیا والوں نے ہر سال اس کے لیے ایک خاص دن مقرر کیا ہے تاکہ اس کا دن یعنی یوم ماں یا مدرز ڈے منایا جائے۔
یوم ماں منانے کی تاریخ ہر ملک میں مختلف ہوتی ہے۔ یہ پوری دنیا میں عام طور پر مارچ یا مئی کے مہینوں میں منایا جاتا ہے۔ ہر معاشرے کی ثقافت، نقطہ نظر اور تاریخ کے مطابق جشن کے مظاہر بذات خود ایک ملک سے دوسرے ملک میں مختلف ہوتے ہیں لیکن ماؤں کو تحفے اور پھول دینا یا ان کا شکریہ ادا کرنے کے لیے کھانا ہر جگہ پکایا جاتا ہے۔ بیٹے بیٹیاں، پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں اس کے لیے اپنی محبت کے اظہار کے طور پر تحفے دیتے ہیں، اور اس طرح ماں کی خدمات کے لئے اظہار تشکر کرتے ہیں۔
مصر میں ہر سال 21 مارچ کو یوم مادر منایا جاتا ہے، جو کہ موسم بہار کی آمد ساتھ آتا ہے۔ موسم بہار یعنی سکون اور نیکی کا موسم ۔ مصر میں 21 مارچ کے دن کے انتخاب کی کہانی مرحوم صحافی مصطفیٰ امین تک جاتی ہے۔ وہ مائوں کے لیے ایک دن مخصوص کرنا چاہتے تھے تاکہ ماں کے احسانوں کے عوض اس کی کچھ خدمت کی جائے اور مائوں کی خدمات کو یاد کرنے کے لئے تمام اہل و عیال یکجا ہوں۔ جہاں انہوں نے اپنے ايک مضمون ميں لکھا “ہم کیوں سال کے کسی ایسے دن پر متفق نہیں ہوتے جسے ہم یوم مادر کہا جائے اس دن کو اپنے ملک اور مشرق کے دوسرے ممالک میں چھٹی کا دن بنا دیں ۔ اس دن بیٹے اپنی ماؤں کو چھوٹے چھوٹے تحائف دیں اور ماؤں کو چھوٹے چھوٹے خط بھیجیں جس میں مائوں کا شکریہ ادا کیا جائے۔ آپ لوگ مجھے بتائيں کہ ہم سال کے کس دن کو مادر ڈے بنائیں؟”
اس تحریر کے بعد ان کے پاس ایک خط آیا جس کو پڑھنے کے بعد ان کو یوم ماں منائے جانے کا خیال آیا۔ یہ خط ان کو ایک مصری ماں کی طرف سے موصول ہوا تھا۔ جس میں اس ماں نے اپنے بیٹوں کی بدسلوکی کی شکایت کی تھی اور اپنی کہانی سنائی تھی ۔ اس نے لکھا تھا کہ وہ بیوہ تھی اور اس کے بچے جوان تھے اور اس نے دوسری شادی نہیں کی تھی۔ اس نے اپنی پوری زندگی اپنے بچوں کی خاطر وقف کر دی تھی اور وہ ان کی دیکھ بھال کرتی رہی یہاں تک کہ اس کے بچے یونیورسٹی سے فارغ ہو گئے، پھر اس کے بچوں نے شادیاں کر لیں اور اسے مکمل طور پر چھوڑ گئے۔
اس نے خط ميں بتایا کہ اس نے اپنے بیٹے کی پرورش کیسے کی، ڈاکٹر بننے کے لیے اس کی تعلیم کا خرچہ کیسے اٹھایا اور کس طرح ان کی شادی کے لیے ایک گھر خریدا۔ اتنی جفا کشی کے باعث وہ ذہنی طور پر بیمار ہو گئی مگر اب اس کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں کیونکہ بچے اپنے اپنے گھر چلے گئے۔
یہ بھی پڑھئے:
شاہ محمود قریشی کی توقع اور لوٹا کریسی
جناب وزیراعظم… ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے؟
اخبار میں یہ خط شائع ہونے کے بعد، پڑھنے والوں نے 21 مارچ کو موسم بہار کے آغاز کو یوم مادر کے بطور منائے جانے کی رائے دی۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ جس طرح موسم بہار سکون دل اور خوشگوار لمحات ساتھ لے کر آتا ہے اسی طرح ماں کا تصور بھی ایسا ہے جس سے سکون دل اور خوشگوار لمحات حاصل ہوتے ہیں۔۔ مصطفیٰ امین نے حکومت کو ایک سرکاری درخواست بھیجی۔ اس جشن کی منظوری کے لیے ایک مہم شروع کی۔ اس کی منظوری صدر جمال عبدالناصر نے دی۔ جنہوں نے 1956 میں اعلان کیا کہ 21 مارچ کو سرکاری طور پر ماؤں کا دن منایا جائے گا۔
مصر میں ماؤں کا پہلا دن 21 مارچ 1956ء کو منایا گیا- یہ خیال مصر سے مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک میں بھی پہنچا اور پوری عرب دنیا یوم مادر منانے لگی۔
اس دن، مصری بیٹے بیٹیاں اپنی ماں سے ملنے اور اپنی زندگی میں ان کی خدمات اور جفا کشی کے اعتراف میں تحائف پیش کر کے یوم مادر کا جشن مناتے ہیں۔ اس دن سرکاری اور غیر سرکاری دونوں سطحوں پر ان مثالی ماؤں کو یوم مادر کے موقع پر اعزاز دئے جاتے ہیں، جو جدوجہد کر رہی ہیں- ان کی محنت، مشقت، ممتا اور قربانیوں کو اجاگر کرنے کے لیے، انہیں پرفیکٹ مدر، بیسٹ سروگیٹ مدر اور پرفیکٹ مدر فار پیپل ودھ سپیشل نیڈز کا خطاب ملتا ہے اور ان ماؤں کو جو اپنے بچوں کے اخراجات کو پورا کرتی ہیں ان کو آرڈر آف پرفیکشن سے نوازا جاتا ہے –
قدیم مصری قیامت اور دوسری دنیا پر یقین رکھتے تھے، پھر انہوں نے نسل انسانی، پیدائش اور تولید کو نسل انسانی کی بقا اور تسلسل کی ضمانت کے طور پر دیکھا، جس سے عورت کے کردار کی تصدیق ہوئی اور ماں ہی خاندان کا مرکز بن گئی۔ اور انہوں نے ماں کو معبودوں کے درجے تک پہنچا دیا – ان کا ماننا تھا کہ کوئی تہذیب اس وقت تک قائم نہیں رہ سکتی جب تک اسے ماں کے بازو پر نہ بنایا جائے، وہ خواتین کی بہت عزت کرتے تھے اور یہ ان کے مندروں میں بنی پینٹنگز سے واضح ہو تا ہے کہ وہ خواتین اور خاص طور پر ماؤں کا خیال کیسے رکھتے تھے-
آخر ميں کہنا چاہتی ہوں کہ ماں کی تعظیم صرف ایک دن نہیں ہونی چاہیے بلکہ ہر دن اور ہر وقت ہونی چاہیئے اور بلا شبہ سب سے قیمتی تحفہ جو ایک ماں کو اس کی عید پر دیا جا سکتا ہے وہ ہے تمام آسمانی مذاہب کی طرف سے تجویز کردہ احسان، پیار اور رحم- وہ ماں جو اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے اپنا سکون قربان کر دیتی ہے اور ان کی شخصیت کو اس طرح بنانے کی کوشش کرتی ہے کہ وہ معاشرے کی تعمیر کے لیے اچھے فرد بنیں۔ ماں عطا کا وہ بہتا ہوا دریا ہے جو
کبھی خشک نہیں ہوتا۔ ماں کا مقام اور معاشروں اور تہذیبوں کی تعمیر میں اس کا کردار کو جو سب سے زیادہ بیان کرتا ہے۔ میں مصر کے عظیم شاعر حافظ ابراہیم کے شعر کا ترجمہ پیش کر رہی ہوں جس سے ماں کے مصری سماج میں احترام کی ایک جھلک ملے گی۔
ماں ایک درسگاہ ہے جسے پیار سب کریں
دنیا میں اچھی نسل کو تیار سب کریں
میں ایک ماں ہوں لیکن میں چاہتی ہوں کہ میں اپنی بیٹی کے احترام میں یوم دختر مناوں ۔