ارشدملک بہت اچھے شاعرہیں اور رمیل ہاؤس آف پبلی کیشنزکے نام سے ملک کا ایک اچھاپبلیشنگ ادارہ بھی چلارہے ہیں۔جس کے تحت بہت سی عمدہ کتب شائع ہوئیں۔حال ہی میں ارشدملک کاسفرنامہ حج”حاضراللہ سائیں“ شائع ہواہے۔اس سفرنامے کی اشاعت کی کہانی بھی کم دلچسپ نہیں۔جومصنف نے”کچھ اس سفرنامے کے بارے میں“ کے عنوان سے تحریرکی ہے۔ملاحظہ کریں۔
”مجھے 2012ء میں حج کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔حج کے دوران ہی تہیہ کرچکاتھاکہ حج کاسفرنامہ ضرورلکھوں گااورکوشش کروں گا کہ دلچسپ تجربات کے ساتھ وہ باتیں بھی دوستوں کے ساتھ شیئرکروں گاجن سے کوئی نہ کوئی مثبت پہلو ابھرتا ہے۔حج کے بعد اتنے سال بیت گئے، سفرنامہ نہیں آیا۔ اس کے پیچھے بھی طویل کہانی ہے۔جب میں واپس آیاتوسارے کام چھوڑ کرسفرنامہ لکھنے بیٹھ گیا۔ خواہش تھی کہ جلدازجلدسفرنامہ دوستوں کے ہاتھوں میں ہو اورمیرے جذبات ان کی آنکھوں میں بھی بکھریں کچھ اقتباسات حلقہ اربابِ ذوق راولپنڈ ی میں بھی پیش کیے جن پردوستوں نے پسندیدگی کااظہارکیا۔مگرسفرنامے کا ہرپہلو صرف میں ہی بہترطورپرجانتاتھا۔ لہٰذامطمئن نہ ہوسکا۔میں نے مقدس مقامات پرحاضری تودی مگران کے بارے میں مکمل معلومات اورتاریخی حیثیت سے آگاہ نہیں تھا۔میں نے معلومات اکٹھی کرنا اوربہت ساری کتب کامطالعہ شروع کردیا۔دوستوں سے بھی معلومات فراہم کرنے کی درخواست کی تاکہ جوبات میں سفرنامے میں لکھوں وہ مستندہو۔معلومات اکٹھی کرنے کے بعد جب سفرنامہ مرتب کرناشروع کیاتوبہت ساری باتوں کاآپس میں ربط نہیں تھا۔جولکھااسے پرکھنے کے لیے انٹرنیٹ کاسہارالیا۔نیٹ پربھی معلومات ایک جیسی نہیں تھیں۔تین چارسوصفحات پرمشتمل سفرنامہ میں نے گھرکی الماری میں رکھ دیا۔پھرمیں نے سوچاکہ اپنی کیفیات کے ساتھ معلوماتی کتاب لکھ ڈالوں شایداللہ تعالیٰ کو میری یہی کاوش پسندآجائے۔معلوماتی کتا ب توتیارہوگئی مگرپھریہ سوال پیداہواکہ آج کل توچھوٹے چھوٹے معلوماتی کتابچے دستیاب ہیں۔میری کتاب کوئی کیوں پڑھے گا؟ دوتین سا ل بعدخیال آیاکہ جوواقعات حج کے دوران میرے ساتھ پیش آئے انہیں اپنی زندگی کے مختلف واقعات سے جوڑکرلکھوں۔سات آٹھ سو صفحا ت کی کتاب تیارہوگئی مگرنظرثانی کرنے پرمجھے سفرنامہ کم اورناول زیادہ لگنے لگا۔وہ مسودہ پھرالماری میں رکھ دیا۔کئی ماہ گزرگئے۔اس دوران میری نظرسے کئی سفرنامے گزرے۔مجھے لگابہت سارے سفرناموں میں یکسانیت بہت زیادہ ہے۔اگرمیں اپناناول نماسفرنامہ شائع کرواتاہوں توکوئی نئی بات نہیں۔آخرکارمیں نے سات آٹھ سوصفحات کونچوڑناشروع کردیا۔تیارمسودہ دوبارہ پڑھناشروع کیاتویہ نتیجہ نکلاکہ قارئین سفرنامے کوپڑھیں گے مگرشایددلچسپی سے نہیں۔وہ مسودہ تاریخی کتاب کی شکل میں میرے سامنے آیا۔میں نے پھراسے الماری میں سجادیا۔کافی عرصے بعدسوچاکہ مقدس سفرکے بعدلکھنے کے سفرمیں ناامیدی اچھی نہیں۔میں نے آخری بارجب سفرنامے پرکام شروع کیاوجولکھتااپنی والدہ کوسناتا۔سنانے کے دوران اوربعدمیں ان کے چہرے کے تاثرات بھی نوٹ کرتا۔والدہ توکبھی حوصلہ شکنی نہیں کرتیں مگرمجھے بڑاکام کرنے جاناتھا۔اس لیے باربارسوچنے کی ضرورت پیش آئی۔جس تحریر پرمجھے والدہ سے شاباش ملتی اورجس تحریرکوسن کروہ زیادہ خوش ہوتیں،میں اس پرگڈ کا نشان لگاکرخودکوسومیں سے سونمبردے دیتا۔جب بہت ساری تحریریں اکٹھی ہوگئیں تومیں نے انہیں ترتیب دے کرجومسودہ تیارکیاوہ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔اس سفرنامے کے ایک ایک حرف میں میری محبت پوشیدہ ہے،ایک ایک جملے میں میرے احساسات ہیں،ایک ایک لائن میری کیفیات کی نمائندگی کرتی ہیں۔اگرآپ کواس سفرنامے کی کسی ایک لائن کے کسی لفظ کے کسی حرف نے بھی متاثرکیاتومیں یہ سمجھوں گاکہ میری طویل محنت رائیگاں نہیں جائے گی۔“
سفرنامے کی اس داستان کے بعدارشدملک نے ”حاضراللہ سائیں“ کاپہلاانتساب”معلم اعظمﷺ کے نام“ کیاہے۔جبکہ انتساب2 ”اس روح کے نام،جس نے میری والدہ کے بدن میں اس وقت تک قیام کیا،جب تک اس سفرنامے کی آخری سطرپراس کی سماعتوں نے خوشی ثبت نہیں کی۔“
اس طرح اس سفرنامہ حج کی تحریرکی بھی منفردکہانی ہے۔معروف افسانہ نگاراوردانشورمحمدحمیدشاہد بیک پیچ پر”حاضراللہ سائیں“ کے بارے میں لکھتے ہیں۔”یہ ایک عمدہ شاعرارشدملک کاسفرنامہ ہے۔لیکن ٹھہریے صاحب! یہ محض سفرنامہ کہاں ہے،خوداسی کے لفظوں میں یہ توکتابو ں کی خوشبوسے غلافِ کعبہ کے نورانی منظراوررحمت اللعالمینﷺ کی درگاہ میں حاضری تک کی کہانی ہے۔جی،ایسی کہانی جسے ایقان اور عشق کے معطرپانیوں سے غسل پانے والے دل سے لکھاگیاہے۔ارشدملک کے سفرنامہ حج”حاضراللہ سائیں“ کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ عین آغازہی سے اپنے قاری کاہاتھ تھام کرساتھ چلتاہے۔یوں جیسے وہ خودوجود کوآلائشوں سے پاک کردینے والے اس تجربے کاحصہ ہو۔ میں بھی اس تجربے کاحصہ ہواہوں۔کہیں میری آنکھوں نے آنسوؤں کاصدقہ دیاہے اورکہیں میری جھولی تقسیم ہونے والے خوابوں کی خیرا ت سے بھرگئی ہے۔کہیں خواب حقیقت بنے ہیں وہ وقت یاد دلایاہے جب مجھے اس مبارک زمین نے ماں کی طرح آغوش میں لے لیاتھا اورکہیں اُن مقاماتِ سیرت کی سیرکرائی جوہہے جومیرے مطالعے کاحصہ رہے ہیں۔جب آپ ارشدملک کی کتاب پڑھیں گے تومجھے یقین ہے کہ آپ چشمِ تصورسے جناب رسالتمآب ﷺ کے زمانے کے ایمان افروزمناظرکشیدکرنے لگیں گے اورآپ کی زبان ہی نہیں،پوراوجود بھی’لبیک اللھم لبیک‘ پکارنے لگے گا۔آپ کے لیے حجراسودوہ سائین بورڈبن جائے گاجسے دیکھنے پرگناہ کے راستے ختم ہوجاتے ہیں کہ آگے نیکیوں کی سرحدہے۔غلافِ کعبہ سے لپٹناہویامقامِ ابراہیم پردعاکوہاتھ اٹھالینا،آبِ زم زم سے سیراب ہوناہویاصفاومروہ کے درمیا ن سعی کرنا،غارِثور،جبلِ نور،غارِ حرا،منیٰ، میدانِ عرفات، مزدلفہ،جمرہ عقبہ کی رمی،جناب رسالتمآبﷺ کے روضہ مبارک پرحاضری ہویا اُحدکاسفر،صرف مقامات اورعملیات حج وزیارت کی طرح نہیں گزریں گے،سب ایک روحانی تجربہ ہوجائیں گے۔جی،ایساروحانی تجربہ جو باطن کی ساری میل دھوڈالتاہے۔ارشدملک کایہ سفرنامہ پڑھ کردل کی گہرائیوں سے خداوندکریم کے ہاں سفرِ حج اورسفرنامہ حج کی قبولیت کے لیے دعانکلی ہے۔مجھے یقین ہے کہ یہ کتاب اپنے قارئین میں بہت مقبول ہوگی کہ یہ محض سفرگزشت نہیں،سفرِ حج کے لیے رہنماکتاب بھی ہوگئی ہے۔“
شرف الدین شامی نے”قلم برداشتہ“ کے عنوان سے لکھاہے۔”ارشدملک اللہ سائیں کے روبروپیش ہونے سے پہلے بھی اس کے حضور حاضرہوچکاہے اورابھی تک حضوری کے دائرہ اثرمیں ہے۔وہ ایک ایڈونچرکرنے جارہاتھااس لیے اس نے پہلے ہی حرمین الشریفین پر بہت سامعلوماتی مواداکٹھاکرلیاتھا۔فطرتاً انسان تغیرپسندہونے کی وجہ سے نئے ماحول کوتسخیرکرنے میں مسرت محسوس کرتاہے۔انجانی خو شیوں کی تلاش اسے محوِسفررکھتی ہے اورنئے مناظرانسان کو دباؤ سے نکال کربہاؤمیں لے آتے ہیں۔چنانچہ ارشدملک نے دباؤسے نکل کر وقت کے نئے دھاروں کی باگ ڈورسنبھالی اورایڈونچرکے لیے کمربستہ ہوگیا۔ احرام پوشی کے فوراً بعداس کی کیفیات نے نئے جہان کی دریا فت کرلی،احساسات کی موجیں اسے اپنے ساتھ بہاکرلے گئیں۔اس کی سوچیں،جذبے،اندازِفکر اورخیالات چندلمحات میں کچھ سے کچھ ہوگئے اورایڈونچرکے آغازہی میں اس کی اپنی ذات تسخیرہونے لگی۔عہدِ موجودکے ریگ زاروں اورسبزہ زاروں سے نکل کروہ ڈیڑھ ہزار سال پرانے ابراہیمیؑ اورمحمدی ﷺ ماحول میں سانس لے رہاتھااورظاہری وباطنی احوال کامشاہدہ کرتے ہوئے اسے کئی سوالوں کے جوابا ت مل رہے تھے۔اس پر زندگی کے تمام رموز،حقائق،مطالب ومقاصد،مفاہیم ازخودعیاں ہونے لگے۔اس نے اپنی روحانی واردات کوبغیر کسی ملمع کاری،تصنع اوربناوٹ کے بلاکم وکاست بیان کردیا۔ا س نے فلسفہ کی زبان میں بات کرنے کے بجائے اپنے تجربے اورمشاہدے پرانحصارکیا۔اس کے بیان کے سارے استعارے،اشارے،کنائے،تلازمے صراطِ مستقیم کے خطِ وحدانی سے نکلتے ہیں اورسینکڑوں صفحا ت پرپھیلے موادکواپنی والدہ کی سماعت سے گزارکراس انتخابِ روحانی کودوسوانتالیس صفحات کے کوزے میں سمیت دیا۔بس جوتحریرماں جی کو اچھی لگی وہی ترتیب دے ڈالی۔اس طرح ام القریٰ سے شروع ہونے والی اس داستان میں ماں جی کاذوق سلیم اورشوقِ فزوں صاف بولتا سنائی دیتاہے۔اس سفرنامے کوڈبڈبائی آنکھوں اورگدازدل کے ساتھ پڑھنے کی اگرسعادت نصیب ہوتی ہے تویہ تاثیروتاثرارشدملک کی معجزبیانی کی مرہون منت ہے۔“
آگے بڑھنے سے قبل ارشدملک کی ایک غزل ملاحظہ کریں۔
بچھڑ گیا جو،اب اس کا ملال کیا کرنا۔۔اب اس کی یاد میں جینامحال کیا کرنامیں جانتا ہوں کہ وہ بے وفا نہ مانے گا۔۔۔وہی جواب ملے گا،سوال کیا کرنا
وہ ہجر دے گیا اور پیار کو بھلا بیٹھا۔۔۔وہ بے وفا تھااب یہ خیال کیا کرنا
اسے بھلاناہی ارشدتیری بھلائی ہے۔۔۔دلِ تباہ کو اب خستہ حال کیاکرنا
ارشدملک نے مختصرابتدائیہ لکھاہے۔”جس شخص کے تخیل میں تصویریں بنتی اورمٹتی ہیں وہ ہروقت کسی نہ کسی سفرمیں رہتاہے۔سارادن کتابوں سے باتیں کرنے کے بعدجب اکثرڈھلتی شام مجھے شاعری سے گلے ملنے پراکساتی ہے تومیں چھوٹے سفرپرروانہ ہوجاتاہوں،کمیٹی چوک سے نیشنل ٹی ہاؤس۔دوستوں کوکیاخبرکے ان تک پہنچنے سے پہلے مجھے بہت سی روحوں سے باتیں کرنی پڑتی ہیں۔راستے میں موجودقبرستان اور’باباشاہجہان‘ کے مزارسے امڈنے والی ہوائیں میرے وجدان پردستک دیتی ہیں اورابدی زندگی کے بارے میں بتاتی ہیں۔ہم لوگ دنیا وی کاموں میں بہت مصروف رہتے ہیں۔مگرایسابھی نہیں کہ مصروفیت خداسے دورکردے۔ہاں! مجھ ساگنہگاراگردورہوبھی جائے تواللہ تعالیٰ اپنے قریب بلانے کاسبب پیداکرلیتاہے۔کتابوں کی خوشبوسے غلافِ کعبہ کے نورانی منظرتک اوررحمت اللعالمینﷺ کی درگاہ میں حاضری تک میں اپنی آنکھوں کے مزارپرکئی اشکوں کے چراغ جلاتارہاہوں۔مجھے معلوم نہیں تھاکہ یہی روشنی جس دن یکجاہوگی نورانی سفرکی طرف مجھے دھکیلے گی۔“
پوری کتاب کے ہرصفحہ پررسول اللہ ﷺ کی مہرمبارک کاعکس اسے ایک روحانی بالیدگی عطاکرتاہے۔انتہائی عمدہ سفیدکاغذ پرخوبصورتی سے چھپی دوسوچالیس صفحات کی ”حاضراللہ سائیں“کی آٹھ سوروپے قیمت بہت مناسب ہے۔سرورق پرابھرے حروف میں کتاب اور مصنف کانا م اورچوکھٹوں میں خانہ کعبہ کے سامنے احرام میں حجاج کرام اورارشدملک کی تصویردلکش ہے۔
پہلاباب”آیاہے بلاوامجھے دربارِ نبی ﷺ سے“ ہے۔”زندگی کے کسی نہ کسی موڑپرحج پرجاناہرمسلمان کی خواہش بلکہ سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے۔حج ہرمسلمان کے لیے عظیم سعادت کادرجہ رکھتاہے اوراس سعادت پرہرانسان اپنی قسمت پرفخرکرتاہے۔گزشتہ ڈیڑھ ہزارسالہ تاریخ گواہ ہے کہ دنیاکے کونے کونے سے ہزاروں عاشق اللہ کے گھرحاضری کی غرض سے بے قراری اوڑھے دعائیں اورمنتیں مانگتے رہے ہیں اورتاریخ اس بات کی بھی گواہ ہے کہ کئی لوگوں پربن مانگے عنایات کی برسات ہوئی۔آپ کوسینکڑوں دیوانے ایسے مل جائیں گے جوشہرِ نبیﷺ کی خاک کوسرمہ مانتے ہیں،جوننگے پاؤں اپنے شہرسے روانہ ہوئے،ان گنت مصیبتوں سے ان کاسامناہوا،لباس تارتارہوگیا،پیر لہولہان ہوگئے مگرجب نظرآقائے دوجہاں،حبیب کبریاﷺ کے روضے پرپڑی،وہ اپنے غم بھول گئے،اپنے آنسوؤں پرانکی اجارہ داری ختم ہوگئی۔یارسول اللہ ﷺ کہتے ہوئے وہ سنہری جالیوں سے لپٹ گئے۔اپنے اپنے غم آقاﷺ کوسناکرانہیں محسوس ہواکہ زندگی کے تمام بوجھ ہلکے ہوگئے،بارگاہِ رسالت میں حاضری کاشرف انہیں بھی حاصل ہوگیا۔آقائے دوجہاں ﷺ نے بے چین دلوں کوسکون سے بھردیا اوردوجہانوں میں نصرف وکامرانی کی بشارت دے دی۔وہی لوگ جن کے مقدرمیں رونالکھاتھامسکراہٹ کے خزینے ان پرنچھاورہونے لگے۔مدینہ انہیں بھاگیا،سنہری جالیوں پران کی روح بھی نثارہونے کے لیے بے قراری کی لہریں کاٹنے لگی۔انہیں ایسامحسوس ہونے لگا جیسے وہ مہاجرتھے اورلوٹ کراپنے دیس پہنچ گئے ہیں۔انہی ہواؤں سے قلب وذہن کومعطرکرنے کے لیے ابن بطوطہ افریقاسے غبارآلودجسم و روح کے ساتھ کسی زمانے میں پہنچاتھا۔اشفاق احمدکے ننگے پاؤں کی سرگوشیاں اسی دھرتی کی مٹی سے اٹی ہوئی ہیں۔نہ جانے کتنے لوگ یہا ں پہنچے اوراپنے دین ودنیاسنوارکرلوٹ گئے۔“
ایک ایک لفظ ہردل کی آوازہے۔کون کسی بات سے انکارکرسکتاہے۔ ”یہ سب تمہاراکرم ہے آقاکہ بات اب تک بنی ہوئی ہے۔“کیسا کیسا نکتہ کتاب میں بیان ہواہے۔ بیالیس تصانیف کے مصنف ڈاکٹرتصدق حسین جواللہ کے نیک بندوں کی زندگیوں پرغورکرتے رہتے ہیں اوراسی حوالے سے ان کی کئی تصانیف ہیں۔”ایک دن تنہائی میں ان سے سوال کیاکہ آپ کی کامیاب اورہردل عزیزشخصیت کارازکیاہے؟جواب آیا! خداکاپیار۔میں اللہ کوخوش کرتاہوں۔اب تم پوچھوگے کیسے؟توسنو! مجھ سے غلطی،کوتاہی یاگناہ ہوجاتاہے تومیں توبہ کرنانہیں بھولتا،پھرغلطی ہوتی ہے،پھراس کے درپرچلاجاتاہوں،معافی مانگتاہوں،ڈھیٹ بن جاتاہوں اورمجھے یقین ہے کہ میرے اس عمل سے اللہ خوش ہوتاہے۔اگرہم خداپربھروسہ کرنے لگ جائیں تونہ صرف ہماری زندگیاں سنورسکتی ہیں بلکہ پورامعاشرہ ٹھیک ہوسکتا ہے۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں خداپریقین نہیں۔مجھے اکثرگاڑی چلاتے ہوئے ننھے بچے نظرآئیں توکوشش کرتاہوں کہ گاڑی میں بٹھاکر انہیں اپنی منزل کے قریب کسی جگہ چھوڑدوں۔دل میں یہی سوچتاہوں اورمیراایمان ہوتاہے کہ جس دن میرے بچے اسی طرح سڑک پر اکیلے کھڑے ہوں گے اللہ ان کے لیے بھی کوئی نہ کوئی وسیلہ ضرور پیدافرمائے گا۔“
ارشدملک کے سفرحج سے ڈاکٹرتصدق حسین کاتذکرہ جڑا ہواہے،اس لیے کہ وہ ان کے روحانی استادہیں۔ان کی باتیں انگلی پکڑکرمختلف راستوں کی طرف لے جاتی ہیں۔یہاں پرممتازمفتی کامعروف سفرنامہ حج ”لبیک“ یادآتاہے۔جوقدرت اللہ شہاب کے تذکرے سے بھرا ہے،کیونکہ وہ ان کے روحانی استاد تھے۔ممتازمفتی کے سوانحی ناول”علی پورکاایلی“ کادوسراحصہ”الکھ نگری“ شہاب اوردوسری روحانی شخصیا ت کے تذکروں پر ہی مبنی ہے۔
ارشدملک کاسفرنامہ حج روحانی سفرکی داستان ہے۔جس کابیان ایک شاعرکی زبان میں لطف دوآتشہ بنادیتاہے۔”میری دھڑکنیں غارِ ثور سے ہمکلام ہوئیں،اے دنیاکے عظیم ترین غار۔تونے میرے آقاﷺ کوآرام کرتے دیکھاجب وہ زخموں سے چُورتھے۔تُوانہیں دیکھ کر رویابھی ہوگا۔اے دنیاکے عظیم ترین غار! یہ تیراکلیجہ تھاجس نے میرے آقاﷺ اورصدیق اکبرؓ کے پرسوزلمحات کوسینے میں سمیٹا! اے دنیا کے عظیم ترین غار! تونے صدیق اکبرؓ کے صاحبزادے کوبھی دیکھاہے جودن بھرقریش کے ناپاک ارادوں پرنظررکھتے اوررات کی تاریکی میں آکرمیرے آقاﷺ کوساری صورتِ حال سے آگاہ فرماتے۔اے دنیاکے عظیم ترین غار! تونے ان غلاموں کوبھی دیکھاجودن بھربکریا ں چراتے اوررات کی تاریکی میں اپنی بکریوں کادودھ پیش کرتے۔اے دنیاکے عظیم ترین غار! تونے وہ مکڑی بھی دیکھی جس نے تیرے دھانے پرجالابُناتھا۔ تُونے کبوتروں کی وہ جوڑی بھی دیکھی جنھوں نے اپنے انڈوں سے کھوجیوں کوبہکادیاتھا۔ اے دنیا کے عظیم ترین غار! میں ان بکریوں پرقربان جاؤں جوحضرت عبداللہ ؓ کے پیروں کے نشانات پرچلتیں تاکہ مشرکینِ مکہ پیروں کے نشان دیکھ کرکہیں تجھ تک نہ پہنچ جائیں۔“
حال ہی میں محمدعارف کاسفرنامہ حج ”حاضرسائیں“ کے نام سے شائع ہواہے۔وہ بھی حج اورعمرے کے سفرناموں میں ایک بہت عمدہ اضافہ ہے۔ارشدملک نے اپنے سفرنامہ حج”حاضراللہ سائیں“اپنی روحانی بالیدگی اوردل میں بسے ہرمقام کاانتہائی عقیدت اورجذبے سے ذکرکیاہے۔ساتھ ہی وہ اپنے تجزیات بھی پیش کرتے ہیں۔”اسلام کل بھی جدیدتھا،آج بھی جدیدہے۔اسلام میں واقعات محض اسا طیری داستانیں نہیں ہیں۔محض گھڑے گھڑائے قصے نہیں ہیں۔بلکہ قرآن کے واقعات ان کی سندبھی پیش کرتے ہیں۔جوں جوں دنیاترقی کررہی ہے۔تحقیق وجستجوکے جزیرے شاداب ہونے کے ساتھ ساتھ پھیل رہے ہیں۔قرآن کی ہربات سچ ثابت ہورہی ہے۔فرعون کے غرق ہونے کاذکرقرآن پاک میں آیاتودنیانے اس کی لاش بھی دیکھ لی۔اللہ کی ذات پرایمان لانے کے لیے کعبہ شریف سے بڑا معجزہ اس وقت دنیامیں کوئی نہیں مگرپھربھی جواللہ کی ذات سے منحرف ہیں میں ان کی ہدایت کے لیے دعاہی کرسکتاہوں۔“
ارشدملک کاایک ایک لفظ دردمندی سے بھراہے اوردل پراثرکرتاہے۔ایک اوراقتباس ملاحظہ کریں۔”محبت کے حقیقی رنگ اورجلوے میری ذات پرعیاں ہونے لگے تھے۔ہم لوگ جوچھوٹی چھوٹی باتوں پرایک دوسرے سے تعلقات ختم کرنے پرتل جاتے ہیں۔ہمیں کیاخبر کہ اسوۂ حسنہ کیاہے۔حقیقی محبت کیاہے۔محبت کوسمجھناہے توادھورے جذبوں سے نکل کردیارِنبیﷺ کارخ کرو۔میں نے چشمِ تصورسے دیکھاپورامکہ انہیں صادق اورامین کہنے کے باوجودان کی جان کادشمن ہوگیاہے۔میں نے دیکھاایک عورت تاجدارعالمﷺ پرگلی میں گزر تے ہوئے کوڑاپھینک رہی ہے۔میں نے دیکھاوہی عورت بیمارہے۔اورسرکارِدوعالمﷺ اسے اپنے ہاتھوں سے دواپلارہے ہیں۔اس کے گھرمیں جھاڑودے رہے ہیں۔میں نے دیکھامیرے نبیﷺ ایک پہاڑ پرحق بیان کررہے ہیں۔مگرجن کے دلوں،زبانوں اورآنکھوں پرمہرلگادی گئی تھی۔وہ خاموش کھڑے پلیدارادے بننے میں مصروف ہیں۔میری چشم ِ تصورنے چاندکودوٹکڑے ہوتے دیکھا۔نہ جانے کتنے معجزات تھے جومیری آنکھوں میں سمٹ آئے تھے۔“دراصل یہ اس زمین اوراس ماحول کااثرہے۔جووہاں پہنچاخود کواس میں گم ہونے سے نہ بچاسکا۔وہاں کاذرہ ذرہ اورپاکیزہ ہوائیں دامنِ دل کھینچتی ہیں۔کس کس واقعہ کاذکرکیاجائے اورکسے چھوڑدیں،فیصلہ دشوارہے۔”یہ وہی مکہ ہے جہاں حضرت ابراہیم ؑ اپنی محبوب بیگم اور اپنے بیٹے اسمٰعیل کوصحراکی پیاس کے حوالے کرکے چلے گئے تھے،نہ کھانے کوکچھ تھااورنہ ہی پینے کوپانی۔دوردورتک صرف ویرانی تھی۔حضر ت حاجرہؓ نے ننھے اسمٰعیلؑ کے بارے میں سوچاتوہوگاکہ اتنے چھوٹے سے کاکے کوجب بھوک یاپیاس لگے گی توکیاکروں گی،کہاں جاؤ ں گی۔میں وہ منظرتصورمیں لارہاتھاجب اسمٰعیلؑ کوپیاس لگی اوران کی والدہ صفاومروہ کے درمیان سعی فرمانے لگیں۔صدیوں کی تشنگی میرے وجودپربپھرنے لگی۔میں کچھ بے چین ساہوگیا،میں سوچنے لگا،جب ابراہیمؑ دوبارہ آئے ہوں گے توحاجرہؓ اوراسمٰعیلؑ کیسے کھلکھلا اٹھے ہوں گے۔“
جذب وعقیدت سے تحریرکردہ یہ کتاب باربارآنکھوں کوپرنم کردیتی ہے۔ارشدملک قاری کواس رحمتوں بھری سرزمین پراپنے ساتھ ساتھ لے کرچلتے ہیں اورقاری ہرچیزاپنی مجازی آنکھ سے دیکھتاہے۔”حاضراللہ سائیں“بہت خوبصورت سفرنامہ حج ہے۔جواس قسم کی تحریروں کے پرستاروں کے لیے تحفہ خاص کی حیثیت رکھتاہے۔