جناب سجاد میر نے ایک تاریخی جملہ کہا تھا کہ ٹیلی ویژن غارت گر تہذیب ہے۔ گزشتہ شب ایکسپریس نیوز پر جاوید چوہدری کے پروگرام میں اس جملے کی حقانیت ایک بار پھر کھلی آنکھوں دکھائی دے گئی جب فردوس عاشق اعوان نے پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی قادر مندوخیل کے گریبان پر ہاتھ ڈالا، انھیں تھپڑ مارا اور گالیاں بکیں۔
اس واقعے نے یہ سوال ایک بار پھر اٹھا دیا ہے کہ کیا سیاسی مکالمہ تہذیب کے دائرے میں رہ کر نہیں کیا جاسکتا؟ اس سوال کے جواب تک پہنچنے کے لیے یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ سیاسی شخصیات اخلاق کے منافی طرز عمل اختیار کیوں کرتی ہیں؟ فردوس عاشق اعوان ایک سمجھ دار اور بے تکلف خاتون ہیں۔ وہ موقع محل دیکھ کر طرز عمل اختیار کرنے کی بہترین صلاحیت رکھتی ہیں اور انھیں جاننے والے جانتے ہیں کہ بے تکلف دوستوں کی محفل میں ان کی بے تکلفی کی حدود کہاں تک جا پہنچتی ہیں لیکن پے درپے سیاسی جماعتیں بدلنے کے باوجود وہ ایک ایسی سیاسی کارکن ہیں جنھیں اپنے مزاج پر پوری گرفت ہے جس کا ثبوت ان کی گفتگو سے ملتا ہے۔ جاوید چوہدری کے پروگرام میں وہ آپے سے باہر کیوں ہوئیں؟ اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں جن میں نمایاں ترین یہ ہے کہ ان کا سیاسی قبیلہ یہ طرز عمل پسند کرتا ہے جس کی خوشنودی کے لیے سیاسی شخصیات اکثر ایسا کرتی ہیں۔ اس کی دوسری وجہ ریٹنگ کی خواہش بھی ہے جس میں سیاسی شخصیات کے علاوہ چینل اور اینکر بھی شریک ہوسکتے ہیں۔ وقتی ریٹنگ کا حصول اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ طرز عمل نہ سیاسی ماحول کے لیے بہتر ہے اور صحافت کے لیے۔ ایسا ہی طرزعمل ہوتا ہے جو معاشرے کو تصادم کی کیفیات میں داخل کر کے خونریزی کی طرف لے جاتا ہے۔ اس لیے اس طرز عمل سے پرہیز کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی فریق ضروری احتیاطوں کے باوجود اپنی اصلاح پر آمادہ نہیں ہوتا تو پھر ضروری ہے کہ ذرائع ابلاغ ایسے لوگوں کا بائیکاٹ کریں۔ جاوید چوہدری ایک سمجھ دار اینکر ہیں لیکن اگر کوئی اینکر جان بوجھ کر ایسا ماحول پیدا کرتا ہے تو ایسی صورت میں ضروری ہے کہ چینل کی انتظامیہ اور پیمرا اس کے خلاف کارروائی کرے۔