ایک زمانے میں پاکستان ٹیلی ویژن کا ماحول خاصا رنگین ہوا کرتا تھا اورہر طرف بہت”رونق“ رہتی تھی (یعنی 1985 میں)۔ کیونکہ پی ٹی وی اپنی نوعیت کا ایک ہی ادارہ تھا۔نیم سرکاری ادارہ ہونے کے باوجود پی ٹی وی خالص پروفیشنل ادارہ تھا، اور اس سے وابستہ افراد اسے سرکاری نوکری سمجھ کر نہیں بلکہ اپنی پوری صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے ایک جذبے کے تحت کام کیا کرتے تھے۔ اسلم اظہر، زیڈ اے بخاری، آغا ناصر، فضل کمال،مصلح الدین،برہان الدین حسن، اختر وقار عظیم،کنور آفتاب، شہزاد خلیل، ناظم الدین، اقبال حیدر، آصف انصاری، تاجدار عادل، ظہیر خان، سید محسن علی، حیدر امام رضوی اور بہت سے ماہرین نے اپنی صلاحیتوں، محنت،لگن اور احساس ذمہ داری سے اس ادارے کو انتہائی بلند مقام پر لاکھڑا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اُس دور میں انکل عرفی، تنہائیاں، خدا کی بستی، ایک محبت سو افسانے، دھوپ کنارے اور بہت سے شاہکار ڈرامے اور پروگرام پیش کئے گئے۔ جنہوں نے کامیابیوں کے نئے ریکارڈ قائم کئے۔
سچ تو یہ ہے کہ ٹیلی ویژن ڈرامے کی تعریف پر اُسی دور کے پی ٹی وی کے ڈرامے پورے اترتے تھے موجودہ دور کے ٹی وی چینل پر ڈرامے نہیں پیش کئے جاتے بلکہ فلموں اور ڈراموں کا ملغوبہ ہوتا ہے۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈراموں کی کہانیوں میں تنوع تھا، وہ صرف عشق و محبت اور گھریلو تنازعات اور شہر کے متمول خاندانوں تک محدود نہ ہوتے تھے۔ بلکہ شہری زندگی کے ساتھ دیہی زندگی کی عکاسی بھی کرتے تھے۔ ان کے موضوعات میں عشق ومحبت کے ساتھ ساتھ خاندانی تعلقات، والدین کے احترام، خواتین کے مسائل، نوجوان نسل کے چیلنجز، دیہی زندگی میں جاگیرداروں کے مظالم، شہری زندگی کی کہانیاں، امیروں کے ساتھ ساتھ غریبوں کے مسائل، ہمارے ملک کے مختلف خطوں کی تہذیبیں، تاریخ، معاشرت غرض تمام ہی موضوعات کا احاطہ کیا جاتا۔
ہاں تو میں ذکر کررہا تھا، اس دور میں ٹیلی ویژن اسٹیشن کی رونقوں کا۔ وہاں خاص طورپر شام کو راہداریوں میں، عمارت کے بیرونی احاطے اور کینٹین میں رنگ ونور کا سیلاب آیا ہوا ہوتا اور باقاعدہ چہل پہل نظر آتی۔ مختلف پروگرام پروڈیوسر اپنے اپنے کمروں میں اداکاروں کوریہرسل کراتے نظر آتے۔ اور کبھی کبھار اسٹوڈیوز جانا ہوتا تو وہاں ڈراموں کی شوٹنگ ہورہی ہوتی۔ نیوز کے ساتھی اور خاص طور پر میں نیوز روم ہی میں گم رہتا اور اپنے کاموں میں کھوگیا تھا۔
اس زمانے میں پروگراموں کی اناؤسمنٹ کا رواج تھا اور خواتین اناؤنسر کو باقاعدہ ملازمت پر رکھا جاتا۔ جس اسٹوڈیو سے خبریں ہوتیں وہیں سے اناؤسمنٹ بھی۔ اتفاق سے مجھے ایک اناؤنسر بہت اچھی لگنے لگی، میری شامت اعمال کے ایک رات نیند کے دوران میرے منہ سے نکل گیا کہ آئیں، نہال صاحب مس فلاں کو دیکھنے چلتے ہیں۔ اور اتفاق سے میری بیگم صاحبہ نے وہ الفاظ سن لئے۔ بس پھر نہ پوچھیں کہ کیا ہوا !!!۔ لیکن ایسی باتیں دل کی دل میں رکھنے کی عادت جامعہ کراچی ہی سے تھی۔
بہت سی اناؤنسر اور نیوز کاسٹرز سے واسطہ رہا، کچھ اچھی بھی لگیں۔ لیکن کبھی شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ یوں تو ا نسان کے دماغ میں ہرقسم کے خیالات آتے ہیں لیکن ایسے خیالات پر عمل کرنے والے عام طورپر زندگی میں کامیابی نہیں حاصل کرپاتے۔ یہ تربیت شروع سے ملی تھی کہ دل اور دماغ کو قابو میں رکھا جائے۔ نیوز روم میں اپنی ساتھی خواتین کا بھی ہمیشہ احترام کیا، لیکن افسوس میرے ساتھیوں نے بتایا کہ ان میں سے زیادہ تر تمہیں ”احمق“تصور کرتی ہیں اور بھولا بھائی کے لقب سے یاد کرتی ہیں۔ مجھے ان کے ان کمنٹس پر افسوس نہیں، بلکہ خوشی ہوئی۔ کیونکہ ایسے کمنٹس میں جامعہ کراچی سے سنتا چلا آرہا تھا۔
اُس زمانے میں نیوزکاسٹر یا خبریں پڑھنے والوں کا انتخاب جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ خبریں پڑھنے کیلئے موزوں شخصیت کے ساتھ اچھی آواز،لب و لہجہ، درست ادائیگی‘ صحیح تلفظ اور کیمرے کے سامنے اعتماد انتخاب کی کسوٹی ہوا کرتی تھی۔ تصویری خبروں کی بیک گراونڈ کمنٹری کے لئے علیحدہ افراد ہوا کرتے تھے۔ ابتدا میں خبریں پیروں،سوری، ہاتھ سے لکھی جا تی تھیں اورپھر اردو میں ٹائپ ہونے لگیں جنہیں پڑھنا خاصا مشکل ہوا کرتا تھا۔ بعد میں ٹیلی پرامپٹرآگیا جس سے نیوز ریڈر اور ٹرانسلیٹر کا کام آسان ہو گیا۔ اس وقت پی ٹی وی کے پانچ
ا سٹیشن تھے، کراچی، لاہور، راولپنڈی، پشاور اور کوئٹہ۔ یہ تمام مراکز اپنی اپنی خبروں کی نشریات کیا کرتے تھے۔ ہراسٹیشن شام کواردو میں ایک چھوٹا بلیٹن اور مقامی زبان میں ایک بلیٹن کیا کرتا تھا جبکہ رات کو نو بجے خبرنامہ ہوا کرتا تھا۔
کراچی مرکز سے ابتداء میں کچھ عرصے مشہور ڈرامہ آرٹسٹ قربان جیلانی بھی کچھ عرصے خبریں پڑھیں،ریڈیو کے انتہائی مقبول نیوز ریڈر وراثت مرزا، جوفوجی ڈکٹیٹرجنرل ایوب خان کی تقاریر کے اردو ترجمے کو اپنی باوقار آواز میں پڑھنے کی وجہ سے بہت مشہور تھے، کراچی ٹی وی سے خبریں پڑھتے رہے۔ ان کے ساتھ حریم عارف ہواکرتی تھیں۔بعد میں کراچی سے خبریں پڑھنے والوں میں سعید احمد نسیم، اکرام العلی شمسی، زبیر الدین، معراج الدین خان اور شہاب الدین شہاب نمایاں رہے۔
راولپنڈی مرکز سے خبریں پڑھنے والوں میں اظہر لو دھی، خالد حمید، عبدالسلام، مسرور کاظمی، حسن جلیل اور حمید اختر ایک عرصے تک خبروں میں جلوہ گر ہوتے رہے جبکہ خواتین میں ارجمند شاہین، ماہ پارہ صفدر، عشرت فاطمہ، یاسمین واسطی،نگہت آفرین، اور بی بی سی سے ریٹائر ہونے کے بعد ریڈیو ایران زاہدان پر اپنی خوبصورت آواز اور منفرد انداز کی بنا پر جانی پہچانی والی ثریا شہاب نے بھی کچھ عرصہ خبریں پڑھیں۔
بہرحال اُس زمانے میں خبرنامے کا ایک بڑا حصہ کراچی مرکز سے ہوا کرتا تھا۔جس کی وجہ یہ تھی کہ غیرملکی خبریں کراچی ہی سے پیش کی جاتی تھیں۔ خبرنامہ اسلام آباد سے شروع ہوتا اور درمیان میں لاہور، کراچی، پشاور اور کوئٹہ سے براہ راست خبریں شامل کی جاتیں۔ اس حوالے سے بہت سے تیکینکی امور تھے جن کی وجہ سے ملک کے تمام مراکز سے براہ راست خبریں ٹیلی کاسٹ ہواکرتیں اور وہ بھی خاص طورپر خبرنامے میں۔ جس کا بہت اچھا تاثر قائم ہوتا۔ اس حوالے سے ہم لوگ اپنے اسلام آباد مرکز سے مسلسل رابطے میں رہتے۔شام کو انگریزی کا ایک بلیٹن ہوا کرتا تھا۔ جس میں کراچی اور لاہور سے بھی براہ راست خبریں شامل کی جاتی تھیں۔ اسلام آباد کے مرکزی مرکز سے انگریزی خبروں میں شائستہ زید صاحبہ نے بہت نام کمایا۔
چنانچہ پی ٹی وی میں نیوز کاسٹرز کا جمگھٹا رہتا تھا، میرے کئی نیوز کاسٹرز سے دوستانہ مراسم ہوگئے، ان میں چشتی مجاہد، ز ینت حق، زبیر الدین، معراج الدین خان،شہاب الدین شہاب، نسرین پرویز، شبانہ حبیب، سلیم میمن، رشید ہمیرانی، ممتاز شیخ اور انیسہ شیخ وغیرہ شامل ہیں۔ اب تو بہت سے ساتھیوں کے نام بھی دماغ سے محو ہوگئے ہیں۔ بہرحال جب وہ خبریں پڑھنے آتے تو ریہرسل کے دوران گفتگو کاسلسلہ بھی جاری رہتا۔وراثت مرزا، حریم عارف، اکرام العلی شمسی اور دیگر میرے ٹیلی ویژن جوائن کرنے سے قبل خبریں پڑھا کرتے تھے۔
ان میں شہاب الدین شہاب نے بہت متاثر کیا، وہ شاعر بھی تھے، لسانیات پر عبور رکھتے تھے اور قیافہ شناس یا مستقبل بین بہت اچھے تھے۔ ایک مرتبہ انہوں نے میرا ماتھا دیکھ کر بہت عجیب با ت کہی، وہ یہ جوانی میں آپ دیندار تھے اور شاید پچاس سال یا اس سے زائد عمر کے بعد پھر دیندار ہوجائیں گے۔ میں نے کہا کہ شروع سے جماعتی ہوں، اور رہوں گا۔ پروفیشنل لائف میں آنے کے بعد نمازوں کی پابندی نہیں رہی۔ کہنے لگے کہ نہیں، جوانی میں تو جماعتی تھے لیکن عمر کے آخری حصے میں آپ تصوف کی طرف راغب ہوجائیں گے۔ ان کی اس بات پر میں حیران رہ گیا اور پھر آنے والے برسوں میں ان کی وہ پیشگوئی حرف بحرف درست ثابت ہوئی۔ شہاب صاحب اب بھی میرے دوست ہیں اور رائٹرز ٹیلی ویژن میں نیوز ایڈیٹر۔
ان کے علاوہ زبیر الدین سے بھی دوستی ہوگئی تھی، بہت خوش مزاج اور بہترین شخصیت کے حامل تھے، اب کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں مقیم ہیں۔ وہ 18مارچ 1948کو پیدا ہوئے تھے۔
پاکستان ٹیلی وژن پر انگریزی خبروں نے بھی اعلی معیار قائم کیا۔کراچی سے ایڈورڈ کیراپئٹ کے علاوہ خوبصورت لب و لہجے کے مالک اور کرکٹ کے مشہور و مقبول کو منٹیٹرز افتخار احمد اور چشتی مجاہد بھی1970ء کے اوائل میں خبریں پڑھا کرتے تھے۔
پی ٹی وی کے جس دور کا میں ذکر کر رہا ہوں وہ پروفیشنلزم، باہمی تعلقات، ہم آہنگی اورمحنت کا دور تھا۔ اس دور کے ان افراد کا اگر ذکر نہ کیا جائے تو یہ سراسر زیادتی ہوگی جنہوں نے پس پردہ رہ کر اس شعبے کو نئی جہت عطا کی۔ ان میں مصلح الدین صاحب کا نام سر فہرست ہے جنہوں نے پہلے نیوز ایڈیٹر اور پھر ڈائریکٹر نیوز کی حیثیت سے مثالی کام کیا۔خبروں کے شعبے میں زبیر علی، ظفر صمدانی، برہان الدین حسن، حبیب اللہ فاروقی، شکور طاہر، خالدہ مظہر، ممتاز حمید راؤ،رضی احمد رضوی اور منورمرزا نے انتھک کام کیا۔ یہ صاحبان اپنی ذات میں انجمن تھے، جن لوگوں نے انکے ساتھ کام کیا وہ انہیں کبھی فراموش نہیں کرسکتے۔
چشتی مجاہد ایک انگریز ٹائپ شخصیت تھے، شروع میں میں اُن کی شخصیت کے رعب کی وجہ سے ان سے دور ہی رہا۔ لیکن پھر رفتہ رفتہ ان سے دوستی ہوگئی۔ وہ ایک کثیر قومی دوا ساز کمپنی میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے اور انگریزی خبریں پڑھنے کے علاوہ کرکٹ پر کمنٹری بھی کیا کرتے تھے۔ بہت دلچسپ شخصیت تھے اور ان کی ذات کے مختلف پہلورفتہ رفتہ سامنے آتے گئے۔ ان کا مکمل نام چشتی بن صبح مجاہد تھا اور وہ 17 جنوری 1944کو دلی میں پیدا ہوئے، قیام پاکستان کے بعد ان کے والدین نے الہ آباد سے کراچی ہجرت کی تھی۔ انہوں نے کراچی گرامر اسکول، نیشنل کالج کیمبرج اور سیلوین کالج، کیمبرج، برطانیہ سے تعلیم حاصل کی۔ کچھ دن کلب لیول کی کرکٹ بھی کھیلی۔ 1967میں ریڈیو پاکستان اور1970میں پی ٹی وی پر کرکٹ کمنٹری کا آغاز کیا۔ پاکستان ٹیلی ویژن نے تین مرتبہ بہترین کمنٹیٹر کا ایوارڈ اور حکومت پاکستان نے 14 اگست 2003کو صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا۔
اسی طرح سلیم میمن (جامعہ کراچی میں سینئر پروفیسر کے عہدے سے حال ہی میں ریٹائر ہوئے) بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ بہت انسان دوست اور ہمدرد انسان تھے۔ نیوز روم میں سندھی ڈیسک ہواکرتی تھی، جس کا ایک انچارج اور کئی خبریں بنانے والے ہوتے۔ وہ لوگ دن کے دو بجے آتے اور سندھی بلیٹن آن ائیر ہونے کے بعد چلے جاتے۔ ان میں سے بہت سے لوگوں سے مراسم ہوگئے، جن میں تاج بلوچ، اللہ بخش کھیڑو، جوش صاحب اور بہت سے ایسے افراد جن کے نام اب بھول چکا ہوں۔
چونکہ شادی کے چند ماہ بعد ہی پی ٹی وی میں جاب مل گئی تھی، اسلئے ہنی مون پر نہیں جاسکے۔چنانچہ ملازمت کے ایک سال بعد شمالی علاقوں کی تفریح کا پروگرام بنایا تو شہاب صاحب نے یہ کمنٹ پاس کیا کہ ”لیٹ ہنی مون“۔ اس کمنٹ سے میں بہت محظوظ ہوا اور ان کا یہ جملہ میرے دل کے نہاں خانوں میں محفوظ ہوکر رہ گیا۔(جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔