منفردشاعر،افسانہ نگاراوردانش وراقبال نظرکی زیرادارت سہ ماہی”کولاژ“ کاشمارہ نمبربارہ بھی اپنی تمام ترخوبیوں کے ساتھ طلوع ہواہے۔اقبال نظرنے ”کولاژ“ کی اشاعت میں باقاعدگی لانے کے لیے اس کی صفحات دوسوآٹھ کردیے ہیں۔یہ ایک بہترفیصلہ ہے،اس سے نا صرف کروناکی تباہ کاریوں کے باوجودشمارہ نمبربارہ بروقت اشاعت پذیرہوگیا۔بلکہ اگلا شمارہ بھی تیارہے اوراس کے جلدآنے کی امید ہے۔ جریدے کااداریہ اقبال نظرکی ”لاک ڈاؤن میں ایک نظم“ پرمبنی ہے۔
”زمانے بھرکے سارے خوف/ اندراورباہرکے/تم اکیلے دل میں لے کرجی رہی ہو/ اب اپنی ذات کے آشوب سے باہرنکل آؤ/ سحرکارنگ اورشب کاڈھنگ/سبھی تم کوبلاتے ہیں / کہ پروردہء مہرووفا/ ساری فضائیں اورہوائیں / تمہاری سانسیں ڈھونڈتی ہیں جابہ جا/ تم اس جذبہء بے اختیارکاکچھ توبھررکھو/ کنارِ دل سے جوچھلکے/ اوربے کراں دم بھرمیں ہوجائے/ بلاخوف وخطرباہرنکل آؤ/ تمہیں کیسے بتاؤ میں / بنامہر ووفاجینانہیں ہوتا/ محبت میں قرنطینہ نہیں ہوتا“
یہ نظم قاری کے دل کے تارچھیڑتی اوراسے سوچنے پرمجبورکرتی ہے۔”کولاژ“گیارہ کاآغازباصرسلطان کاظمی کے مضمون”نے نا شنیدہ،غالب اورناصرکاظمی“ سے کیاگیاتھا۔شمارہ بارہ کی ابتداخصوصی مطالعہ کے تحت”ناصرکاظمی کاانتخاب:ایک تعارف“ سے ہواہے۔باصر سلطان کاظمی اپنے مرحوم والدکے حقیقی جانشین ثابت ہوئے ہیں۔انہوں نے گذشتہ سال مرحوم شاعرکی”ڈائری“ شائع کی۔اب اس سلسلہ مضامین سے ناصرکاظمی کی کچھ اورجہتیں قارئین پرواضح کررہے ہیں۔بیس صفحات کے اس طویل مضمون میں ناصرکاظمی کے مطالعے کاعلم ہو تاہے۔لکھتے ہیں۔”ایک دن پاپانے کہاکہ میرانیس کے کچھ شعرپڑھ کے توایسالگتاہے جیسے امام حسینؑ نے انہیں خواب میں آکے لکھوائے ہوں۔اُس وقت انہوں نے جوشعرسنائے وہ بہت عرصہ مجھے یادرہے۔کاش میں انہیں نوٹ کرلیتا۔پاپاانیس کے ایک مرثیے کامصرع، اس عہدمیں سب کچھ ہے پرانصاف نہیں ہے،اورایک سلام کایہ شعراکثرپڑھاکرتے تھے:
در پہ شاہ کے نہیں جاتے فقیر اللہ کے سر جہاں رکھتے ہیں سب ہم واں قدم رکھتے نہیں
ایک اورموقع پرانہوں نے پوچھا،’یونانی المیے اورکربلاکے المیے میں بنیادی فرق کیاہے؟‘جب میں کوئی اطمینان بخش جواب نہ سکاتوانہوں نے کہاکہ یونانی المیے کاہیرواپنی تقدیر کے خلاف لڑتاہے لیکن اسے بدل نہیں سکتاجبکہ کربلاکاہیروخود اپنی تقدیرکاانتخاب کرتاہے۔قدیم یونا نی فلسفے کے مطابق جوکچھ ہوناہے وہ پہلے سے طے شدہ ہے اورکتابِ تقدیرمیں لکھاہواہے۔دومارچ 1972ء کوانتقال سے تین ہفتے قبل لاہور ٹی وی سے انتظارحسین کوانٹرویودیتے ہوئے پاپانے کہاکہ’طبیعت موزوں تھی،گھرکاماحول شعروشاعری کاتھا۔گھرمیں ہمارے میر انیس پڑھاجاتاتھا۔نانامیرے موسیقی کاشوق رکھتے تھے،بچپن میں ہم نے شیخ سعدی پڑھا،فردوسی پڑھا،قرآن حکیم۔پورالحن جوتھاوہ شعر کی طرف تھا۔“
یہ انتہائی دلچسپ اورمعلوماتی مضمون ہے۔جس میں میرانیس جیسے شاعرکے کلام پرناصرکاظمی کاتجزیہ کئی نئے پہلوروشن کرتاہے۔ذرایہ اقتباس ملاحظہ کریں۔”میروغالب کی غزل ہو،نظیرواقبال کی نظمیں ہوں،میرحسن اوردیاشنکرنسیم کی مثنویاں ہوں یاانیس ودبیرکے مرثیے،سب میں بنیادی اکائی مصرعہ ہے۔خالد احمدکہاکرتے تھے کہ شعروہ کہہ سکتاہے جومصرع کہہ سکتاہے۔محبوب خزاں کہتے تھے کہ وہ ایک مصرعے پرکسی کوشاعرتسلیم کرسکتے تھے اورساقی فاروقی جیسے کٹرقاری اورنقادکاکہناہے کہ مصرع کہناانیس سے سیکھناچاہیے۔ناقدین ِ فن اس بات پرمتفق ہیں کہ مصرع کہنے کے معاملے میں انیس کسی سے کم نہیں،زیادہ ہوں توہوں۔بے ساختگی،سلاست،روانی،زبان پر قدرت،فصاحت،الفاظ کاپوراصرف ہونا،حروف کے دبنے اورتنافرسے گریز،یہ سب یکجادیکھناہوتوکلامِ انیس انتہائی اعلیٰ نمونہ پیش کرتا ہے۔“
مضمون کے اختتام پرحوالہ جات نے اسے معتبر اوروقیع بنادیاہے۔باصرسلطان کاظمی کے گذشتہ مضمون پرتبصرہ کرتے ہوئے پروفیسرسحرانصا ری کاکہناہے۔”بہت عمدہ تحقیقی مضمون ہے اوردیدہ ریزی سے لکھاگیاہے طبیعت بہت خوش ہوئی چندتصویربتاں والاشعر تاج کمپنی کے ایڈیشن کی وجہ سے معروف ہوگیامیں نے کہیں پڑھاتھاکہ ایک بزرگ شاعرنیساں اکبرآبادی کاہے۔آپ کامضمون بہت پسندآیا۔“ پروفیسر سعادت سعید،ایم حمیدشاہد،عباس تابش،امین کنجاہی،ارشدلطیف،احمدمبارک،کاشف غائر،سیدکاشف رضا،ڈاکٹرمحمدخورشیدعبداللہ، منظر نقوی،مظفرممتاز،خالد ملک ساحل،عاکف محمود،کامران نفیس،زمان ملک،رضامہدی باقری،پروفیسرمحمودالحسن جعفری،معظم راز،عمران الحق، جمیل الرحمٰن،پروفیسرصفدرامام قادری،افتخاربخاری اورعامرجعفری نے بھی غالب کے بارے میں مضمون کوسراہاہے۔
مضامین کے شعبے میں تین مضامین کوجگہ دی گئی ہے۔شاعر،ڈرامہ،کالم،سفرنامہ نگارامجداسلام امجد نے ترکی کے ”ڈاکٹرخلیل طوقارکی شاعری“پرعمدہ مضمون پیش کیاہے۔ڈاکٹرخلیل طوقارنے شادی پاکستان میں کی ہے اورپاکستان ان کادوسرا وطن ہے۔وہ پاکستان کے بارے میں بہت عمدہ سفرنامہ بھی تحریرکرچکے ہیں۔امجد اسلام امجد نے ان کے تیسرے شعری مجموعے ”پردیسی“کاجائزہ لیاہے۔وہ لکھتے ہیں۔”کتاب بات کرنے سے پہلے پیش لفظ کی چندسطروں پرنظرڈالنابہت ضروری ہے کہ ان سے ہٹ کرروایتی اندازمیں دیکھنے سے اس کتاب کی صحیح تفہیم اورتحسین ممکن نہیں طوقارلکھتے ہیں۔’میری اس کتاب میں پابندنظموں سے زیادہ بالکل آزادنظمیں ہیں،کیونکہ مجھے کسی صورت میں بھی گرفتاری پسندنہیں خواہ زندگی کے کسی مرحلے میں ہو،خواہ نظم کے کسی مصرعے میں۔اس لیے میں نظموں کی طرف مائل رہتاہوں۔دراصل میری شاعری کااصل محرک اردوزبان ہے وہ ایسے کہ میں سب کودکھاناچاہتاہوں کہ اردوزبان ایک ایسی شیریں اوراثرانداززبان ہے کہ ایک غیرزبان پردیسی بھی اس کی محبت میں شاعری کرسکتاہے۔اس لیے میں جولکھتاہوں وہ اردوزبان سے محبت کی وجہ سے لکھتاہوں اور اردو سے محبت کرنے والوں کی خدمت میں ایک تحفہ کے طورپرپیش کرتاہوں۔“
ڈاکٹرصائمہ ذیشان نے عزیزنبیل کے مجموعہ کلام”آوازکے پرکھلتے ہیں“ کاتجزیاتی مطالعہ کیاہے۔”اُس دشتِ گریزاں کی خبرکون لاتاہے جہاں آوازکے پرکھلتے ہیں؟ سکوت وجمودسے زندگی کوکب کوئی وابستگی رہی ہے؟ آوازکے پرکھلنازندگی کاایساشیوہء پیہم ہے جومثبت ہے، صورت گرہے اورہرگزرتے ہوئے لمحہ کے پہلوبہ پہلوتخلیق کے عمل سے گزررہاہے۔عزیزنبیل کامجموعہ کلام”آوازکے پرکھلتے ہیں“ ایک منفرد طبع رسا،گہری بصیرت،تخلیقی استعداد،حسیاتی محرک اوروجدانی سفرکانقشِ ثانی ہے۔یہ نقش ایک عمیق فراست،ایک لامحدودکلیت اور ایک پراسرارکائنات کانقش ہے۔جس کاپہلا نقش مجموعہ کلام”خواب سمندر“ کی شکل میں 2011ء میں منظرعام پرآیاتھا۔عزیزنبیل کے دونو ں شعری نقوش میں ایک قابل فہیم عظیم الشان استعاراتی فضاکی جلوہ گری ہے جوالفاظ کی صحیح بازگشت اورسیاق کے درست استعمال سے ایک نئی معنویت اورتوانااشاریت کوجنم دیتی ہے۔خواہ وہ”خواب سمندر“ کی نئی جنبش ہویا”آوازکے پرکھلتے ہیں“کی نئی لرزش،شاعری اور تخلیقی زندگی کانامیاتی عمل جاری ہے، ایک ایسافطری عمل جوحسیاتی سطح پر تجربات کے تمام مراحل سے گزرکرقاری کوعشقِ ازل گیروابدتاب کی گرفت میں رکھتاہے اوراپنے پروں کی دستک سے نت نئے خوابوں کی فراوانی کاسامان کرتارہتاہے۔“
ڈاکٹرعائشہ اقبال اپنے مضمون ”فقیرانہ آئے،بیادِ مشفق خواجہ“ میں لکھتی ہیں۔”خواجہ صاحب بہت پیارے انسان تھے میں نے انہیں قریب سے جانااورانتہائی مخلص دوست اور استاد پایا۔ان کاارتحال میرے لیے ذاتی المیہ ہے۔جومیری زندگی کے آخری دنوں تک میرے ساتھ رہے گا۔ان کی باتیں اوران کی یادیں میرے لیے ایک قیمتی سرمایہ ہیں۔یہاں میں یہ وضاحت کرتی چلوں کہ میں نہ شاعرہوں نہ ادیب۔صرف ادب کی ادنیٰ قاری ہوں،خواجہ صاحب کہتے تھے کہ آپ ہمیں اس لیے عزیزہیں کہ آپ لکھتی نہیں ہیں۔میں کوئی لکھاری نہیں ہوں اس لیے پڑھنے والوں سے گزارش ہے کہ اس مضمون کوکسی بھی ادبی پیمانے پرنہ پرکھاجائے۔خواجہ صاحب درویش صفت آدمی تھے وہ اس عالم رنگ و بو کے تھے ہی نہیں۔وہ اس ہنگامہ پرورعہدمیں مس فٹ تھے۔وہ دنیاسے یکسربے نیاز تھے۔اسی لئے شائد دنیاان کے پیچھے بھاگتی تھی۔ان کے پاس کہاں کہاں سے فون آتے۔وہ شاذ ہی کسی کوفون کرتے۔میری ان سے روزانہ ملاقات رہتی کسی روزمصروفیت کے باعث فون نہ کرپاتی تو خود فون کرلیتے کہ آج کیابات ہے آپ کافون نہیں آیا۔بے شمارلوگوں کو خواجہ صاحب سے غائبانہ عقیدت تھی۔خواجہ صاحب لوگوں سے کسی حدتک کتراتے تھے۔تعلقات میں ان کافلسفہ تھاکہ تعلقات میں وسعت نہیں گہرائی ہونی چاہیے۔“
غزلیات میں مرتضٰی برلاس،سلیم کوثر،امجداسلام امجد،صفدرصدیق رضی،صائمہ زیدی،معراج جامی اورجان کاشمیری کی غزلیں شامل ہیں۔سلیم کوثرکاچھٹامجموعہ کلام ”خواب آتے ہوئے سنائی دیئے“ صریرپبلشرزسے جنوری میں شائع ہورہاہے۔ان کے چنداشعارملاحظہ کریں۔
خوف و دہشت نے کہیں کا نہیں رکھا، پھربھی سب مکیں خیرسے، سارے مکاں آرام سے ہیں
سوچنے بیٹھو تو اک حشر بپا ہے ان میں دیکھنے میں تو یہ کون و مکاں آرام سے ہیں
تجھ سے ملنے کی تمّنا، تجھے کھونا تو نہیں موسمِ ہجر ہے یہ کوئی کرونا تو نہیں
کیسے طوفانوں سے لڑتی ہوئی آتی ہے اوراب ناؤ ساحل سے یہ کہتی ہے ڈبونا تو نہیں
جان کاشمیری گوجرانولہ سے ایک خوبصورت ادبی جریدہ ”قرطاس“ شائع کرتے ہیں۔ان کے دواشعارپیش ہیں۔
مجبور دل کے ہاتھوں ہوں، حالات سے نہیں ہر روز ورنہ دید کا شائق نہیں ہوں میں
الفاظ کے دُکھوں کا مداوا ہے میرا فرض اے جان عرف عام میں حاذق نہیں ہوں میں
معروف شاعر اورکالم نگارسعودعثمانی کے سفرنامے”مسافر“ کاچالیس صفحات پرمبنی طویل گوشہ ”جزیروں پربسااک شہرکوئے یارجیسا“ بھی اس شمارے میں شامل ہے۔ایک مختصراقتبا س۔ ”پیئرلوئی پہاڑی،شاخِ زریں پرحضرت ابوایوب انصاری کے مزارکے قریب فاتح کے علاقے میں ایک مشہور اورخوبصورت مقام ہے جوفرانسیسی ناول نگاراورمصورپیئرلوئی کے نام سے منسوب ہے۔پیئرلوئی نے اپنی عمرکابڑا حصہ استنبول میں گزارا۔کہاجاتاہے کہ وہ استنبول کے عشق میں گرفتارتھا۔لیکن اس سے بھی زیادہ مشہوریہ ہے کہ وہ آزیادی نام کی ایک ترک لڑکی کی محبت کااسیرہوگیاتھا۔اس پہاڑی پرایک قہوہ خانہ اب تک ہے جہاں پیئرلوٹی آیاکرتاتھا۔اس وقت اس قہوہ خانے کانام رابعہ کیدن قہوہ خانہ تھا لیکن اب یہ پیئر لوئی کے نام سے معروف ہے۔فرانسیسی مصنف نے اپناناول یہیں لکھاجس کانام بھی آزیادی ہے۔“
افسانوں کے حصے میں کولاژبارہ میں آٹھ مصنفین کی تحریریں شامل ہیں۔جس میں جاویدصدیقی کاافسانہ ”حلودیوانی“ دل کوچھولینے والاافسانہ ہے۔جاویدصدیقی بھارتی فلموں کے مشہورمصنف ہیں۔سلیم خان کے ساتھ انہوں سلیم جاویدکے نام سے کئی سپرہٹ فلموں کی کہانی اورمکالمے لکھے۔خاکہ نگاری کاآغازکیا تو”روشن دان“ اور”لنگرخانہ“دوخاکہ نگاری کے مجموعے شائع کیے۔”حلودیوانی“ میں بھی خاکے کارنگ موجود ہے۔رشیدامجدبزرگ اورمنفرد افسانہ نگارہیں۔دوہزاربیس میں نیشنل بک فاؤنڈیشن اورصریرپبلشرز نے ان کے افسانوں کے چھ مجموعے شائع کیے ہیں۔رشیدامجدکاافسانہ”ناتمام سفر“جسٹس حاذق الخیری مشہورخیری فیملی کے رکن ہیں۔ان کی منفردآپ بیتی بہت مشہورہوئی۔حاذق الخیری”جب بہاربیت جائے“ کے ساتھ اس محفل میں شریک ہیں۔ڈاکٹرشیرشاہ سیدگائناکولوجسٹ ہیں۔انہوں نے افسانہ نگاری میں بھی آٹھ مجموعے اورایک ناول کے علاوہ اپنے والدین کی زندگی پرکتاب اورچندترجمے پیش کیے۔آصف فرخی کی ناگہانی وفات پر”دل پارہ پارہ“ جیسی منفرد کتاب پیش کی۔ان کاافسانہ”سورج کی موت“ان کے منفرد اندازکی تحریرہے۔اسد محمود خان”پہلی محب کی دریافت“ خاورسعید جمالی”رہائش برائے فروخت“ اورتبسم فاطمہ کا”زہراب“ بھی عمدہ افسانے ہیں۔