سینٹ انتخابات نے سیاسی و سماجی حلقوں میں ہلچل مچادی ہے وسائل کے مکروہ استعمال اور الیکشن کمیشن سمیت آئینی اداروں کے کردار ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر زیر بحث آئے ہیں مگر اس بار جناب عمران خان نے ہمت و جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے قومی مکالمے و ڈائیلاگ کا آغاز قرار دیا جاسکتا ہے بلاشبہ ہمارے آئینی حقوق و فرائض میں سقم موجود ہیں اور عوام کی اکثریت جمہوری نظام سیاست و ریاست کے اجتماعی کاوشوں سے فیضیاب نہیں ہو پاتے ہیں اس لئے مشکلات و تناؤ بڑھ رہا ہے جس کا شافی علاج و تشخیص ضروری ہے۔ پہلے الیکشن کمیشن کے کمزور کارکردگی اور بے سروپا دلائل ملاحظہ فرمائیں جو پالیسی کے طور پر میڈیا کو جاری کئے گئے ہیں قانونی سقم اور پارلیمنٹ کی قانونی پیشِ رفت نہ ہونے کے علاوہ باقی سارے دلائل اور نکات کی کوئی حیثیت نہیں ہے
الیکشن کمیشن نے سینیٹ انتخابات کے بعد وزیراعظم عمران خان کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ سینٹ کے الیکشن آئین اور قانون کے مطابق کروانے پر ہم خداوند تعالی کے شکر گذار ہیں کہ وہ خوش اسلوبی سے اختتام پذیر ہوئے۔ کمیشن کے مطابق الیکشن کے رزلٹ کے بعد میڈیا کی وساطت سے جو خیالات ہمارے مشاہدے میں آئے ان کو سن کر دکھ ہوا۔ خصوصی طورر پر وفاقی کابینہ کے چند ارکان اور بلخصوص جناب وزیر اعظم پاکستان نے جو کل اپنے خطاب میں فرمایا۔ اس ضمن میں وضاحت کی جاتی ہے کہ الیکشن کمیشن ایک آئینی اور آزاد ادارہ ہے۔ اس کو ہی دیکھنا ہے کہ آئین اور قانون اس کو کیا اجازت دیتا ہے اور وہی اس کا’معیا ر‘ ہے۔ ہم کسی کی خوشنودی کی خاطر آئین اور قانون کو نظر انداز کر سکتے ہیں اور نہ ہی ترمیم کر سکتے ہیں۔ ”اگر کسی کو الیکشن کمیشن کے احکامات /فیصلوں پر اعتراض ہے تو وہ آئینی راستہ اختیار کریں اور ہمیں آزادانہ طور پر کام کرنے دیں۔ ہم کسی بھی دباؤ میں نہ آئے ہیں اور نہ ہی انشااللہ آئیں گے۔“ الیکشن کمیشن کو کسی بھی وفود نے ملنا چاہا الیکشن کمیشن نے ان کا مؤقف سنا ان کی تجاویز کا تفصیلی جائزہ لیا۔ الیکشن کمیشن سب کی سنتا ہے مگر وہ صرف اور صرف آئین وقانون کی روشنی میں ہی اپنے فرائض سرانجام دیتا ہے اور آزادانہ طور پر بغیر کسی دباؤ کے فیصلے کرتا ہے تاکہ پاکستانی عوام میں جمہوریت کو فروغ ملے۔ یہ حیران کن بات ہے کہ ایک ہی روز ایک ہی چھت کے نیچے ایک ہی الیکٹرول میں ایک ہی عملہ کی موجودگی میں جوہار گئے وہ نامنظور جو جیت گئے وہ منظور، کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ جبکہ باقی تمام صوبوں کے رزلٹ قبول۔ جس رزلٹ پر تبصرہ اور ناراضگی کا اظہار کیا گیا ہے الیکشن کمیشن اس کو مسترد کرتا ہے۔ یہی ہے جمہوریت اور آزادانہ الیکشن اور خفیہ بیلٹ کا حسن جو پوری قوم نے دیکھا اور یہی آئین کی منشا ء تھی۔ جن خیالات کا اظہار کیاگیا ہے وہ پارلیمنٹ سے منظور کروانے میں کیا امر مانع تھا جبکہ الیکشن کمیشن کا کام قانون سازی نہیں ہے بلکہ قانون کی پاسبانی ہے۔ اگر اسی طرح آئینی اداروں کی تضحیک کی جاتی رہی تو یہ ان کی کمزوری کے مترادف ہے نہ کہ الیکشن کمیشن کی۔
ہر سیاسی جماعت اور شخص میں شکست تسلیم کرنے کا جذبہ ہونا چاہیے اگر کہیں اختلاف ہے تو شواہد کے ساتھ آ کر بات کریں۔ آپ کی تجاویز سن سکتے ہیں تو شکایات کیوں نہیں۔لہٰذا ہمیں کام کرنے دیں۔ ملکی اداروں پر کیچڑ نہ اچھالیں۔ کچھ تو احساس کریں۔الیکشن کمیشن انشااللہ خدا کے فضل وکرم سے اپنی آئینی ذمہ داریا ں بخوبی قانون اور آئین کی بالا دستی کے لیے احسن طریقے سے انجام دیتا رہے گا۔
یہ الیکشن کمیشن کا جاری کردہ نصحیت نامہ اور اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے صفائی بیان ہے جسے عوام الناس نے جمہوری رویوں کے تناظر میں دیکھنا ہے،عوامی حاکمیت،سماجی انصاف و ترقی اور خوشحالی و سکون کے لئے آئینی و دستوری ادارے بنتے ہیں پاکستانی معاشرے کے المیے دیکھنے کے قابل ہیں کہ عدالت عظمیٰ کے معزز جسٹس معاشرتی اور سماجی گندگیوں کو گٹر سے تعبیر فرمارہے ہیں مگر سیاست دانوں اور بیوروکریسی کی مجال ہے کہ وہ آنکھیں کھولنے کی زحمت فرمالیں کیونکہ اس نظام ظلم و استہزاء نے انھیں مراعات سے نوازا ہیں اور مسلسل و بھرپور آئینی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے جس کے باعث انھیں عوام الناس کی ترجمانی اور لاچارگی کا احساس نہیں ہوتا ہے۔ جناب وزیراعظم پاکستان کے قوم سے خطاب اسٹیس کو تبدیل کرنے اور بے قراری کا اظہار بیان تھا مگر پچھلے دوسالہ مایوس کن کارکردگی اور آپس کی چپقلشوں نے سیاسی اشرافیہ اور جمہوری پارٹیوں کے ساتھ آئینی اداروں و ججز و میڈیا کے ساتھ افواج پاکستان کو بھی متنازع بنادیا گیا ہے۔ اب بحث در بحث اور تقسیم در تقسیم سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ مہنگائی اور بدانتظامی کے باعث عوام وخواص دونوں پریشانی میں مبتلا ہیں۔ نئے عمرانی و سماجی شعور اور فکری و سائنسی بیانیے کی تشکیل و تعمیر نو کے لئے ڈائیلاگ و مباحثے کے حدود کار پارلمینٹ اور آئینی فریم ورک میں طے کرنے کی ضرورت ہے ورنہ تبدیلی اور ممکنات کے سارے محاذوں پر ناکامیوں اور محرومیوں کا ازالہ ممکن نہیں ہوسکا گا۔ مجلس فکر و دانش علمی و فکری مکالمے و ڈائلاگ کے تناظر میں 23 مارچ 1940 ء کی قرارداد پاکستان کے پیش نظر شعور و آگاہی اور دانش مندی و فکری بیانیے کی تشکیل جدید کے سلسلے میں ڈائیلاگ و سیمنار سیریز شروع کررہا ہے۔ اھل دانش و حکماء ملت سے معاونت فراہم کرنے اور نئے زمانے کے بدلتے ہوئے رحجانات و ترجیحات کے مطابق تعلیم و دانش کی کاوشیں ضرورت ہے۔