موجودہ دور میں ادبی جریدہ نکالنا جہادسے کم نہیں،جب مطالعے کاشوق نہ ہونے کے برابرہے۔ادبی کتب بھی ایک ہزارسے کم ہوکر تین سو اور دو سو شائع ہوتی ہیں اورجرائدکابھی کوئی خریدارنہیں بلکہ اعزازی کاپی کے متلاشی بھی اسے پاکرپڑھتے نہیں ہیں۔ ایسے میں ادبی مراکز سے دوراٹک سے ادبی جریدہ نکالنابلاشبہ کسی کارنامے سے کم نہیں۔جس کے لیے سیدنصرت بخاری بھرپوردادکے مستحق ہیں۔وہ ادبی جریدہ ”ذوق“ اٹک سے باقاعدگی سے نکال رہے ہیں۔جس کے چھ شمارے شائع ہوچکے ہیں۔”ذوق“ کی باقاعدہ اشاعت میں مدیراعلیٰ سید نصرت بخاری،مدیرارشدسیماب ملک اور معاونین محسن عباس،حسین امجد،خالدخان،اعجازخان ساحر اورپروفیسرنثاراحمد شامل ہیں۔ذوق کاپانچواں شمارہ”خواتین نمبر“ ہے۔
اس نمبرکی ضرورت اوراہمیت کوسیدنصرت بخاری نے اداریہ میں واضح کیاہے۔”یہ ہمارا روزمرہ کے مشاہدے کی بات ہے کہ ہماری ادبی تقر یبات میں خواتین کی شمولیت نہ ہونے کے برابرہے،ایساکیوں ہے؟ کیاخواتین اہل قلم،مردادیبوں کے رویے سے نالاں ہیں،یامناسب حوصلہ افزائی کافقدان ہے؟انہیں گھریلوں پابندیوں کاسامناہے؟گھریلوں ذمہ داریاں حائل ہوتی ہیں یاہماراسماجی سسٹم اس کی راہ میں رکاوٹ ہے؟تعلیمی نصاب میں خواتین کی نمائندگی معمولی کیوں ہے؟ان کانصاب میں حصہ اتناہی بنتاہے یاانہیں نظراندازکیاجاتاہے؟ ادبی اداروں اورتنظیموں کے سربراہ مرد ہی کیوں ہوتے ہیں؟میراجسم میری مرضی کیاہے،دانش ورخواتین اس تحریک کوکس نظرسے دیکھتی ہیں؟خواتین کی تحریروں سے مردبیزاری کیوں نمایاں ہے؟علمی وادبی ذوق رکھنے والی خواتین اورطالبات کوہمارے مردانہ معاشرے میں کن مسائل کاسامناکرناپڑتاہے؟ ان کے اہلِ خانہ ان کی ادبی سرگرمیوں کوکس نظرسے دیکھتے ہیں؟ان کے ادبی راہ نماانھیں ادیب کے بجائے صرف خاتون کیوں سمجھتے ہیں؟کیالکھنے والی خواتین ادبی ذوق رکھنے والی اپنی بیٹیوں کواس میدان میں آنے کی اجازت دیں گی؟ اہلِ قلم خواتین ایک دوسرے کوکس نظرسے دیکھتی ہیں؟کیاوہ بھی گروہ بندیوں کاشکارشکارہیں؟اس قسم کے سوالات تلاش کرنے کی ہم نے سعی کی ہے۔ہمیں امید ہے کہ اس شمارے کے ذریعے خواتین کے جذبات کوسمجھنے کی کوشش کی جائے گی،ان کے مسائل اورپریشانیوں کوان کی نظرسے دیکھاجائے گا۔ہمیں یہ بھی زعم ہے کہ ہمارایہ شمارہ خواتین نمبرآج تک شائع ہونے والے دیگرخواتین نمبرزسے منفردہے اور جہاں بھی ادب سے وابستہ خواتین کے مسائل کی بات ہوگی۔ذوق کے خواتین نمبرکوضرور یادکیاجائے گا۔“
اس اداریہ کے مطابق”ذوق“ خواتین نمبرایک اعلیٰ مقصدکوپیش نظررکھتے ہوئے ترتیب دیاگیاہے۔”ذوق“ کے مدیراعلیٰ سیدنصرت بخاری گورنمنٹ ڈگری کالج اٹک میں لیکچررہیں۔نوجوانوں کوتعلیم کے زیورسے آراستہ کرنے کے ساتھ وہ ادب وتحقیق کاکام بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ان افسانوں کامجموعہ”گھاؤ“ اورشاعری کامجموعہ”سخن یہ ہے“شائع ہوچکے ہیں۔تحقیق میں ”حدیثِ دیگراں“،”مکاتیبِ مشاہیر بنام حق نوازخان“،”ضلع اٹک کے اخبارات ورسائل“،”پنجابی کے کیمبل پوری لہجے کی روایت“اور ”شخصیات اٹک“جیسے کتب بھی پیش کرچکے ہیں۔سرگودھایونیورسٹی سے حنامنیرنے نصرت بخاری کے افسانوں پرایم اے کاتحقیقی مقالہ تحریرکیاہے۔ناردرن یونیورسٹی نوشہرہ کے طالب علم محمدسجاول ”نصرت بخاری کی ادبی خدمات کاجائزہ“ کے عنوان سے ایم فل کامقابلہ جمع کرا چکے ہیں۔جبکہ ایم فل کے اسکالراحمدنے”اہلِ قلم کے خطوط بہ نام سیدنصرت بخاری“کے عنوان سے مجموعہ مرتب کیاہے۔ آکسفرڈ یونیورسٹی پریس نے چھ سو افسانوں میں سے منتخب چالیس افسانوں کامجموعہ ”کوزہ“ شائع کیا۔جس میں نصرت بخاری کا افسانہ”دیوتا“ بھی شامل ہے۔ معروف نقاد حمیدشاہدکے انتخاب میں ان کاافسانہ ”توتاکہانی“ شامل ہے۔
”ذوق“ کے مدیرارشدسیماب ملک نے دوسرااداریہ لکھاہے۔”اس حقیقت سے کوئی انکارنہیں کیاجاسکتاکہ کسی بھی معاشرے کی تشکیل،تعمیر وترقی اورتنزلی میں عورت کاکرداربہت اہم ہوتاہے۔چونکہ عورت کاوجودمعاشرے کالازمی اوربنیادی جزو ہے۔اس لئے ماں ماں کی گود ہی وہ پہلی درس گاہ ہے،جس سے ایک مہذب معاشرہ وجود میں آتاہے۔دورِ جاہلیت اورمابعدکی تہذیبیں جوثقافت اورعلم وادب کامنبع اور مرکزمانی جاتی ہیں۔
یونان،روم،مصر،یورپ کے مذاہب یہودیت،عیسائیت،دیدک،بدھ مت،جین مت حتیٰ کہ نوراسلام سے قبل خود عربوں کے ہاں عورت کامقام وتصورکچھ اوررہا۔یوں نسائیت کی تحریک کاآغازسب سے پہلے اسلام ہی سے ہوا۔بات اگرآج کے دور کی کی جائے،جس میں ہم سانس لے رہے ہیں،معاشرے،جدیدیت اورترقی کی راہ پرگامزن توہیں لیکن عورتوں کے بنیادی حقوق کی پامالی کے ساتھ جنسی استحصال بھی ہورہاہے۔مغرب میں حقوق نسواں کی تحریکوں نے مغربی معاشرے میں عورتوں کے حقوق کی بنیادگزاری میں کردارضرور ادا کیاہے۔لیکن بعدازاں مغرب میں بھی عورتوں کے بنیادی حقوق سے ہٹ کرنعرہ بلند ہوا،جس سے ماضی قریب میں ہمارے ہاں بھی ایک نئی بحث نے جنم لیا،جس میں ادیب بھی شامل رہے۔شاعری میں عورت ہمیشہ موضوعِ سخن رہی۔اردوادب میں کلاسیک دور کا تذکرہ ہویاترقی پسنداورجدیددورکا بیشترکے ہاں صنفی کرداروں میں مردوں کی روایتی بالادستی ہی نظرآتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ خواتین شاعرات اورنثرنگاروں کے ہاں نئی معنویت،رومانی جذبات واحساسات کے ساتھ فکری گہرائی اورگیرائی،روایتی عورت کی تصویرکشی اور بیبا کی بھی ملتی ہے۔بلاشبہ خواتین علم وادب سمیت زندگی کے ہرشعبے میں کارہائے نمایاں انجام دے رہی ہیں۔ہم حقوق نسواں،بیباکی اور جرأت کاہرسطح پراحترام کرتے ہیں،لیکن ایسے کسی سلوگن کی ہرگزحمایت نہیں کرتے،جس کاچرچاان دنوں زبان زدِعام ہے۔“
”ذوق“ خواتین نمبرکی ابتدامسکان میرکی نعت سے ہوئی ہے۔
مدینے سے بادِ صبا آ رہی ہے درودوں کے صدقے دعا آ رہی ہے
زباں پر ہے اسمِ محمدؐ کی تسبیح لبوں پر قمر سی ضیا آ رہی ہے
فرزانہ نینا کی نعت کے اشعار ملاحظہ کریں۔
کس طرح کروں مدحتِ آقائے مدینہ میں اور کہاں گنبدِ خضرائے مدینہ
اے پیارے ستارو میری قسمت بھی سنوارو دکھلا دو مجھے بھی کبھی شب ہائے مدینہ
غزلیات اورمنظومات میں ڈاکٹرفہمیدہ تبسم،شازیہ اکبراورجبین اخترکی غزلیں شامل کی گئی ہے۔شازیہ اکبرکی غزل کے دواشعارپیش ہیں۔
وہ تو کب سے تیرا رستہ تکتے بجھنے والی ہیں کس کی آنکھیں ڈھونڈ رہی ہواو پاگل! میخانے میں
عمر کے جس میں نادانی کے جُرم بھی ہم پرواجب تھے ہم نے وہ بھی عمرگنوادی، اوروں کوسمجھانے میں
افسانوں کے حصے میں چھ افسانے اورسیدہ آیت گیلانی کاایک افسانچہ شامل ہے۔فاطمہ شیرانی کے افسانے کاعنوان ”اداس لمحوں میں مسکراتی محبت“ ہے۔زویاحسن ”تخلیق کاگناہ“ لے کرآئی ہیں۔نشاط پروین ”واپسی“ کے ساتھ شامل ہیں۔نوشابہ خاتون ”انتظار“ فرحین شیخ ”قتل“ اورتنزیلہ احمدکاافسانہ ”آبرو“ ہے۔تمام افسانے اپنے موضوع اوراسلوب کے مطابق بہت عمدہ اورنمائندہ افسانے ہیں۔
”ذوق“ خواتین نمبرکاسب سے بھرپور اوروقیع حصہ انٹرویوز پرمبنی ہے۔جس میں افسانہ وناول نگاردردانہ نوشین خان،ڈاکٹرطاہرہ اقبال، نیلم احمدبشیرجیسی صف اول کی مصنفین کے ساتھ افسانہ نگار صباممتازبانو،ٹیلی فلمزڈائریکٹروپروڈیوسر اوراسکرپٹ رائٹرفرحین چودھری اورکئی رسائل کی اسسٹنٹ ایڈیٹراورافسانہ نگارمریم تسلیم کیانی کے انٹرویوزشامل ہیں۔
مظفرگڑھ سے تعلق رکھنے والی افسانہ وناول نگاردردانہ نوشین خان ایم اے انگلش ہیں۔ان کے ناول پہلازینہ،اندرجال،صفہ اورریت میں ناؤ اورافسانوں کے مجموعے ریگ ماہی،ریت کے بھوت اورپھولوں کی رفوگری شائع ہوچکے ہیں۔انٹرویومیں انہوں نے کہا۔”قلم کار خاتون خواہ روایتی ماحول سے وابستہ ہویابڑے شہروں میں رہائش پذیر،اس کومرد کی نسبت دگنے مسائل کاسامناکرناپڑتاہے،جن دوپہلو سے پرکھاجاسکتاہے۔ادبی تقاریب میں شمولیت،ادبی کارکردگی پرتجزیہ وتحسین کاحصول اورگفتگوکے مواقع، نسائی قلم کوتوازن واعتدال کی ضرورت ہے۔عورت کاقلم زندگی کی کئی جہات،جسمانی مسائل،نفسیاتی گروہ بندیوں کواول چھیڑتاہی نہیں چھیڑے تونتائج کاسامناکرنے کو بھی تیاررہناپڑتاہے۔۔عورت کاشاہکارناول مردکے شاہکارناول سے کمتر،عورت کاشاہکارسفرنامہ اسی لیول کے مردانہ سفرنامے سے نیچے ہوتاہے۔عورت کی شاعری تومردی کی شاعری سے بھی کبھی سبقت یافتہ قراردی ہی نہیں جاتی۔“
افسانہ وناول نگارطاہرہ اقبال ایم اے اردو،ایم فل اورپی ایچ ڈی کی اسنادحاصل کرچکی ہیں۔ویمن یونیورسٹی فیصل آباد میں استاد ہیں۔ان کی شخصیت اورفن پرایم اے اورایم فل کے چودہ مقالہ جات لکھے جاچکے ہیں۔طاہرہ اقبال کے دوناول نیلی باراورگراں ایک ناولٹ مٹی کی سانجھ، افسانوں کے مجموعے سنگ بستہ،ریخت،زمیں رنگ اورایک سفرنامہ نگین گم گشتہ کے علاوہ منٹوکااسلوب،پاکستانی افسانہ،سیاسی وتاریخی تناظرمیں،شائع ہوکرمقبولیت حاصل کرچکے ہیں۔ان کاکہناہے۔”مولاناحالی نے مناجات بیوہ اورچپ کی داد جیسی نظمیں لکھیں اورعورت کوپہلی بار’اے ماؤں بہنو،بیٹیوں‘ کے محترم نام سے پکاراتوصالحہ عابدحسین نے یادگارحالی میں لکھا حالی سے پہلے کوئی بدیسی اگر ہمار ے اس وقت کی شاعری کے خزانے کوکھنگالے تواس کویہ رائے قائم کرنی پڑے گی کہ اس قوم میں عورت کانہ کوئی درجہ ہے نہ اخلاق نہ اہمیت نہ کوئی حیثیت اورجوعورت اسے ملے گی وہ اول توبدترین صفات کی حامل نظرآئے گی دوسرے اسے عورت کہنابھی مشکل ہے۔محبوبیت،دلربا ئی،غمزے وعشوے،بدعہدی و بے وفائی گویااس کے خصائص معشوقانہ اورکرداردلبرانہ میں شامل ہوں گے۔“
نیلم احمدبشیرکاتعلق ایک علمی ادبی فنکارگھرانے سے ہے۔والداحمدبشیرنامورصحافی تھے۔پھوپھی پروین عاطف افسانہ وسفرنامہ نگارتھیں۔ بہنیں بشریٰ،اسماء اورسنبل ملک کی معروف اداکارائیں ہیں۔نیلم احمدبشیرکاایک ناول،پانچ افسانوں کے مجموعے،ایک خاکوں کامجموعہ اوردوسفرنامے شائع ہو چکے ہیں اوروہ ادب کاجاناپہچانانام ہیں۔انٹرویومیں نیلم احمدبشیرکہتی ہیں۔”عورت کسی معاملے میں مردسے کم نہیں ہے۔یہ کہنابالکل غلط ہے کہ قرۃ العین حیدر،عصمت چغتائی،امرتاپریتم اورکشورناہیدجیسی رائٹرزکوشہرت خاتون ہونے کی وجہ سے حاصل ہو ئی۔کوئی مردان جیسالکھ کردکھادے۔خاص طور پرقرۃ العین حیدرجیساکوئی لکھ ہی نہیں سکتا،جیسانالج ان کے پاس ہے کسی مرد رائٹرکے پاس بھی نہیں ہے۔ان خواتین نے شہرت حاصل کی تواس کریڈٹ بھی انہیں دیاجاناچاہیے۔جمالیاتی حس عورت ہی نہیں مرد میں بھی ہوناچاہیے،عورت کومتانت اورسنجیدگی کے ساتھ آرائش اورحسن وجمال کاخیال رکھناچاہیے۔“
افسانہ نگارصباممتازکی کتاب ”کیایہ بدن میراہے“ شائع ہوئی ہے۔فرحین چودھری پہلے شہابہ گیلانی کے نام سے لکھتی رہی ہیں۔وہ ٹیلی فلمز اورڈراموں کی ڈائریکٹراورپروڈیوسر اوراسکرپٹ رائٹربھی ہیں۔ان کی کتب”سچے جھوٹ“،”آدھاسچ“ اور”میٹھاسچ“ شائع ہوئیں۔مریم تسلیم کیانی کئی رسائل کی اسسٹنٹ ایڈیٹررہیں۔ان کی کتب”میں وہی لڑکی ہوں“ اور”اسیرخواب“اشاعت پذیرہوئیں۔
”ذوق“ خواتین نمبرکامقالات کاحصہ بھی بھرپورہے۔جس میں خاوراعجازکا”عفت مآب شاعرات کی اردوغزل“،ڈاکٹرمشتاق احمدوانی کا ”اردومیں تانیثی تنقید“،توصیف خان کا”اردوادب میں ماحولیاتی تانیثیت“ توصیف احمدڈارکا”تانیثیت،بنیادی مباحث اوردائرہ کار“ اور مشتاق احمدنوری کا”عورت اورہماراسماج“،پروفیسرمحمدصغیرآسی کا”تعلیم نسواں اورملکی تعمیروترقی“شامل ہیں۔شہزادحسین بھٹی نے ”عورت مارچ اسلام آباد“ کی روداد لکھی ہے۔
مجموعی طور پر”ذوق“ کاخواتین نمبرخواتین کے مسائل اوران کی اہمیت پرایک عمدہ اوربھرپورشمارہ ہے۔جس کی اشاعت پرسیدنصرت بخاری اوران کی ٹیم بھرپورداد کی مستحق ہے۔”ذوق“ کاساتواں شمارہ اٹک کی تاریخ اوریہاں کے قلم کاروں پرمبنی ہوگا۔