بھارت میں عورتوں کے لیے2021 کا آغاز ہی دردناک رہا۔ ایک بھیانک پیغام دنیا کوبڑی سفاکی سے پہنچایا گیا کہ سال بے شک بدل جائے سماج کبھی نہیں بدلے گا۔ ریپ اور جنسی درندگی کے واقعات بھارت میں اس قدر عام ہوچکے ہیں کہ سیاست دانوں کے پاس اب اس کے سوا کوئی حل نہیں کہ عورتوں کو اکیلے گھروں سے باہر نہ جانے کا مشورہ دے کر جان چھڑالی جائے۔
چوری، ڈکیتی، لوٹ مار، بدعنوانی کون سا جرم ہے جو بھارت میں اپنی انتہا کو نہیں پہنچا لیکن ”نربھیا“ کے بھیانک ریپ اور قتل کے بعد ہونے والے ہنگاموں سے لے کر اس کے قاتلوں کو پھانسی دیے جانے تک جانے کیوں یہ آس سی بندھی تھی کہ نربھیا کا قتل باقی تمام بھارتی عورتوں کے لیے زندگی کی نوید بن جائے گا لیکن یوپی میں ہونے والے ریپ کے اس تازہ واقعے نے ساری امیدوں کو خاکستر کرڈالا ہے۔
بدایوں کی اس پچاس سالہ عورت کا شوہر کافی عرصے سے بیمار تھا۔ اپنے مذہبی عقیدے کے مطابق شوہر کی صحت یابی کی دعا کرنے مندر جانا اس کا معمول تھا۔ مندر ہو یا مسجد، ہوس کے پجاریوں کے لیے کوئی جگہ معنی نہیں رکھتی۔ مندر کے پنڈت نے اپنے دو ساتھیوں کی مدد سے ظلم اور بربریت کی وہ تاریخ رقم کر ڈالی جس نے انسانیت کا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔ ریپ، جنسی تشدد، قتل اور پھر لاش کو کنویں میں پھینکنا، بھلا ایسے سفاک لوگوں کا دنیا کے کسی بھی مذہب سے کیا واسطہ چاہے ان کے چولے کا رنگ گیروا ہو یا پھر ہرا۔ قتل کے بعد آنے والی پوسٹ مارٹم رپورٹ اس قدر لرزہ خیز ہے کہ پتھر دل بھی ہل جائیں لیکن بھارتی ریاست کے لیے توگویا یہ روز کا معمول ہے۔
بدایوں کی پچاس سالہ یہ عورت نازک جگہوں پر شدید چوٹیں لگنے اور زیادہ خون بہنے کی وجہ سے مر چکی ہے۔ اس کی موت نے پھر وہی بحثیں چھیڑ دی ہیں جو اس طرح کے دوسرے واقعات کے بعد ہمیشہ ہی چِھڑیں اور لاحاصل اختتام پذیر ہوگئیں۔ سر پیٹنے کا مقام تو یہ ہے کہ حکومتی سطح پر بھارت میں ہمیشہ ہی اس بات کا ڈھول پیٹا جاتا رہا ہے کہ عورتوں کے حقوق پر یہاں کیسے کیسے بہترین اقدامات کیے جارہے ہیں جن کی وجہ سے بھارتی سماج میں عورتیں پہلے سے زیادہ محفوظ ہیں لیکن ہر کچھ دن بعد اسی بھارت میں چند درندے تمام حکومتی دعوؤں کو منہ کے بل گرا دیتے ہیں اور پہلے سے بڑھ کر ایک گھناونی تاریخ رقم کر کے عورت کو یہ سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں کہ آیا اس کے پاس جینے کا کوی رستہ باقی بچا بھی ہے یا نہیں۔
ریاست اتر پردیش میں ہونے والے ریپ اور قتل کے اس تازہ واقعے پر ہر طرف شور مچا ہوا ہے لیکن اندرون خانہ یہ شور بھی سیاسی سا ہے۔ اپوزیشن کے لیے سنہرا موقع ہے کہ وہ حکومتی کارکردگی اور نظم و نسق پر سوال اٹھا سکے سو وہ چیخ چلا کر یہی کر رہی ہے۔
بی جے پی حکومت کو اس شور سے گویا کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نربھیا قتل کیس میں بھی آخر وقت تک قاتلوں کو صرف اس لیے بچانے کی کوشش کی جارہی تھی کہ ان کا تعلق اونچی ذات کے ہندووں سے تھا۔ اور اب بھی اس شور کے معنی بی جے پی کے لیے نقارخانے میں طوطی کے شور سے زیادہ اہم نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس نے جائے واردات کے معائنے تک کی زحمت محسوس نہیں کی، ایف آئی آر درج کرنے میں بھی بے جا تامل کیا گیا جب کہ 2012 میں نربھیا ریپ کیس کے بعد جو اینٹی ریپ قانون سازی کی گئی تھی اس کے بعد یہ کہا جارہا تھا کہ ایسے واقعات کی پولیس میں شکایت درج کروانا اب قدرے آسان ہوجائے گا، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اب بھارتی عورتیں اچھی طرح جان چکی ہیں کہ قانون کتنا ہی اجلا کیوں نہ بن جائے سماج کا رنگ تو وہی گدلا اور مٹیالا ہی رہے گا۔
خواتین کے تحفظ کے لیے بھارتی حکومت خود کو بے بس ثابت کرچکی ہے۔ ہاں وزیراعلٰی صاحب افسران کی ڈانٹ ڈپٹ کی خانہ پری میں ضرور مصروف ہیں تاکہ انسانی حقوق کی تنظیموں کو احتجاج کا موقع نہ دیا جاسکے۔
بھارت میں عورتوں کے ریپ اور قتل کے بڑھتے واقعات پر خوف ناک اعدادوشمار سامنے آتے رہتے ہیں۔ تھامس روئٹرز فاونڈیشن نے بھارت کو خواتین کے لیے دنیا بھر میں سب سے خطرناک ملک قرار دیا ہے تو حیرت کس بات کی۔ اور اگر یہ رپورٹ جھوٹ کہتی ہے تو پھر آج کی تاریخ میں بھارت میں ریاستی سطح پر شام کے وقت عورتوں کو گھر سے تنہا نہ نکلنے کے مشورے بھلا کیوں دیے جارہے ہیں؟ مجرموں کو نکیل ڈالنے اور فاسٹ ٹریک عدالتوں میں ان کے مقدمات چلانے کے بجائے عورتوں کو یہ تلقین کیوں کی جارہی ہے کہ وہ گھر کے کسی مرد یا کم ازکم بچوں کے ساتھ باہر نکلا کریں تاکہ ان کو کم سے کم خطرے کا سامنا کرنا پڑے۔ ایسے بے حس سماج پر سوائے افسوس کے اور کیا کیا جاسکتا ہے جس میں مجرم آزاد اور بے فکری سے دندناتے ہوں اور لوگ اپنی عزت بچانے گھروں میں دبکے ہوں۔
ویسے تو انڈیا میں ہر سال ہزاروں ریپ کے واقعات ہوتے ہیں لیکن کچھ واقعات ایسے ہیں جو چیخ چیخ کر بتاتے ہیں کہ معاشرہ مجموعی طور پر پاگل ہوچکا ہے۔ ابھی پچھلے سال کی تو بات ہے کہ 86 سالہ عورت کو ریپ کا نشانہ بنا گیا تھا اور اب یہ پچاس سالہ عورت موت کے گھاٹ اتار دی گئی ہے۔ بلاشبہ یہ وہ اندھا گونگا بہرا سماج ہے جس کی شہوت پرستی نے اس میں بسنے والوں کو ہرتمیز بھلا دی ہے۔
ماضی کے مقابلے میں اب بھارت میں عورتوں کے حقوق پر بہت کُھل کر بات ہونے تو لگی ہے لیکن سیاسی سطح پر سوائے تمسخر اڑانے کے اور کچھ نہیں کیا جاتا۔ اسی ضلع بدایوں میں چند سال قبل جب دو کم عمر لڑکیوں کا ریپ کر کے ان کی لاشوں کو درخت سے لٹکایا گیا تھا اس وقت بھی مقامی پولیس ان لڑکیوں کے اہل خانہ کا مذاق اڑاکر مدد سے صاف انکار کر چکی تھی۔ یہی وہ رویہ ہے جس کی وجہ سے بھارت میں ریپ کا خطرہ ہر آنے والے دن میں پہلے سے زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
تاریخ لکھے گی کہ وہ صدی جس میں دنیا ترقی کے اوج کمال پر پہنچ چکی تھی اس وقت زمین کے نقشے پر موجود ایک ملک میں یہی طے نہیں ہو پایا تھا کہ عورت کو کس وقت اور کس کے ساتھ گھر سے باہر نکلنا چاہیے کہ اس کی عزت اور جان بچ سکے۔
مجھے یقین ہے کہ اگر یہاں عورت کو ریپ سے بچانے کے لیے گھروں میں بند بھی کردیا جائے گا تو بھی یہ سلسلہ رکنے والا نہیں ہے ، کیوں کہ جنہیں سرکار کی سرپرستی حاصل ہو اور اونچی ذات کا گھمنڈ ہو ان کے لیے گھروں میں بند یہ عورتیں ان مرغیوں کی مانند ہیں جنہیں قصائی پلک جھپکتے میں باہر نکال کر ایک ہی جھٹکے میں قصہ نمٹا دیتا ہے۔ اس لیے کیا ہی اچھا ہو کہ بی جے پی سرکار عورتوں کو یہ بھی بتادے کہ اگر یہ بے چاریاں اگر گھر میں بھی محفوظ نہ رہ پائیں تو پھر کہاں جائیں گی؟