تنہائی اک ایسا روگ ہے جو ہنستے کھیلتے انسان کو گھن کی طرح چاٹ جاتا ہے۔اور انسان مایوسی اور نا امیدی کا شکار ہونے لگتا ہے۔دوستوں سے ملتے رہنا ہی اس زندگی کا خوشگوار پہلو ہے۔
دو دن پہلے میں ایک ایسی دوست کو کچھ کتابیں دینے گئیں جو تقریبا دوسال سے بیماری کی وجہ سے گھر سے نہیں نکلی تھیں۔ سوچا تو یہ تھا کہگیٹ پر کتابیں دے کر آ جاؤں گی مگر جب میری دوست کو میری آمد کی خبر ہوئی تو وہ تڑپ کر ہمیں بلانے کے لیے گیٹ پر پہنچ گئیں ۔ اتنا خوش ہوئیں جو بیان سے باہر ہے۔کہنے لگیں کہ کسی وجہ سے میری بہو مجھے پوتوں پوتیوں سے ملنے نہیں دیتیں اس لیے میں سارا دن پودوں سے باتیں کرتی ہوں۔میں نے پودوں کے نام بھی پوتے پوتیوں کے نام پر رکھے ہوئے ہیں اور نگہداشت بھی انہی کے نام سے پکارتے ہوئےکرتی ہوں ۔ ان پودوں کو پھلتا پھولتا دیکھ کر خوش ہوتی ہوں اور یوں زندگی گزرتی چلی جاتی ہے۔
اگلے دن ایک اور دوست کے ہاں بنی گالا جانے کا اتفاق ہوا جو کافی عرصے سے تنہا اور بیمار تھیں۔ بنی گالا سے گزرے تو اس بے ہنگم آبادی پر بنے بڑے بڑے گھروں کو دیکھ کر افسوس ہوا۔ تنگ سڑک سے پہاڑی کی طرف گزر گاہ خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے ۔ پلازوں کی تعمیر ،دکانوں کا جمگھٹا ، پارکنگ ناپید، بلکہ بعض جگہوں پر تو دو گاڑیوں کا ایک ساتھ گزرنا مشکل لگ رہا تھا۔ ایک بڑی مارکیٹ کے سامنے گٹر کا ابلتا پانی پیدل چلنے والوں کے ساتھ چھیڑ خانی کرتے ہوئے ان کے صاف کپڑوں پر نقش و نگار بنا کر بے فکری سے سڑک پر بہنے لگتا ۔۔۔اب اسے بھلا کون روکتا۔
دل تو میرا بھی چاہا ٹوٹی سڑکوں پر کھڑے پانی کو بے دردی سے گاڑی کے ٹائروں تلے روندوں۔ چھینٹے اڑاؤں غفلت سے جینے اور احتجاج نہ کرنے والے ان عقل سے پیدل لوگوں کے ضمیروں پر لگے قفل توڑوں ۔۔مگر کچھ خواتین اور بچوں کو دیکھ کر ارادہ بدل لیا۔
چند فرلانگ کے فاصلے پر ہی وزیراعظم کے گھر کی طرف پہاڑی چڑھتے ہوئے میری گاڑی کے ٹائروں نے جشن منایا، گانے گائے، لڈیاں ڈالیں بھنگڑہ ڈالنے پر بھی تیار تھی جس پر میں نے اسے ڈانٹ پلائی اور کہا اوقات میں رہو ابھی کچھ سفر باقی ہے۔
جونہی وزیراعظم کے گھر سے تھوڑا آگے آئے، سڑک نے منہ بسورنا شروع کر دیا۔ میں اور میری گاڑی جو کچھ لمحے پہلے اپنی اوقات بھول چکے تھے اور اپنے آپ کو امراء شرفاء اور نہ جانے کیا کیا سمجھنے لگے تھے، اس ٹوٹی سڑک پرجھولتے ہوئےمحمود و ایاز کے فرق نے منہ پر طمانچے رسید کیئے تو عقل ٹھکانے آ گئی۔
وزیر اعظم کے گھر کی طرف سے نکلتی سڑک پکارتی رہی مفلس ،غریب،مقروض لوگو! یہ منہ اور مسور کی دال۔
بالآخر دوست کے گھر پہنچے تو اپنی آرٹسٹ دوست کا گھر دیکھ کر طبیعت خوش ہوگئی۔ سبزہ ،سبزیاں ،وسیع لان اور پھلوں کے پودوں پر جھولتے پھل دیکھ کر دل چاہا یہیں کہیں بیٹھ کر ان لٹکتے مٹکتے پھلوں اور پھولوں کو دیکھتے رہیں۔ ان کا گھر بھی آرٹ کا خوبصورت نمونہ ہے۔میری دوست اس خوبصورت گھر میں اکیلی رہتی ہیں۔۔انہیں دیکھا تو بہت پریشانی ہوئی۔ نوکروں کے رحم و کرم پر شب و روز گزارتی یہ بہت پیاری شخصیت مختلف جسمانی تکالیف کی وجہ سے چلنے پھرنے سے معذور تھیں۔ہمیں دیکھ کر وہ اتنا خوش ہوئیں کہ دل چاہا ہمارے پاس وقت کی قلت نہ ہوتی تو سب ان پر وار دیتے۔۔
آج کی بھی داستان سن لیجیئے !
آج پاکستان فیڈریشن آف یونیورسٹی ویمن کا میلاد تھا۔ یہ بھی ہماری ایک بہت پیاری دوست کے وسیع العریض گھر میں تھا ہماری یہ دوست بھی بلا شرکت غیرے اس گھر کی اکلوتی مالک ہیں ۔۔اور تنہا ہی مکین بھی ۔۔۔
بہت عرصے بعد خواتین اکٹھی ہوئیں۔۔مداح سرائ بھی ہوئی۔۔کھانا بھی کھایا۔۔ملاقاتیں بھی ہوئیں۔دل خوش ہوگیا۔۔میلاد کی بابرکت محفل ختم ہونے کے بعد ایک بہت معتبر ممبر نے کہا آپ نے کہاں جانا ہے؟
میں نے کہا آئی ایٹ۔۔۔کہنے لگیں مجھے بھی ادھر ہی جانا ہے کیا مجھے چھوڑ سکتی ہیں۔۔
میں نے کہا جی ضرور ۔۔۔گاڑی میں تشریف رکھنے کے تھوڑی دیر بعدانہوں نے فرمایا ۔۔۔آگے سے یو ٹرین لے لیجیئے۔۔۔میں نے کہا مجھے تو سیدھا جانا ہے۔
فرمایا۔۔مجھے بھی تو اتارنا ہے جس راستے سے میں کہہ رہی ہوں اس راستے سے چلیئے۔۔
میں نے بادل ناخواستہ گاڑی اس طرف موڑ لی۔۔نائنتھ ایونیو پہنچ کر انہوں نے فرمایا۔ایف ٹین والا چوک چھوڑ کر اگلے چوک سے رائیٹ موڑ لیجئیے۔۔
میں نے حیران ہو کرپوچھا میڈم آپ مجھے بتائیے تو سہی آپ نے جانا کہاں ہے؟
فرمایا بس راستے میں ہی میرا گھر ہے گاڑی کو جی نائن کی طرف موڑ لیجیئے۔۔گاڑی مڑی۔۔۔پھر مڑی۔۔۔ایک دفعہ پھر مڑ وائی گئی۔۔
موصوفہ نے گاڑی سےاتر کر فرمایا۔۔بہت بہت شکریہ بس اب یہی دوچار موڑ مڑ کر نائنتھ اینیو پر چڑھ جائیے ۔۔۔
اگلے چوک سے یو ٹرین لیں گی تو آپ کا منہ آئی ایٹ کی طرف ہو جائے گا بس پھر سیدھا چلتی جائیں گی تو آئی ایٹ آ جائے گا۔۔
میں نے اپنی اس محترم رہبر اور رہنما کو “انتہائی عقیدت بھری نظروں “سے دیکھا ان کا شکریہ ادا کیا اور بھول بھلیوں سے گزرتی ہوئی گھر پہنچی تو خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے دعا کی ۔۔۔اے خدا آج کی اس بابرکت محفل کے بعد میری اس نیکی کو بھی قبول فرمانا۔